Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو کا حال اور مستقبل

سجاد ظہیر

اردو کا حال اور مستقبل

سجاد ظہیر

MORE BYسجاد ظہیر

    کسی زبان کی ترقی کے کیا معنی ہیں؟ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک زبان ترقی کر رہی ہے اگر اس کے بولنے والوں میں، اس کے لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد میں برابر اضافہ ہوتا رہے، یہاں تک کہ اس زبان کے بولنے والوں کا کوئی فرد بھی ان پڑھ نہ رہ جائے۔ دوسرے یہ کہ وہ زبان نہ صرف لوگوں کی ناخواندگی دور کرے بلکہ اس کے وسیلے سے لوگوں کی ہمہ گیر اور ہمہ جہتی تعلیم اور تربیت بھی کی جا سکے اور اس کی اس اصلاحیت میں سماج اور افراد کی ضرورتوں کے مطابق دن بدن اضافہ ہوتا رہے۔

    معاملہ کو اس طرح دیکھنے سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ اس قسم کی ترقی کے معنی دراصل کسی قوم کی کلچرل ترقی کے ہیں اور ایسی ترقی صرف ایک جمہوری اور ترقی پذیر سماج میں ممکن ہے۔ اس لیے ہم زبان کی ترقی کے مسئلے کو کسی سماج کی عام ترقی کے سوال سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے۔

    مثلاً اگر انگریزی راج میں اور اس کے ماتحت دیسی ریاستوں میں ہماری قوم میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد تیرہ چودہ فیصدی سے آگے نہ بڑھ سکی، ہندوستان کی مختلف زبانوں میں اگر ادب اور مختلف علوم وفنون کی کتابیں یورپ کی متعدد زبانوں مثلاً انگریزی، روسی، جرمن، فرانسیسی کے مقابلے میں بہت ہی کم لکھی گئیں اور شائع ہوئیں اور اس طرح ان زبانوں کے بولنے والی قوموں کے مقابلے میں ہماری عام کلچرل سطح بہت پست رہی تو ظاہر ہے کہ اس کا سبب یہ تھا کہ بیرونی سیاسی محکومی کے ساتھ ساتھ مختلف طریقوں سے ہمارے ملک کا اتنا شدید استحصال ہو رہا تھا کہ یہاں پر ہماری قوم کی غالب اکثریت کے درمیان بھوک، مفلسی، بیماری اور جہالت پھلتی اور پھولتی رہیں۔ تہذیب، کلچر، ادب، علم وفن کی دولت سے ہم میں سے بیشتر محروم رکھے گئے۔

    میرے خیال میں ہماری تحریک آزادی کا سب سے بڑا محرک ہندوستانی عوام میں یہی احساس محرومی تھا۔ یہ جذبہ تھا کہ ہم آزادی کی فضا میں اپنی لٹی ہوئی اور اجاڑ زندگی کو سمیٹیں، بنائیں، سنواریں، اپنے دیس کی وافر اور فرواں دولت کو سیکڑوں گنا بڑھا کر اور اس کی منصفانہ تقسیم کر کے اپنی ابتدائی مادّی ضرورتوں کو پورا کریں، صاف ستھرے گھروں، رنگین پھولوں اور رسیلے پھلوں سے ڈھکے ہوئے خوبصورت گانوؤں اور شہروں میں رہیں، اچھا کھائیں پئیں، اچھا پہنیں، ہمارے جسم صحت مند ہوں اور ذہنی اور روحانی اعتبار سے بھی ہم اپنی بہترین روایتوں اور خصوصیتوں کے مطابق زندگی کو زیادہ لطیف اور پاک، زیادہ سنجیدہ اور گہری اور باشعور، زیادہ حسین اور پر مسرت بنائیں۔

    جس حد تک بھی ہم اپنے اس مقصد کی طرف بڑھیں گے، ہمیں توقع کرنی چاہئے کہ ہماری کلچرل زندگی بھی پہلے کے مقابلے میں زیادہ بار آور ہو گئی۔ جب ملک کی اقتصادی تعمیر ہو گی، ہمارا زرعی مسئلہ ہوگا، زرعی پیداوار بڑھے گی، نئی نئی صنعتیں کھلیں گی، ہمارے ملک کے ذرائع اور وسائل زندگی میں مسلسل اضافہ ہوگا، یعنی قومی دولت بڑھےگی اور اس کی منصفانہ تقسیم ہوگی تو ظاہر ہے کہ اس کے ساتھ زیادہ اسکول بھی کھلیں گے، علوم وفنون کی ترویج وتعلیم میں مسلسل اضافہ ہوگا، زیادہ کتابیں رسالے اور اخبارات لکھے جائیں گے اور شائع ہوں گے۔

    بجائے چند ہزار کے لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ان کے پڑھنے والے ہوں گے۔ اکاڈمیاں، علمی اور ادبی ادارے، لائبریریاں، ریڈنگ روم جگہ جگہ ہوں گے، علم کا شوق اور ذوق بڑھےگا۔ نئی تحقیق وتفتیش کی راہیں سب کے لیے کھلیں گی۔ فنون لطیفہ کی ترقی ہوگی۔ تہذیب اور مدنیت کی بلند تر سطحوں پر جانے کے لیے ایک پیہم کوشش ہوگی۔

    اس تصویر کے اندر اردو کی کیا پوزیشن ہونی چاہئے؟ زبان، تبادلہ خیال اور ادائے مطلب کا ایک وسیلہ ہے۔ اس کے ذریعہ سے انسان اپنا منشاء اور مفہوم ظاہر کرتے ہیں۔ جب وہ لکھ لی جاتی ہے تو پھر اس منشا اور مفہوم کو گویا محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ اس طرح کتبوں، مخطوطات پہ چھپی ہوئی کتابوں، رسالوں، اخباروں اور اب ریڈیو، سینما، ریکارڈ کے ذریعہ، الفاظ و معنی کے اس ذخیرے کو استعمال کر کے ہم زبان کے ذریعہ سے ادا کیے گئے مطالب کو جمع کر سکتے ہیں، محفوظ کر سکتے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر انہیں استعمال کریں، اپنی تعلیم کے لیے، تفریح وتفنن کے لیے، ہر قسم کے خیالات کو پھیلانے کے لیے۔

    دنیا میں اور خود ہمارے ملک میں ایک یا دو نہیں بلکہ متعدد زبانیں ہیں۔ اب یہ بات مان لی گئی ہے کہ جو جس کی مادری زبان ہے، اسی زبان میں اس کی سب سے اچھی تعلیم ہو سکتی ہے۔ اسی کے ذریعہ اس کے ذہن اور دماغ میں علم کی روشنی سب سے مؤثر طریقے سے پھیلائی جا سکتی ہے۔ اسی لیے جمہوریت کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ ہرشخص کو اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے، اس کو برتنے اور استعمال کرنے، اس میں لکھنے پڑھنے کا حق ملنا چاہیئے۔ یہ انسان کے بنیادی حقوق میں سے ایک حق ہے۔

    چنانچہ ہندوستان کے آزادی کے نئے آئین میں اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ہندوستانی آئین میں چودہ زبانیں ایسی ہیں جن کو مساوی حیثیت سے یہاں کی قومی زبانیں مانا گیا ہے۔ اردو بھی ان چودہ میں سے ایک زبان ہے۔ اس لیے تمام ان ہندوستانی شہریوں کے لیے جن کی زبان اردو ہے، یہ توقع کرنا کہ آزاد جمہوری ہندوستان میں انہیں اردو کے ذریعہ تعلیم دی جائے اور علوم وفنون اور ادب کی ترویج کے لیے اور تمام ان مواقع اور مقامات پر جہاں اردو جاننے والی پبلک کے لیے ترسیل خیال و مطلب کی ضرورت ہے، اردو کا استعمال ہونا چاہیئے، ایک فطری، جائز اور برحق مطالبہ ہے۔

    جو لوگ اس مطالبہ کی نفی کرتے ہیں، براہِ راست یا بالواسطہ، وہ جمہوریت کے ایک بنیادی اصول کی نفی کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم ہندوستان کے لاکھوں باشندوں کو تعلیم، ترقی اور تربیت کے ان مواقع سے محروم رکھنا چاہتے ہیں جو کہ ایک آزاد جمہوری اور ترقی پسند نظام میں ان کو ملنا چاہئیں۔ اردو بولنے والے عوام کے خلاف ایسی پالیسی اختیار کرنا ناجائز، ناروا، غیر جمہوری اور غیرآئینی حرکت ہے۔ ہر جابرانہ اور غیر منصفانہ عمل کی طرح یہ ایک احمقانہ فعل بھی ہے۔ اس لیے کہ تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ موجودہ زمانہ میں کسی قوم یا گروہ یا جماعت کو زیادہ دیر تک اس کے بنیادی جمہوری حقوق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ جو جماعتیں، گروہ، پارٹیاں، افراد ایسے افعال کے مرتکب ہوتے ہیں، تاریخی قوتیں خودان کو مٹا دیتی ہیں۔ بزم جہاں کا اس وقت یہی انداز ہے۔

    جب ہٹلری استبداد اپنی عظیم فوجی قوت کے باوجود عوامی، جمہوری، اور سوشلسٹ طاقتوں سے ٹکرا کر نیست ونابود ہو گیا، جب ایشیا کے بیشتر ممالک جہاں انگریزی، فرانسیسی یا ڈچ سامراج کا دور دورہ تھا، آج آزاد ہیں، جب تمام ان سلاطین اور جابر حکمرانوں کی قوت ٹوٹ چکی ہے جو اپنی ہستی کو ظل اللہ سمجھتے تھے بلکہ جن میں سے بعض کو خدائی کا دعویٰ تھا (جن کے تازہ ترین نمائندے آج ہمارے پہاڑ مسوری میں پناہ گزیں ہیں) تو پھر ہندوستان کے وہ اہل اقتدار جو جمہوریت کے دعویٰ دار ہونے کے باوجود ہماری قوم کے ایک معتدبہ حصہ کو اس کے فطری اور بنیادی حقوق سے محروم کرتے ہیں یقینی اپنی جگہ پر سلامت نہیں رہ سکتے۔ ان کی شکست لازمی ہے۔

    جب ہم گذشتہ دس سال پر نظر ڈالتے ہیں اور ہندوستان میں اردوکی موجودہ حالت کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ ناخوشگوار حقیقت نظر آتی ہے کہ ٹھیک انہیں علاقوں میں جہاں سے اردو نکلی ہے اور جہاں لاکھوں آدمی اردو بولتے ہیں، یعنی اتر پردیش، دہلی کے نواح، مشرقی پنجاب، بہار، مدھیہ پردیش اور راجستھان کے علاقے اور دکن کے بعض حصے، ان علاقوں میں طرح طرح کی پوچ اور لچر دلیلوں کو پیش کر کے اردو والوں کو ان کے بنیادی حقوق (جن میں سب سے اہم اور بڑا یہ ہے کہ اردو پڑھنے والے بچوں کی تعلیم کا معقول اور مکمل انتظام کیا جائے) سے بڑی حد تک محروم کیا گیا ہے۔

    سب سے زیادہ سنگین صورت حال اتر پردیش اور دہلی کے علاقوں میں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ان علاقوں کی اکثریت ہندی کو اپنی زبان کہتی ہے اور اس میں تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے یہ ان کا جمہوری حق ہے جو انہیں ملنا چاہیئے لیکن اس کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ جو لوگ اردو کی تعلیم چاہتے ہیں، جو اردو کو ذریعہ تعلیم بنانا چاہتے ہیں اور ایسے لوگ الکھوں کی تعداد میں ہیں، ان کو ان کے حقوق سے محروم کیا جائے۔

    ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیئے کہ اقلیتی زبان رکھنے والوں کو اپنے علاقے کی اکثریتی زبان بھی سیکھنا چاہئے۔ میں ان لوگوں کو سخت نادان، نا فہم بلکہ جاہل سمجھتا ہوں جو اتر پردیش، دہلی، بہار، مدھیہ پردیش کے باشندے ہونے کے باوجود ہندی سے مغائرت برتتے ہیں یا اس کے سیکھنے پڑھنے، لکھنے سے کتراتے ہیں، ایسا کر کے وہ اپنے آپ کو اپنے ہم قوم اور ہم وطن عوام اور ان کے تخلیق کیے ہوئے ادب سے کاٹ دیتے ہیں، جس کا نتیجہ ادیبوں کے لیے تو خیر برا ہے ہی، روزمرہ کی زندگی میں بھی دشواریاں پیدا کرےگا اور خود ایسا کرنے والوں کو اپنے وطن میں اجنبی بنا دےگا۔

    لیکن اگر اردو والوں کو صرف ہندی پڑھائی لکھائی جائے، اردو میں ان کی تعلیم کا انتظام نیچے سے لے کر اوپر تک نہ ہو، اور اس طرح اس بیش بہا تہذیبی خزانے کو برقرار نہ رکھا جائے جو محمد قلی قطب شاہ اور ولی سے لے کر ابوالکلام آزاد، پریم چند، اور کرشن چندر تک ہمارے ملک میں اردو ادب کی شکل میں جمع ہوا ہے اور جو اردو داں عوام کا سب سے قیمتی ذہنی اور روحانی سرمایہ ہے، اگر اس کے مواقع نہ فراہم کیے جائیں کہ اس خزانے میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے تو اس سے بڑھ کر غیرمہذب اور وحشیانہ حرکت کا تصور ناممکن ہے۔

    مجھے اردو کے دوسرے علاقوں کے متعلق ذاتی اور تفصیلی واقفیت نہیں ہے لیکن میں اتر پردیش کا باشندہ ہوں اور وہاں کے حالات سے واقف ہوں۔ ہندوستان میں یہی اردو کا سب سے بڑا اور اہم علاقہ بھی ہے اور یہاں کی چھ کروڑ آبادی میں سے تقریباً ایک کروڑ تو ضرور اس کی خواہاں ہے کہ اس کی تعلیم کا بندوبست اردو میں کیا جائے اور دیگر لسانی سہولتیں بھی اردو ہی میں اسے مہیا کی جائیں۔ یہی علاقہ دہلی کو ملا کر اردو کی جنم بھومی بھی کہا جاسکتا ہے، اسی علاقے میں کروڑوں وہ آدمی بھی جو ہندی میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، اردو بولتے اور سمجھتے ہیں۔

    حقیقت یہ ہے کہ اس علاقے میں اردو اور ہندی والوں کی بولی ایک ہے۔ میرے نزدیک یہ بولی اردو سے زیادہ قریب ہے۔ اسی بولی کو سہل اردو، سہل ہندی یا مہاتما گاندھی کے لفظوں میں ہندوستانی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ دوسری بحث ہے جسے میں اس وقت اٹھانا نہیں چاہتا۔ مجھے بہت افسوس اور دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اتر پردیش میں کانگریس پارٹی کا وہ حکمران گر وہ جس کے رہنما شری سمپورنا نند ہیں، اردو کی جانب سے اسی غیر مہذب، غیر جمہوری اور جاہلانہ پالیسی پرکار فرما ہے جس کی طرف میں نے ابھی اشارہ کیا ہے۔

    اس سنگین الزام کو ثابت کرنے کے لیے مجھے کیرالا کے کانگریسیوں کی طرح کسی خیالی اور بے بنیاد چارج شیٹ کو مرتب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آج اتر پردیش کے علاقوں میں جہاں اردو بولنے والے رہتے ہیں، بیشتر ابتدائی، ثانوی اسکولوں کالجوں میں اردو کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ لکھنؤ ایسے شہر میں جہاں سیکڑوں پرائمری اسکول ہیں، ایسے اسکول جہاں اردو پڑھائی جاتی ہو، شاید ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکیں گے۔ تیس بتیس سے زیادہ سکنڈری اسکولوں میں تین یا چار صرف ایسے ہیں جہاں اردو پڑھانے کا انتظام ہے، ذریعہ تعلیم تمام اسکولوں میں ہندی ہے۔ کالجوں میں دو یا تین کے علاوہ اردو کہیں پڑھائی نہیں جاتی۔

    لکھنؤ یونیورسٹی میں بھی اردو کے شعبے کو فارسی کے ساتھ ملا دیا گیا ہے اور دوسرے مضامین کے ساتھ اردو لینا رفتہ رفتہ دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ سارے صوبے میں صورت حال اس سے بھی بدتر ہے۔ اردو کو اتر پردیش کی ایک علاقائی زبان ماننے سے انکار کیا گیا ہے۔ عدالتوں میں اردو کی درخواستیں ابھی تھوڑے دنوں تک نہیں لی جاتی تھیں۔ اس پر مقدمہ بازی ہوئی۔ گو اب اردو درخواستیں دینے کا قانونی حق تسلیم کر لیا گیا ہے، لیکن ہر ممکن طریقے سے دباؤ ڈال کر اسے ناممکن بنایا جا رہا ہے۔ ہندوستان اکاڈمی جو انگریزی راج کے زمانے میں قائم ہوئی تھی اور جس کا کام اردو اور ہندی کی کتابیں شائع کرنا تھا، اسے محض ہندی کی کتابوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا ہے۔

    اس طرح اردو کو دبانے، اس کی ابتدائی اور ثانوی تعلیم کو ختم کر کے اس کی جڑیں کاٹنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ان سرکاری کاموں میں بھی جہاں اردو کا استعمال ترسیل مطلب کے لیے ضروری ہے، اس کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ اتر پردیش سرکار کی اس اردو کش پالیسی کے خلاف بہت سے ذمہ دار کانگریسیوں نے خود احتجاج کیا ہے، جن میں وزیر اعظم پنڈت جواہرلال نہرو اور ڈاکٹر ذاکر حسین جیسی ہستیاں شامل ہیں۔ اردو کو علاقائی زبان بنانے کی تحریک میں ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کے علاوہ ایسے کانگریسی جیسے کہ حیات اللہ انصاری صاحب ایم ایل سی، مولانا حفظ الرحمٰن ایم پی، پروفیسر مجیب، پنڈت سندرلال، عبدالقیوم انصاری صاحب وزیر بہار بھی شامل تھے لیکن وہ ناکام رہے۔

    حال میں کانگریس کی مرکزی حکومت نے کانگریس ورکنگ کمیٹی کے ریزولیوشن کے مطابق ایک سرکلر کے ذریعہ چند ہدایتیں اتر پردیش، بہار اور دہلی کی حکومتوں کو بھیجیں۔ ان میں انجمن ترقی اردو اور آل انڈیا اردو کانفرنس کی جانب سے کیے گئے بیشتر مطالبات کو تسلیم کیا گیا تھا اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ ان پر عمل کرے۔ اتر پردیش سرکار کا رد عمل اس سرکلر کی جانب سے بہت دلچسپ تھا۔ اس نے ایک بیان جاری کیا جس میں یہ کہا گیا کہ اتر پردیش میں تو ان ہدایات پر ہمیشہ سے عمل ہو رہا ہے اور اردو والوں کا بنیادی مطالبہ یعنی اردو کو علاقائی زبان تسلیم کیا جائے، گول کر دیا گیا ہے۔

    صدر جمہوریہ ہند کو لاکھوں کے دستخط سے جو محضر پیش کیا گیا تھا اس کا کوئی جواب ہی نہیں دیا گیا۔ اقلیتوں کے حقوق کے متعلق (جن میں اردو کا مسئلہ غالباً سب سے اہم ہے) تفتیش کرنے کے لیے ایک بزرگ متعین کیے گئے ہیں۔ وہ شکایتوں کی جانچ کر کے مرکزی حکومت کے پاس اپنی رپورٹیں پیش کر دیا کریں گے۔ دس سال کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ یہ سب ٹالنے کی باتیں ہیں۔ اگر کچھ لوگوں کو خوش فہمی ہے کہ یہ اقدام مسئلے کو تھوڑا بہت بھی حل کر دیں گے تو میرے خیال میں وہ غلطی پر ہیں۔

    کانگریسی حکمرانوں کی سوچی سمجھی پالیسی یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ اردو کی جڑیں کاٹتے رہیں، بنیادی اور سب سے اہم کام جو اردو کی ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کا ہے، اسے پورا نہ کریں، لیکن جب ان حرکتوں سے بے اطمینانی بہت بڑھے تو تالیف قلب کے لیے اور اردو والوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے کانگریس کی جماعت کے ہی کچھ لوگ اردو کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کریں، الزام اپنے کندھے سے اٹھا کر کسی دوسرے کے کندھے پر رکھ دیں، تحقیقات اور تفتیش، غوروفکر کے وعدے کریں، اردو کی مٹھاس اور اس کی خوبی کی تعریف بھی کر دیں، یہ بھی کہیں کہ یہ تو خالص ہندوستانی شے ہے اور اسے اس ملک میں پھیلنے پھولنے کا حق ہے، اردو کے مختلف اداروں کو تھوڑا بہت عطیہ بھی دے دیا جائے۔ مشاعروں کی صدارت کر دی جائے، اردو کانفرنسوں میں شریک ہو کر اس میں میٹھی میٹھی تقریریں بھی کر دی جائیں، لیکن اصل معاملہ وہیں کا وہیں رہے یعنی اردو کی ابتدائی ثانوی اور اعلیٰ تعلیم جہاں تھی وہیں رہے۔ اردو عوام اردو لکھ پڑھ نہ سکیں۔

    ہاں اردو بولنے پر پابندی نہیں ہے۔ آپ ہندوستان میں اردو بولنے کی آزادی ضرور رکھتے ہیں۔ ہمارا معاملہ مُندرا کے معاملہ سے ملتا جلتا ہے۔ ہندوستان کے خزانہ پر ستر لاکھ روپے کی چوٹ پڑ گئی۔ جسٹس چھاگلا اور جسٹس ویوین بوس نے تحقیق کرکے اپنے فیصلے صادر کر دیے، لیکن آخر میں انکشاف یہ ہوا کہ جرم تو ضرور سرزد ہوا لیکن مجرم کوئی نہیں۔ نہ کانگریس کی مرکزی کابینہ، نہ وزیر مالیہ، نہ محکمہ مالیہ کے سکریٹری، نہ انشورنس کارپوریشن کے ناظم، نہ اور کوئی۔ البتہ اس حیرت انگیز کاروبار میں کانگریس پارلمینٹری بورڈ فائدے میں رہا۔ اس کے فنڈ میں ایک لاکھ روپے کا اضافہ ہو گیا۔

    بالکل اسی طرح اردو کی حمایت میں کانگریس کے بڑے رہنما وقتاً فوقتاً بیان نکالتے ہیں، تقریر کرتے ہیں، ہمارے مطالبات کو جائز مانتے ہیں، یہ کہا جاتا ہے کہ اردو کے حق کو ہندوستان کے آئین میں ہی تسلیم کر لیا گیا ہے، اسے مٹا کون سکتا ہے۔ یہ بیانات بڑی سعادت مندی کے ساتھ اردو تحریک کے کانگریسی حامی میرے دوست حیات اللہ انصاری صاحب اپنے اخبار ’’قومی آواز‘‘ میں کانگریس کی قصیدہ خوانی کے ساتھ شائع بھی کر دیتے ہیں، اور (دو سطریں مٹا دی گئی ہیں صفحہ 13) لیکن اگر ہم ان تمام دعووں کو ایک سیدے سادھے پیمانے سے ناپیں اور یہ سوال کریں کہ اردو والوں میں اردو کی تعلیم پھیل رہی ہے یا سکڑ رہی ہے، بڑھ رہی ہے یا گھٹ رہی ہے تو لازمی طور پر اس اندوہناک اور تکلیف دہ نتیجہ پر پہنچیں گے کہ اردو کی تعلیم پھیل نہیں رہی ہے بلکہ سکڑ رہی ہے، بڑھ نہیں رہی ہے گھٹ رہی ہے۔ اور اس کی واحد ذمہ داری کانگریس کے حکمراں گروہ پر ہے جس میں مرکزی اور صوبائی حکمران دونوں شامل ہیں۔

    یہاں لازمی طور پر ایک سوال اٹھتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب ہمارے ملک میں ایک جمہوری آئین موجود ہے اور جب اس آئین میں اردو کو اس ملک کی ایک قومی زبان مانا گیا ہے اور جب مزید برآں اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنا ایک بنیادی جمہوری حق ہے تو پھر صریحاً اس کی خلاف ورزی کیسے ہوتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جب کہ عوام میں بڑی حد تک جمہوری شعور موجود ہے، جبرواستبداد کرنے والے طبقے اور گروہ اپنی کارروائیاں کھلے بندوں اور براہ راست نہیں بلکہ اپنی روپے کی اور حکومت کی طاقت کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اور ان کے حواری ایسے نظریے اور خیالات لوگوں میں پھیلاتے ہیں، ریاکاری، منافقت، فریب اور جھوٹ کے ایسے جال بچھاتے ہیں جس کی وجہ سے خود عوام کا ایک حصہ گمراہ ہو کر استحصال کرنے والے طبقوں کے محدود مفاد کی حفاظت کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔

    عوام کا ایک حصہ، دوسرے عوام کو کچلنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس تصادم سے ان دونوں حصوں کا یعنی عام نقصان ہوتا ہے۔ صرف محدود مفاد پرست اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جدید زمانے میں اس کی مثال جرمنی میں سب سے زیادہ واضح طور پر ہمارے سامنے آئی تھی، جب کہ ہٹلر نے جو دراصل جرمن امپریا لزم اور بڑی سرمایہ داری کا آلۂ کار تھا، جرمنی میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ تحریک کی دن بدن بڑھتی ہوئی طاقت کو کچلنے کے لیے خود اپنی پارٹی کا نام نیشنل سوشلسٹ پارٹی رکھا۔ یہودیوں کے خلاف جرمن عوام کے پست ترین وحشیانہ جذبات کو ابھارا، اور جرمن قوم اور جرمن کلچر کے تحفظ کے نام پر جرمنی میں جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا۔ جرمن قوم کے لیے یہ پالیسی کتنی تباہ کن ثابت ہوئی اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔

    شمالی ہند میں اردو کے مخالفوں کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اردو کوئی علیٰحدہ مستقل زبان ہے ہی نہیں، وہ تو ہندی کی ایک شیلی یا ادبی طرز ہے، جسے ہندوستان میں بیرونی مسلمانوں کے غلبے کے سبب سے ایک بیرونی یعنی فارسی یا عربی رسم خط میں لکھا جاتا ہے۔ نیز وہ کہتے ہیں کہ یہ ادبی طرز اور رسم خط اسی بیرونی غلبے کی وجہ سے ہندوستان میں آیا اور باقی رہا۔ اب جب کہ یہ غلبہ نہیں رہا تو اس شیلی اور اس رسم خط کو برقرار رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہر ایک ہندوستانی کو چاہیئے، اگر وہ اچھا ہندوستانی ہے اور اگر اسے ہندوستانی تہذیب اور تمدن یا بھارتیہ سنسکرتی سے محبت ہے کہ اس بیرونی غلبے کے تمام آثار کو جلد از جلد ہندوستان کی سرزمین سے مٹا دے اور اس طرح خالص ہندوستانی بن جائے۔

    شری سمپورنانند اسی خیال کے ہیں اور اس نظریہ کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ اردو والے اردو نہیں، بلکہ ہندی بولتے ہیں۔ رہ گیا اردو ادب تو ان کے صوبے میں اور ان کا بس چلے تو باقی اردو علاقوں میں اگر محض ہندی کی تعلیم سب کے لیے لازمی ہو جائے تو لامحالہ اردو شیلی جو ان کے نزدیک اجنبی اور غیرملکی ہے ختم ہو جائےگی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح قومی وحدت قائم ہوگی۔ اردو کے نام پر علیٰحدیت چاہنے والوں کا خاتمہ ہو جائےگا اور ایک قوم کی ایک زبان اور ایک کلچر ہو جائےگی۔ یہ تقریباً وہی نظریہ ہے جو بھارتیہ جن سنگھ کے لوگ بھی پیش کرتے ہیں، البتہ جن سنگھ والے اسی منطق کو استعمال کر کے ایک قدم اور آگے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کی قومی وحدت کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کے سب لوگوں کی ایک زبان ہو ہندی، ایک سبھیتا ہو ہندو۔ ان کا نعرہ ہے ہندی، ہندو، ہندوستان۔

    ہندوستانی کلچر یا بھارتیہ سنسکرتی اور اسی سے مشتق اردو اور ہندی کے متعلق یہ نظریے بالکل غلط اور گمراہ کن ہیں۔ کسی قوم کی کلچر کوئی جامد، مطلق اور مجرد شے نہیں ہوتی۔ ہندوستانی کلچر کے متعلق یہ کہنا کہ ویدک عہد کے آریاؤں نے اس کی بنیادیں رکھ دیں اور اس کے بعد کے چار پانچ ہزار برسوں میں ہندوستان میں جو کچھ کلچرل ارتقاء ہوا وہ تو انہیں بنیادوں سے ابھرا اور اس کے علاوہ ہماری کلچر میں جو کچھ ہے وہ غیرہندوستانی ہے، اجنبی ہے، بھارتیہ سبھیتا کا کرِترم روپ ہے (ہندوستانی تہذیب کا بگڑا ہوا روپ ہے) یہ ہماری عظیم تہذیب کو غیرسائنسی اور غیرتاریخی اور اس لیے غیرحقیقی، اور غلط طور سے دیکھنا اور سمجھنا ہے۔

    ہندوستانی تہذیب کا کوئی سنجیدہ مؤرخ اس قسم کی لغو باتیں نہیں کر سکتا۔ صرف سمپورنانند جی یا ان کے بھی گروشری کنھیالال منشی یا اسی قسم کے دوسرے اندھے احیا پرست اس قسم کے خرافات کہہ سکتے ہیں۔ خیالات، عقیدے، فلسفے، نظریے، جن کی بنیاد پر پھر فنونِ لطیفہ، ادب وغیرہ کی تخلیق ہوتی ہے، ایک خاص وقت میں کسی قوم پرنازل نہیں ہوتے، ان کی بنیادیں اور جڑیں ایک قوم یا ملک کے مادّی، سماجی اور تاریخی حالات میں پیوست ہوتی ہے۔ وہ مادّی وسائل اور ذرائع جن کے ذریعہ اور مدد سے انسان کھاتے پیتے اور زندہ رہتے ہیں، ان کی تہذیب کا روپ رنگ بھی متعین کرتے ہیں۔

    جب ان مادّی بنیادوں میں تبدیلی ہوتی ہے تو ہماری تہذیب میں بھی تبدیلی ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ عربستان کے وہ قبائل جن کو بدّو کہا جاتا ہے، آج بھی اسی طرح خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے ہیں، جیسی کہ وہ تیرہ سو برس پہلے کرتے تھے، لیکن دمشق، قاہرہ، بغداد اور مراقش کے عربوں کی تہذیب عربی اور اسلامی ہونے کے باوجود ان سے بہت مختلف ہے۔ ہمارے ملک میں بھی تہذیب کی مختلف سطحیں پائی جاتی ہیں، بھیل اور گونڈ اور دوسرے قبائل بھی اسی ملک کے ہیں، وہ ہم سب سے زیادہ قدیم ہندوستانی ہیں، لیکن وہ گلّہ بانی اور شکار اور بالکل ابتدائی قسم کی کاشت سے آگے بڑھ کر زراعتی منزل تک بھی نہیں آئے، اسی لئے وہ پیچھے ہیں۔

    ہندوستان کی پانچ ہزار سال کی تہذیب میں بہت سی قومیں یہاں باہر سے آئیں، اپنی تہذیبی سطح کے ساتھ پر وہ یہاں بس گئیں اور یہاں کی معاشرت کا ایک جزو بن گئیں۔ ان کی زبان اور ان کی تہذیب نے یہاں کی تہذیب پر اثر ڈالا اور پھر یہاں کی تہذیب نے ان اثرات کو اپنے اثرات میں جذب کر کے نئی تہذیبی شکلیں پیدا کیں۔ اس کے علاوہ بیرونی ملکوں سے لین دین، تجارت کے ذریعہ سے بھی بیرونی اثرات ہماری تہذیب پر پڑتے رہے۔ ہندوستان کی تہذیب نے اسی طرح آس پاس کے ملکوں پر گہرے اثرات ڈالے۔

    میرے خیال میں ہماری تہذیب پر سب سے گہرا اور صحیح معنوں میں انقلابی اثراس وقت پڑا جب کہ انگریز یہاں آئے اور ان کے آنے کے سو سال بعد انیسویں صدی کے شروع میں نئی مشینی صنعت ہندوستان میں داخل ہوئی۔ اس صنعتی انقلاب نے جو ابھی تک جاری ہے، ہماری معیشت کی مادی بنیادوں کو بدلا۔ اس کی کامیابی پر ہی ہمارے سماجی اور اسی لیے تہذیبی اور تمدنی مسائل کا حل موقوف ہے۔ تاریخ کے اس عمل کو روکا نہیں جا سکتا، بالکل اسی طرح جیسے آریاؤں، ہونوں، ترکوں کے آنے سے ہمارے ملک کی تہذیب پر جو اثرات پڑے انہیں مٹایا نہیں جا سکتا۔

    اردو انہیں تاریخی حالات سے صدیوں پہلے ہندوستان کی سرزمین میں وجود میں آئی۔ مسلمان حکمرانوں کے ساتھ آٹھ صدیوں کے اقتدار کے زمانے میں سرکاری اور علمی زبان فارسی تھی لیکن اردو ہمارے بہت سے شہروں میں رہنے والے عوام کی زبان میں پنپتی رہی۔ وہ صوفیوں کی خانقاہوں میں بڑھی، بازاروں اور گھروں میں پھیلی، چور دروازوں سے امراء کے درباروں میں بھی داخل ہوئی۔ اس کی قوت اور مسلسل ترقی کا راز یہ تھا کہ وہ ہندوستانی عوام کے ایک بڑے حصے کے ان ذہنی اور جذباتی، کاروباری اور علمی تقاضوں کو پورا کرتی تھی جو تاریخی اور سماجی حالات کے سبب سے وجود میں آئے تھے۔

    جیسے جیسے یہ تاریخی اور سماجی حالات بدلے اردو کا ارتقا بھی ہوا اور آج بھی ہو رہا ہے۔ مثلاً آج شمالی ہندوستان میں اردو کے علاقوں میں اردو جدید ہندی کے ساتھ ساتھ ہے۔ یعنی اس کا اثر اردو پر پڑ رہا ہے اور پڑنا چاہیئے۔ یہ اردو کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ دوسرے آج انگریزی کے ذریعہ سے ہم متعدد علوم وفنون حاصل کر رہے ہیں، ہزاروں لاکھوں شہر اور دیہات کے عوام جو تعلیم سے بے بہرہ کیے گئے تھے، اپنی بولیوں کے ساتھ لکھ پڑھ رہے ہیں، ہندوستان کی دوسری زبانوں کے ادب سے ہماری واقفیت بڑھ رہی ہے، ان تمام چیزوں کا اثر ہماری زبان کے ارتقاء پر پڑےگا۔ اس سماجی اور تاریخی حرکت کو کوئی روک نہیں سکتا۔

    زبانیں اسی طرح وجود میں آتی ہیں، بڑھتی ہیں اور ترقی کرتی ہیں۔ لیکن احیاپرست اپنے ذہنوں میں چند قدیم سانچے بنا لیتے ہیں اور زندگی اور زبان کی حرکت اور ارتقاء کو ان سانچوں میں بند کر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان۔ احیاء پرستوں کی منطق کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ اسی قسم کی معیشت قائم کرنے کی بھی کوشش کریں، جس قسم کے عقائد اور خیالات کو وہ آج لوگوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، اگر تاریخ کے پہیہ کو پیچھے کی طرف چلانا ہے تو تہذیب اور زبان کو ہی قدیم سانچوں میں بند کرنے سے کام نہیں چلےگا، ہماری معیشت کو بھی ہل، بیل، زراعت اور دستکاری تک محدود رکھنا ہوگا۔

    لیکن ہمارے احیاء پرست ایسا نہیں کرتے۔ ان کی طاقت بمبئی اور کانپور کے صنعتی سرمایہ داروں کی تھیلیوں پر قائم ہے، بالکل اسی طرح جیسے پاکستان میں احیا پرست وہاں کے جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے بل پر اپنی تحریک چلاتے ہیں۔ یہی ان لوگوں کی بنیادی کمزوری ہے۔ اگر آپ جدید مشینی صنعتیں بڑے پیمانے پر قائم کریں گے تو اس کے ساتھ ساتھ صنعتی مزدوروں کا طبقہ بھی پیدا ہوگا اور یہ طبقہ جاگیرداری اور سرمایہ داری دونوں کو ختم کر کے اشتراکی نظام معیشت قائم کرنے کا متقاضی ہے۔ اس نئی معیشت سے جو تہذیب پیدا ہوگی وہ پرانی نہیں بلکہ جدید ہوگی۔ وہ ہماری قدیم تہذیب کے خمیر سے بنی ہوگی، لیکن اس سے مختلف بھی ہوگی۔

    حقیقت یہ ہے کہ احیاپرستی، سرمایہ داروں اور جاگیری نظام کے طرفداروں کا ایک نظریہ ہے، جس کو وہ عوام کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا اصل مقصد کسی قدیم عقیدے یا تہذیب کا احیا نہیں ہے بلکہ وہ بعض خیالات اور روایتوں کو مسخ کر کے ان کی غلط تشریح کر کے سرمایہ داری اور استحصال کے موجودہ نظام کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    ہندوستان میں سرمایہ پرستی کے نام پر ووٹ نہیں لیے جا سکتے، لیکن ہندو دھرم اور اسلام کی حفاظت کے نام پر لوگوں کو گمراہ کیا جا سکتا ہے اور اگر اس سے بھی کام نہ چلے تو سوشلزم کو بھی اپنا نصب العین قرار دے لینے میں کیا ہرج ہے؟ چنانچہ شری سمپورنانند ویدک سنسکرتی کا بھی احیا چاہتے ہیں اور کانگریسی کی حیثیت سے سوشلزم بھی چاہتے ہیں۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ وہ اور پراچین بھارتیہ سنسکرتی کے دوسرے بڑے پرچارک شری کنھیا لال منشی، امریکی تنظیم کانگریس آف کلچرل فریڈم کے بھی رکن اور عہدہ دار ہیں۔ نہ صرف ہندوستانی سرمایہ داری، بلکہ امریکی سرمایہ داری ان کے نزدیک پراچین بھارتیہ سنسکرتی کو اس دیش میں قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

    ممکن ہے کہ آپ میں سے بعض لوگوں کو یہ خیال ہو کہ میں اپنے موضوع سے غیرمتعلق باتیں کر رہا ہوں لیکن ایسا نہیں ہے۔ جب تک اردو کی مخالفت کرنے والوں اور اس کو ضرب لگانے والوں کی ذہنی ساخت اور ان کے نظریوں اور دلیلوں کو ہم سمجھ نہ لیں گے، ہم ان کا کامیابی سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ میرے خیال میں ہماری اردو تحریک کی بنیادی کمزوری یہی رہی ہے کہ ہم نے ابھی تک مرض کی بیرونی علامتوں کو ہی دیکھا ہے اور اس سے متوحش اور پریشان ہو کر، جھاڑ پھونک کر اور تعویذ اور گنڈوں سے اس کا علاج کرتے ہیں۔

    بیماری دراصل ہندوستانی سماج میں ہے۔ اس کا بنیادی تدارک سماجی تبدیلیوں کے بغیر ناممکن ہے۔ عارضی سنبھالے اور تھوڑے بہت افاقے کے لیے تو اس سماج کے اندر رہتے ہوئے اس کا علاج کیا جا سکتا ہے اور وہ بھی کرنا چاہیئے، لیکن مکمل شفا بغیر بنیادی انقلابی تبدیلیوں کے ممکن نہیں ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اردو کی حفاظت اور ترقی کے لیے آج مختلف مقامات پر اور مختلف طریقوں سے ہم جو تحریکیں جاری کیے ہوئے ہیں، وہ بےکار ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ان کوششوں اور کاوشوں کو تو اور زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر سرکار اردو کے مدرسے نہیں کھولتی تو ہم پرائیوٹ طور پر جو کچھ کر سکتے ہیں کریں، اردو لکھنے پڑھنے، اردو دارالمطالعہ قائم کرنے، اردو ادب کی ترقی، اردو کتابوں، رسالوں اور اخبارات کی اشاعت کی کوشش آج سے بھی زیادہ ضروری ہیں۔

    نوارا تلخ ترمی زن چوذوق نغمہ کمیابی

    حدی را تیز ترمی خواں چو محمل راگراں بینی

    لیکن ان تمام کاوشوں کے باوجود اردو کی راہ میں جو بنیادی رکاوٹیں ہیں ان کی طرف اگر ہم توجہ کریں گے اور اردو کے مسئلے کو محض اردو والوں کے سوال کی حیثیت سے نہیں بلکہ ساری ہندوستانی قوم کی جمہوریت اور سوشلزم کی جدوجہد کے ایک حصے کے طور پر ہم نہ دیکھیں گے تو ہماری تحریک کی جڑیں مضبوط نہ ہوں گی اور ہم یاس اور موقعہ پرستی کا شکار ہوتے رہیں گے۔

    کیا اردو پر احیا پرستوں کا یہ الزام صحیح ہے کہ اس کی فضاء بیرونی اور غیرہندوستانی ہے، یا یہ کہ وہ مستقل کوئی زبان نہیں بلکہ ہندی کا ہی ایک بگڑا ہوا روپ ہے؟ اگر ایسا ہے تو آج لاکھوں اور کروڑوں ہندوستانی اسے روز مرہ کے طور پر کیوں استعمال کرتے ہیں؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ ہماری ان فلموں کی زبان کیوں ہوتی جنہیں لاکھوں ہندوستانی مرد عورت اور بچے دیکھتے اور سنتے اور سمجھتے ہیں؟ بمبئی کی فلم انڈسٹری کی بنائی ہوئی فلموں کی زبان اردو ہوتی ہے، گو کہ احیا پرست رجعتی دباؤ کے سبب اسے ہندی کہا جاتا ہے۔

    کیا اردو اس لیے بیرونی ہے کہ وہ فارسی رسم خط میں لکھی جاتی ہے؟ لیکن سندھی بھی عربی رسم خط میں لکھی جاتی ہے۔ یورپ اور دنیا کی بہت سی زبانوں کا رسم خط رومن یا لاطینی ہے، روسی رسم خط لاطینی اور یونانی رسم خط کو ملا کر بنایا گیا ہے۔ خود ناگری رسم خط قدیم سنسکرت سے اور وہ کھڑوشتی رسم خط سے نکلی ہے، جو ہندوستان کے باہر سے یہاں آیا۔ تو پھر کیا اردو اس وجہ سے بیرونی ہے کہ اس میں بہت سے فارسی عربی اور ترکی کے الفاظ ہیں۔ تو کیا انگریزی کو بھی انگریز بیرونی سمجھیں، اس لیے کہ اس میں بہت سے لا طینی، یونانی، فرانسیسی اور جرمن الفاظ ہیں؟

    حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی کوئی زندہ زبان ان معنوں میں خالص نہیں ہے جن معنوں میں کہ اردو کے خالص ہونے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں دنیا کی سب بڑی زبان انگریزی ہے۔ وہ سب سے کم خالص ہے۔ پھر یہ کہا جاتا ہے کہ ہم سہراب ورستم، شیریں فرہاد اور اسی قسم کی غیر ہندوستانی تشبیہیں اور استعارے استعمال کرتے ہیں۔ تو کیا شکسپیئر’’غیر انگریز‘‘ ہے کیونکہ اس نے ڈنمارک کے ایک شہزادے ہملٹ اور اطالیہ کے رومیو جولیٹ اور آتھیلو اور شائی لاک کو اپنے کرداروں کی حیثیت سے پیش کیا؟

    پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے ملک کی تقسیم کا جن نعروں کو لے کر مطالبہ کیا گیا ان میں اردو کے تحفظ کا بھی ایک نعرہ تھا۔ اس لیے ہندوستانی عوام کو یہ کہہ کر ڈرایا جاتا ہے کہ اردو کے حق میں نعرہ لگانے والے علیٰحدیت پسند ہیں اور ان کی وہی ذہنیت ہے جو ۱۹۴۸ء کے پہلے تقسیم ہند کا نعرہ لگانے والوں کی تھی۔ یہ دلیل بھی غلط ہے۔ کسی زبان کی کوئی سیاست نہیں ہوتی۔ اردو کے تحفظ کے اس کے سوا اور کوئی معنی نہیں ہیں کہ ان ہندوستانیوں کے ایک جمہوری حق کا تحفظ کیا جائے جن کی زبان اردو ہے۔ اس حق کو ہندوستانی آئین میں تسلیم کیا گیا ہے۔ ہم ہندوستانی شہری کی حیثیت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارا آئینی اور جمہوری حق نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ اس کے نفاذ کے لیے مناسب قدم بھی اٹھائے جائیں۔

    اگر اردو بولنے والے لوگوں میں بعض ایسے لوگ ہیں جن کی حب الوطنی مشتبہ ہے تو اس کا تدارک ضرور کیا جائے لیکن اردو کو دبا کر تو اس کا تدارک نہیں ہوگا۔ کیا اردو کے بجائے انہیں زبردستی ہندی پڑھا کر ہم ان کو اچھا ہندوستانی بنا لیں گے؟ کیا ہندی والوں میں فرقہ پرست نہیں ہوتے؟ تو کیا اس کی وجہ سے ہندی زبان خراب ہوگئی یا فرقہ پرستی سے آلودہ ہوگئی؟ مہاتما گاندھی کا قاتل ایک مرہٹی برہمن تھا، تو کیا اس کی وجہ سے ہم مہاراشٹر کی زبان سے مغائرت برتنے لگیں؟ تامل ناڈ میں آج ایک پارٹی ہندوستان سے علٰحدہ ہو جانے کا پروپگنڈہ کر رہی ہے۔ کیا اس کی وجہ سے تامل زبان کے اسکول بند کر دیے جائیں گے؟ کتنی احمقانہ اور لچر ہیں یہ باتیں اور دلیلیں، لیکن انہیں کو عوام میں پھیلا کر کانگریسی اہلِ اقتدار اور ان کے ہم نوا اردو کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔

    میں نے آپ کے سامنے جو معروضات پیش کی ہیں، ان سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ گذشتہ دس سال میں اور اس وقت بھی کانگریسی اقتدار کے تحت اردو کے ساتھ جو بدسلوکی کی گئی اور کی جا رہی ہے، اس کی پشت بانی ہندوستانی تہذیب وتمدن کے متعلق ان غلط اور زہریلے احیاء پرست نظریوں کے ذریعہ کی جاتی ہے جو کانگریسی اہل اقتدار کے ایک بڑے حصے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ نظریے دیا نتداری اور حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ ان کے ذریعہ سے دراصل ہماری تاریخ کو مسخ کیا جاتا ہے اور اس کا ایک خاص مقصد ہے۔ وہ مقصد ہمارے ملک میں زرپرستوں کے محدود مفاد کو برقرار رکھنا ہے جو صرف عوام کو گمراہی اور بھرم میں ڈال کر اور ان کے دو حصوں کو آپس میں ٹکرا کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے اسی طرح جیسے کہ برطانوی سامراجی کرتے تھے۔

    اردو کے ساتھ بے انصافی اس بڑی تصویر میں دراصل ایک ضمنی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اردو کی بقا اور ترقی کی جدوجہد کو وسیع تر جمہوری اور ترقی پسند جدوجہد کے ایک جزو کی حیثیت سے دیکھیں اور سمجھیں اور اسے اس بڑی جدوجہد کا ایک حصہ بنائیں۔ علٰیحدیت ہمارے لیے مضر ہوگی۔ مفاد پرستوں کی پالیسیاں ہندوستان کے کروڑوں عوام کو ان کے اور بھی بہت سے جمہوری حقوق سے محروم کر رہی ہیں، جس کے سبب سے ہمارے ملک کی عام معاشی اور تہذیبی گراوٹ ہو رہی ہے۔

    میرا خیال ہے کہ جیسے جیسے دن گذرتے جائیں گے، ہندوستانی عوام کا جمہوری شعور زیادہ بیدار ہوگا اور وہ ان سیاسی اور سماجی حالات کو بدلنے کے لیے زیادہ سے زیادہ متحد ہوں گے اور اپنی جدوجہد کو تیز کریں گے۔ اس جدوجہد میں کامیابی جمہوری اور عوامی طاقتوں کی ہی ہوگی، ان کے لوٹنے والوں کی نہیں، گو کہ اس وقت ان کی طاقت بادی النظر میں بڑی معلوم ہوتی ہے۔

    اس وقت ہمارے ملک اور دنیا کا جو حال ہے اور رجعت اور ترقی کی قوتوں کا جو توازن ہے، اس کے پیش نظر غالباً یہ پیشین گوئی غلط نہ گی کہ اس معاملہ کا فیصلہ دس پندرہ یا زیادہ سے زیادہ بیس سال میں ہو جائےگا، لیکن اہلِ اردو اگر اس جدوجہد کے محض تماشائی نہ بنیں، اردو کی خدمت کے معنی صرف اردو کی مرثیہ خوانی یا اہلِ اقتدار کی قصیدہ خوانی نہ سمجھیں بلکہ خود اپنے جمہوری حقوق کو منوانے کے لیے اس عام جمہوری محاذ کا ایک حصہ بنیں، تو کامیابی کے دن کو اور قریب لایا جا سکتا ہے۔

    میرا خیال ہے کہ دس بیس سال کے اندر اندر ہمارے ملک میں عوامی طاقتوں کا غلبہ ہو جائےگا جو جمہوریت اور سوشلزم کے نام کو عوام کو بہکانے کے لیے نہیں بلکہ ان پر صحیح معنوں میں کاربند ہونے کے لیے استعمال کریں گی۔ ان طاقتوں کو احیا پرستی کے پرفریب نظریوں کو عوام کو دھوکا دینے کے لیے استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہ ہوگی۔ بھارتیہ سنسکرتی کا جو تصور اس وقت رائج ہوگا، اس میں بھارت میں رہنے والی کسی قوم یا اقلیتی گروہ کی زبان یا تہذیب کو دبانے کی ضرورت نہ ہوگی، بلکہ ہمارا وطن ایک ایسے چمن کی طرح ہوگا جس کے مختلف رنگا رنگ اور مہکتے پھول سارے چمن کی دلکشی بڑھائیں گے۔

    اردو ہمارے دیش کے اس اُپ ون کا ایک سُندر پُشپ ہے، بھارتیہ سنسکرتی اور سبھیتا کی شوبھا کو وہ اسی طرح دوبالا کرے گا جیسے خوبانِ دکن کے برسات کی گھٹاؤں جیسے کالے بالوں میں کھنسا ہوا چمپا کا پھول۔

    مأخذ:

    اردو کا حال اور مستقبل (Pg. 3)

    • مصنف: سجاد ظہیر
      • ناشر: انجمن ترقی اردو، حیدرآباد
      • سن اشاعت: 1959

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے