Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو ادب کی روایت کیا ہے؟

محمد حسن عسکری

اردو ادب کی روایت کیا ہے؟

محمد حسن عسکری

MORE BYمحمد حسن عسکری

    ظاہری حالات تو یہی بتا رہے ہیں کہ اب دنیا سے شعر و ادب کا چل چلاؤ ہے، عموماً لوگ اس کی توجیہ یوں کرتے رہتے ہیں کہ سائنس اور صنعت کاری کے مقابلہ میں ادب کا ٹھہرنا مشکل ہے، لیکن آج کل ہم یہ تماشا بھی دیکھ رہے ہیں کہ یورپ اور امریکہ میں ہزاروں نوجوان سائنس اور صنعت دونوں سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں لیکن احتجاج اور رد عمل کے جو طریقے انہوں نے نکالے ہیں وہ بھی شعر و ادب کے دائرے سے باہر ہیں، اور ان میں سے بعض جس قسم کے ادب کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں، اسے ادب سمجھنا مشکل ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ سائنس اور صنعت کے علاوہ بھی کوئی اور چیز ہے جو یا تو شعر و ادب کو ہلاک کر چکی ہے یا آہستہ آہستہ ہلاک کر رہی ہے۔

    مگر مغرب میں ابھی تک ہزاروں آدمی اور سیکڑوں دانشور ایسے باقی ہیں جنہیں ادب سے بڑی عقیدت اور محبت ہے اور وہ ادب کو انسان کے لئے ضروری اور لازمی بھی خیال کرتے ہیں، اس عقیدت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ تہذیب کو بجائے خود اور بنفسہ قابل قدر سمجھتے ہیں اور اس سے آگے یا اوپر انہیں کوئی چیز نظر نہیں آتی، موجودہ حالات سے ایسے لوگوں کو پریشانی ہونی چاہئے مگر ایسے دانشور اپنی پریشانی کا اظہارتو کرتے ہیں لیکن یہ حالات کیوں اور کیسے پیدا ہوئے اس کی کوئی تسلی بخش توجیہ نہیں کرتے۔

    مثال کے طورپر ہربرٹ ریڈ ہیں۔ یہ مثال اس لئے موزوں ہے کہ پہلی جنگ کے بعد سے وہ انگریزی زبان کے دائرے میں ’’جدید فنون‘‘ کے سب سے بڑے مبلغ رہے ہیں، آج کل کے نوجوان جس قسم کا ادب اور مصوری پیش کر رہے ہیں اس کے متعلق انہوں نے سخت ناپسندیدگی بلکہ خفگی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا احتجاج بالکل بجا ہے لیکن ایک بات پر انہوں نے سرے سے غور ہی نہیں کیا۔ جن لوگوں پر انہیں اعتراض ہے وہ اپنی حماقتوں کے جواز میں لفظ بہ لفظ وہی اصول پیش کر سکتے ہیں جن کی تبلیغ ہربرٹ ریڈ پچھلے پچاس سال سے کرتے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے اصولوں سے جوعواقب اور مظاہر پیدا ہوئے ہیں، وہ انہیں پسند نہ آئے مگر اپنے اصولوں کی درستی پر انہیں ذرا سا بھی شبہ نہیں ہوا۔

    لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ ان اصولوں کی منطق تو یہی مظاہر پیدا کر سکتی ہے۔ پچھلے دو ڈھائی سوسال سے مغرب کے مفکر لفظاً یا معناً یہی کہتے رہے کہ ادب اور فن انسانی جذب کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ زمانہ اور ترقی کر گیا تو لوگ جذبے کے بجائے جبلت، پھرانفرادی یا اجتماعی لاشعور کا ذریعہ اظہار کہنے لگے اور اس اظہار میں طرح طرح کے نفسیاتی، معاشرتی اور تہذیبی فائدے ڈھونڈنے لگے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جذبے یا جبلت یا لاشعور کو اپنا اظہار کرنا ٹھہرا تو پھر اظہار کی ایک خاص شکل یعنی شعر و ادب یا فن یا ادب کا کوئی خاص اسلوب ہی کیوں لازمی ہو؟ اگر اظہار کی کوئی اور شکل دستیاب ہوگئی ہے تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟ بلکہ اگر مغرب کے دانشوروں کا یہ خیال درست ہے کہ انسان اب زبان کے وسیلے سے بھی بے نیاز ہوتا جا رہا ہے اور انسانی زبان مر رہی ہے تو یہ بھی ایک خوش خبری ہے۔

    چونکہ ہمارے زمانے میں یہ بھی رواج ہے کہ معاشرہ ہو یا تہذیب یا مذہب، ہر چیز کی حیاتیاتی تشریح کی جائے بلکہ ایسی تشریح کو حتمی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے ہربرٹ ریڈ صاحب نے تو یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ ادب اور فن کی جڑ حیاتیات میں ہے اور ادب انسان کے ارتقا کا ایک لازمی وسیلہ ہے لیکن اب ارتقا کی قوتوں نے کوئی نیا وسیلہ تلاش کر لیا ہے اور پرانے وسیلے کو چھوڑ دیا ہے تو نظریہ ارتقا کے ماننے والوں کے لئے اعتراض کی گنجائش نہیں رہتی۔

    غرض عمرانیات، نفسیات اور حیاتیات میں تو ادب کو برقرار رکھنے کا کوئی لازمی جواز نہیں ملتا۔ مگر انسان کی ضد کو کیا کیا جائے بعض لوگ اب بھی اکبر الہ آبادی کے بقول،

    ’’اس پر اڑ ے ہوئے ہوں گولر کا پھول لیں گے‘‘

    کہتے ہیں کہ ارتقا نہ تو صرف ناگزیر ہے بلکہ سب سے گراں قدرچیز ہے لیکن انسان کو اپنے ماضی یا اپنی ’’روایت‘‘ سے بھی کچھ نہ کچھ تعلق قائم رکھنا چاہئے۔ یہ دعوی بھی بے دلیل ہے، لیکن خیر ایک جذباتی مطالبے کے طور پر اسے قبول کئے لیتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ’’روایت‘‘ کیا چیز ہے؟

    مشرق کی حد تو مسئلہ بالکل واضح ہے۔

    مسلمان ہوں یا ہندو یا بدھ سب کا اتفاق دو چیزوں پر تو ہے ہی۔ پہلی بات یہ ہے کہ معاشرتی روایت، ادبی روایت، دینی روایت یہ الگ الگ چیزیں نہیں بلکہ ایک بڑی اور واحد روایت ہے جو سب کی بنیاد ہے اور باقی چھوٹی روایتیں اسی کا حصہ ہیں اور اسی سے نکلی ہیں۔ اسلامی اصطلاح کے مطابق اس بنیادی روایت کا نام ’’دین‘‘ ہے۔ ثانوی روایتوں میں شامل ہونے کے لئے اس بنیادی روایت میں شامل ہونا لازمی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ بنیادی روایت نکلتی ہے کسی آسمانی یا مقدس کتاب سے، پھر اس کی وضاحت کرتے ہیں اس روایت کے مستند نمائندے نے، اور صرف انہیں نمائندوں کا قول استناد کے قابل ہوتا ہے، پھر ایک تیسری بات ہے جو ہر زبان میں خود لفظ ’’روایت‘‘ کے مفہوم کا لازمی جز ہے یعنی روایت وہ چیز ہے جو ایک آدمی سے دوسرے آدمی تک پہنچائی جائے۔

    لیکن مغرب میں ہر چیز الٹی ہوگئی ہے۔ اول تو وہاں مرکزی اور بنیادی روایت کا تصورہی تقریباًغائب ہو گیا ہے۔ لوگ معاشرتی روایت، ادبی روایت، یہاں تک کہ کھیلوں کی روایت کا ذکر اس طرح کرتے ہیں گویا یہ سب الگ الگ چیزیں ہیں اور اپنے اپنے دائرے میں عمل کرتی ہیں لیکن اگر کسی کو مرکزی روایت کی ضرورت کا خیال بھی آیا تو وہ معاشرتی روایت کو یہ حیثیت دیتا ہے اور دینی روایت کو معاشرتی روایت کا ایک جزو بناتا ہے۔ اس معاشرتی روایت کا نام مغربی لوگوں نے ’’کلچر‘‘ رکھا ہے، لیکن اگر ہم کسی معاشرے کے دائرے میں روایت کا وجود مان لیں تو ایسی روایت کا انحصار کسی آسمانی کتاب پر ہونا ضروری نہیں۔ اس دائرے میں تو روایت کے معنی رسم و رواج ہی کے ہو سکتے ہیں۔ رواج بدلتی رہنے والی چیز ہے، اس لئے اول تو یہی کیا ضروی ہے کہ کسی خاص قسم کی رسم کو زندہ رکھا جائے۔

    ایک رسم اتنی ہی اچھی یا بری ہو سکتی ہے جتنی دوسری رسم۔ رہا سوال کسی خاص رسم سے جذباتی وابستگی کا تو جذباتی علاقے بھی کوئی مستقل چیز نہیں۔ جذبات تو دن میں دس بار بدل سکتے ہیں۔ دوسرے رواج کے معاملے میں قابل استناد نمائندوں کا مستقل طور پر موجود ہونا اور ان کا تسلیم کیا جانا بھی ضروری نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ادب کے دائرے میں ہی ہم یہ تماشا روز دیکھتے ہیں کہ جس شاعر یا اسلوب کو ایک آدمی روایت میں داخل کرتا ہے دوسرا اسی کو خارج کرتا ہے اور ’’روایت‘‘ کا لفظ محض رواج کے معنی میں استعمال کیا جاتا تو بھی چلئے غنیمت تھا۔ مغرب کے بعض مفکروں نے تو ایک قدم اور آگے بڑھایا ہے اور اس لفظ کے لغوی مفہوم تک کو نظرانداز کر دیا ہے۔ یعنی انہوں نے یہ بھی ضروری نہیں سمجھا کہ روایت ایک شخص سے دوسرے شخص تک پہنچے۔ ایم سی بریڈ برک انگریزی ادب کی مشہور عالم اور نقاد ہیں۔ وہ ایک جگہ کہتی ہیں کہ سولہویں صدی کے آخر میں فلاں شاعر نے ایک ’’روایت‘‘ شروع کی جس کی پیروی بیس سال تک ہوئی، فلاں شاعر نے دوسری ’’روایت‘‘ کی طرح ڈالی جس کی تقلید صرف پانچ چھ سال ہوئی۔ فلاں شاعر نے ایک اور ’’روایت‘‘ نکالی جس کی پیروی کسی نے بھی نہ کی۔

    اس بحث کا خلاصہ یہ نکلا کہ مغرب کے عقلاء روایت کو زندہ بھی رکھنا چاہتے ہیں اور یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ روایت ہے کیا چیز۔ انگریزی ادب میں روایت کے سب سے بڑے دعویدار ٹی ایس ایلیٹ ہیں۔ انہوں نے تو یہاں تک دعوی کیا ہے کہ یورپ نے اپنی تہذیب کے سارے اہم عناصر کو محفوظ رکھا ہے اور ایک جز بھی ضائع نہیں کیا۔ وہ ادب میں عیسوی روایت کا سب سے بڑا نمائندہ اطالوی شاعر ڈانٹے کو سمجھتے ہیں۔ اس نے ایک رسالہ مقامی زبانوں میں شعر کہنے کی ضرورت کے متعلق لکھا ہے۔ کم سے کم مغربی عالموں کی نظر میں اس رسالہ کا مفہوم یہی ہے اور اس لئے اس تحریر کو انقلابی نوعیت کا حامل خیال کیا جاتا ہے۔

    ڈانٹے نے کہا ہے کہ سب سے اچھے شاعر وہ ہیں جو تین زبانوں میں شعر کہتے ہیں اور ساتھ ہی اچھے شاعروں کی فہرست بھی دی ہے۔ مغرب کو اپنی تحقیق پر بڑا ناز ہے۔ لیکن محققین نے یہ دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں فرمائی کہ اس فہرست میں ایک بھی ایسا شاعر نہیں جس نے بیک وقت تین زبانوں میں شاعری کی ہو۔ یہ بات بھی ایک مسلمان صوفی نے بتا دی کہ یہاں تین زبانوں سے تین قسم کے مطالب مراد ہیں۔ اگر یورپ کی ’’روایت‘‘ واقعی محفوظ ہے تو کیا خود ٹی ایس ایلیٹ کو یہ رمز معلوم تھا؟

    ایلیٹ مغرب کے چند ان مفکروں میں میں سے ہیں جنہوں نے ادب کے مطالعہ کے لئے الہیات یا دینیات سے واقفیت کو ضروری قرار دیا ہے لیکن ایک دفعہ یہ بات کہنے کے بعد انہوں نے دوبارہ یہ ذکر ہی نہیں چھیڑا، بلکہ وہ کتاب تک واپس لے لی جس میں یہ فقرہ لکھا تھا۔ اس لئے یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ان کے نزدیک ادب اور دین کا کیا رشتہ ہے۔ البتہ فرانس میں ژاک ماری تیں نے سینٹ ٹامس اکوائناس کی الہیات سے ادب کے اصول اخذ کرنے کی مفصل کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اگر میں سینٹ ٹامس کی پیروی نہ کروں تو میری خرابی ہو۔‘‘ لیکن جس شکل میں یہ پیروی ہوئی ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ خرابی در اصل سینٹ ٹامس کی ہوئی، کیونکہ ادب کے متعلق جو نظریے بھی ہمارے زمانے میں رواج پا گئے ہیں، وہ سب ان میں سے بیشتر انہوں نے اپنے سرپرست اور رہنما کی طرف منتقل کر دیے ہیں۔

    لیکن مغرب کی ہمت قابل داد ہے۔ ان تمام الجھنوں کے باوجود مغرب والے یہ کہے چلے جا رہے ہیں (کیونکہ مشرق میں مصرع اٹھانے والوں کی کمی نہیں) کہ ہمارے پاس ایسے اصول ہمیشہ رہے ہیں جن کی مدد سے ہر ملک اور ہر زبان کے ادب کو سمجھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ پچھلے تین سو سال کے عرصے میں جو ادبی اصول مغرب نے نکالے ہیں ان کا مجمل سا جائزہ تو اوپر پیش کیا جا چکا ہے۔ اب قدیم یورپ کو دیکھتے ہیں۔

    مغرب میں بہت سے لوگوں نے صاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ ادب کے متعلق بنیادی نظریے تو افلاطون اور ارسطو ہی کے ہیں، بعد میں تو کسی نہ کسی طرح انہیں کی الٹ پھیر ہوتی رہی ہے۔ افلاطون اور ارسطو کے نظریات میں بھی جوہری لفظ Mimesis ہے اصل لفظ نقل کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ اس یونانی لفظ کے متعدد ترجمے ہوئے ہیں۔ کسی نے کہا اس کے معنی ہیں نقل، کسی نے کہا عکاسی یا تصویر کشی، کسی نے کہا نمائندگی، کسی نے کہا اظہار، کسی نے اسے تخلیق ہی بنا دیا۔ افلاطون نے تو اس تصور کو شاعری کے رد کرنے کی غرض سے استعمال کیا ہے۔ اس اگر صحیح معنی کا تصور نہیں ہوتا تو نہ سہی، لیکن ارسطو نے اسی لفظ کو شاعری کے اثبات اور قبول کی غرض سے استعمال کیا ہے اس لئے یہاں معنی کا تعین زیادہ لازمی ہے۔

    چونکہ ہر مفکر اپنی تشریح کی تائید میں یونانی لغت کا حوالہ دیتا ہے، اس لئے یوں تو فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ البتہ ایک اور طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ افلاطون شاعری کو رد کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے نزدیک شاعری کے ذریعے حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے۔ ارسطو شاعری کو قبول کرتا ہے، کیونکہ اس کے نزدیک شاعری کے ذریعے حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں۔ اب اگر ہم یہ معلوم کر لیں کہ یہ حقیقت کیا چیز ہے تو پھر یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ اس حقیقت کی نقل ہو سکتی ہے یا عکاسی یا نمائندگی، یا کچھ بھی نہیں۔

    ارسطو اور دوسرے یونانی فلسفیوں کے نزدیک سب سے بڑا علم ’’ما بعد الطبعیات‘‘ Metaphysics ہے۔ اگر اس لفظ کے لغو ی معنی سامنے رکھیں تو یہ درست ہے، کیونکہ اس سے مراد ہے ہر وہ حقیقت جو طبعیات سے آگے ہو، لیکن ارسطو نے بھی کہا ہے کہ ما بعد الطبعیات کی سب سے اہم شاخ علم وجود Ontology ہے بلکہ ان دونوں کو مترادف قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ارسطو اور یونانی فلسفیوں اور ازمنہ وسطی کے عیسوی مفکرین کے نزدیک حقیقت عظمی موجود ہے اوران کی حکمت کی اڑان بس یہیں ختم ہو جاتی ہے۔ ایسی ہی خامیوں کی وجہ سے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یونانیوں کی الہیات اور ما بعد الطبعیات کو ضلالت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یونانی فلسفیوں سے زیادہ احمق کوئی اور طبقہ نہیں ہوا۔

    حضرت کا یہ فرمانا کس حد تک بجا ہے اس کا اندازہ آپ کو اس وقت ہوگا جب آپ حقیقت عظمی کا اسلامی تصور سمجھ لیں۔ حضرت مجدد صاحب فرماتے ہیں، ’’واجب جل شانہ کی ماہیت اپنی خودی سے موجود ہے نہ کہ وجود کے ساتھ اور وجود کا اثبات اور وجوب کا اطلاق اسی بارگاہ میں عقل کی منترعات کی قسم سے ہے۔ واللہ المثل الاعلی اور جس طرح وجوب وجود منترعات کی قسم ہے، امتناع عدم بھی اس بارگاہ میں منترعات میں سے ہے لیکن جہاں ذات بحث ہے وہاں جس طرح وجوب وجود کی نسبت نہیں، امتناع عدم کی نسبت بھی نہیں۔‘‘

    (مکتوبات جلد سوم ۱۴)

    وجود کا اس حقیقت عظمی کے مقابلہ میں کیا درجہ ہے؟ فرماتے ہیں، ’’وجوب وجود اس مقدس درگاہ کا کمینہ خادم ہے اور سلب عدم اس بارگاہ بزرگ کا کمینہ خاک روب ہے۔‘‘(۱۷) ظاہر ہے ایسی حقیقت کی نہ تو نقل اتاری جا سکتی ہے نہ تصویر کشی اور عکاسی ہو سکتی ہے نہ نمائندگی، نہ اظہار بس زیادہ سے زیادہ اس کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔

    جب اسلام کا تصور حقیقت یہ ہے اور اسلامی شاعری کا فریضہ یہ ہے کہ اس حقیقت کی معرفت حاصل کرنے میں اپنی بساط بھر انسان کی مدد کرے تو پھر ارسطو کے ادبی نظریات ہماری شاعری کو سمجھنے میں کیسے مفید ہو سکتے ہیں؟ ارسطو نے تو بادشاہ کی جگہ خادم کو بٹھانے کی کوشش کی ہے، بھلا جو احکام خادم کے لئے بر محل ہیں وہ بادشاہ کے لئے کیسے برمحل ہو سکتے؟ اسلامی روایات کے دائرے میں جو شاعری ہوگی اس کا آخری مقصد تو حقیقت عظمی کی طرف اشارہ کرنا ہی ہوگا۔ البتہ حقیقت کی طرف چلنے میں جومنزلیں درمیان میں آئیں گی ان کا بیان بھی شاعری کو کرنا پڑے گا۔ یہ منزلیں چارعوالم ہیں۔ ناسوت، ملکوت، جبروت اور لاہوت۔ جو بڑے شاعر ہوں گے وہ چاروں منزلوں سے گزریں گے، جو چھوٹے شاعر ہوں گے وہ بیچ کی کسی منزل تک پہنچ کے رہ جائیں گے۔

    یہی حال اول درجے کے شعروں اور دوسرے درجے کے شعروں کا ہوگا (یہاں یہ بھی عرض کر دینا مناسب ہوگا کہ ڈانٹے نے جو تین زبانوں میں شعر کہنے کا ذکرکیا ہے اس سے مراد یہی مدارج ہیں۔ عالم ناسوت سے متعلق شاعری کو وہ قابل اعتنا نہیں سمجھتا، علاوہ ازیں خود مغربی عالموں کی تحقیق کے مطابق ڈانٹے نے یہ علم ’’فتوحات مکیہ‘‘ کے ذریعہ حاصل کیا تھا)

    غرض ارسطو کا نظریہ شعرہمیں عالم ملکوت یا زیادہ سے زیادہ عالم جبروت سے آگے نہیں لے جاتا۔ یہاں چاہے نقل کہہ لیجئے، چاہے عکاسی، چاہے اظہار سب برابر ہے۔ چنانچہ ارسطو کے نظریہ کی مدد سے ہم اسلامی شاعری کے بہت ہی تھوڑے حصہ کو سمجھ سکتے ہیں، اور وہ تھوڑا سا حصہ بھی ہماری اعلیٰ ترین شاعری کا نمونہ نہیں ہوگا بلکہ ہمارے یہاں تو آپ کو یہ مشکل پیش آئے گی کہ معمولی شعر بھی وجود کے دائرے سے باہر نکلنے کے لئے پھڑکتا نظر آئے گا۔

    داغ کو ارباب نشاط کا شاعر کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے، انہیں کا ایک مشہور بلکہ بدنام شعر دیکھئے۔

    صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

    خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں

    کیا اس شعر کا ظہور اور اخفا کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں؟ اسی طرح امیر مینائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کنگھی چوٹی میں پھنس کررہ گئے تھے۔ فرماتے ہیں۔

    وصل ہو جائے ابھی حشر میں کیا رکھا ہے

    آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھا ہے

    کیا یہ شعر رویت باری تعالی کے مسئلے سے نہیں نکلا؟ مولانا حسرت موہانی مرحوم ظاہر و باطن دونوں میں دیندار مسلمان تھے لیکن انگریزی تعلیم کا ایسا سایہ پڑا کہ شاعری کو عارفانہ، عاشقانہ، فاسقانہ کے خانوں میں تقسیم کر گئے۔ سوال یہ ہے کہ ان دو شعروں کو کون سے خانوں میں ڈالا جائے گا؟

    ان دو مثالوں ہی سے واضح ہو گیا ہوگا کہ جہاں تک صحیح معنوں میں ہماری روایتی شاعری کا تعلق ہے، مغرب کا بلند سے بلند ادبی نظریہ ہمارے لئے مفید مطلب نہیں ہو سکتا۔ ہماری روایتی شاعری تو خیر دور کی بات ہے، آج مغرب خود اپنے ازمنہ وسطی کی شاعری ہی نہیں سمجھ سکتا۔ بعض لوگوں نے تو تھک ہار کے یہ کہہ دیا ہے کہ اس دور کو شاعری کو تاریخ سے ہی خارج کرو۔ جو لوگ ذرا ایماندار اور حساس ہیں، وہ اب یہ کہنے لگے ہیں کہ عربی شاعری اور خصوصاً حضرت ابن الفارض کے کلام کی مدد سے اپنی شاعری کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس قسم کی دو ایک کوششیں فرانس میں ہوئی بھی ہیں اور پرانی مغربی تہذیب کے متعلق حیرت ناک انکشافات ہوئے ہیں۔ لیکن فی الجملہ حضرت ابن الفارض کا کلام تو پوری طرح وہی سمجھ سکتا ہے جو انہیں کی روایت میں شامل ہو۔ یعنی وہی دین رکھتا ہو جو شاعر کا تھا۔

    بہر حال ایک فرق تو ضرور ہوا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے تک مغرب کے لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ مشرق کی شاعری میں لفاظی اور مبالغہ آرائی کے سوا کیا ہے۔ خود ہمارے یہاں بھی یہ فیشن ہو گیا تھا کہ اچھے خاصے ثقہ لوگ اپنی قومی ہمدردی کے باوجود ’’ایشیائی شاعری‘‘ کو صلواتیں سنانا فرض منصبی سمجھتے تھے، حالی مرحوم جیسے متین آدمی یہ لکھ گئے۔

    ہمارے قصائد کا ناپاک دفتر

    عفونت میں سنڈاس سے جو ہے بدتر

    انہوں نے یہ نہ سوچا کہ امراء کی شان میں جو قصیدے ہیں ان میں بھی توحید کے کتنے مضامین بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن آج یہ حال ہوا ہے کہ مثلاً انگریزی کے مشہور شاعر رابرٹ گریوز نے عمر خیام کی رباعیوں کا ترجمہ کرنے کے بعد کہا ہے کہ ہم انگریز لوگ جانتے بھی نہیں کہ اصلی شاعری ہوتی کیا ہے؟ فارسی ترجمہ تو بڑی چیز ہے۔ جن دو چارفرانسیسیوں نے اردو شاعری پڑھی ہے ان کے منہ سے بیساختہ یہی نکلا ہے کہ ہمیں تو اب پتہ چلا ہے شاعری کسے کہتے ہیں۔

    مگر شبلی مرحوم اور حالی مرحوم وغیرہ پر انگریزوں کی ایسی ہیبت طاری ہوئی تھی کہ انگریزی ادب سے ابتدائی واقفیت کے بغیر انیسوی صدی کی انگریزی تنقید سے دو چار چلتے ہوئے خیالات اخذ کر لئے اور اپنے ادب کو ان محدود تصورات میں اس طرح مقید کیا کہ آنے والی نسلوں کے ادبی فہم اور ادبی ذوق کو غارت کر گئے۔ سب سے بڑا نقصان انہوں نے یہ پہنچایا کہ شعر کی بنیاد جذبات کو قرار دے گئے اور شعر کی خوبی کا معیار خلوص جذبات کو بنایا۔ دوسرے شاعری کا سب سے بڑا مقصد اخلاقی اصولوں کی ترویج ٹھہرا۔ ان خیالات کو رواج دے کر ان حضرات نے نہ صرف ہمارے ادب کو نقصان پہنچایا بلکہ مسلمانوں کودینی نقصان پہنچایا۔ اللہ تعالیٰ ان کی اورہم سب کی خطائیں معاف کرے۔ انہوں نے یہ خیالات انیسویں صدی کی انگریزی تنقید سے مستعار لئے تھے۔ لیکن خود انگریزی تنقید میں یہ خیالات اس وجہ سے پیدا ہوئے کہ مغرب میں مذہب کا زوال بہت دور پہنچ چکا تھا۔

    انیسویں صدی میں مغرب کے لوگ عموما ًاور پروٹسٹنٹ لوگ خصوصاً یہ اصولی بات بالکل بھول چکے تھے کہ مذہب میں سب سے پہلی چیزعقائد ہیں، اس کے بعد عبادات اور پھراخلاقی اصول۔ عقائد کی اہمیت تو ان لوگوں کی نظر میں بالکل ختم ہوگئی اور لفظ Dogma گالی کے طور پر استعمال ہونے لگا۔ عبادات کو رسم کہا گیا۔ اب پروٹسٹنٹ لوگوں کے پاس دو چیزیں رہ گئیں۔ اخلاقیات اور جذبہ۔ چنانچہ بعض لوگ تو یہ کہنے لگے کہ مذہب کا مقصد بس اخلاقی تربیت ہے اور کچھ نہیں۔ بعض لوگ کہنے لگے کہ انسانی جذبات کی تسکین کے جتنے ذرائع ہیں ان میں مذہب سب سے لطیف ذریعہ ہے۔ پھر آگے چل کر انہیں خیالات کو شعر و ادب پرعائد کیا گیا بلکہ ادب اور ادبی تنقید مذہب میں تحریف کرنے اور مذہب کے صحیح تصور کو مسخ کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ بن گئی۔ شبلی اور حالی اور ان کے ہم عصروں نے بڑی سادگی کے ساتھ ان مغربی خیالات کو دانش مندی کا جوہر سمجھا۔ یہ سامنے کی بات بالکل نظرانداز کر دی گئی کہ اسلام میں ایمان یا معرفت انسانی جذبے کی کسی کیفیت کا نام نہیں بلکہ ایمان اور معرفت عقل کل یا عقل معاد کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔

    ایک حدیث میں عقل کا مقام قلب بتایا گیا ہے۔ خود قرآن شریف میں قلب کے ساتھ لفظ ’’یعقلون‘‘ آیا ہے۔ چنانچہ جس شاعری کا مقصد ایمان کی تکمیل میں مدد دینا ہو وہ عقل کا ذریعہ اظہارہوگی، انسانی جذبات کا نہیں۔ یوں چاہے ثانوی درجے میں جذبات بلکہ جسمانیات سے بھی کام لے لیا جائے۔ لہٰذا جذبات کو عقل کلی کے مقام پر رکھنا نہ صرف ادبی لحاظ سے کج فہمی ہے بلکہ دین کے خلاف ہے۔ رہا سوال خلوص جذبات کا تو اخلاص کا دینی مطلب حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریروں میں دیکھ لیا جائے، جہاں انہوں نے سیکڑوں بارعقلی اور طبعی اختیاری اور غیر اختیاری کا فرق واضح کیا ہے۔

    توجس طرح جذبات کا خلوص غیرشرعی چیز کو شرعی نہیں بنا سکتا اسی طرح صرف و محض جذبات کا خلوص برے شعر کو اچھا شعر نہیں بنا سکتا۔ علاوہ ازیں تصوف کی اصطلاح میں ’’جذبے‘‘ سے مراد انسانی جذبہ نہیں بلکہ خدا کا بندے کو اپنی طرف کھینچنا ہے، پھر اخلاقیات پر غلو کے ساتھ زور دینا اور تصوف کی شاعری کو صرف اخلاقی تعلیم کا ذریعہ سمجھنا یہ بھی شاعری اور دین دونوں میں تحریف ہے۔ یہاں ایک باریک فرق ہے جس کی وضاحت ضرور ی ہے۔ بہت سے صوفیا کرام نے اور خصوصا حضرت مولانا تھانوی نے تاکید کے ساتھ فرمایا ہے کہ تصوف کا اعلیٰ مقصد اصلاح باطن ہے اور یہی سارا تصوف ہے۔

    جو لوگ انگریزی تعلیم سے متاثر ہیں وہ ’’اصلاح باطن‘‘ اور ’’اصلاح نفس‘‘ کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں اور یہ غلط فہمی اب بہت ہی عام ہو چکی ہے۔ اس لئے بہت سے لوگ تصوف اور نفسیات کو ایک ہی چیز سمجھنے لگے ہیں اوریہ ایسی غلطی ہے جس سے پناہ مانگنی چاہئے۔ حضرت مجدد صاحب جلد سوم کے مکتوب نمبر ۵۶ میں تصریح فرماتے ہیں کہ ’’جو چیز درکار ہے وہ اصلاح قلب ہے اور یونانی فلسفیوں نے جو صفائی حاصل کی ہے وہ محض نفس کی صفائی ہے جو گمراہی کو زیادہ کرتی ہے۔ یونانی فلسفیوں کے پاس نفس کی صفائی کا نظام تو موجود تھا، انیسویں صدی کے مغربی مفکرین تو اس سے بھی خالی تھے مگرانہیں کے تصورات کو قومی ہمدردی کے نام پر ہمارے یہاں پھیلایا گیا اور یہ صرف شاعری کو دین سے الگ کرنے کا نتیجہ تھا۔ دین کو اس طرح نقصان پہنچا ہو یا نہ پہنچا ہو، ہمارا ادبی شعور تو بہرحال غارت ہو گیا۔

    اب سوال یہ ہے کہ پچھلے سوسال سے ہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ دین سے بھی زیادہ شعر و ادب کا گرویدہ رہا ہے پھر اس نے ادبی شعور کو کیسے غارت ہونے دیا؟ یہاں ایک تو اس طبقے کی معذوری ہے۔ جو لوگ مغربی خیالات کی ترویج کر رہے تھے وہ صورتاً ثقہ تھے، اس لئے انگریزی پڑھنے والوں نے انہیں کو اپنی روایت کا مستند نمائندہ سمجھا۔ اب الزام اصلی نمائندوں پرآتا ہے کہ انہوں نے ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو بے سہارا کیوں چھوڑ دیا؟ لیکن انیسویں صدی میں ہمارے علما اپنے اصلی اور بنیادی کام میں مصروف تھے یعنی دین کی حفاظت میں اور اس کا بڑا ذریعہ تھا دینی علوم کو اردو زبان میں منتقل کرنا۔

    پھرحضرت مولانا تھانوی کی شرح غزلیات حافظ اور شرح مثنوی مولانائے روم عرصے تک رسالوں میں قسط وار شائع ہوتی رہی ہیں۔ حضرت کا مقصد تو خیردینی تھا، لیکن جو چاہے صرف ان دو کتابوں سے شاعری کی پوری تعلیم اخذ کر سکتا ہے بلکہ جو شخص بھی صحیح معنوں میں روایتی شاعری سے آگاہی حاصل کرنا چاہے، اس کے لئے موجودہ حالات میں واحد ذریعہ یہی دو کتابیں ہیں۔ غرض جن حضرات کو ہماری روایت کی نمائندگی کا واقعی حق حاصل تھا ان کی تائید اور حمایت سے ادب جیسی ثانوی چیز بھی محروم نہیں رہی۔

    پھر یہ بھی نہیں کہ مولانا تھانوی نے اردو شاعری کو قابل اعتنا نہ سمجھا۔ حضرت کے مواعظ میں، ملفوظات میں اور دوسری تحریروں میں جابجا ایسے اشارے ملتے ہیں جو درحقیقت پوری کتاب ہیں۔ جو لوگ ادبی نقاد سمجھے جاتے ہیں ان کی لمبی چوڑی تحریروں میں اردو شاعری کے متعلق ایسے حقائق ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں گے۔ یہاں اس موضوع پر پوری بحث تو ممکن نہیں صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے، عقلمندوں کے لئے وہی کافی ہوگی۔

    کہا جاتا ہے کہ مومن کی اہمیت سے لوگ اس وقت واقف ہوئے ہیں جب نیاز فتح پوری نے ان کی طرف توجہ دلائی۔ مگر حضرت مولانا کہہ چکے ہیں کہ دہلی کے شاعروں میں جو بات مومن میں ہے وہ اوروں میں نہیں۔ اسی طرح امیر مینائی کے کلام کی وہ تعریف کی ہے جو آج تک ادبی نقاد نہیں کر سکے۔ مطالب اور مضامین کے سلسلے میں حضرت رنگینی اور سنگینی کے فرق پر بہت زور دیتے ہیں، یہ فرق سمجھنے کے لئے پہلے غالب کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے۔

    کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو

    یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

    حضرت مولانا تھانوی نے اس شعر کی یہ خامی بتائی ہے کہ غالب نے صرف ظاہری حالت کو نظر میں رکھ کر شعر کہہ دیا ہے، حقیقت کو نہیں سمجھا۔ اگر کسی کے جسم میں تیر لگے تو واقعی وہی حال ہوگا جو غالب نے دکھایا ہے مگر عشق حقیقی میں تو جتنا علاقہ بڑھتا جائے گا خلش بھی اتنی ہی بڑھتی جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ سے قرب بھی مجھ کو ہی تم سے زیادہ حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ سے خوف بھی مجھے ہی زیادہ ہے۔ یہ حال تو ہواغالب کی رنگینی کا۔ اتفاق سے ذوق کا بھی ایک شعرا سی مضمون کا مل گیا۔ اب سنگینی دیکھئے۔

    خدنگ یار مرے دل سے کس طرح نکلے

    کہ اس کے ساتھ ہے اے ذوق میری جان لگی

    ساتھ ہی ذوق کے تین شعر اور دیکھئے جس میں سنگینی کے ساتھ ایسی رنگینی ہے جو غالب کو نصیب نہیں ہوئی۔

    تامل کیجیو ذوق طپیدن دیکھئے کیا ہو

    کہ اب تک ذبح کرنے کا نہیں قاتل کو ڈھب آیا

    ہلائے لب نہ بہر آفریں ہم نے تہ خنجر

    کہ قاتل بدگماں ہے جانے اپنے جی میں کیا سمجھے

    ترے ڈر سے نہ آیا پاس کوئی نیم جانوں کے

    مگر رونا کبھی چپکے سے بعد از نیم شب آیا

    غالب کے یہاں منصور کا مضمون باربار آیا ہے مثلاً۔

    قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن

    ہم کو تقلید تنک ظرفی منصور نہیں

    اسی مضمون کو ذوق وہاں لے گئے ہیں جہاں تک غالب کی رسائی نہیں۔

    سمجھ یہ دار و رسن تار و سوزن اے منصور

    کہ چاک پردہ حقیقت کا ہیں رفو کرتے

    اسی طرح قطرہ دریا کا مضمون غالب کو عزیز ہے لیکن ذوق کو مضمون کے ہر پہلو پر جو گرفت حاصل ہے اس کا نشان تک غالب کے پورے کلام میں نہیں ملتا۔

    کیوں کر حباب ہو سکے دریائے بیکراں

    دریا سے جب تلک نہ ملے ٹوٹ پھوٹ کے

    اب ذوق کا ایک آخری شعر اور سن لیجئے جس سے اورسارے مغربی فلسفیوں کی بنیادی خامی اور ان کے ادبی نظریوں کی ناپختگی اور اس کے مقابلے میں ہمارے ادب کی جامعیت ہر چیز روشن ہو جائے گی بلکہ اس مضمون میں جتنی معروضات پیش کی گئی ہیں، ان کے ثبوت کے لئے یہ شعر کافی ہے جس کا مضمون ذوق نے براہ راست قرآن شریف سے لیا ہے۔

    احاطے سے فلک کے ہم تو کب کے

    نکل جاتے مگر رستہ نہ پایا

    ان اشعار پرتبصرہ کی یہاں گنجائش نہیں مگر امید ہے کہ ان اشعارکی مدد سے مولانا تھانوی کے فقرے کا مطلب سمجھ میں آسکے گا اور یہ بھی اندازہ ہو جائے گا کہ جدید تعلیم پانے والوں نے ہماری اپنی دینی روایت کے مستند نمائندوں کا دامن چھوڑ کر تہذیب اور ادب کے میدان میں بھی کیا کچھ کھو دیا اور یہ جو ’’کچھ‘‘ اتنی بڑی چیز ہے کہ اس کے مقابلے میں مغرب کا ادب بغیر کسی مبالغے کے محض بچوں کا کھیل ہے۔

    مگر یہ نقصان ایسا نہیں کہ جس کی تلافی نہ ہو سکے۔ ہماری دینی روایت بحمد اللہ زندہ ہے اور ایسی زندہ ہے کہ دنیا کی کوئی روایت اس طرح زندہ نہیں اور قیامت تک زندہ رہے گی۔ جو حضرات ’’اردو ادب کی روایت‘‘ کی فکر میں گھلتے ہیں اب یہ ان کا کام ہے کہ پہلے ’’روایت‘‘ کے معنی تو دریافت کرلیں۔

    چند خوانی حکمت یونانیاں

    حکمت ایمانیاں را ہم بخواں

    مأخذ:

    مجموعہ محمد حسن عسکری (Pg. 636)

    • مصنف: محمد حسن عسکری
      • ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
      • سن اشاعت: 2008

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے