Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو کا غیر زبانوں سے تعلق

ماہر القادری

اردو کا غیر زبانوں سے تعلق

ماہر القادری

MORE BYماہر القادری

     

    شعر و ادب میں زبان کا مسئلہ بڑانازک اور اہم ہے۔ ایک ادیب و شاعر کو قدم قدم پر زبان کی نزاکتوں اور باریکیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، جو ناثِر یا ناظم خیالات کے تلاطم، معلومات کے جوش، جذبات کی رو اور الفاظ کی طلسم بندیو ں میں نزاکتِ زبان کی پروا نہیں کرتا، وہ معلومات و خیالات کی حدتک تو ادب کی خدمت کر رہا ہے، مگر ’’زبان‘‘ کو فائدے کے بجائے نقصان پہنچا رہا ہے۔ وہ ایک ایسا درخت لگا رہا ہے، جس کے پھول، پتے، خوشنما اور پھل تلخ اور بدمزہ ہوں گے۔ فصاحت، سلاست، بلاغت اور شستگی، یقیناً شعر و ادب کے دل و دماغ ہیں، مگر زبان کی روح کے بغیر دل و دماغ ایک لمحہ کے لیے بھی کام نہیں کرسکتے۔

    زبان کے تحفظ سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ میرامنؔ دہلوی کی ’’باغ و بہار‘‘ اور رجب علی بیگ سرورؔ کی ’’فسانہ عجائب‘‘ کی من و عن تقلید کی جائے۔ اردو زبان بہت کچھ سنور چکی ہے، جدید الفاظ بن چکے ہیں۔ اظہارِ خیالات کے لیے ایک جدید پاکیزہ اسلوب کی بنیاد پڑچکی ہے۔ پس ہمارے طرز بیان و کلام پر جدید اسلوب کا پرتو پڑنا چاہیے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہماری جدتِ نگارش، زبان کی اس بنیاد کو تباہ و برباد کردے، جس پر اردو کی عمارت قائم ہے۔محاورات اور الفاظ کے حقیقی معنوں میں ہم کو حذف و ترمیم اور حک و اصلاح کا کوئی حق نہیں ہے، نیز فعل، فاعل، مفعول، مبتدا، خبر اور متعلقات کی جو ترتیب و صورت قائم ہوچکی ہے، اس میں بھی ہم کوئی تغیر و تبدل نہیں کرسکتے۔ مثلاً ’’میں نے روٹی کھائی‘‘ کو کوئی شخص ’’میں روٹی کھایا‘‘ بولے، تو اس جملے کو غلط اور اس تبدیلی کو نادرست کہا جائے گا۔ کیونکہ اس ترمیم نے زبان کی قائم کردہ ترتیب کو بدل دیا۔ صرف و نحو کے اعتبار سے جس حدتک زبان کی ترتیب و نشست کاتعلق ہے، اردو زبان مکمل ہوچکی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ اس کے بعد زبان کی ترقی اور ادب کی وسعت کا درجہ آتا ہے، جس کے متعلق مجھے تفصیل سے عرض کرنا ہے۔

    اردو کا دوسری زبانوں سے تعلق
    زبان کی ترقی کا مطلب یہ ہے کہ جدید مقتضیات کی خاطر ہم کو نئے الفاظ وضع کرنے چاہئیں اور جدید الفاظ کو زبان کے عنصر میں اس طرح سمودینا چاہیے کہ قدیم و جدید عنصر میں یک رنگی اور یکسانی پیدا ہوجائے۔ ادب کی وسعت کا مفہوم یہ ہے کہ ہرصنف فن و ادب کو اردو میں منتقل کیاجائے، دوسری زبانوں کی تصنیفات کے تراجم کیے جائیں اور خود اپنی زبان میں تمام اصناف پر کتابیں لکھی جائیں۔ لیکن ادب کی وسعت زبان کی ترقی کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ تراجم کے سلسلہ میں جدید الفاظ کا بنانا ضروری ہے، لہذا جب تک جدید الفاظ وضع نہ کیے جائیں گے، غیرزبان کی کتابوں کا ترجمہ اپنی زبان میں نہیں ہوسکتا۔ پس معلوم ہوا کہ جدید الفاظ کی وضع و تراش بہت ہی ضروری چیز ہے، اور اس کے بغیر نہ تو زبان ترقی پاسکتی ہے اور نہ ادب کو وسعت دی جاسکتی ہے۔

    وضع الفاظ کی ماہیت و حقیقت پر غور کرنے سے پہلے، ہم کو اردو زبان کی حقیقت پر غور کرنا ہوگا، کیونکہ اس مسئلے کے حل ہوجانے کے بعد ’’وضعِ الفاظ‘‘ کی مشکل خودبخود آسان ہوجاتی ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اردو، دوسری زبانوں کی طرح ’’بالذات‘‘ کوئی زبان نہیں ہے۔ بہت سی زبانوں کے امتزاج و تالیف سے یہ معجون تیارہوئی ہے، سنسکرت، برج بھاشا، فارسی، عربی، ترکی، انگریزی، تلنگی، مرہٹی، پنجابی، بنگالی، دکھنی وغیرہ زبانوں کے الفاظ اردو میں شامل ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس زبان کو اردو سے زیادہ تعلق ہے۔ سنسکرت سے اردو کا برج بھاشا کے واسطے سے علاقہ ہے، اور سنسکرت کے صرف وہ الفاظ (معناً اور صورتاً تبدیل ہوکر) جو برج بھاشا میں شامل ہوگئے ہیں، اردو میں مستعمل ہیں۔ برج بھاشا یا خالص بھاشا کے الفاظ افعال و مصادر اور اسماء کی حدتک بکثرت شامل ہیں، لیکن بہت سے الفاظ ایسے بھی ہیں، جن کی اردو میں آکر شکل کچھ سے کچھ ہوگئی ہے اور ان کو نہ ہم سنسکرت کے الفاظ کہہ سکتے ہیں اور نہ بھاشا کے۔۔۔

    انگریزی اور فرانسیسی کے صرف وہ الفاظ اردو میں مستعمل ہیں، جن کا تعلق جدید آلات اور سائنس اور دیگر فنون کی تشریحات سے ہے، یعنی وہ ایجادات جن کے لیے اردو میں پہلے سے الفاظ موجود نہ تھے، ان کے انگریزی نام اردو میں شامل ہوگئے۔ بعض الفاظ تو بعینہ باقی ہیں اور بعض کو ’’مورد‘‘ 1 کرلیا گیا ہے۔ ترکی کے الفاظ بہت کم ہیں اور تلنگی، مرہٹی، بنگالی، پنجابی اور دکھنی وغیرہ کے الفاظ صرف اسی حدتک پائے جاتے ہیں، جس حدتک کہ اردو زبان کی وضع و ساخت ان کو گوارا کرسکی ہے اور ان کی تعداد کچھ ایسی زیادہ نہیں ہے، پھر ان زبانوں کے الفاظ بھی زیادہ تر اپنی حالت میں باقی نہیں رہے، اردو نے ان کی ثقالت اور کرختگی کو بڑی حدتک دور کردیا ہے۔

    اَب فارسی اور عربی کی باری آتی ہے۔۔۔ ان دونوں زبانوں کے اردو میں اتنے زیادہ الفاظ شامل ہیں کہ اگر ان کو اردو زبان سے نکال دیا جائے تو پھر اردو کاوجود فنا ہوجائے گا اور وہ ایک ایسے جسم کی مانند ہوجائے گی، جس کی روح نکل چکی ہو۔ بات یہ ہے کہ اردو کی وضع و ساخت نے فارسی اور عربی کے الفاظ کو انتہائی پسندیدگی کے ساتھ قبول کیا۔ اور اردو جس سلاست، شستگی اور ملاحت کی قابلیت کی حامل تھی، اس کے اقضا کو عربی اور فارسی کے الفاظ نے بڑی حدتک پورا کردیا۔

    اردو کاتعلق عربی سے قریب اور فارسی سے قریب تر ہے، لیکن اس اعتبار سے کہ فارسی پر خود عربی کا رنگ چھایا ہوا ہے، اردو کو بھی عربی سے قربت پیدا ہوجاتی ہے۔ جس حدتک نظم و شعر کا تعلق ہے، قصیدہ، رباعی، غزل، مصرعہ، مستزاد، قافیہ، ردیف، مسجع، مسدس، مثمن، تمام کے تمام الفاظ عربی کے ہیں، جن میں فارسی نے کوئی تغیر نہیں کیا اور اردو نے بھی ان کو بعینہ قبول کرلیا۔ اردو نے بھاشا کے دوہے، کھنڈ، ماترا، چھند، اور ’لاؤنی‘ کی طرف نگاہ اٹھاکر بھی نہیں دیکھا۔ ’’شہر آشوب‘‘ اور ’’واسوخت‘‘ وغیرہ خالص فارسی کی پیداوار ہیں، ان کو اردو نے بغیر کسی تغیر کے اپنے میں شامل کرلیا۔ نثر و نظم کے معائب و محاسن بھی زیادہ تر فارسی کے واسطہ سے عربی سے لیے گئے ہیں۔ ’’تقدیم و تاخیر، تعقید، تخلیع، ضعف تالیف، عدول، توارد، سرقہ، طباق، مراعات النظیر، ارصاد، حسن تعلیل، مرجز، مسجع، عاری، مقفع، وغیرہ۔‘‘ یہ سب کے سب عربی الفاظ ہیں، جو اردو میں مستعمل ہیں۔ اردو شعر و ادب کی بنیادیں ان پر رکھی ہوئی ہیں۔ اس تشریح سے واضح ہوتا ہے کہ اردو نے فارسی اورعربی کاقریب قریب ہرمسئلہ میں اتنا زیادہ اثر قبول کیا کہ ان دونوں زبانوں کے الفاظ، تراکیب، اور صنائع بدائع، اردو کاجزوِلاینفک بن گئے۔ اور اَب ان کو علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔

    عربی اور فارسی پر اردو کا اتنا اثر پڑا کہ بھاشا (ہندوستانی) کے اسماء (Nouns) میں امتیاز قائم کرنے کے لیے فارسی اور عربی کے الفاظ کا اضافہ کیا گیا۔ مثلاً ہم دوموتی (Two Pearls) اور دوسنگھاڑے کہنا چاہتے ہیں، تو اس کو دودانہ موتی اور دودانہ سنگھاڑہ کہاجائے گا۔ پالکی اور بہلی کو ایک منزل بہلی یا چوکی کہاجائے گا۔ اسی طرح ہتھیاروں کے لیے قبضہ، زیور، جوتا اور موزے وغیرہ کے لیے ’’جفت‘‘، روپیہ اور اشرفی کے لیے ’’مبلغ‘‘، گٹھ، بیگہ، من، سیر اور پیسوں کے لیے ’’موازی‘‘، تالاب، کھیت اور چٹھی وغیرہ کے لیے ’’قطعہ‘‘، نوکر یا مزدور کے لیے ’’نفر‘‘، باربرداری اور دودھ کے جانوروں کے لیے ’’راس‘‘، درندوں کے لیے ’’قلادہ‘‘، ہاتھی کے لیے ’’زنجیر‘‘، بندوق، توپ اور لاٹھی کے لیے ’’ضرب‘‘، تیر کے لیے ’’دستہ‘‘، اونٹ کے لیے ’’مہار‘‘، زربفت، اطلس، بانات وغیرہ کے لیے ’’قاطہ‘‘، باجے کی چیزوں (مزامیر) کے لیے ’’ساز‘‘، کتاب کے لیے ’’جلد‘‘، قالین کے لیے ’’فرد‘‘ اردو میں استعمال کرتے ہیں۔ اور گاؤں کا متعصب سے متعصب ہندو پنڈت، اور جاہل سے جاہل چمار بھی ان میں سے بہت سے الفاظ بلاتکلف بولتاہے۔ تحریروں میں بالکل یہی الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، حتی کہ دیوناگری لکھنے والے بھی ان الفاظ کااستعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

    زبان، الفاظ سے بنتی ہے، ہم لفظ (Word) کو بھی لفظ بولتے ہیں۔ ’’شبد‘‘ کبھی نہیں کہتے۔ کتاب (Book)کو ’’پستک‘‘ اور نقطے کو ’’بندی‘‘ نہیں بولا جاتا۔ خبر (News)کو ’’سماچار‘‘، عالم (Scholar)کو ’’وِدوان‘‘، علم (Knowledge)کو ’’وِدیا‘‘ سبق (Lesson)کو ’’پاٹھ‘‘ طالب علم (Student)کو ’’وِدیارتھی’’عام طور پر نہیں کہتے۔ یعنی ایسے الفاظ جن کے بعیر ہم اظہار مطلب کر ہی نہیں سکتے، فارسی اور عربی سے لیے گئے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ فارسی، عربی اور اردو کاچولی دامن کاساتھ ہے۔ اور فارسی و عربی کو اردو سے جدا کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ’’اردو‘‘ کو زندہ درگور کردیا جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رونگٹے کھڑے ہونے کو ’’الاقشعرار‘‘ اور گھوڑا دوڑانے کو ’’الاجلواذ‘‘ بولاجائے۔ ٹوپی کو ’’قلنسوہ‘‘ پٹاخہ کو ’’ترقہ‘‘، لالٹین کو ’’لالہ‘‘، پانی کو ’’ماء‘‘ اور میز کو ’’صندلی‘‘ کہاجائے۔ مقصد یہ ہے کہ جو الفاظ عربی و فارسی کے اردو میں داخل ہوگئے ہیں، ان کو بدستور باقی رکھا جائے، اور آئندہ انہیں الفاظ کو لیا جائے جن کا بوجھ اردو سنبھال سکے۔

    انگریزی کے الفاظ صرف جدید اشیاء اوربعض مخترعہ و مبتدعہ اصطلاحات کی حدتک ہم بولتے ہیں۔ جیسے انجن، سائیکل، ریل، ٹکٹ، پولس، رجسٹر، لیمپ، سائنس، کوٹ، بٹن، سوٹ، بوٹ، اسٹیشن، ڈس انفکشن، (disinfection) وغیرہ۔ بعض الفاظ کو ہم نے ’’مورد‘‘ بنالیا ہے۔ مثلاً لینٹرن (Lantern) کو ’’لالٹین‘‘ سپرنٹنڈنٹ (Superintendent) کو ’’سپرڈنٹ‘‘ پوئنٹس مین (Point’s man) کو ’’پیٹ مین‘‘ کہتے ہیں۔ بعض الفاظ کو ہم نے آدھا تیتر آدھابٹیر کی ضرب المثال کامصداق بنادیا ہے۔ جیسے ’’ریل گاڑی‘‘ اور اس اجتماعِ مختلف الجنس کے باوجود اس لفظ کی ساخت میں نہ تو جھول ہے اور نہ کانوں کو نامانوس معلوم ہوتا ہے۔

    انگریزی کے جو الفاظ اردو میں داخل ہوچکے ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے اور اس سے اردو کی خصوصیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ان کا استعمال بدستور رہنا چاہیے۔ سائیکل کے لیے دوچرخی کالفظ گڑھنے کی زحمت کرنا تحصیلِ حاصل کے مرادف ہے اور بفرضِ محال ان مروج الفاظ کو نکال کر ان کی جگہ دوسرے الفاظ گڑھ بھی دیے جائیں، تو اردو کو کسی عنوان سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ باقی رہی ترکی، تلنگی، مرہٹی وغیرہ زبانیں تو ان کے الفاظ اول تو تعداد میں بہت کم ہیں اور پھر وہ اردو میں کچھ ایسے گھل مل گئے ہیں کہ ان کو بڑی تحقیق کے بعد مشکل ہی سے جدا کیا جاسکے گا۔ اس ساری داستان کا خلاصہ یہ ہے کہ انگریزی کے چند مروج الفاظ کو اگر ہم چاہیں تو یکسر اردو سے خارج کرسکتے ہیں۔ فارسی اور عربی کے جو الفاظ زبان میں داخل ہوچکے ہیں، ان میں سے ایک لفظ کو بھی جدا نہیں کرسکتے۔ آئندہ کے لیے بھی انہی زبانوں کی مدد سے کام لیا جائے گااور بھاشا کے وہ الفاظ جو عام طور پر بولے جاتے ہیں، ان کے نکال دینے کا تو کوئی تصور نہیں کرسکتا۔

    آپ کویاد ہوگا، اوپر کہا گیا تھا کہ ترقی زبان کے لیے جدید الفاظ کا اضافہ ضروری ہے، پس دیکھنا یہ ہے کہ اردو زبان کی ترقی کے لیے الفاظ کا اضافہ کس عنوان سے کیا جائے۔ کیا انگریزی، فرانسیسی، عربی، فارسی وغیرہ السنہ کے الفاظ کو بدستور اردو میں منتقل کردیاجائے؟ اُن کی ’’تارید‘‘ (اردو بنانا) کی جائے؟ یا کوئی اور شکل اختیار کی جائے؟

    یہ تو ثابت ہوچکاہے کہ اردو بالذات کوئی زبان نہیں ہے، دوسری زبانوں سے عبارت ہے اور بھاشا، فارسی، عربی اور انگریزی 2 سے اس کا خاص تعلق ہے، فارسی اور عربی کے تراجم میں تو جدید الفاظ بنانے کی اس لیے ضرورت کم پیش آئے گی کہ اردو میں ان زبانوں کابہت کچھ سرمایہ پہنچ چکا ہے، اور اردو، ان زبانوں کے الفاظ کی بہت کچھ متحمل ہوسکتی ہے۔ چنانچہ اب تک، طب، فلسفہ، منطق، ہیئت، ہندسہ اور عروض کے تمام تراجم جو اردو میں کیے گئے ہیں، ان میں بڑی حدتک فارسی اورعربی کے الفاظ کا کوئی ترجمہ نہیں کیا گیا، صرف وہ الفاظ، جن کے لیے اردو میں قریب المعنی الفاظ پہلے سے موجود تھے، یا بعض الفاظ کی عربیت اور فارسیت، اردو کے لیے ناگوار تھی، ان کے واسطے اردو میں الفاظ بنائے گئے ہیں۔

    انگریزی تراجم میں بھی اب تک یہی ہوا ہے کہ الفاظ کے مقابل الفاظ وضع کیے گئے اور انگریزی کے بہت ہی کم الفاظ کو بدستور باقی رکھا گیا۔ جہاں تک میں نے اردو ادب کا مطالعہ کیا ہے، مولانا الطاف حسین حالیؔ پانی پتی مرحوم کو ضرور انگریزی الفاظ کا شیدائی پایا، کہ ضرورت، بے ضرورت انگریزی الفاظ کے بار سے نازک اردو کی گردن توڑے ڈالتے ہیں، ورنہ دوسرے مصنفین نے تو ’’لٹریچر، کمیڈی، ٹریجڈی، نیچر، آرٹ، تھیوری۔‘‘ جیسے الفاظ سے زیادہ کوئی اور لفظ استعمال نہیں کیا۔

    مولانا حالیؔ کا اردو پر غیرفانی احسان ہے، ان کا شمار قصرِ اردو کے موسسین میں ہے، مگر میں اندھی تقلید کا قائل نہیں ہوں، کہ حسنِ عقیدت کی رو میں عیب کو ثواب، اور برائی کواچھائی سمجھنے لگوں۔ انسان غلطی کرسکتا ہے، اور وہ غلطی کرتا ہے۔ لیکن کسی غلطی سے اس کے دوسرے کمالات پر پانی نہیں پھرجاتا۔ مولانا حالیؔ نے جس کثرت اور دھڑلے کے ساتھ اردو میں انگریزی الفاظ استعمال کیے ہیں، وہ ایک غیرمستحسن فعل ہے اور کسی اردوداں کواس خصوص میں ان کی تقلید نہیں کرنی چاہیے۔ لہٰذا انگریزی الفاظ کو بدستوراردو میں منتقل کردینے کے یہ معنی ہیں کہ ہم اردو کو افرنجی (English) بنارہے ہیں، اور ہماری اس کوشش کا رخ تعمیر کے بجائے تخریب کی جانب ہوگا، اگر ہم نے اسی چیز کو اردو ادب کی خدمت سمجھا اور انگریزی الفاظ کو اردو میں شامل کرنا شروع کردیا تو ہم کو بڑی دقت کاسامنا ہوگا۔

    رسم الخط کے اختلاف کے سبب ہم انگریزی کے الفاظ صحیح طور پر اردو میں نہیں لکھ سکیں گے اور اس عدم صحت کے ہاتھوں ہم بڑے الجھاؤ میں پڑجائیں گے، انگریزی الفاظ کا تلفظ بھی ہندوستانیوں سے ٹھیک نہیں ہوتا، اور وہ لوگ جو انگریزی سے نابلد ہیں، انگریزی الفاظ کا صحیح تلفظ بہت مشکل سے کرسکتے ہیں، لہٰذا اس ضرورت میں ہم ان لوگوں کے لیے جو صرف اردو جانتے ہیں، بڑی مشکلات پیدا کردیں گے اور ایک ایک لفظ پر ان بے چاروں کی زبان لڑکھڑائے گی۔ پس انگریزی کے الفاظ کے لیے ہم کو اردو میں الفاظ ضرور وضع کرنا ہوں گے۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ الفاظ اردو میں کس طرح وضع کیے جائیں؟ سطورِ بالامیں اس پر کافی روشنی ڈالی جاچکی ہے، کہ بھاشا، عربی اور فارسی سے اردو کابہت ہی قریبی تعلق ہے، بلکہ یوں سمجھنا چاہیے کہ ان زبانوں ہی سے اردو عبارت ہے۔ بھاشا کو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ز بان ذاتی طور پر علمی زبان بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی، کیونکہ اب تک دوسری زبانوں کا ترجمہ کرنے میں بھاشا نے ہمارا بہت ہی کم ساتھ دیا۔ پھر اردو سے اس کارسم الخط بھی مختلف ہے۔ اگر برج بھاشا میں اتنی صلاحیت ہوتی کہ دوسری زبان کے تراجم اس میں منتقل کیے جاسکیں تو ’’تعزیراتِ ہند‘‘ کا بھاشا میں کوئی ترجمہ ضرور ہوتا، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انگریزی کے تمام قانونی الفاظ کاترجمہ فارسی و عربی الفاظ میں کیا گی ہے۔ (اور میں تو اب ان الفاظ کو ’’اردو‘‘ ہی سمجھتا ہوں) اگر بھاشا میں ذرا بھی جان ہوتی، اور دیوناگری کوئی صلاحیت رکھتی، تو ابنائے وطن تعزیراتِ ہند کا ترجمہ ضرور ان زبانوں میں کرتے، لیکن ہم نے اپنے بعض ہندووکیل دوستوں کو جن کے ماتھے پر قشقہ لگا ہواتھا، عدالت میں قتلِ عمد کو ’’کتلِ ہمد‘‘ اور ’’زنا بالجبر‘‘ کو ’’جنا بالزبر‘‘ کہتے ہوئے سنا ہے۔

    عربوں کا ہندوستان سے تعلق
    اب فارسی و عربی باقی رہ جاتی ہیں، جن پر ہم ذرا تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔

    عربی اور فارسی کا ’’اردو‘‘ سے اتنا زیادہ تعلق کیوں ہے؟ انگریزی کو یہ قدامت کیوں حاصل نہیں؟ ہم دیکھتے ہیں کہ عربوں کے تعلقات ہندوستان سے بہت قدیم ہیں، اور ایک ہزار سال سے قبل، عربی کے الفاظ ہندوستان کے ساحلی علاقہ پر رائج ہوچکے تھے، عرب بڑے اچھے ملاح تھے۔ عربوں کے جہاز اتنے بڑے ہوتے تھے کہ ان میں بارہ بارہ سو آدمیوں کے لیے گنجائش ہوتی تھی۔ وہ ہندوستان سے بحری راستے کے ذریعے اپنے تعلقات قائم کرچکے تھے، اور بعض نے بود و باش بھی اختیار کرلی تھی۔ ہندوستانیوں نے اپنے نووارد مہمانوں کا بڑی گرم جوشی سے خیرمقدم کیا، اور یہ خیر مقدم بعض رسم و رواج تک محدود نہ تھا، بلکہ انہوں نے مذہب اسلام بھی قبول کرلیا۔ یوں سمجھیے کہ ہندوستانیوں نے عربوں کی جو میزبانی کی، اس کا بدلہ عربوں نے سونے چاندی کے ٹکڑوں کے بجائے ’’ایمان و روحانیت‘‘ کے سدا بہار پھولوں سے دیا۔

    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد مسعود میں ہی عربوں کا ہندوستان سے تعلق ہوچکا تھا، آپ نے ایک سیاح سے ہندوستان کا حال پوچھا تو اس نے کہا، ’’ہندوستان کا دریا موتی، اس کا پہاڑ یاقوت، اور اس کا درخت عطر ہے۔‘‘ اسی حقیقت کو ابوضلعؔ سندھی نے ۶۸۶ھ میں ایک شعر کے ذریعے ادا کیا۔ وہ ہندوستان کی تعریف میں کہتا ہے ؎

    العمری انہار ارض او اتقطر بہا ینزل
    یصیر الدرِّ والیاقوتِ والدر لمن یعطل

    ’’میری جان کی قسم! یہ وہ سرزمین ہے کہ جب اس میں پانی برستا ہے، تو دودھ، موتی، اور یاقوت اس سے اگتے ہیں، ان کے لیے جو آرائش سے خالی ہیں۔‘‘ 

    اس سے آپ عربوں اور ہندوستانیوں کے تعلقات کااندازہ لگاسکتے ہیں۔ ہندوستانیوں نے عربی کے الفاظ کو دیگر زبانوں کے مقابلے میں اس لیے زیادہ استعمال کیا کہ وہ ان سے بہت زیادہ مانوس ہوچکے تھے۔ غیرہندی مسلم مورخین اور سیاحوں کو بھی ہندوستان سے خاص شغف تھا، انہوں نے اس ملک کے حالات بڑے مزے کے ساتھ لکھے ہیں۔ چنانچہ ابن خروازبہؔ (۲۵۰ھ) نے ’’کتاب المسالک والممالک‘‘ میں ہندوستان کا جغرافیہ بیان کیا، اور ابودلفؔ معربن مہلیل مینوی (۳۳۰ھ) بزرگ بن شہریارؔ (۳۰۰ھ) سعودی (۳۰۳ھ) اصطغری (۳۴۰ھ) ابنِ حوقلؔ (۳۳۱ھ) بشاری مقدسی (۳۷۵ھ) البیرونیؔ (۴۰۰ھ) اور ابنِ بطوطہؔ (۱۲۷۷ء) نے اپنی کتابوں میں ہندوستان کا ذکر کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ عربوں کو ہندوستان سے ہمیشہ تعلق رہا ہے، اور اسی سبب ہندوستان نے عربی زبان کا بہت کچھ اثر لیا، اور ہندوستان کی سب سے جامع، وسیع اور شیریں زبان ’’اردو‘‘ میں عربی، فارسی کے الفاظ بہت زیادہ داخل ہوگئے۔

    انگریزی کے مروج الفاظ
    انگریزی کے وہ الفاظ جو اردو میں بدستور داخل ہوگئے ہیں لیکن بعدمیں جاکر ان کی جگہ دوسرے الفاظ اردو میں بن گئے ہیں۔ ان کے متعلق میرا خیال ہے کہ انگریزی الفاظ کو اردو سے بالکل خارج کردیا جائے اور جدید وضع شدہ الفاظ کو بولاجائے۔ ایسا کرنے میں اوّل اوّل قدرے زحمت ہوگی، مگر جب اخبار و رسائل میں ایسے الفاظ کی تکرار کی جائے گی تو عام لوگ خودبخود انگریزی الفاظ کو چھوڑ کر اردو الفاظ کا استعمال شروع کردیں گے۔ مثال کے طور پر ’’ایٹ ہوم‘‘ (At home) کو لیجیے، یہ لفظ بہت دنوں سے اردو میں استعمال ہو رہاہے، اب اس کی جگہ لفظ ’’عصرانہ‘‘ بن چکا ہے۔ لہذا ’’ایٹ ہوم‘‘ کو ترک کرکے ’’عصرانہ‘‘ لکھنا اور بولنا چاہیے۔ اسی طرح ’’اپیل‘‘ (Appeal)کو مرافع، ٹارچ (torch)کو ’’شب تاب‘‘ کہنا چاہیے۔ وَہَلم جرّا۔

    اصلاح اغلاط
    ترقی زبان اور وسعتِ ادب کی دوسری شکل یہ ہے کہ وہ غلطیاں جو عوام کی ناواقفیت کے باعث رواج پاچکی ہیں، ان کی اصلاح کی جائے، اس طریقے پر وہ تمام اغلاط دور ہوجائیں گی، جو اردو کے لطیف وجمیل دامن پر نہایت ہی بدنما دھبوں کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ اس دعوے پر کسی ثبوت کے پیش کرنے کی ضرورت نہیں کہ غلط الفاظ کی اصلاح وتصحیح، زبان و ادب کی سب سے بڑی اور اہم خدمت ہے۔ عام طور پر رسائل و اخبارات میں دیکھتے ہیں کہ ’’یکسانی‘‘ کو ’’یکسانیت‘‘ اور ’’یگانگی‘‘ کو ’’یگانگت‘‘ لکھا جاتا ہے۔ ’’یکساں‘‘ اور ’’یگانہ‘‘ فارسی الفاظ ہیں۔ ہم کو کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ فارسی الفاظ پر عربی دستِ تصرف دراز کریں۔ ایرانی انشاپرداز یکسانی کو یکسانیت اور یگانگی کو کبھی یگانگت نہیں لکھتے۔ ’’یکسانی‘‘ اور ’’یگانگی‘‘ میں اگر کسی قسم کا ثقل، الجھاؤ، جھول، کرختگی یا نامانوسیت ہوتی تو ایران والے اس کو ضرور دور کردیتے، مگر وہ ان الفاظ کو اسی حال میں بولتے اور لکھتے ہیں۔ جس طرح کہ ہم نے فارسی کے دوسرے الفاظ میں کوئی ترمیم و اصلاح نہیں کی، اسی طرح ان لفظوں کو بھی اسی طرح استعمال کرناچاہیے۔ خواہ مخواہ ’’عربیت‘‘ کا دم چھلا لگاکر، اچھے خاصے لفظ کو غلط بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ اسی طرح بہت سے ایسے الفاظ عوام میں رائج ہیں، جو قواعد و زبان کی رو سے غلط ہیں، اور ان کے اصلاح کی ضرورت ہے۔

    جس طرح نظم میں شعرائے قدیم کے استعمال کیے ہوئے بعض الفاظ کو ’’متروکات‘‘ میں شامل کردیا گیا ہے اور ان کو کوئی شاعر استعمال نہیں کرتا، اسی طرح ہم کو اردو کے قدیم انشاپردازوں کی تصنیفات کی بھی چھان بین کرکے، اس قسم کے ’’متروکات‘‘ کی فہرست تیار کرنی چاہیے۔ تاکہ غیرزبان والوں اور جدید انشا پردازوں کو سمجھنے، بولنے اور لکھنے میں آسانی ہو۔ اگرکسی انشاپرداز نے کوئی غلطی کی ہے تو اس کی تصحیح بھی ضروری ہے۔مثلاً سرسیدؔ احمد خاں نے ’’آثار الصنادید‘‘ میں ہتھیلی کو ’’ہاتھ کی ہتھیلی‘‘ اور اٹلی کے باشندے کو ’’اٹلی کاانگریز‘‘ لکھاہے۔ ہتھیلی کوہاتھ کی ہتھیلی کہنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی سنگ مرمر کو سنگِ مرمر کاپتھر کہنے لگے۔ ہتھیلی میں خود ہاتھ کی رعایت رکھی گئی ہے۔ کان کا وہ حصہ جو سر کے قریب ہو اس کو ’’کنپٹی‘‘ کہتے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص ’’کنپٹی‘‘ کو ’’کان کی پٹی‘‘ کہے تو اس تکرار کو غلط کہا جائے گا۔ اور یہ زبان کی غلطی ہر آئینہ مستحق اصلاح اور سزاوارِ صحت ہے۔

    سرسیدؔ نہ معلوم کس رَو میں یہ لفظ لکھ گئے۔ آثار الصنادید کی آئندہ اشاعتوں (editions) میں، اس کی اصلاح کردینی چاہیے لیکن اصلاح متن میں نہ ہونی چاہیے، بلکہ حاشیہ پر صحیح لفظ لکھ دیا جائے۔ اسی طرح ’’اٹلی کا انگریز‘‘ بھی غلط ہے۔ انگریز، انگلستان کے باشندے کو کہتے ہیں۔ ’’اٹلی کاانگریز‘‘ بے معنی سی بات ہے، سرسیدؔ احمد خاں کا مطلب ’’اٹلی کے انگریز‘‘ سے، اٹلی کا باشندہ معلوم ہوتا ہے، اور انگریز سے ان کی مراد ’’یورپ کاباشندہ‘‘ ہوگا۔ سرسیدؔ احمد خاں کے انگریزوں سے بڑے اچھے مراسم اور تعلقات تھے، اور یورپین اشخاص کے ساتھ ان کااٹھنا بیٹھنا بھی تھا، اس لیے وہ یقیناً انگریز (English) اطالوی (Italian) فرانسوی (French) اور امریکن (American) کے فرق سے واقف ہوں گے۔ لیکن اس زمانے میں شاید ہر گورے چمڑے والے کو عوام و جہلا ’’انگریز‘‘ کہتے ہوں گے، سرسیدؔ بھی عوام کی غلطی کا شکار ہونے سے نہ بچ سکے، اور انہوں نے اطالوی کو ’’اٹلی کا انگریز‘‘ لکھ دیا۔

    یقین ہے کہ جس شخص نے یہ عمومیت قائم کی ہوگی کہ ہر گورے چمڑے، سنہری بال، اور نیلی آنکھ والے کو ’’انگریز‘‘ کہا جائے، خواہ وہ اطالوی نژاد ہو یا یونان کا باشندہ، تو وہ یقیناً یورپی ممالک کے جغرافیہ، نسلی تبائن، اور لسانی اختلاف سے ناواقف ہوگا، اب یہ لفظ عوام میں مشہور ہوگیا، اور لکھے پڑھوں نے بھی اس کی اصلاح پر کوئی توجہ نہ دی۔

    بعض وقت ایسا ہوتا ہے کہ ایک بہترین ناقد اور ژرف بیں انشاپرداز بھی وہ الفاظ بلاتکلف لکھتا اور بولتاہے، جو غلط ہوتے ہیں، مگرعوام میں رواج پاجاتے ہیں، اس کاسبب یہ ہے کہ عام طو رپر بچپن کے زمانے میں ایسے لوگوں سے ملنے جلنے کا اتفاق ہوتا ہے، جن کاتعلق زبان و ادب کی حدتک ’’عوام‘‘ سے ہوتا ہے، لہٰذا جو الفاظ عوام بولتے ہیں، وہ زبان پر چڑھ جاتے ہیں، بڑے ہونے کے بعد، اگرچہ معلومات میں وسعت، خیالات میں بلندی پیدا ہوجاتی ہے، اور نگاہ، دقیقہ بیں اور دماغ نکتہ رس ہوجاتا ہے مگر وہ الفاظ جو زبان پرچڑھ گئے ہیں، کان ان سے مانوس ہوچکے ہیں، اور دماغ کی لوحِ حساس پر وہ نقوش کی صورت میں مرتسم ہوچکے ہیں، ان کی اصلاح کی جانب مطلق توجہ نہیں ہوتی اور ہم ان کو تحریر و تقریر میں بلاکسی روک اور تکلف کے استعمال کرتے ہیں۔سرسیدؔ احمد خاں نے بھی لفظ ’’انگریز‘‘ کو غیرارادی طور پر استعمال کردیا۔

    ان اغلاط کی اصلاح کی سب سے بڑی ضرورت غیرزبان والوں کے لیے ہے۔ اردو علمی زبان بن چکی ہے۔ دوسری زبان والے اسے سیکھ رہے ہیں، اب اگر ان کے سامنے ایسا لٹریچر پیش کیا جائے گا جس میں زبان و محاورات کی غلطیاں ہوں گی تو وہ بھی ان اغلاط و اسقام کا اعادہ کریں گے اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں ہماری ادبی تصنیفات غیراہل زبان کے لیے کتنی عظیم الشان گمراہی کا باعث ہوں گی، اس لیے کہ دوسری زبان والا تو مصنف کی شخصیت سے متاثر ہوکر اس کے ایک ایک حرف کو صحیح و درست سمجھے گا، اس میں اتنی قابلیت کہاں کہ وہ غیرزبان کی ان نزاکتوں کو سمجھ کر غلطی کی اصلاح و صحت کرسکے۔

    میں نے ایک رسالے میں ایک افسانہ پڑھاتھا، جس میں ایک صاحب نے تحریر فرمایا تھا کہ ’’سیدھے ہاتھ کی انگشت شہادت۔‘‘ کوئی بنگال یا برما کا باشندہ، جو اردو حاصل کرنا چاہتا ہو، وہ اس افسانے کو پڑھ کر غلطی نہیں نکال سکتا، اور وہ زبان و قواعد کی رو سے اس ترکیب کو غلط سمجھ نہیں سکتا، جب کہ وہ اردو کے رسالہ میں شائع ہوا ہو، اب وہ شخص ’’سیدھے ہاتھ کی انگشتِ شہادت‘‘ کا بلا تکلف استعمال کرے گا۔ غور فرمائیے کہ اس قسم کی غلطیاں، اردو ادب کو کس قدر نقصان پہنچا رہی ہیں، اور ان کی اصلاح کس قدر ضروری ہے۔

    میں نے ابتدا میں کہا ہے کہ زبان کا مسئلہ بڑا نازک اور اہم ہے۔ تاریخ، سائنس، جغرافیہ وغیرہ علوم و فنون کے سلسلے میں اگر کوئی غلطی ہوجائے تو اس کی اصلاح غیراہلِ زبان بھی کرسکتا ہے، مگر زبان کی غلطی کی اصلاح اس کے بس کاروگ نہیں! اور میرے خیال میں تو اہلِ زبان بھی ان غلطیوں کاشکار ہوسکتے ہیں، اور ہو رہے ہیں۔

    اس تجویز سے میرا مقصد خدانخواستہ لائق مصنفین کی تنقیص نہیں ہے، بلکہ میری غرض نیک نیتی کے ساتھ خدمتِ زبان و ادب ہے، کیونکہ غلطی ہر شخص سے ہوسکتی ہے۔ علامہ شبلیؔ نعمانی مرحوم کی میرے دل میں انتہائی وقعت ہے، اردو ان کے احسانات سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی، مگر میں نے ایک جگہ دیکھا کہ وہ بھی خیالات و مضامین کی رو میں ’’جاگیروں‘‘ کو ’’جاگیرات‘‘ لکھ گئے۔ حالانکہ جاگیر، فارسی کالفظ ہے، اور ہم کو عربی کے قاعدے سے فارسی کے لفظ کی جمع بنانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یوپی میں ’’جاگیرات‘‘ کوئی نہیں بولتا۔ کچھ دنوں علامہ شبلیؔ نے دکن میں قیام کیا تھا، اور یہ وہیں کی زبان کااثر تھا کہ وہ بلاتکلف ’’جاگیرات‘‘ لکھ گئے۔

    علامہ شبلی کے مقالات اردو کا سرمایۂ افتخار ہیں، ان کی قومی و ملی تجاویز سرآنکھوں پر، مگر اس لفظ کی حدتک ان کی تقلید نہیں کرنی چاہیے۔ دکن میں جنگل کی جمع ’’جنگلات‘‘ بازار کی ’’بازارات‘‘ ملگی (دوکان، کوٹھری) کی جمع ’’ملگیات‘‘ بولی جاتی ہے۔ اسی طرح جاگیروں کو ’’جاگیرات‘‘ کہاجاتا ہے۔ علامہ شبلیؔ کے کان ان الفاظ کو سنتے سنتے عادی ہوگئے تھے، لہٰذا انہوں نے ’’جاگیرات‘‘ اپنی تحریر میں استعمال کردیا۔ پس ایسی غلطیوں کی اصلاح کی جانب پہلے لمحۂ فرصت میں توجہ کرنی چاہیے، تاکہ زبان چاند کی طرح نکھر جائے اور ادب اردو کے دامن پر کوئی دھبہ باقی نہ رہے۔

    اس مقصد کی تکمیل کے لیے ایک مکمل ترین نظام کی ضرورت تھی کہ وسیع پیمانے پر کام ہوتا مگر جب بدقسمتی سے یہ اسباب مفقود ہیں، تو انشاپرداز صاحبان کو انفرادی طور پر اس منزل میں قدم بڑھانا چاہیے، اور اخبارات و رسائل کے مدیرانِ محترم اگر اس پر توجہ فرمائیں تو ان کا اقدام سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوگا، اور بڑی حدتک زبان کی اصلاح ہوجائے گی اور ادبِ اردو وسیع ہوسکے گا۔

    درجہاں بال و پرخویش کشودن آموز
    کہ پریدن نتواں باپرو بالے دگراں 



    حواشی
    (۱) مورد۔ اردو بنائے ہوئے۔
    (2) انگریزی کو میں نے مسئلہ واضح کرنے کے لیے اور اپنے مغرب زدہ بھائیوں کی خاطر شامل کرلیا ہے۔ ورنہ اردو کو اس سے کیا تعلق۔ ماہرالقادری

     

    مأخذ:

    Saqui Salnama Jild-11 (Pg. 59)

      • ناشر: شاہد احمد دہلوی
      • سن اشاعت: 1935

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے