Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو کی مرکزیت اور زبان دانی حقائق کی روشنی میں

ماہر القادری

اردو کی مرکزیت اور زبان دانی حقائق کی روشنی میں

ماہر القادری

MORE BYماہر القادری

     

    چند دن سے پنجاب اور دکن کے ادبی حلقوں سے ’’اردو کی مرکزیت‘‘ اور ’’پیدائش‘‘ کے متعلق نامانوس صدائیں ہمارے کانوں میں آرہی ہیں۔ پنجاب والوں کا دعویٰ ہے، ’’چونکہ اردو جرائد و رسائل کی کثرت میں ہندوستان کا کوئی خطہ پنجاب کا مقابلہ نہیں کرسکتا، اس لیے پنجاب کو ’’اردو مرکز‘‘ ماننا چاہیے اور پنجاب میں جو اردو بولی جاتی ہے، وہ صحیح ہے اور اس کی ترویج عام ہونا ضروری ہے۔‘‘ 

    بعض لوگ دبی زبان سے پنجاب کو اردو کی ’’جنم بھومی‘‘ ہونے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں۔ اہل دکن کہتے ہیں، ’’چونکہ تراجم، تصنیفات، وضع الفاظ اور عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام کے اعتبار سے دکن کی برابر ہندوستان کے کسی حصے نے اردو کی خدمت نہیں کی، لہٰذا دکن کو اردو کی مرکزیت کاشرف حاصل ہے۔ دکن کی اردو کو تحریر و تقریر میں استعمال کرنا چاہیے۔ دہلی و لکھنؤ کی اردو کی تقلید بیکار چیز ہے۔ ہم خود اہلِ زبان ہیں۔ اردو زبان نے دکن میں ہی جنم لیا تھا۔۔۔‘‘ 

    ہم اس فرصت میں اس معرکۃ الآرا مسئلہ پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ ہم کو امید ہے کہ ہماری مخلصانہ گزارش پر نیک نیتی کے ساتھ ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے گا۔ ہمارا مطلب ملکی تفوق و ترجیح یا ذاتی مکابرت و منافرت نہیں ہے۔ ہم ان غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں جس کا شکار ہمارے عزیز دوست ہو رہے ہیں، کاش اس مضمون کا اسی جذبۂ خلوص و محبت کے ساتھ مطالعہ کیا جائے، جو جذبہ اس مضمون کا محرک ہوا ہے۔ 

    درراہِ ماشکستہ دلی می خرندوبس
    بازارِ خو وفروشی، ازاں راہِ دیگراست

    اردو نے کہاں جنم لیا؟ یہ مسئلہ بعض حضرات کی نظر میں نہایت اہم ہے، مگر میرے خیال میں یہ چیز کسی عنوان سے بھی قابل التفات اور وجہ تفوقُّ و ترجیح نہیں ٹھہرسکتی۔ اردو سے قطع نظر کرکے، دوسری زبانوں پر غور کرو تو یہ مسئلہ اچھی طرح واضح ہوجائے گا۔ فرض کرو، کوئی لنکا (سیلون) کا باشندہ یہ دعویٰ کرے کہ انگریزی زبان لنکا سے نکلی ہے، پہلے پہل لنکا ہی میں اس کو بولا گیا تھا۔ لہٰذا جس طرح لنکا کے عیسائی انگریزی بولتے ہیں، اسی طرح انگلستان کے باشندوں کو بولنا چاہیے۔ انگریزی کی موجودہ قواعد قابل تنسیخ و ترمیم ہے، انگلستان کو سیلون کی تقلید کرنی چاہیے، کیونکہ انگریزی نے اسی جگہ جنم لیا تھا۔‘‘ 

    فرض کیجیے کہ انگریزی کا لنکا میں پہلے پہل بولاجانا ثابت بھی ہوجائے تو انصاف سے بتائیے کہ کیا کوئی مردِ معقول ایک لمحے کے لیے اہل لنکا کے اس دعوے کو تسلیم کرسکے گا اور کیا انگلستان والے اہل لنکاؔ کی متابعت میں، اپنی رواج پائی ہوئی زبان کے روپ کو بدل دیں گے؟ اور کیا اس قسم کی تبدیلی انگریزی زبان کے لیے پیغامِ تباہی و ہلاکت نہ ثابت ہوگی؟ یہ ہی حال اردو زبان کا ہے۔ 

    فرض کیجیے کہ پنجاب یا دکن میں ہی اردو پیدا ہوئی تھی تو یہ کیا ضرور ہے کہ اس خطے کے رہنے والے بھی جہاں اردو کو علمی زبان کی حیثیت حاصل ہوئی، پنجاب و دکن کی تقلید شروع کردیں۔ اگر دنیا کی تمام زبانوں کو اسی معیار پر جانچا جائے تو پھر اہل زبان کے لیے بڑی دشواریوں کا سامنا ہوگااور ترقی یافتہ زبان کو اگر اس کی ابتدائی حالت کی جانب لوٹایا گیا تو یہ ترقی معکوس، بد سے بدتر نتائج پیدا کرے گی، جس کے صرف تصور سے تمدن و عمرانیت کی پیشانی کو عرق آلود ہوجانا چاہیے۔ اس حقیقت کو ایک مثال کے ذریعے سمجھیے تاکہ کسی قسم کا اشکال ہی باقی نہ رہے۔ 

    ایک بچہ جو بچپن میں پانی کو ’’مم‘‘ اور روٹی کو ’’آہا‘‘ کہتا تھا، جوان ہوگیا۔ اب وہ ’’مم‘‘ کو ’’مم‘‘ نہیں کہتا، پانی کہتا ہے۔ ’’آہا‘‘ کو روٹی بولتا ہے۔ اب کوئی سادہ لوح اس جوان آدمی سے، جس کے قوی صحیح و مکمل ہوچکے ہیں، جو بچپن کی منزل طے کرچکا ہے، یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ’’تم جو الفاظ بچپن میں بولتے تھے، وہی الفاظ بولو۔ پانی کو ’’مم‘‘ روٹی کو ’’آہا‘‘ چاند کو ’’مموں‘‘ کہو۔ تمہارے بچپن کے بول بہت میٹھے تھے، اب تم یہ کیا لٹھ سا مار رہے ہو۔‘‘ تو للہ ازراہِ عدل و انصاف بتائیے کہ کیا یہ مطالبہ ٹھکرادینے کے قابل ہے یارد کردینے کا مستحق ہے۔ اگر وہ جوان بچپن کی زبان میں گفتگو کرنا شروع کردے تو اس کی اس حرکت پر دنیا ہنسے گی یا تعریف کرے گی اور اس کو خود بچپن کی زبان بولنے میں کتنی دشواریوں کا سامنا ہوگا۔ 

    یہ رجعت قہقری تو صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اس جوان کو کوئی ایسی سریع الاثر دوا کھلائی جائے کہ اس کی جوانی بچپن سے بدل جائے، اس کی قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبان لڑکھڑانے لگے اور اس کے دل و دماغ کی تمام صلاحیتوں پر جہل و عدم معرفت کے بادل چھاجائیں۔ بالکل یہی حال اردو زبان کا ہے۔ ہمارے مہربان دوستوں کے بقول اردو پنجاب یا دکن میں ہی پیدا ہوئی تھی، تو یہ چیز بالکل واضح ہے کہ یہ بچہ دہلی اور لکھنؤ میں پروان چڑھا اور وہاں اس پر شباب کی تمام کیفیات طاری ہوگئیں۔ اس بچے نے پنجاب و دکن میں بزمانہ طفولیت جو الفاظ بولے تھے، اَب جوان ہونے کے بعد اس سے ان کو بولنے کاآخر کیوں مطالبہ کرتے ہیں۔ آپ یہ کیوں چاہتے ہیں کہ وہ اچھا خاصہ بولتا ہواتتلانے لگے۔ منجھی ہوئی صاف زبان تتلی ہوجائے۔ ’’میں نے روٹی کھائی‘‘ کو ’’میں روٹی کھایا‘‘ (دکھنی اردو) اور ’’مجھے وہاں جانا ہے‘‘ کو ’’میں نے وہاں جانا ہے‘‘ (پنجابی اردو) بولنے لگے۔ 

    آپ جوان کو بچہ، بڑے کو چھوٹا، ترقی یافتہ کو مائل بہ تنزل، آخر کیوں بنانا چاہتے ہیں؟ ایک شخص جو گڑھے سے نکل کر سطح زمین پر آچکا ہے، اس سے گڑھے میں اوندھے منہ گرنے کی کس لیے خواہش کی جاتی ہے؟ اس حقیقت کو سمجھے کے بعد اب یہ بات گرہ باندھ لیجیے کہ اس زبان کو جو علمی حیثیت اختیار کرچکی ہو، ابتدائی منزل کی طرف لوٹانا زبان کی تخریب و تباہی کاایک ایسا خوفناک منصوبہ ہے جس کی تہ میں بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کسی زبان پر حقیقی معنوں میں اسی وقت زبان کااطلاق ہوسکتا ہے، جب وہ علمی زبان بن گئی ہو، اور اس کی تمام ثقالت، ابتدائی کمزوریاں، اوائل کی بے ربطیاں، اور بے اصولیاں دور ہوگئی ہوں۔ 

    اس بات کا ہر شخص کو قرار ہے کہ دہلی لکھنؤ نے اردو کو علمی زبان بنایا۔ قلعہ معلیٰ کی صاف و شفاف نہروں میں اردو غوطے لگاکر نکھر گئی۔ اکبر آباد نے اجلا جوڑا پہنایا اور لکھنؤ نے اس کی آنکھوں میں کاجل لگایا، زلفوں میں شانہ کیا، ہاتھوں میں مہندی لگائی، چبانے کے لیے نفیس گلوریاں دیں کہ ہونٹ لال ہوجائیں، جب یہ دلہن بن سنور کر، بدایوں، علی گڑھ، بلندشہر، بریلی، مرادآباد، وغیرہ مقامات پر پہنچی تو وہاں اس کا بڑے جوش کے ساتھ خیرمقدم کیا گیا اور اس کے گلے میں بیش قیمت ہار ڈال دیے۔ اب آپ چاہیں کہ یہ بنی سنوری دلہن گھٹنیوں چلتی ہوئی بچی ہوجائے، اس کے زریں لباس کو تار تار بنادیا جائے، اطلس کی حسین و نرم چولی مسکادی جائے، حنائی ہاتھو ں کو مٹی میں سان دیا جائے، سنورے ہوئے بال پریشان کردیے جائیں، لال ہونٹوں پر کوئلہ پھیر دیاجائے، گلے کی بیش قیمت مالاؤں کو توڑ کر سیاہ کپڑے میں لپٹے ہوئے تعویذ ڈال دیے جائیں تو غور فرمائیے کہ آپ کی یہ خواہش کس درجہ مضحکہ انگیز ہے۔ 

    اس تمام داستان کا حاصل یہ ہے کہ جس جگہ کسی زبان نے علمی حیثیت اختیار کی، اس جگہ کے لوگ اہلِ زبان کہے جائیں گے اور دوسرے لوگ ان ہی لوگوں کے محاورات و مصطلحات کی تقلید کریں گے، جہاں زبان صحیح معنوں میں ’’زبان‘‘ بنی۔ 

    مرکزیت اور ادبی خدمات
    دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پنجاب رسائل و جرائد کا مرکز اور دکن وضع اصطلاحات اور تراجم کا گھر ہے۔ لہٰذا پنجاب و دکن ہی کو مرکزیت حاصل ہے اور وہاں کی زبان، صحیح و درست اور وہاں کے باشندے اہل زبان ہیں۔ فرض کیجیے اگر ہندوستان سے فارسی کے اتنی کثیر تعداد میں اخبارات و رسائل نکلنے لگیں کہ ایران گرد ہوجائے، فارسی کی بہت سی لغات یہاں ترتیب دی جائیں اور جدید الفاظ بھی وضع کیے جائیں تو کیااس صورت میں ہندوستان کے باشندوں کو اہلِ زبان کہاجائے گا اور فارسی کی ان خصوصیات اور نزاکتوں کو پس پشت ڈال دیا جائے گا جو جسم فارسی کی روح ہیں؟ 

    اسی طرح اگر آج پنجاب کے بجائے بنگال اور برما سے اردو کے رسائل بکثرت شائع ہونے لگیں اور وہاں بھی ادبی ادارے قائم ہوجائیں تو کیا بنگال و برما کے بسنے والوں کو اہلِ زبان کہاجائے گا؟ جب فارسی کی حدتک ہندوستان اور اردو کی حدتک بنگال و برماکے باشندوں کو اہل زبان نہیں کہہ سکتے تو پنجاب و دکن کے رہنے والے بھی ’’اہل زبان‘‘ نہیں کہے جاسکتے۔ پنجاب و دکن کی ادبی خدمات کااعتراف نہ کرنا گناہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پنجاب کے رسائل واخبارات نے اردو کی بڑی نشر و اشاعت کی، دکن نے اردو لٹریچر میں قابل قدراضافہ کیا، عثمانیہ یونیورسٹی کے اردو نصاب نے اردو کی اہمیت و جامعیت کاسب سے لوہا منوالیا، مگر افسوس تو اس کا ہے کہ پنجاب اور دکن کی عام زبانوں پر اردو ’’لسانی خصوصیت‘‘ کاکوئی اثر نہیں پڑا۔ 

    پنجاب و دکن کے انشا پرداز تحریر میں دہلی و لکھنؤ کی تقلید کرتے ہیں مگر بولنے میں اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ بات یہ ہے کہ پنجاب و دکن کے گھرانوں میں صحیح اردو زبان کی ترویج نہ ہوسکی۔ گھر میں عورتوں کی بولی کابچوں کی زبان پر بڑااثر پڑتا ہے۔ پنجاب و دکن کی خواتین اپنی ملکی زبان بولتی ہیں، ان کے بچے بھی اسی کی تقلید کرتے ہیں، وہ بچے جو ادبی ذوق رکھتے ہیں، بڑے ہوکر بچپن کی سیکھی ہوئی زبان کے بھلادینے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے دل و دماغ سے وہ گہرے نقوش دھندلے ہوجاتے ہیں مگر مٹتے نہیں۔ اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عام زبان کی کوئی اصلاح نہیں ہوتی اور چلنے والے پرانی ڈگر پر بدستور چلے جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوں کی زبان کو سدھاراجائے تاکہ ایک دو نسل کے بعد پنجابی اور دکنی بچے بھی وہی زبان بولنے لگیں، جو مصری کی ڈلی سے زیادہ شیریں اور گلاب کی پتی سے کہیں بڑھ کر سبک و نازک ہے۔ 

    یہ دورنگی کتنی افسوسناک ہے کہ ہمارے پنجابی اور دکنی بھائی لکھتے کچھ ہیں اور بولتے کچھ ہیں۔ اس کمزوری کا سبب اوپر بیان ہوچکا ہے۔ اب اختلاف کی وجہ سنیے۔ میں نے بعض پنجابی اور دکنی حضرات کو نہایت سلیس اردو بولتے سنا ہے مگر اس سلاست کے باوجود وہ اس داستان میں دو ایک ایسے ٹکڑوں کا اضافہ کردیتے ہیں کہ افسانہ بے ربط سا ہوجاتا ہے اور وہ خود شرما جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف نثر میں وہ بہت ہی کم غلطی کرتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ گفتگو کرنے میں سوچنے کا موقع کم ملتا ہے، زبان پر چڑھے ہوئے الفاظ کو لاکھ احتیاط کے ساتھ بولاجائے، پھر بھی غیرارادی طور پر نکل ہی جاتے ہیں۔ تحریر میں سوچنے کا کافی موقع ملتا ہے اور گنجائش وقت اور فرصت کے پردے میں اس کمزوری کو چھپایا جاسکتا ہے۔ 

    وضعِ اصطلاحات، دارالترجمہ، اور یونیورسٹی کے قیام کے سبب ہمارے عزیز بھائی دکن کو اردو کا ’’سب کچھ‘‘ بنادینے کی سعی میں مصروف ہیں۔ میں دکن کی ادبی خدمات کااوپر اعتراف کرچکاہوں مگر اس بات کو قریبی جملے میں واضح کیا جاچکا ہے کہ دکن کی عام زبان پر وضع اصطلاحات، دارالترجمہ اور یونیورسٹی کے قیام کا کوئی مفید اثر نہیں پڑا۔ اورجس زبان میں ترجمہ کیا جارہا ہے اور یونیورسٹی کے نصاب کی کتابیں، جس اردو زبان پر مشتمل ہیں، اس زبان کا دکنی باشندوں نے کوئی خاص اثر قبول نہیں کیا اور ان کی بولی ٹھولی میں کوئی نمایاں فرق پیدا نہیں ہوا۔ پھر واضعین لغت و اصطلاح، مترجمین اور جامعہ عثمانیہ کے اساتذہ کی بڑی تعداد بھی غیردکنی افراد سے عبارت ہے، لہٰذا جو کچھ اس سلسلہ میں کیا جارہا ہے وہ ان ہی حضرات کی کوششوں کانتیجہ ہے جو زیادہ تر اطراف دہلی اور جوانبِ لکھنؤ سے تعلق رکھتے ہیں۔ 

    البتہ حکومت دکن کی مالی اعانت اور بیدار مغزوعلم دوست فرماں روا (خلد اللہ ملکہ) کی رفعتِ ذہنی ان تمام مساعی کی ذمہ دار ہے۔ خسرو دکن کایہ احسان اردو ادب کی تاریخ میں زریں حروف میں لکھا جائے گا۔ مگر ان سنہری حروف کے دامن میں یہ عبارت بھی پڑھنے والے کے دل میں چٹکی لے گی کہ، ’’اردو زبان کی صحت و سلاست سے اہل دکن نے افسوس کہ کوئی خاص فائدہ نہ اٹھایا۔‘‘ حافظ شیرازی نے اسی حقیقت کی اپنے شعر میں ترجمانی کی تھی، 

    چوگاں بدست داری و گوئے نمی زنی
    بازے چنیں بدست و شکارے نمی کنی

    زبانوں کا اختلاف
    اب سوال اردو کی مرکزیت کاآتا ہے۔ پنجاب و دکن کے بعض افراد کہتے ہیں کہ، ’’ہم اپنے یہاں کی زبانوں ہی کو تحریر و تقریر میں کیوں نہ استعمال کریں، اور یوپی (دہلی و لکھنؤ) کو ہی مرکزیت کافخر کیوں حاصل ہے، یا رہے۔‘‘ پہلے تو اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مرکزیت ہر انجمن، مذہب، قوم، ملک اور جماعت کی جان ہے۔ جو ملک ’’مرکزیت‘‘ کاجوہر زائل کردے گا، تباہ ہوجائے گا۔ ہندوستان کے سیاسی انتشار اور فقدانِ مرکزیت نے ہی اسے یہ روزِ بد دکھایا کہ فرنگیوں کی ٹھوکروں پر اس کی جبینِ نیاز جھکی ہوئی ہے۔ پنجاب و دکن کے اختلافاتِ لسانی آفتاب کی طرح روشن ہیں اور یوپی کاان دونوں خطوں سے زبان کی حدتک اختلاف بھی کسی حدتک دلیل کا محتاج نہیں۔ 

    اب اگر پنجاب، دکن، یوپی، بہار، بنگال کے باشندے اپنی اپنی زبان (اردو) ہی کو رواج دینا شروع کردیں تو اردو کی مرکزیت پارہ پارہ ہوجائے گی۔ اور پھر اردو زبان ’’چوں چوں کامربہ‘‘ ہوکر رہ جائے گی۔ لہٰذا اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ کسی ایک خطہ کی زبان پر سب کا اتفاق ہوجائے اور اسی کے سرپر مرکزیت کاغیرفانی تاج رکھ دیا جائے۔ 

    مرکزیت کاتعین بھی کچھ مشکل نہیں ہے، صرف ذرا غور و تدبر کی ضرورت ہے۔ اب تک اردو ادب میں جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، وہ سب اسی زبان سے عبارت ہیں، جو اطرافِ لکھنؤ اور سمت دہلی (صوبہ متحدہ) میں رائج ہے۔ پنجاب، دکن اور بہار کے انشاپردازوں نے بھی اسی زبان کاتتبع کیا ہے، دہلی و لکھنؤ کے علاوہ دوسرے خطوں کے شعرا نے بھی اسی زبان کو استعمال کیا ہے۔ آج کل جو کچھ لکھا جارہا ہے، وہ بھی اسی دہلی و لکھنؤ کی زبان میں رنگا ہوا ہے۔ یعنی ہمارے ادب کا سارا سرمایہ دہلی و لکھنؤ کی مروجہ زبان سے عبارت ہے۔ 

    لہٰذا ثابت ہوا کہ دہلی و لکھنؤ کی زبان کو خودبخود مرکزیت حاصل ہوچکی ہے اور ہندوستان کے تمام دوسرے خطے ان مقامات کی زبان پر ’’ایمان بالغیب‘‘ لاچکے ہیں۔ اب اس مرکزیت کے خلاف، جو قائم ہوچکی ہے، کوئی اقدام کرنا، دوسرے معنوں میں اردو کے شیرازے کو منتشر کرنا اور بنی بنائی عمارت کو ڈھادینا ہے۔ زبان کا معیار مقرر ہوچکا ہے، کھوٹا کھرا پرکھاجاچکا ہے۔ آپ آزمودہ سچی کسوٹی کے بجائے اور چند مختلف الماہیت کسوٹیاں بنانا چاہتے ہیں۔ اس صورت میں آخر کھوٹے کھرے کی تمیز کیسے ہوگی؟ آپ کی ایک کسوٹی، ایک چیز کو کھری اور دوسری کسوٹی، اسی کو کھوٹی بتائے گی تو صحت و عدم صحت کا یہ اختلاف آپ کو کس قدر خلجان میں مبتلا کردے گااور اس کا ازالہ سوائے اس صورت کے ہو ہی نہیں سکتا کہ صرف ایک معیار قائم کیاجائے، اور تمام کسوٹیوں کے انتشار و انفرادیت کو اسی ایک کسوٹی کی مرکزیت میں ضم کردیاجائے۔ 

    پنجاب، دکن، بہار و بنگال کی زبانیں اگر اپنی جگہ پر مستقل حیثیت اختیار کرلیں اور ان کو علمی زبان کا درجہ نصیب ہوجائے تو ایسی صورت میں ہرخطہ کی ایک نئی قواعد (گرامر) اور نئی لغت (ڈکشنری) ہوگی اور کسی غیرزبان کاجاننے والا اس وقت تک اردو زبان کی تمام خصوصیات پر حاوی نہ ہوسکے گا جب تک کہ مختلف قواعد کا مطالعہ نہ کرلیا جائے۔ ایسی صورت میں غیرزبان دانوں کو کس قدر دقتوں کاسامنا ہوگا اور وہ اس اختلافِ لغت اور تبائن قواعد کو دیکھ کر کتنی الجھن میں مبتلا ہوجائیں گے۔ دنیا کی ہر زبان قواعد کے اعتبار سے وحدت و یکسانی رکھتی ہے اور قواعد کی یہی وحدت زبان کی جامعیت و مرکزیت کی دلیل ہے۔ پس آپ اختلافِ قواعد کے ہاتھوں اردو کو دوسری زبانوں کے سامنے ذلیل و رسوا کرکے یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اردو جامعیت و مرکزیت کی حامل نہیں ہوسکتی، لیکن آپ نے اس حقیقت کو بھی سمجھ لیا ہے کہ جو زبان جامعیت و مرکزیت نہیں رکھتی، وہ علمی زبان نہیں بن سکتی۔ 

    اگر آپ دہلی و لکھنؤ کی زبان کو مرکزیت کادرجہ دینا نہیں چاہتے تو نہ دیجیے۔ ’’دکن‘‘ یا ’’پنجاب‘‘ کے ہی سر اس سہرے کو باندھ دیجیے مگر اس صورت میں آپ کو اردو ادب کا سارا سرمایہ برباد کردینا پڑے گا کیونکہ یہ سب کاسب سرمایہ اسی اردو سے عبارت ہے جو دہلی و لکھنؤ میں بولی جاتی ہے۔ غور فرمائیے کہ اس سرمایہ کو بربادکردینے کے بعد اردو کاوجود باقی رہ سکے گا؟ اگر آپ نے اصلاح اور تجدید کا واقعی بیڑا اٹھالیا ہے تو پھر میرؔ، غالبؔ، دردؔ، مومنؔ، داغؔ اور امیرؔ کے دواوین کے پرخچے اڑادیجیے کہ یہ لکھنؤ اور دہلی کی پیداوار ہیں۔ باغ و بہار، آبِ حیات، شعر العجم، حیاتِ سعدی اور موازنہ انیس و دبیر کے پرزے پرزے کردیجیے کہ ان پھولوں سے دہلی و لکھنؤ کی بو آتی ہے۔ کیا آپ اس کے لیے تیار ہیں؟ میں جوش و مبالغہ سے کام نہیں لے رہا، واقعیت بیان کر رہا ہوں۔ 

    اگر آپ اصلاح و تبدیلی چاہتے ہیں تو پورے طور پر کیجیے۔ اگر دیوار ٹیڑھی ہوگئی ہے تو اس کو سرے سے گراکر دوسری دیوار بنائیے، کج دیوار پر اگر آپ نے اینٹیں چن دیں تو عمارت کی استواری معلوم! اگر دیوار ٹیڑھی نہیں ہے تو پھر اسی دیوار پر رنگ و روغن کیجیے۔ اسی طرح دہلی و لکھنؤ کی اردو اگر آپ کی نظر میں بھلی معلوم نہیں ہوتی تو پھر قدیم و جدید ادبی سرمایہ کو غارت کرکے ادب کی نئی بنیاد ڈالیے اور اگر ایسا نہیں ہے تو اسی سرمایہ کو رہنما بنائیے اور اسی کو وسعت دیجیے۔۔۔ میری نصیحت آپ کو تلخ معلوم ہوگی لیکن آپ کے کام و دہن نے اس تلخی کو گوارا کرلیاتو پھلوں کی مٹھاس کالطف بھی آپ ہی اٹھائیں گے۔ 

    اہل زبان کی خصوصیت
    کہا جاتا ہے کہ، ’’یوپی (اطرافِ دہلی و لکھنو واکبرآباد) کے لوگ بھی تو چاقو کو ’’چقویا چکو‘‘ چادر کو ’’چدر‘‘ ہاون دستہ کو ’’امام دستہ‘‘ بولتے ہیں۔ اگر ہم (ساکنانِ خطہ ہائے دکن و پنجاب) غلطی کرتے ہیں تو کیوں موردِ طنز و تشنیع بنائے جاتے ہیں اور اس وقت ان کی زبان دانی کہاں چلی جاتی ہے؟‘‘ 

    آپ کے اعتراض کا پہلا حصہ بالکل صحیح ہے۔ یوپی کے اَن پڑھ اور جہلا واقعی چاقو کو ’’چقو‘‘ اورچادر کو ’’چَدَّر‘‘ کہتے ہیں۔ آپ اتنی سی بات پر حیرت کرتے ہیں۔ لائیے میں آپ کی معلومات میں ایک اور مفید اضافہ کردوں۔ وہاں کے بعض جُہلا نظر کو ’’نجر‘‘ اور قبر کو ’’کبر‘‘ اور جلدی کو ’’زلدی‘‘ اور طشتری کو ’’تشتری‘‘ بولتے ہیں لیکن ان تمام خرابیوں کے باوجود وہ اہلِ زبان ہونے کا بجاطور پر دعویٰ کرسکتے ہیں۔ یہ غلطیاں ان کے جہل اورعدم تعلیم کے باعث ہوتی ہیں۔ اگر وہ تعلیم حاصل کرلیں تو مخارجِ حروف کو صحیح طور پر ادا کرنے لگیں مگر ان میں کا جاہل سے جاہل شخص یہ نہیں کہے گاکہ ’’بیگم صاحب تشریف لائے تھے، میرے کو پانچ روپیہ ہونا، میں نے خط لکھنا ہے۔‘‘ 

    مطلب عرض کرنے کا یہ ہے کہ وہ اہل زبان جاہل جو ادائے مخارج پر قادر نہیں ہے، زبان کی غلطی نہیں کرسکتا۔ فعل، فاعل، مبتدا، خبر اورمتعلقات کی جو ترتیب زبان میں قائم ہوچکی ہے، اس سے سرِمو تجاوز نہیں کرتا، اس لیے اس کو اہل زبان کہا جائے گا۔ وہ شخص اس جہل کے باوجود محاورات کا جا وَبے جا استعمال نہ کرے گا اور زبان کی نزاکت و لطافت پر اس کی نظر ہوگی۔ اب ایسے جاہل شخص سے جوادائے مخارج پر تو قادر نہیں ہے مگر زبان کے چٹخارے سے واقف ہے، آپ کہتے ہیں کہ، ’’تو اپنی زبان پر کیوں مٹاجاتا ہے، ہماری زبان اختیار کر، یا ہماری فصاحت کا لوہا مان لے۔‘‘ تو وہ غریب فغانی کی زبان سے بزبانِ حال اس کا یہی جواب دے گا،

    ایکہ! میگوئی چراجامے بہ جانے میخری
    ایں سخن باساقی ماگو کہ ارزاں کردہ است

    ذاتی پسندیدگی
    پنجاب والے کہتے ہیں کہ ’’میں نے دہلی جاناہے‘‘ کی ’’نے‘‘ میں ہم کو بڑا مزہ آتا ہے۔ دکن والوں کا کہنا ہے کہ ’’میں پانی پیا‘‘ ہم کو اچھا معلوم ہوتاہے۔ اس میں ’’نے‘‘ کا دم چھلا کیوں لگایا جائے۔‘‘ 

    اس کا جواب یہ ہے کہ آپ پر یہ لسانی کیفیات آخر چند دن سے کیوں طاری ہوگئی ہیں۔ حیرت ہے کہ اتنے دن جس شراب کو پی کر، آپ دل و دماغ کو محوِنشاط بناچکے ہیں، آج اس شراب مصفی کو چھوڑ کر ’’دردِ تہ جام‘‘ سے اپنی پیاس بجھانا چاہتے ہیں۔ کیا اس تلچھٹ سے آپ کی سیری ہو بھی سکے گی؟ پھر زبان کے معاملے میں ذاتی پسندیدگی و ناپسندیدگی کی دلیل تو ناقابلِ قبول ہے۔ کوئی بمبئی کا میمن بولے کہ ’’ہم شالا (سالا) تم سے روپیہ لے کر چھوڑے گا۔‘‘ اور وہ کہے کہ ’’سالا‘‘ ہم کو اس موقع پر بڑا اچھا معلوم ہوتا ہے، تو کیا اس کے اس عذر کو قبول کرلیا جائے گا۔ زبان تو وہی پسندیدہ ہے، جس پر سب اتفاق کرچکے ہوں، جس کو قبولِ عام حاصل ہوچکا ہو اور جس کو اس خطے کے لوگ بولتے ہوں، جہاں وہ زبان بنی، سنوری ہو۔ آپ جس چیز کو آب حیات سمجھتے ہیں وہ زبان کے حق میں سم قاتل ہے۔ 

    پس اگر آپ صحیح معنوں میں اردو ادب کے بہی خواہ ہیں، اردو کی مرکزیت کو پارہ پارہ کرنا نہیں چاہتے، اردو کو باقی رکھنا چاہتے ہیں تو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ نہ بنائیے۔ یہ اردو ادب کی وسعت و تعمیر کازمانہ ہے۔ اس دور میں کوئی ایسا کام نہ کیجیے جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جائے اور تعمیر کو تخریب سے بدل دے۔ زبان کے معاملے میں ’’ملکی عصبیت‘‘ کو دخل نہ دیجیے۔ خیال میں وسعت پیدا کیجیے۔ اردو، دہلی و لکھنؤ والوں کی ہی نہیں ہے، آپ کی بھی ہے، بشرطیکہ آپ اس کا حق سمجھیں اور اس کی صحیح حفاظت کریں،

    اِدراکِ حالِ مازنگہ می تواں نمود
    نحتے زحالِ خویش بہ سیمانوشتہ ایم

     

    مأخذ:

    Saqui Salnama Jild-11 (Pg. 34)

      • ناشر: شاہد احمد دہلوی
      • سن اشاعت: 1935

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے