Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو کے افسانوی ادب کی سماجیات

محمد حسن

اردو کے افسانوی ادب کی سماجیات

محمد حسن

MORE BYمحمد حسن

    گزرے ہوئے ’’کل‘‘ کے اس آئینے میں ہماری کیا شکل اُبھرتی ہے اسے پہچاننے کے لئے تاریخ کے پاس بڑا ذخیرہ ہے، تخت و تاج کی تفصیلات ہیں۔ جیتی اورہاری جانے والے جنگوں کی داستانیں ہیں، حکومتوں کے فرمان اور فوجوں کی نقل و حرکت کے سبھی پتے، نشان موجود ہیں لیکن بدقسمتی انسان کے اندرون کا حال جاننے کے ذریعے تاریخ کے پاس نہیں ہیں اور تاریخ ہو یا تمدن دراصل ان کی تعمیر و تشکیل تو انسان کے اندرون سے اٹھنے والے پُر اسرار اور پیچیدہ جذبات و افکار ہی سے ہوتی ہے جن کی ہلکی سی گونج ادب میں سنائی دیتی ہے۔ لہٰذا ادب تاریخ کا وسیلہ بھی ہوسکتا ہے اور اسکا پیش رو بھی۔

    ادب کی اپنی پوری کائنات ہے۔ اول تو ادب کے اصناف الگ الگ ہیں اورہر صنف کاپیرایۂ بیان جدا جدا ہے۔ دوسرے ادب میں حقیقت کا بیان تاریخ اور سائنس کی طرح براہ راست نہیں ہوتا، ادبی پیرایہ میں ہوتا ہے، اسی لیے اس کا امکان رہتا ہے کہ ادب کے بیانات کی گہرائی میں اترے بغیر ان کے لغوی اورظاہری معنی پر اعتبار کر کے کوئی ادب ناشناس غلط نتائج اخذ کرے اورحقیقت مسخ ہوکر رہ جائے۔ ادب کا لہجہ صرف اس کے اپنے دور ہی سے نہیں ادبی روایت اور اسلوب سے بھی بنتا ہے، اس کی تشبیہیں اوراستعارے، اس کے رموز و علائم، اس کے کردار اور واقعات، اس کے تصوراتی رنگ و اآہنگ کی دھوپ چھاؤں، یہ سب کچھ فکر اور حقیقت پر رنگ برنگے نقاب ڈال دیتے ہیں۔

    پھر ادب محض فکر اور جذبہ ہے بھی نہیں۔ فکر ہوتا تو فلسفہ بن جاتا، محض جذبہ ہوتا تو عشق، جنون یا پیغمبری ٹھہرتا۔ اس کا مقصد محض معلومات کی فراہمی یا فکر اور جذبے کی ارزانی نہیں بلکہ ان کی مدد سے نئی جمالیاتی بصیرت تک رسائی حاصل کرنا ہے اور اس کوشش میں وہ فکر و خیال، احساس و ارتکاز کے نہ جانے کتنے سانچے بناتا بگاڑتا ہے اور اسی کوشش کے ذریعے اپنے آپ کو پہچانتا ہے، اپنے اور فطرت کے رشتے دریافت کرتا ہے، اپنے اور اپنے چاروں طرف بکھری ہوئی زندگی سے مسابقت اور مطابقت کے رابطے طے کرتا ہے، اپنے اور دوسرے انسانوں کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔ اس لحاظ سے ادب سے کسی قسم کے نتیجے نکالنے سے قبل اس کے پیرایۂ بیان کے انوکھے پن پرنظر رکھنا ہوگی اور اسی کے ساتھ ساتھ اس کے جمالیاتی مشن اوراسکی معنویت کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔

    شاعری میں طرز فکر اور طرز احساس کی پیچیدگیاں زیادہ ہیں اور جو صنف شعرجتنی زیادہ مخصوص پیرایہ اظہار اختیار کرے گی اورموزو علائم سے زیادہ کام لے گی اسی قدر یہ پیچیدگیاں بڑھتی جائیں گی، اس لیے غزل کے شعر سے تاریخی صداقتوں کے بارے میں نتیجے نکالنا نہایت دشوار اور خطرناک ہے۔ ممکن ہے جسے ہم شاعر کا حقیقی اظہار سمجھ ہے ہوں وہ محض روایتی انداز بیان ہو یا محض بولتے ہوئے قافیے کی آواز۔ اس لئے انیسویں صدی کی مزاج شناسی کے لئے غزل کا استعمال بالخصوص اور شاعری کا بالعموم جوکھم کا کام ہے۔ سب سے زیادہ آسان وسیلہ شاید افسانوی ادب ہے، جس کے ذریعے روح عصر نئے رنگ و آہنگ سے جلوہ دکھاتی ہے۔

    ڈرامے سے قطع نظر انیسویں صدی میں افسانوی ادب نے تین واضح موڑ لیے اور یہ تینوں موڑ پوری انیسویں صدی کے مزاج اورکردار کوواضح کرنے کے لئے کافی ہیں۔ پہلے دور میں قصوں کا، دوسرے دور میں داستانوں کا اور تیسرے دور میں ناولوں کا عروج ہوا۔ قصے کا تعلق اجتماع سے ہے، داستان کا تخیل سے اورناول کا فرد سے اور پھر اجتماع، تخیل اور فرد کا تعلق مخصوص قسم کے معاشروں، تہذیبوں اوراقتصادی نظام سے ہے۔ انیسویں صدی کے معاشرتی، اوراقتصادی سفرکی پوری دستان انھیں تین اصطلاحوں میں پوشیدہ ہے۔

    قصہ کیا ہے؟ گم نام مصوروں کا بنا ہوا نگار خانہ ایسی کہانیوں کا ذخیرہ جو ہمیں فضا میں گردش کرتی ہوئی ملتی ہیں۔ نانی دادی اپنے نواسوں اور پوتوں کو سناتی ہیں، دوست اپنے دوستوں سے سنتے ہیں، یہ کوئی نہیں جانتا کہ ان کہانیوں کا مصنف کون تھا، پھر کوئی لکھنے والا انھیں اپنے لفظوں میں لکھ ڈالتا ہے اور یہ اسی کتابی شکل میں گردش کرنے لگتی ہیں۔ یہ قصے کہانیاں ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچتی ہیں، ایک تہذیب سے دوسری تہذیب کوجاملاتی ہیں اور مشرق و مغرب کی طنابیں کھنچتی ہوئی زمان و مکان کی سرحدوں سے بلند ہوجاتی ہیں۔

    (ایک مثال اس مشہورکہانی کی ہے جس میں ایک بچے کی دو مائیں دعوے دار ہوتی ہیں۔ معاملہ عدالت تک پہنچتا ہے اورجج فیصلہ کرتا ہے کہ دونوں عورتیں ایک بچے کومخالف سمت میں کھینچیں اور آدھا آدھا بانٹ لیں۔ اصل ماں بچے کی یہ تکلیف برداشت نہیں کرپاتی اور دعوے سے دستبردار ہوجاتی ہے اورا سے بچہ دے دیا جاتا ہے۔ یہ کہانی جو بدھ مذہب کی کہانیوں میں شامل تھی بریخت کے ڈرامے ’’کاکیشین چاک سرکل‘‘ کی شکل میں بیسویں صدی تک پہنچتی ہے۔)

    ان قصوں کے درمیان کئی امتیازی خصوصیات مشترک ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ ان کے واقعات اور کبھی کبھی کردار تک معروف اور مشہورہوتے ہیں۔ ان کا تعلق یا تو کسی پرانی روایت اور تلمیح سے ہوتا ہے یا کسی ایسے واقعے سے جو ابھی حال میں پیش آیا ہو اور جس کا علم مخاطب سماج کو بخوبی حاصل ہو۔ گویا قصہ گوکا کام صرف دیے ہوئے واقعات اورمتعارف کرداروں کو قصہ گوئی کی رنگینی اور قوت بیان کے ساتھ پیش کرنا ہے۔ ان قصوں کے فکری تانے بانے سے اس دور کے مضمرات کا اندازہ لگانا بے جا نہ ہوگا۔ کس قسم کے واقعات کو کس خاص رخ سے اہمیت حاصل ہوئی، کس قسم کے کرداروں نے اعتبار پایا اور کس قسم کی تہذیبی فضا اس دور کو راس آئی۔۔۔ یہ تمام شواہد ادبی ہی نہیں تاریخی اور تہذیبی معنویت بھی رکھتے ہیں۔

    لہٰذا ان سبھی قصوں کی پہلی خصوصیت ان کی سماجی اوراجتماعی قبولیت ہے اس دور تک اجتماع سے فرد کا رشتہ کٹا نہیں ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ فرد ابھی ہیئت اجتماعیہ سے الگ اکائی کی حیثیت سے ابھرا ہی نہیں ہے، وہ گویا روح اجتماعی کے اظہار کا محض ایک وسیلہ ہے، اس کی زبان سے اس کا دور اور اس کے لوگ بولتے ہیں اور اس کی انفرادیت انہی لوگوں کے طرزِ فکر اور طرزِ احساس کو قوت گویائی بخشنے کی مرہون منت ہے۔

    دوسری اہم خصوصیت ان سبھی قصوں کے پیچھے کار فرما ایک اخلاقی آہنگ ہے جوان قصوں کو معنویت بخشتا ہے، یہ اخلاقی فلسفیانہ نہیں عملی ہے جو مختلف النوع تصورات کے درمیان شیرازہ بندی کا کام انجام دیتا ہے، اخلاق کے اس تصور کے پیچھے ترغیب یا اصلاح کا جذبہ نہیں اپنے دور کی عملی سچائیوں کو عام اور دل پسند پیرایے میں محفوظ کرلینے کا خیال البتہ موجود ہے۔ یہ گویا دانش عصر کے افسانوی پیکر ہیں۔

    تیسرے ان سبھی قصوں میں انسان اور فوق فطری عناصرکے درمیان خطوط مبہم اور غیر واضح ہیں۔ واقعات کے درمیان ربط منطق فراہم نہیں کرتی، ہر معلول کی علت لازم نہیں اور اسباب و محرکات کا سلسلہ اتفاقات سے جاملتا ہے۔ انسان کے پاس فتح کا سب سے بے خطا وسیلہ اگرکچھ ہے تو تائید ربّانی ہے یا کسی پہنچے ہوئے مرشد کی سفارش یا پھرکسی تعویذ یا منتر کاسہارا جو ناممکن کوممکن کردکھاتا ہے اورناگزیر المیے کو خوشگوار انجام تک پہنچاتا ہے۔

    ابتدائی دورکے نثری قصوں کو پیش نظررکھا جائے تو مندرجہ ذیل تصانیف پر غور کرنا ہوگا۔ فضلی کی ’’کربل کتھا‘‘، عیسویں خاں کی ’داستان مہر افروز و دلبر‘، شاہ عالم سے منسوب ’عجائب القصص‘، تحسین کی ’نوطرز مرصّع‘، انشاؔ کی ’رانی کیتکی‘ کی کہانی اور پھر فورٹ ولیم کے زیر اثر لکھے گئے قصے جن میں میر امّن کی ’باغ و بہار‘ کو گل سرسید کی حیثیت حاصل ہے۔ ان سب قصوں میں یہ بات مشترک ہے کہ،

    (۱) کربل کتھا کے علاوہ کسی کا ذریعہ اظہار مذہبی نہیں ہے اور ان سب میں ایک غیرمذہبی روادارانہ فضا بھی پائی جاتی ہے۔

    (۲) ان مشہور اور عام طور پر مقبول قصوں کا طرز قائم رکھا گیا ہے جن کی روایت ہمارے عوامی ادب میں چلی آتی ہے۔

    (۳) ان سبھی قصوں میں شہری معاشرت کی جھلکیاں نمایاں ہیں، دیہی زندگی کی تصویریں یا تو سرے سے غائب ہیں یا ہیں تو ضمنی اور ثانوی۔

    (۴) یہ سبھی قصے کسی نہ کسی شکل میں ہماری عوامی روایت کا حصہ بنے رہے ہیں اور اس متعین اورمقررہ واقعاتی ڈھانچے کوطرزِ بیان اور تخیل کی رنگا رنگی نے طرح طرح کے نرالے روپ دے دیے ہیں، ان میں وہ قصے بھی ہیں جو ہمارے گاؤں، دیہاتوں میں مقبول رہے ہیں۔ وہ قصے بھی جوہماری نانی دادیاں سناتی آئی ہیں اور وہ بھی جن کا سلسلہ پنچ تنتر، ہتوپدیش یا الف لیلیٰ سے ملتا ہے۔ اس قسم کی کہانیوں کا اپنا ایک الگ شجرہ ہے اور ان کی نقل و حرکت ملکوں اور تہذیبوں کے درمیان تجارتی اور دوسرے تعلقات سے متاثر ہوتی آئی ہے۔

    چنانچہ ہندوستان، مصر، بابل، شام، ایران اور وسط ایشیا کے ذریعے ایسی لاتعداد کہانیوں کا لین دین ہوا ہے۔ اس خیال کا بار بار اظہار کیا گیا ہے کہ عین ممکن ہے کہ ہندوستان کی کہانیوں نے مال تجارت کے ساتھ الف لیلی کی سرزمین تک سفر کیا ہو اور وہاں سے عرب تاجروں کے ذریعے اٹلی کی بندرگاہوں تک رسائی حاصل کی ہو اور شیکسپیئر کو اپنے ڈراموں کے لئے کئی کہانیاں یہیں سے ہاتھ آئی ہوں۔ (اس قسم کے عوامی قصوں کا شجرۂ نسب پروفیسر مولٹن نے اپنی کتاب ’ورلڈ لٹریچر‘ میں تین عالمی تہذیبوں سے ملا دیا ہے۔ یونینی۔ سامی اور (جنوبی ایشیائی)

    کربل کتھا سے قبل کی روایت میں کم سے کم دو قصے قابل ذکر حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک ملا وجہی کی ’سب رس‘ جس کا تمثیلی طرز اپنی آپ مثال ہے اورجوتمثیلی پردے میں ایک متداول قصے کو نئے پیرایے کے ساتھ پیش کرتا ہے یہاں بھی معاملہ حسن و دل کا ہے جسے بعض محققین کرشن مشر کی ’’پربودھ چندر اودے‘‘ کا قصہ قرار دیتے ہیں اور کچھ فتاحیؔ کی فارسی تصنیف، دستور العشاق‘ کا دونوں صورتوں میں ملا وجہی کے قصے کے متداول عوامی قصہ ہونے میں کوئی شبہ ہے نہ اس کی اخلاقی معنویت میں نہ اس کے فوق فطری اجزا سے کام لینے کے انداز میں، ملا وجہی کے نزدیک قصے کی واقعیت اہم نہیں اس کی اخلاقی تمثیل اہم ہے جس کی نوعیت مذہبی اور متصوفانہ نہیں غیرمذہبی، آزاد خیالی اور عشق کی اولیت پرمبنی ہے۔

    دوسرے وہ تمثیلی قصے یا معمے ہیں جو شکارنامے کے نام سے دکن میں عام تھے اور نھیں عام طورپر خواجہ گیسو دراز بندہ نواز سے منسوب کیا جاتا رہا ہے، اسکا ایک نمونہ یہ ہے، ’’ہم چار بھائی تو دیہات سے ان میں سے تین کا لباس نہیں تھا اور اور چوتھا برہنہ تھا۔ جو بھائی برہنہ تھا اس کی آستین میں نقد تھا ہم چاروں تیر کمان خریدنے بازار گئے، قضا آئی اور چاروں مارے گئے اور چوبیں زندہ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اس وقت چار کمانیں نظر آئیں، تین ٹوٹی ہوئی تھیں اور ناقص تھیں اور ایک بے خانہ اور بے گوشہ اس برہنہ بھائی نے جس کے پاس پیسے تھے اس بے خانہ اور بے گوشہ کمان کو خریدا۔ تیر کی فکر ہوئی، چار تیر نظر آئے۔ تین ٹوٹے ہوئے تھے اور چوتھے میں پَر اورپیکان نہیں تھے۔ ہم نے بے پَر و پیکان تیر کو خریدا اور شکار کی تلاش میں صحراکوروانہ ہوئے۔ چار ہرن نظر آئے۔ تین مردہ تھے اور چوتھا بے جان تھا۔ بے جان ہرن پر بے پروپیکان چھوڑا گیا۔ اب شکار باندھنے کے لئے فتراک چاہئے۔ چار کمندیں نظر آئیں، تین پارہ پارہ تھیں اورایک کے کنارے اور وسط نہیں تھے۔ شکار اس بے کنارہ اوربے میانہ کمند میں باندھا گیا۔ اب ٹھہرنے کے لئے اور شکار کولپکانے کے لئے گھر چاہئے۔ چار گھر نظر آئے، تین ٹوٹے ہوئے تھے اور ایک کی چھت اور دیواریں غائب تھیں، ہم اس بے سقف اوربے دیوار گھر میں داخل ہوئے۔‘‘

    آخر میں شکار نامے کے مصنف ارباب نظر کو اس معمے کے حل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ معما تمثیلی ہے اور یہ قصہ جو عام طور پر مشہور ہوگا تصوف کی اصطلاحوں میں ڈھال لیا گیا ہے۔

    کربل کتھا نیم مذہبی، نیم تاریخی قصے کو بیان کرتی ہے تاکہ وہ عورتیں جو فارسی نہیں سمجھتیں، اپنی زبان میں امام حسینؓ اوران کے رفقا کی شہادت کا حال پڑھ اور سن سکیں۔ کربل کتھا انیسؔ کے مراثی سے تقریباً سو سال قبل لکھی گئی، لیکن یہاں بھی امام حسینؓ اور ان کے رفقا کے حلیے، لباس اورطرز عمل پر ہندوستانی معاشرت کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں۔ قصہ ظاہر ہے کہ ہندوستانیوں کے لئے لکھا گیا ہے، اس لیے اس قصے میں بھی ایسی متعدد ہندوستانی تفصیلات اور جزئیات شامل ہوگئی ہیں جنہوں نے اسے ہندوستانی روپ دے دیا ہے۔ قصہ یہاں بھی طبع زاد نہیں ہے، روایتی ہے اور وہ بھی ایسا جو ہمارے عوامی ادب کا جزو بن چکا تھا، جس پر شمالی ہند اور دکن میں نوحے، سلام، مرثیے، زاریاں تصنیف ہوچکی تھیں۔

    فضلی نے البتہ اس کو ایک اخلاقی محور دے کر ہندوستانی رنگ روپ بخش دیا ہے، کشمکش کی نوعیت مرئی ہے۔ کردار واضح طور پر سیاہ سفید رنگوں میں پیش کیے گئے ہیں، نیک ہر طرح نیک اوربد ہر طرح سے بد۔ یہ اور بات ہے کہ مصلحت خداوندی سے یہاں ہار برگزیدہ اور نیک بندوں کے مقدرمیں آتی ہے۔ یہی وہ آواز ہے جو اس دورکے شعری سرمایے میں دور تک گونجتی سنائی دیتی ہے۔ میرؔ کا قنوطی لہجہ ہو یا حاتم قائم اورنظیرؔ کا شہر آشوب، سودؔؔ کا شہر آشوب، سب میں نیکوں اور باکمال کی خواری اور زبوں حالی کا ماتم جا بجا ملتا ہے۔

    شاہ عالم کی تصنیف ’عجائب القصص‘ کولیجئے جوحال ہی میں دریافت ہوئی ہے، یہاں بھی قصہ کا نہج وہی الف لیلوی یا داستانی ہے، متداولہ قصہ ہے جس میں سات سوالوں کا جواب لانے پر محبوب کو پانے کا مدار ہے اوران سات سوالوں کے جوابات محض معلومات سے حاصل نہیں ہوسکتے بلکہ مرشد کامل کی ہدایت، توفیق الوہی اور ریاضت سے ملتے ہیں۔ دائرہ کار کے اعتبار سے ’سب رس‘ کے بعد ’عجائب القصص‘ سب قصوں میں زیادہ وسیع ہے لیکن یہاں بھی قصے کے بعض حصوں کو چھوڑ کر متداولہ رنگ غالب ہے۔ یہاں بھی اخلاقی مرکزیت نے کہانی کے دوسرے پہلوؤں پر غلبہ قائم کر رکھا ہے اوراس کی کوشش عوامی قصوں کو جوڑ کر ایک داستانی شکل دینے کی ہے۔ کردار سپاٹ اور ایک رُخے ہیں اورکہانی درکہانی کی الف لیلوی تکنیک کے علاوہ اس میں کوئی دوسری نُدرت نہیں ہے۔

    اسی سلسلے میں سعادت یار خاں رنگینؔ کی تصنیف ’اخبار رنگیں‘ کا تذکرہ بھی ضروری ہے جس میں اپنے دور کے مختلف واقعات اور لطیفوں کو رنگینؔ نے اس التزام کے ساتھ جمع کیا ہے کہ دل کوبادشاہ فرض کیا ہے اور اپنے کوبادشاہ کی خدمت میں پرچہ نویس کی حیثیت سے شہر یا دنیا کے مختلف حالات کی خبر پہنچانے والے کا روپ دیا ہے۔ ہر واقعے پر دل تبصرہ کرتا ہے اورہر تبصرے کے بعد ایک اردوکہاوت یا ضرب المثل ایک اردو اور ایک فارسی کا شعر دیا گیا ہے ان میں وہ مشہور شعر بھی ہے جو گویا اس پورے دورکی فضا کی عکاسی کرتا ہے،

    یہ جو کچھ ہے جہاں میں اس کے بیش و کم کودیکھا ہے

    ہمیں کیا دیکھتے ہو ہم نے اک عالم کو دیکھا ہے

    یہاں بھی مختلف قصوں کے ذریعے روایات اور روزانہ کے واقعات یکجا کرنے کی کوشش موجود ہے اوران سے کسی نہ کسی طریقے کا اخلاقی سبق حاصل کرنے کا تصور بھی ہے، جس سے مصنف کے عوامی روایات اور اس کے محافظ معاشرے سے گہرے تعلق کا اظہار ہوتا ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا بے محل نہ ہوگا کہ اسی قسم کے روز مرہ کے واقعات یا مشہور عشقیہ قصوں کو میرؔ اور سوداؔ اور قائمؔ نے اپنی مثنویوں کا موضوع بنایا ہے۔

    پھر قصہ مہر افروز و دلبر ہے جس کا زمانہ تصنیف ۱۷۳۲ء کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے۔ بادشاہ تاج و تخت سے بیزار ہوکر وارث کی آرزو میں جنگل میں ڈیرا جما لیتا ہے وہاں ایک فقیر ملتا ہے جس کی دعا سے مہرافروز کی پیدائش ہوتی ہے۔ ۱۴ سال کی عمرمیں مہر افروز شکار کا پیچھا کرتے کرتے ایک عجیب فرحت بخش باغ میں جا پہنچتا ہے جہاں مغلیہ طرز کے باغوں کی طرح فوارے ہیں۔ یہیں اس کی ملاقات دلبر سے ہوتی ہے۔

    شہزادہ اس کا پیچھا کرتا ہے مگرجنگل میں راہ بھول جاتا ہے۔ وزیر زادے کے کہنے پر شہزادے کے گانے سے جنگل کے سب جانور اس کے مطیع ہوجاتے ہیں اور بندروں کا راجا اسے ایک درویش آرزو بخش کے پاس لے جاتا ہے جو اسے شہزادے منورکا قصہ سناتا ہے جو خواب میں خطا کی بادشاہزادی دل رُبا پر عاشق ہوکر جادومیں پھنس گیا تھا جس سے رہائی اسی وقت ممکن تھی جب وہ پنّا کے بنے ہوئے توتے کے چونچ پر تا ک کر تیر مارے۔ مگرنشانہ خطا ہوا اور اس کا سرکٹ کرالگ جاگرا لیکن شہزادے کے وفادار تاجر زادے نے تاک کر نشانہ مارا اور شہزادے کو رہا کرالیا۔ پھر جب دلربا اپنے عاشق منور شاہ کے ساتھ جارہی تھی تو ایک چور اسے اغوا کر کے لے جاتا ہے تو بھی قنبرآباد کا بادشاہ سیدی جواہر اورایک ساہو کار بچہ ہی اسے واپس دلاتے ہیں۔

    ان دونوں واقعات سے تاجروں اور ساہوکاروں کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو آگے چل کر اتنی بڑھی کہ خود مغلیہ شہنشاہ شاہ عالم سے لے کر بہادر شاہ تک دہلی کے تاجروں اور ساہوکاروں کے قرضدار تھے اورایسٹ انڈیا کمپنی بھی اوی چند اور جگت سیٹھ جیسے ساہو کاروں سے مالی امداد حاصل کرتی تھی اس کے علاوہ مہرافروز و دلبر کی پوری فضا پر یہی غیر مذہبی سیکولر اور مشترک ہندوستانی تہذیب کے اثرات نمایاں ہیں۔ مہر افروز اور دلبر شادی کے بعد پورن ماسی کو چاندنی کی سیر کو نکلتے ہیں عین اسی وقت راجا اندر اپنی اپسراؤں کے ساتھ آسمانوں میں پرواز کر رہا ہوتا ہے، ’’اتفاق ایسا ہوتا ہے اندر واسطے سیر کے بمعہ اپچھراؤں نکلاہے سو دیکھ اس چاندنی کا ٹھاٹھ اور حسن کے طلسمات اورراگ و نانچ کا بناؤ بے اختیار کھڑا ہورہتاہے تو اس وقت کے بیچ میں چتر روپ پاترا تو نانچتی ہے اور گن ترنگ پگھا وجن پکھاو ج بجاوتی۔۔۔ اندر جو چھپا کھڑا تھا تس کے منہ سے بے اختیار واہ وانکل اتی۔۔۔ پھولوں کا منہ برساوتا ہے۔‘‘

    اس سیرو تفریح کے فوراً بعدمہر افروز مرجاتا ہے مگر شک ستتی کی کہانیوں کے طرزپر تو تا دلبر کو خود کشی کرنے سے باز رکھتا ہے اورمختلف قصے سناکر اس کا دل بہلاتا ہے، اسے جنگل کی طرف لے آتا ہے، جہاں درویش مراد بخش رہتا ہے اسے توتے کے کہنے سے دلبر بین بجاکر مست کردیتی ہے اور وہ خوش ہوکر دلبر کی مراد پوری کرنے کا عہد کرلیتا ہے، مہر افروز کو درویش زندہ کردیتا ہے اور توتا بھی انسانی قالب میں آجاتا ہے۔

    اس قصے کو کسی قدر تفصیل سے بیان کرنے سے مقصد یہ تھا کہ اس قصے کے پیچ و خم میں متعدد سنسکرت، قصوں اور قدیم روایات کے حصے ملتے ہیں، دوسرے مثنوی سحر البیان، گلزار نسیم اور امانت اور مداری لال کی اِندر سبھاؤں کی کہانوں کا ڈھانچہ بھی یہیں سے فراہم ہوتا ہے۔ یہ قصے گویا شہر اوردیہی معاشرت کی سرحد کو ظاہر کرتے ہیں، جہاں لوک کہانیوں اور روایتی افسانوں سے فن کار کا رشتہ ہنوز گہرا تھااور وہ فضا میں بکھرے ہوئے سبھی خزانوں کو طرح طرح سے محفوظ کرلینا چاہتا تھا اسی لیے طرز بیان میں بھی کہیں نک شک کا انداز ہے، کہیں بقول مرتب ’’کرشن بھکتی شاکھا کے کویوں کے اکثر اشعار جو نواح دہلی و آگرہ میں ضرب الامثال کے طور پر رائج تھے نثر کی شکل میں نقل کرتا ہے۔‘‘ شہر کی یہ تصویر دیکھئے جس میں دیہات کی سرحد صاف جھلکتی ہے، ’’جیوں جیوں بادشاہزادہ نزدیک شہر کے پہنچتا ہے تیوں تیوں اسے ایسی خوش وقتی ہوتی ہے گویا بادشاہزادے کا دل تو ہے کسان اور تن اس کا ہوا کھیت تس کوں حسن آباد کے جو سگھن سگھن درخت ہیں سوئی ہوئے شیام گھٹا اورپھول جو جھڑیں ہیں درختوں کے سوئی ہوئے بوند میں سوئے مانوں اس کا تن روپی جو ہے کھیت تس پے برسے ہے اور نہریں کے شہرکے ہرچہار طرف جاری ہیں و تالاب بھرے ہیں اور پانی میں جو ترنگیں چلتی ہیں سویے ترنگیں نہیں چلتیں دلبر کے بِرہ سے جو عاشق جلتاہے تس کے بجاونے کے واسطے ترنگیں اٹھتی ہیں۔‘‘

    نو طرز مرصع کی تصنیف ۱۷۶۸ء سے ۱۷۷۵ء تک کے دوران مکمل ہوئی قصہ اس کا معروف ہے۔ لیکن یہ بات البتہ قابل لحاظ ہے کہ یہاں بھی چاروں درویش تاجر ہیں اور خود باشاہ ان تاجر درویشوں کا ہم جلیس ہے خود ’مہرافروز و دلبر‘ میں بادشاہی کے چار ستون گِنوائے گئے ہیں، ’’امیر و سپاہ کے لئے مانند آگ کے ہیں دوسریں وزیر اورپڑھے اور دانا لوگ کہ یہ مانند باؤ کے ہیں۔ تیسریں سوداگر اور ساہوکار بے مانندپانی کے ہیں۔ چوتھیں رعیت اور جاتا بے مانند خاک کے ہیں۔‘‘

    پھر یہاں مادر برہمنا ں کے علاوہ فرنگیوں کا تذکرہ بھی جس انداز سے ہوا ہے وہ توجہ طلب ہے۔ وزیر ایک تاجر خواجہ سگ پرست کا حال بیان کرتا ہے، جس کے کتے کی گردن میں جواہرات کا پٹّا پڑا رہتا ہے، بادشاہ اسے غلط بیانی جان کر وزیر کی گردن مار دینے کا حکم دیتا ہے ’’یکایک ایلچی فرنگ کا دست بستہ کھڑا ہوا اور زبان بیچ شفاعت وزیر کے کھولی اور عرض کیا۔

    کیجے جان بخشی اور تقصیر معاف

    بات اس کی کہ نہ بوجھو تم زلاف

    ’’تجھ بادشاہ عادل رعیت پرور جو خون ناحق کرے اور وبال جان وزیر کا اپنے اوپر لیوے فراواں تاصف اور تہلف کا ہے۔ اول لازم یہ ہے کہ تحقیق فرمائے‘‘ ۔ (صفحہ ۲۴۴) یہ صورت خواجہ سگ پرست کے بیان کردہ قصے میں بادشاہ فرنگ اور اختر بادشاہ فرنگ کی ہے جو فراست میں فرد اور ہمدردی اور خدمت خلق میں یکتا نظر آتے ہیں۔

    نو طرز مرصع جو باغ و بہار کا نقش اول ہے خود اسی قسم کے متعدد قصوں کے سانچوں کی مرہون منت ہے اوریہاں بھی وہ تمام عناصر واضح طورپر ملتے ہیں جن کی نشان دہی قصوں کے سلسلے میں کی جاچکی ہے۔ باغ و بہار‘ فورٹ ولیم کالج کی تخلیق ہے اور فورٹ ولیم انگریز افسروں کی تربیت کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ مقصد صرف اردو سکھانا نہیں تھا بلکہ ہندوستان کی تہذیب اور فضا سے واقف کرانا بھی تھا جوقصوں کے ذریعے بہ آسانی ممکن تھا، جان گِل کرسٹ نے جو خواب دیکھا تھا وہ شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا اوربرطانوی حکمرانوں کو ہندوستان کے لوک کلچر سے واقف کرانے کا کام بیچ ہی میں منقطع ہوگیا اس نے لکھا تھا،

    A prophet is not required to predict that in a few years more, the gleam of learning in the day of Hastings and Jones will be totally eclipsed by that precious dawn in the Eastern love apparent now and which will

    then break forth with the meridian splendor to promote and confirm the happiness and prosperity of the British India۔

    Gilchrist, British Orientalists۔ 84

    فورٹ ولیم کی کہانیاں صرف طرزِ بیان اور آسان زبان کے کارنامے نہیں ہیں۔ ان کے ذریعے ہندوستان کے افسانوی ماضی کوپھر سے ترتیب دینے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ نو آموز صرف زبان ہی نہ سیکھیں بلکہ ’مشرق‘ کے ضمیر سے واقف ہوجائیں اوریہاں کے قصوں میں جھلکتی ہوئی تہذیبی اقدار اور فضا سے مانوس ہوسکیں۔ گلستاں، بوستاں، انوار سہیلی، پند ناموں کے ترجمے آرایش محفل، طوطا کی کہانی، سنگھاسن، بتیسی، مختصرکہانیاں اورہتوپدیش اورپنچ تنتر کی کہانیوں کے تعارف، یہ سب کچھ اس مہم کا حصہ تھا۔ یہاں اخلاقی تعلیم مرکزی حیثیت نہ رکھتی تھی بلکہ ہندوستان فہمی قدر اول تھی، لیکن ان کہانیوں کے پیچھے وہی قصوں کا درو بست تھا جس اجتماعی رشتوں سے ہم آہنگی پھوٹی پڑی تھی۔

    اس ضمن میں دو اوراہم نثری قصوں کا ذکرباقی رہ جاتا ہے جو فورٹ ولیم کے باہر لکھے گئے ان یں ایک انشاؔ کی رانی کیتکی کی کہانی ہے اور دوسرا رجب علی بیگ سرورؔ کا فسانہ ٔ عجائب۔ انشاؔ کی رانی کیتکی بھی اپنی فضا کے اعتبار سے لوک کتھاؤں ہی کا روپ ہے اور اس کی فضا، واقعات کردار اور طرز بیان طبع زاد عناصر رکھتے ہوئے بھی اس مخصوص معاشرے کی آواز ٹھہرتے ہیں جس کی آسودگی کا سامان فراہم کیا گیا ہے، وہی سادھو اور درویش جن کے منتر چوکتے نہیں، وہی فوق فطری عناصر پھربھروسہ، وہی سیکولر عجمی کردارجن کے رشتے صناعوں کے ہاتھوں پروان چڑھنے والی اس مدنی تہذیب سے ملتے ہیں، وہی تصورِ اخلاق جس میں رنگین مزاجی جرم نہیں نشاظ زیست کاحصہ ہے۔ غرض ہیئت اجتماعی کے تانے بانے کی حیثیت سے انشاؔ کی رانی کیتکی اُبھرتی ہے۔

    ’فسانہ عجائب‘ کے قصے کا بھی یہی حال ہے۔ یہاں بھی طبع زاد عناصر موجود ہیں لیکن قصے کا درو بست روایتی ہے، شہر سے شغف زیادہ ہے بلکہ ہر لفظ اسی شہرکی محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔ فوق فطری عناصر سے یہاں بھی کام لیا گیا، بندر کی تقدیر نے فسانے کے اخلاقی پہلو کو نمایاں کردکھایا ہے۔

    پسرمجسٹن کے کردار نے اس نئے تہذیبی عناصرکا بھی تعارف کرادیا ہے جو ہندوستان کی معاشرت میں دخیل ہونے لگا تھا اور سیکولر لب و لہجہ اس جوگی کے کردار میں صاف جھلکتا ہے جو اس مشترک تہذیب کا نام لیوا ہے جو کبیر، نام دیو، نانک اور نظیر سے ہوتی ہوئی اردوادب کی فکری بنیاد بن چکی تھی۔ ’’ہر گرو کا نام لیا پھرکلمہ جو پڑھادنیا سے چل بسا۔ دم نکل گیا۔ جوگی مسافر عدم بینکٹھ باسی رم گیا، جان عالم کا روتے روتے دم گیا۔۔۔ شہزادے نے بموجب وصیت غسل کرایا، کفنایا، قبر تک اُتارتے اتارتے کچھ نہ پایا۔ آخر کار برابر کفن پھاڑ دیا، آدھا چیلوں نے جلایا، نصف مریدوں نے منڈھی میں گاڑ دیا۔ ہندوؤں نے راکھ پر چھتری بنائی، مسلمانوں نے قبر بناکر سبز چادر اڑھائی۔‘‘

    ’فسانٔ عجائب‘ میں توتے کا کام آنا اور ملکوں ملکوں کی سیاحت، درویشوں اورپیر مردوں کا مدد کرنا، یہ سب کچھ پرانے قصوں کے درمیان مشترک ہے اورہیئت اجتماعی کا حصہ نظرآتا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی مہجور کی نورتن ہے جو لوک کتھاؤں کو قصے کہانی کے روپ میں پیش کرتی ہے۔

    ان قصوں کے بنیادی سانچے میں مماثلت موجود ہے لیکن بنیادی سانچا ایک نہیں ہے، دوسرے ان تمام قصوں میں واقعات کم و بیش پہلے سے مشہور قصوں پر مبنی ہیں اورہیئت اجتماعیہ کا حصہ ہیں، تیسرے ان میں ایک اخلاقی پہلو وحدت پیدا کرتا رہتا ہے۔ عام طورپر جنگ و جدل ان قصوں کا بنیادی حصہ نہیں ہے۔ گو جابجا اس سے کام لیا گیاہے لیکن یہ سبھی خصوصیات آگے چل کر ہمارے داستانی ادب میں کچھ کی کچھ ہوجاتی ہیں۔

    داستان کا رواج گو پرانا ہے لیکن لکھنؤ میں اسے جو فروغ ملا اسکی نظیر دوسری جگہ نہیں مل سکتی۔ بلاشبہ داستان میں مشہور قصوں سے بھی کام لیا گیا۔ فوق فطری عناصربھی کام میں لائے گئے لیکن تخیل کی جو وسیع دنیا یہاں آراستہ کی گئی وہ قصوں میں اس دروبست کے ساتھ ناپید ہے۔ اس کے علاوہ یہاں طبع زاد واقعات اورکرداروں کی گنجائش کہیں زیادہ اور کہیں بہتر طورپرنکل آتی ہے۔

    داستان نے عام طور پر اپنے کونمائندہ کرداروں میں ڈھال لیا۔ امیرحمزہ اوران کے عیار ن میں عمر و عیار سب کے سربراہ ٹھہرے خداوند بقا سے نبرد آزما ہیں۔ یہاں نزاعی معاملہ محض فتح ممالک یا فتح طلسمات نہیں ہے بلکہ قصوں کے اخلاقی مقاصد نے ذرا آگے بڑھ کر مذہبی مقاصد بھی اختیار کرلیے ہیں۔ مشترک تہذیب یہاں بھی جا بجا نظر آتی ہے لیکن فضا کہیں زیادہ اسلامی ہے اور ساری کشمکش خیر و شر کے بجائے اسلام اور کفر کے درمیان جنگ و جدل کی نوعیت اختیار کرلیتی ہے، جس کی کلیدی اہمیت یہ ہے کہ محض توفیق الٰہی اور فراست دنیو ی کی مدد سے امیر اوران عیارجادوگروں کی ساحری پر فتح یاب ہوتے ہیں اور فوق فطری کارنامے سر انجام دیتے ہیں۔ ان کہانیوں میں ابتدائی کہانیوں کی طرح کمزورکے طاقتورپر فتح یاب ہونے کی محیر العقول داستانیں بیان ہوئی ہیں یہ ایک ایسے دور میں اعتماد اورحوصلہ بحال رکھنے کے لئے ضروری تھیں جو شکست سے دوچار تھا۔ گوڈرڈ نے لکھا ہے، The Earlier stories are invariably the tales of the physically strongest and most perfect over-thrown and defeated by the weaker by the less physically strong, by the more intellectually potent, It is Always a giant killed by the insignificant jack, of the fire-rating dragon killed by rainfly knight, Grendel killed by Beowulf, of barer for outwitted by barer rabbit۔

    قصوں اور داستانوں میں بنیادی فرق محض ہیئت اوراسلوب کا ہی نہیں ہے فرد اوراجتماعی آہنگ کا بھی تھا۔ قصوں میں مثالی کردار فرد کا تھا جسے مختلف قسم کی مہمات درپیش تھیں جوجان عالم بن کر توتے کی رہنمائی میں حسیناؤں کی تلاش میں بھٹکتا تھا، کبھی کنور اودے بھان بن کر بَن بَن گھومتا تھا اور درویشوں اورسادھوؤں کی دعاؤں سے منزل مراد تک پہنچتاتھا۔ داستانوں میں امیر حمزہ اور ان کے عیاروں کا پورا گروہ خداوند بقا کے پورے گروہ سے صف آرا تھا۔ ان کے مقاصد بھی عموماً اجتماعی ہیں، گو بیچ بیچ میں انفرادی معاشقے اورنجی فتوحات بھی پیش آتی رہتی ہیں اور عمر و عیار خصوصاً اپنی پُر مزاح حرکتوں سے بہت کچھ اپنی زنبیل میں ڈالتے رہتے ہیں، پھرقصوں کے برعکس یہاں سارا زورجنگ و جدل پر ہے۔

    گو یہاں کی نشاطیہ محفلوں کا بھی جواب نہیں، مگراصل مہمات رزمیہ ہی ہیں اس لحاظ سے دیکھا جائے تو و جنگ مغلوبہ اس کا وقت کا ہندوستانی سماج برطانوی سامراج کے خلاف لڑ رہاتھا اس کا بدل تخیلی دنیا میں داستانیں فراہم کر رہی تھیں، عملی دنیا میں شکست کھائی ہوئی تہذیب تخیل کے پردے میں نئے مورچے جمارہی تھی اور فتح کے شادیانے بجارہی تھی، وہاں بھی اسے دشمن کے کہیں زیادہ طاقتور اورباوسیلہ ہونے کا اعتراف تھا لیکن توکل اور قناعت، ایمان کی قوت اورتوفیق الٰہی کی مدد جو عملی دنیا میں زیادہ کام نہیں آپاتی تھی داستان کی تخیلی دنیا میں نئے جوہر دکھا رہی تھی اور عبد الحلیم شررؔ کے ناولوں کی طرح شکست کے لمحوں میں جذباتی آسودگی کا سامان فراہم کر رہی تھی۔

    اب یہ اس طبقے کی آواز نہ تھی جو قصبات اوردیہات کی سرحدوں پر تھا اور محض ہیئت اجتماعی میں بکھرے ہوئے ان قصوں کو یکجاکر رہا تھا جو اس کی معاشرت میں سکہ رائج الوقت کا استناد حاصل کرچکے تھے، اب داستانوں کے پیچھے وہ طبقہ ابھررہاتھا، جس کا رشتہ دیہی معاشرت سے ٹوٹ چکا تھا۔ دیہات کی تصویر کشی، دیہات کے رہنے والوں کی گنوارو تہذیب کا مذاق سب اس کی گواہی دیتا ہے۔ اب اس طبقے کوجذباتی اور تخیلی سطح پر آسودگی حاصل کرنے کے لئے طبع زاد کہانی کی ضرورت تھی اس میں رنگینی، چٹ پٹاپن اور جنگ و جدل کی سنسنی خیز ی موجود ہو اب یہ طبقہ شہری معیشت میں ایک تہذیب کی شکست و ریخت سے دوچار تھا اوراس سے تخیل کی سطح پر داستان کے ذریعے مقابلہ کر رہا تھا۔

    ہیئت اور اسلوب کے اعتبار سے بھی یہ فرق نمایاں ہے۔ ہیئت کے اعتبار سے داستان کہانی در کہانی کی تکنیک کو اختیار کرتی ہے اور چونکہ اجتماعی مہمات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لہٰذا ایک کے بجائے مختلف ہیرو طرح طرح سے اپنی ذہانت، فراست، شجاعت کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں بھی کردار سکہ بند ہیں اور اچھے بہت اچھے، بہادر، حسین اورپاک باز ہیں، بُرے سبھی خرابیوں کے پتلے ہیں اور ان کی بنیادی شخصیت میں ارتقا نہیں ہوتا، وقت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا وہ کبھی پتھر کے ہوجاتے ہیں، کبھی پھر انسانی قالب میں واپس آاتے ہیں۔ شکلیں ہی نہیں جسم بدلنے میں بھی انہیں مہارت ہے گو وہ انسان ہیں لیکن فوق فطری قوتوں سے متصف بھی ہیں۔ ایک داستان کے اندران سے دوسری داستان برآمد کر نے کی telescopic تکنیک ان کے لئے مخصوص ہے یہ گویا ’خبر‘ کی ابدیت کا رجز ہیں جنھیں کسی قدر مذہبی پیرایے میں پیش کیا گیا ہے۔

    اسلوب کے اعتبار سے بھی داستانوں نے اپنا تخیلی رنگ برقرار رکھا، ایک ایسا خواب ناک اسلوب اُبھراجس میں تخیل کی ساری کیفیت قائم رہ سکے اور جس کے ذریعے اندازِ بیان کے سلسلے کو زیادہ سے زیادہ دلچسپ اور کسی قدر بیانیہ بنایا جاسکے۔ داستانیں عام طورپر مجمعوں میں بیان کی جاتی تھیں، چھپ کر پڑھے جانے کا سلسلہ بعدکا ہے اس لیے مجمعوں کے سامنے بیان کرنے کے لئے جن پینتروں کی ضرورت ہوتی تھی، ان سے برابر کام لیا جاتا رہا، مختلف طبقوں کی تہذیب، ان کے مرد و زن کی خاص گفتگو، ان کی معاشرت، نشست و برخاست، تفریح اور سماجی میل جول کے طورطریقے انھی کے لب و لہجے میں بیان ہوئے اور داستان گو نے آرایشی طرز بیان کو اختیار کیا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی پیش نظر رکھنے کی ہے کہ داستانوں میں بنیادی کشمکش بھی مرئی ہے، مرئی مقاصد کے لئے ہے اور مرئی گمراہیوں کے درمیان ہے۔

    اس منزل تک پہنچتے پہنچتے ہندوستان کی تہذیبی بساط اُلٹ چکی تھی۔ سیاسی طور پر ہندوستان انگریزوں کا غلام ہوچکا تھا۔ معیشت اورمعاشرت کا رخ بدل چکا تھا۔ اقتصادی لوٹ کا مال اب انگلستان جارہا تھا۔ نتیجے کے طور پر اہل حرفہ تباہ ہوچکے تھے اور اس مشترک کلچر کی بنیاد ٹوٹنے لگی تھی جو اکبر کے دور سے مختلف شہروں، کاروباری مراکز اور قصبات کے گرد بننے لگا تھا۔ ۱۸۵۷ء کی آخری جنگ کے بعد تاب مقاومت ختم ہوگئی اور تہذیبی، اقتصادی، سیاسی اور فکری سطح پر مغرب سے سمجھوتے کی کوششیں ہونے لگیں۔ انہیں کوششوں سے ناول وجود میں آیا جس نے سماجی اصلاح کو مقصد قرار دیا اور ایسے نئے طرزکی کہانیاں بیان کرنا شروع کردیں۔ جن میں نہ تو فوق فطری عناصر تھے نہ میر امّن، توتے نہ جان عالم۔ ناول کا موضوع فرد اورنئی معاشی صورتحال سے پیدا ہونے والے سماج کے باہمی رشتوں کا تعین ٹھہرا اور اس کے لئے جس عظیم الشان ذہنی تبدیلی اور مفاہمے کی ضرورت تھی اس نے نئے ناول کوجنم دیا اسی لیے نذیر احمد اپنے ناولوں کو قصے کہتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ان کا اصلاحی اوراخلاقی پہلو، واقعات کی ترتیب اور کرداروں کی تشکیل کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم تھا۔

    ناولوں نے اول تو واقعاتی ڈھانچے کو بدل دیا۔ داستان کی سی کہانی در کہانی کی تکنیک قائم رہی، نہ قصوں کی ماورائیت اور تخیلی فضا۔ مافوق فطری عناصر بھی خارج کردیے گئے کیونکہ زندگی کا وہ تصور بدل گیا جو فوق فطری عناصر سے بے محابا کام لینے کا قائل تھا اور انہیں انسانی زندگی کا ایک حصہ جانتا تھا۔ غیر متوقع واقعات کی توقع رکھتا تھا۔ اتفاقات کا قائل تھا اور اسباب و محرکات، سبب اور علل کے رشتوں کو ناگزیر جانتا تھا۔ ناول کا قصہ طبع زاد تھا۔ دوسرے ادبی مآخذ کی مدد سے تخلیق کیا گیا تھا جس کی تخلیق میں فن کار کی انفرادی شخصیت، اس کے ارد گرد کے سماج میں بکھرے ہوئے قصوں کو محض یکجاکرلینے پر اکتفا کرنے پر تیار نہ تھی۔ وہ ان واقعات کو اپنی ذات کا انفرادی آہنگ بخشنا چاہتا تھا اور ان طبع زاد قصوں کے ذریعے پرانے قصوں کو نہیں اپنے دور کی زندگی کی عصری حقیقتوں کو نئے رخ سے پیش کرنا چاہتا تھا۔ یہاں کہانی اور اس کی ترتیب پر اس کی شخصیت کی چھاپ تھی۔

    لیکن یہ تنہا شخصیت، یہ نئی انفرادیت آخر کیا تھا؟ اس کی پہچان، کردار اور مسائل سے بہ آسانی ہوسکتی ہے۔ اب داستانوں کے شہزادے اور قصوں کے امیر زادوں کی جگہ ایک متوسط طبقے کے عام نوجوانوں نے لے لی اور اس کی زندگی کے مسائل ناول کا موضوع بننے لگے۔ ان موضوعات میں صرف مرئی کشمکش اور مرئی چیزوں یا مقاصد کے لئے کشمکش ہی شامل نہ تھی بلکہ پہلی بار قدروں کی آویزش کی گونج سنائی دیتی تھی۔ ’توبۃ النصوح‘ میں نصوح اورکلیم کسی محبوبہ کے حصول کے لئے نہیں ٹکراتے۔ سرشارؔ کے ’فسانہ آزاد میں گو آزاد حسن آرا ہی کے حصول کے لئے نکلے تھے مگر پورا ناول جلدچہارم کی جس تقریر پر ختم ہوتا ہے اس کا موضوع قدروں کی تبدیلی ہے۔ حسن آرا نہیں جس کے پس منظر میں لکھنوی تہذیب ایک ٹریجڈی کے ہیرو کی طرح اُبھرتی ہے۔

    امراؤجان اداؔ میں اُمراؤ جان کا سہارا Crisis اقدار کا ہے۔ دوبارہ سماجی استناد اور احترام پانے کا ہے اوراس صورت میں ہیرو سبھی نیک، شجاع ہیں اور خوبیوں کا مجموعہ تو ہیں لیکن نہ تو خوبصورتی یکتا اور بے نظیر ہیں۔ (نصوح کا حلیہ اور امراؤ جان کی شکل صورت عام لوگوں کی سی بین کی گئی ہے اوران میں کوئی غیر معمولی کشش نہیں دکھائی گئی ہے) پھر ولن کی شخصیت میں کچھ ایسے دلکش عناصر بھی ہیں جواسے کبھی کبھی ہیرو سے بھی زیادہ دلکش بنادیتے ہیں۔ نصوح جیسے خشک، پارسا اور غیردلچسپ کردار کو جو شکل و صورت کے اعتبار سے دلکش ہے نہ شجاعت میں فرد ہیرو بنانے کی ہمت، کوئی قصہ گویا داستان گو نہ کرسکتا تھا۔

    امراؤ جان اداؔ جیسی عورت کوجو بازاری عورت ہے اور جس کو سماج قبول کرنے سے انکار کرتا ہے، قصہ یا داستان کا مرکزی کردار نہیں بنایا جاسکتا تھا، اسی طرح کلیم جیسی دل کشی رکھنے والا، شعرو سخن میں فرد، دوستی میں کھلا ڈالا اور دلچسپ کردار قصہ اور داستان میں ولن نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان ناولوں میں اکثر ناول نگار کی خواہش کے برخلاف ہیرو سے زیادہ اہمیت یا تو ولن کو یا کسی ثانوی کردار کو حاصل ہوجاتی ہے۔ نذیر احمد کونصوح عزیز ہیں لیکن ناول پڑھنے والے کوکلیم کا بانکپن، نصوح سے زیادہ بھاتا ہے اور ظاہر دار بیگ کے ثانوی کردار کا نقش اس کے دل پر دوسروں سے کہیں گہرا ہوتا ہے۔ اسی طرح سرشارؔ کا ناول آزاد کا فسانہ ہے، مگر خوجی کا کردار مرکزی حیثیت اختیار کرلیتا ہے اور آزٓد کے کردار کوکہیں پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ یہی حال شررؔ کے شیخ وجودی کا ہے جو فردوس بریں کے ہیرو سے کہیں زیادہ دلکش ہوجاتا ہے۔

    پہلی بار ناول کے کرداروں میں انفرادیت اور تہہ داری اُبھرتی نظر آتی ہے۔ یہ کردار نہ محض ٹائپ ہیں نہ محض عمل، ان کے پیچھے نظام اقدار ہے اوران کی باطنی زندگی کشمکش سے یکسر عاری نہیں ہے۔ یہ سوچتے اور بے قرار ہوتے ہیں، تڑپتے اور تڑپاتے ہیں اور ان کے فکر و اضطراب کا سبب محض عشق یا ایمان نہیں، ان قدروں کی تلاش و جستجو ہے جوبدلتے ہوئے حالات میں کام دے سکیں۔ یہاں نہ کوئی کشمکش کی نوعیت مرئی اورنظر آنے والی ہے نہ ولین اور ہیرو صاف صاف، الگ الگ اور سیاہ و سفید رنگوں میں پیش کیے گئے ہیں اور ان کے اندرنہ صرف انسانی کردار کے بلند و پست، نیکی اوربدی کے بہت سے پہلو یک جا نظر آتے ہیں بلکہ ان کی شخصیتوں میں نئی تہہ داری اور پیچیدگی کا بھی پتا چلتا ہے۔ نہ کشمکش کا مقصد مرئی ہے، یہاں نہ محبوبہ کا حصول پیش نظر ہے، نہ بے دروازہ قلعوں کی فتح مقصود ہے۔ غرض کہ بنیادی آویزش کا محور خارج کے بجائے باطنی ہوتا جاتا ہے اور ٹکرانے والے عناصر مرئی کے بجائے غیر مرئی اورماورائی یا مادی کے بجائے تصوراتی ہوتے جاتے ہیں۔

    ناول کو صنعتی دور کا رزمیہ کہا گیا ہے۔ ہندوستان میں صنعتی دورکی آمد سے پہلے ہی مغرب کے اثر سے ناول کا عرو ج ہونے لگا تھا اور درمیانی طبقے کے عروج کے ساتھ ساتھ قدروں کی تبدیلی اورنئے سماجی حالات سے مطابقت اورہم آہنگی کی خواہش نے ناول کے تصور کوجنم دیا۔ یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ دیہی اور مدنی زندگی کی سرحدوں پر بسنے والے صناع طبقے کے ہاتھ سے زمام اقتدار چھن چکی ہے اور ہیئت اجتماعی سے فرد کے رشتے آہستہ آہستہ ڈھیلے پڑنے لگے ہیں، وہ بھی اس وجہ سے کہ اجتماعی زندگی کے درو بام میں گونجنے والے افسانے اور متداول قصے اب اسے تسکین نہیں دیتے، وہ محض سماج کا جزو نہیں بلکہ اس سے کٹتاجارہا ہے اوراسے اپنی نئی صنمیات اورنئے افسوں بنانے کی ضرورت ہے جن سے نئے افسانے بُنے جاسکیں۔

    اس راہ سے اردوادب میں ناول کی مختلف شکلیں داخل ہوئیں، ان میں تاریخی ناول تھے جو تاریخی واقعات اورکرداروں سے خام مواد کا کام لے کر جنھیں نئے رنگ روپ دیتے تھے اوران میں اپنی شخصیت ہی کا نہیں اپنے دور کی محرومیوں اور تشنہ کامیوں، شکستوں اورآرزوؤں کا وسیلہ اظہار ڈھونڈتے تھے۔ عبد الحلیم شررؔ کے متعدد ناول جو اپنے دور میں مقبولیت کی معراج حاصل کرچکے ہیں۔ اسی قسم کی تخیلی آسودگی اور Emotional Compensation کا نتیجہ ہیں۔ پھر وہ ناول ہیں انہیں تہذیبی پکار سک قرار دیا جاسکتا ہے، جن میں فرد کوئی تمدن کا اشاریہ بن کر سامنے آتا ہے اور اس کی کہانی گویا تہذیب اور تمدن کی وسیع تر تصویر کشی کا بہانہ ہوتی ہے اس کی سب سے نمائندہ مثال ’فسانۂ آزاد‘ ہے جس میں ایک عظیم الشان تہذیب کا عظیم الشان اختتامیہ رقم ہوا ہے۔ پھر فرد اور سماج کے درمیان مطابقت کی وہ آویزش اور تلاشِ توازن ہے جونذیر احمد کے ناولوں کا موضوع بنا۔ پھرامراؤ جان اداؔ ہے جس نے فرد کے اندرون کو زیادہ تہہ داری اورہمدردی سے پیش کرنے کی کوشش کی اور اس کی ذات میں بنتی بگڑتی قدروں کی دھوپ چھاؤں کا مطالعہ کیا۔

    اس کے آگے بیسویں صدی کی سرحد ہے جس نے پریم چند کوجنم دیا۔ جن کے ناولوں نے کسانوں اور مزدوروں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا اورنئے ہندوستان کی نئی فکری اورطبقاتی جہات کی عکاسی کی، فرد کا ایک نیا تصور بخشا جو سورداس ہوری، دھنیا سے ہوتا ہوا ان کے مختصر افسانوں کے گھیسو اورمادھوتک پہنچتا ہے۔ یہاں فردکی داخلی کشمکش بھی زیادہ گہری، پیچیدہ اور معنی خیز ہوجاتی ہے اور سما ج کئی طبقوں میں بٹ کر زیادہ واضح سماجی اور طبقاتی شعور کا وسیلۂ اظہار بننے لگتا ہے۔ مختصر افسانے میں حقیقت نگاری کی یہ روایت ناول ہی کے ذریعے پہنچی اور پریم چند کا افسانہ ’کفن‘ اس کا بڑا ہی واضح اورانقلابی نشان بن گیا۔

    پھر بیسویں صدی کے اردوناول کی پوری روایت ہے جس کا ایک رشتہ نیازؔ کے شہاب کی سرگزشت اور قاضی عبد الغفار کے لیلیٰ کے خطوط کی رومانیت سے جڑا ہوا ہے اور دوسرا ترقی پسند تحریک کے ان ناول نگاروں سے جن میں کرشن چندر، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی اور ہمارے اپنے دور میں قرۃ العین حیدر، عبد اللہ حسین، خدیجہ مستور، ممتاز مفتی، شوکت صدیقی سے لے کر ترقی پسند حلقے سے باہر کے ناول نگار حیات اللہ انصاری تک شامل ہیں۔ انھیں کے ساتھ ساتھ مختصر افسانے کا کارواں ہے جو فکر و فن کی راہوں پر گامزن ہوا اورناولوں کی آویزش کو مختصر کینوس پر زیادہ بلاغت کے ساتھ پیش کرنے میں کامیاب ہوا۔

    اس داستان کا دوسرا سرا اس علامتی اظہار سے جاملتا ہے جس نے آویزش کی نوعیت ہی کو تبدیل کردیا ہے اور اسے خارجی کے بجائے علامتی شکل میں ڈھال دیا جسے عہدِ جدید میں خصوصی مقبولیت حاصل ہوئی۔

    مأخذ:

    ادبی سماجیات (Pg. 35)

    • مصنف: محمد حسن
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1983

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے