Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو کا نیا قاعدہ

کرشن چندر

اردو کا نیا قاعدہ

کرشن چندر

MORE BYکرشن چندر

     

    (بچوں کے لیے) 

    ان تمام رفیقوں کے نام جو زندگی کے لیے اِک نیا قاعدہ مرتب کر رہے ہیں! 

    الف۔ انسان
    بچو ہم سب انسان ہیں۔ جس طرح الف اس قاعدے کا پہلا حرف ہے اسی طرح انسان بھی ہماری زندگی کاپہلا حرف ہے۔ ہماری سماج کی اکائی! ہم تم سب انسان ہیں۔ انسانوں کی دو قسمیں ہوتی ہیں، چھوٹے انسان اور بڑے انسان، چھوٹے وہ ہوتے ہیں جو چکی چلاتے ہیں۔ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ سوت کاتتے ہیں، کارخانوں میں کام کرتے ہیں۔ لڑائیاں لڑتے ہیں۔ ریل گاڑیاں چلاتے ہیں۔ اور زمین کے اندر گھس کر کوئلہ، نمک، سونا، چاندی اور لوہا نکالتے ہیں۔ یہ سب چھوٹے انسان کہلاتے ہیں۔ دوسری قسم بڑے انسانوں کی ہے، بڑے انسان وہ ہوتے ہیں جو چھوٹے انسانوں کو انسان نہ سمجھیں۔ 

    انسان کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ وہ اشرف المخلوقات ہے۔ سارے جانوروں میں سے اچھا جانور انسان ہے، اور سارے ا نسانوں میں سے اچھا انسان انگریز ہے۔ انگریز بھی الف سے شروع ہوتا ہے۔ اس لیے وہ بھی انسان ہے۔ گو بعض لوگ اُسے خدا سمجھتے ہیں۔ 

    بچو! انگریز تم نے اکثر دیکھا ہوگا۔ انگریز کی چمڑی سفید ہوتی ہے۔ تمہارا رنگ کالا ہے، بھورا ہے، گندمی ہے، لیکن سفید نہیں ہے۔ سفید رنگ انگریز کا ہوتا ہے اور انگریز ہندوستان پر حکومت کرتے ہیں۔ اور جب انگریز ہندوستان پر حکومت نہیں کرتے تھے تو اس ملک کی حالت ابتر تھی۔ لیکن آج کل بالکل امن ہے۔ 

    الف انسان، الف انگریز، الف امن، بچو! امن بھی الف سے شروع ہوتا ہے۔ گو ہندوستان میں تو اسی وقت سے شروع ہوا ہے جب سے انگریز یہاں آئے ہیں۔ الف اتفاق بھی ہوتا ہے لیکن چونکہ ہندوستان میں نہیں ہوتا۔ سو اس قاعدے میں اس کا ذکر نہیں آئے گا۔ اس لیے بچو موجودہ امن کے زمانے کو یاد رکھو اور کہو۔ الف۔ انسان۔ 

    ب۔ بچہ
    بچو! تم سب بچے ہو۔ بچے وہ ہوتے ہیں جن کے ماں باپ ہوتے ہیں اور جو انہیں کاغذ قلم سلیٹ اور تختی دے کر اسکول بھیجتے ہیں۔ لیکن کئی بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ماں باپ نہیں ہوتے اور وہ اسکول میں پڑھنے کے لیے نہیں آتے۔ لیکن ان بچوں کو ہم بچے نہیں کہتے۔ یتیم کہتے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں سوبچوں میں سے نوے بچے اسکول میں پڑھتے ہیں۔ ہندوستان میں سوبچوں میں سے صرف دس بچے اسکول میں پڑھتے ہیں۔ باقی آنگنا میں گلی کھیلتے ہیں۔ اس لیے انہیں یتیم کہتے ہیں۔ ہندوستان میں سب ملکوں سے زیادہ تعداد میں بچے پیداہوتے ہیں۔ اور مرتے بھی سب سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ لیکن جینا، مرنا تو خدا کے اختیار میں ہے۔ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔ بچے تو بھگوان اور اللہ بھیجتا ہے اور پھر وہی انہیں واپس بلا لیتا ہے۔ یہی انجیل میں بھی لکھا ہے۔ اس لیے کہو۔ ب۔ بچہ۔ 

    پ۔ پتلون
    بچو! پے، پتلون ہوتی ہے۔ پے، پائجامہ بھی ہوتا ہے۔ جو تم اکثر پہنتے ہو، اور پے، پنکھا بھی ہوتا ہے۔ جو تمہارے گھروں میں اناج کے خوشوں اور گنے کے چوسے ہوئے چھلکوں سے بنایا جاتا ہے۔ لیکن یہ سب دیسی چیزیں ہیں اور کسی کام کی نہیں۔ اس سے تمہارے علم میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ اس لیے پے، پتلون ہی صحیح ہے۔ 

    پتلون پڑھے لکھے لوگ پہنتے ہیں۔ اور جب تم بھی پڑھنا لکھنا سیکھ جاؤگے تو پتلون پہناکروگے، پتلون پہننے سے جسم چست رہتا ہے اور دماغ روشن ہوتا ہے۔ درزی ایک پتلون اتنے عرصے میں سیتا ہے جتنے عرصے میں دس پائجامے تیار ہوتے ہیں۔ پتلون بڑی مشکل سے تیار ہوتی ہے۔ لیکن کیا کیا جائے پتلون کے بغیر پڑھنا لکھنا بھی تو بڑا مشکل ہے۔ اس لیے بچو اگر تم پڑھنے لکھنے کو رکھتے ہو عزیز۔ تو ہر دم پتلون پہنے سبق یاد کرو۔ کہ جو آدمی پتلون نہیں پہنتا وہ جاہل ہے۔ 

    آدمی پتلون پہنتا ہے اور پتلون پیٹی پہنتی ہے جو اکثر حالتوں میں آدمی کے کندھے تک جاتی ہے۔ پیٹی، پتلون، پہننا، پڑھنا۔ یہ تمام الفاظ پے سے شروع ہوتے ہیں۔ اس لیے کہو۔ پ۔ پتلون۔ 

    ت۔ تالی
    تے تالی۔ بچو تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ لیکن جس بچے کا ایک ہی ہاتھ ہو وہ اسے ران پر مار کر بھی تالی بجاسکتا ہے۔ اور ہپ ہپ ہرے کا شور مچاسکتا ہے۔ 

    تالی اس وقت بجتی ہے جب کلکٹر صاحب اسکول کے سالانہ جلسے پر انعام تقسیم کرنے کے لیے آتے ہیں۔ یا جب تعلقدار صاحب اسکول کو چندہ دیتے ہیں۔ اس لیے کہو۔ ت۔ تالی۔ 

    ٹ۔ ٹامی
    بچو! ٹامی عام طور پر انگریز سپاہی کو کہتے ہیں۔ یہ سپاہی ولایت سے آتا ہے اور کچھ عرصہ ہندوستان میں رہ کر پھر ولایت لوٹ جاتا ہے۔ سپاہی تو ہندوستانی بھی ہوتے ہیں۔ لیکن وہ ٹامی نہیں ہوتے۔ ٹامی اور ہندوستانی سپاہی میں یہ فرق ہے کہ ہندوستانی سپاہی کالے رنگ کا ہوتا ہے۔ اور ٹامی سفید رنگ کا۔ ٹامی کو تقریباً پچھترروپے تنحواہ ملتی ہے اور ہندوستانی سپاہی کو تقریباً تیس روپے۔ ٹامی کی زندگی کی ضروریات بہت زیادہ ہوتی ہیں اور ہندوستانی کی بہت کم۔ ہندوستانی بھی اپنی زندگی کی ضروریات بڑھاسکتا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس سے اس کی تنخواہ بھی بڑھ جائے۔ اس لیے جو ملے اس پر قناعت کرو اور کہو۔ ٹ۔ ٹامی۔ 

    ث۔ ثواب
    بچو! ثواب اس کام کو کہتے ہیں جو آدمی خود کرتا ہے۔ لیکن جس سے فائدہ دوسرے کو پہنچتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر تم اپنے گھر سے میرے لیے آٹا چاول، نون، تیل لاتے ہو تو تم ثواب کرتے ہو اور فائدہ مجھے ہوتا ہے۔ اور پھر میں ایک غریب مدرس ہوں۔ مجھے صرف پندرہ روپے تنخواہ ملتی ہے اور ان پندرہ روپوں میں میرا گزارہ نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اگر تم چاہتے ہو کہ میں زندہ رہوں اور تمہیں ثواب حاصل ہو تو میرے لیے ہمیشہ ہمیشہ آٹا، چاول، نون، تیل، لکڑی لاتے رہا کرو۔ ثواب بڑی اچھی چیز ہے۔ اور انگریز ہمیشہ سے ہندوستان پر ثواب کرتے آئے ہیں۔ اس لیے کہو۔ ث۔ ثواب۔ 

    ج۔ جنگ
    بچو! جنگ وہ ہے جو آج کل ہو رہی ہے، جنگ ہمیشہ ہوتی ہے اور جب نہیں ہوتی ہے تو اسے صلح یا امن کا زمانہ کہتے ہیں۔ امن کے زمانے میں لوگ جنگ کی تیاریاں کرتے ہیں اور جنگ کے زمانے میں امن کے خواب دیکھتے ہیں، اس عمل کو سیاست کہا جاتا ہے۔ 

    پہلے جنگ اکادکا آدمیوں کے درمیان ہوتی تھی۔ پھر قبیلوں کے درمیان بڑھنے لگی، پھر بادشاہوں کے درمیان ہونے لگی۔ اب جنگ ملکوں اور قوموں کے درمیان لڑی جاتی ہے۔ لیکن نتیجہ ہر حالت میں وہی ہوتا ہے۔ یعنی لوگ مرتے ہیں، عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوتے ہیں، خون کی ندیاں بہتی ہیں اور آخر میں انصاف کی فتح ہوتی ہے۔ جب سے دنیا میں جنگ شروع ہوئی ہے ہمیشہ سچائی اورانصاف کی فتح ہوتی چلی آئی ہے۔ آخر میں ہمیشہ سچائی اور انصاف کی فتح ہوتی ہے۔ پچھلی جنگ میں بھی انصاف کی فتح ہوئی تھی۔ اس جنگ میں بھی انصاف کی فتح ہوگی۔ اس سے اگلی جنگ میں بھی انصاف کی فتح ہوگی۔ اس سے اگلی جنگ میں بھی انصاف کی فتح ہوگی، حتےٰ کہ ایک دن اس دنیا میں ایک آدمی بھی باقی نہ رہے گا۔ صرف انصاف ہی انصاف رہ جائے گا۔ اور یہی جنگ کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ اس لیے کہو۔ ج۔ جنگ۔ 

    چ۔ چور
    بچو! چور وہ ہوتا ہے جو تمہاری چیز چوری کرکے لے جائے، جس طرح چوہے طاق پر سے تمہاری مٹھائی چراکر لے جاتے ہیں۔ لیکن چور صرف چوہے نہیں ہوتے، انسان بھی چور ہوتے ہیں، چوہے یا انسان اس لیے چوری کرتے ہیں کہ ان کے پاس وہ چیز نہیں ہوتی جس کی وہ چوری کرتے ہیں۔ اور جو دوسروں کے پاس ہوتی ہے، مثال کے طور پر اگر چوہوں کے پاس مٹھائی ہو تو کیا وہ تمہاری مٹھائی چرائیں گے؟ ہرگز نہیں! یہی حال انسانوں کا ہے وہ بھی ایک طرح کے چوہے ہیں اور وہی چیز چراتے ہیں جو اُن کے پاس نہیں ہوتی۔ وہ چوری کرتے ہیں جب وہ بھوکے ہوتے ہیں نہ ننگے ہوتے ہیں، غریب ہوتے ہیں۔ چوروں سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔ چوہوں سے بھی بچنا چاہیے کیونکہ ان سے پلیگ پھیلتی ہے۔ چوہوں کو بلی کھاتی ہے اور چوروں کو حکومت، لیکن کبھی کبھی حکومت خود چور بن جاتی ہے اور لوگوں کی چیزیں چرالیتی ہے۔ ایسی حالت میں ملک کی ساری دولت سب میں برابر تقسیم کردینا چاہیے تاکہ کوئی کچھ چرا ہی نہ سکے۔ نہ حکومت رہے نہ چور کیونکہ جہاں چوہے ہوتے ہیں وہاں بلی بھی ہوتی ہے اور جہاں چور ہوتے ہیں وہاں حکومت بھی ہوتی ہے۔ اس لیے کہو۔ چ۔ چور۔ (باقی آئندہ)

     

    مأخذ:

    ادب لطیف،لاہور (Pg. 4)

      • ناشر: چودھری برکت علی
      • سن اشاعت: 1944

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے