aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو میں راماین،مہابھارت اور شری مد بھگوت گیتا کے مسلم مترجمین

اجے مالوی

اردو میں راماین،مہابھارت اور شری مد بھگوت گیتا کے مسلم مترجمین

اجے مالوی

MORE BYاجے مالوی

    ہندوستانی ادبیات میں دو رزمیہ صحائف ہیں۔ایک راماین اور دوسرا مہابھارت ہے۔ان کی ابدی(Eternal) جمالیاتی(Aesthetic)، قدریاتی(Axiological)، علمیاتی(Epestimological) ، وجودیاتی (Existential)، عرفانیاتی(Ontological) ،قدسیاتی(Sacred Most) اور الوہیاتی(Divine Most) معنویت اور قدر و قیمت ہے۔ بالمیکی راماین سناتن دھرم کا پہلا رزمیہ صحیفہ ہے۔ جو مہابھارت سے قبل دوسری یا تیسری صدی میں وجود میں آ چکا تھا۔اس صحیفہ میں بھگوان شری رام چندر جی کے حالات زندگی کا بیان طویل ترین نظمیہ پیرائے میں کیا گیا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبودکے لیے رام نے سرزمین ہندستان میں مثال(آدرش) قائم کرنے کے لیے اوتار لیا۔ رام مریادا پرشوتم تھے۔ دشرتھ اور کوشلیہ کے فرمابردار بیٹے تھے۔ رام بھرت، شتروگھن اور لکشمن کے شفیق بھائی تھے۔ رام سیتا کے محبت شعار خاوند تھے۔ رام اجودھیا کے فرض شناس تھے۔ رام جری سپہ سالار تھے ۔رام بے گناہ اور مظالم کے دوست تھے۔ رام رحم وکرم کرنے والے تھے اوررام انصاف پسند، غریب پرور اور ایثار و قربانی کی زندہ مثال تھے۔ رام راماین کے مثالی کردار ہیں۔ انھوں نے عوام کے لیے ایک روشن مثال قائم کی ہے کہ بیٹوں کو فرمابردا ر، بھائیوں کا باہم برادرانہ پیار و یگانگت ،میاں بیوی کے درمیان محبت،وفا او رایثار و قربانی کا جذبہ ،بادشاہ کو انصاف پسند، غریب پرور ، رحم و کرم نواز ہونا ناگزیر ہے۔ رام نے جو آدرش راماین میں پیش کیے ہیں وہ صرف کسی ایک خاص فرقہ یا قوم تک محدود نہیں ہیں بلکہ وہ آ فاقی اور عالمگیرکردار کا امین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیا کی تمام زبانوں میںرام کی عظمت کا اعطراف ہوا ہے۔بالمیکی نے سب سے پہلے بھگوان شری رام چندر جی کے حالات زندگی کا بیان عوامی سنسکرت زبان میں نظم کے پیرائے میں کیا ہے۔

    راماین ہندوستان کا مہابیانیہ (Metanarative) ہے۔ جو ہندستان کی اجتماعی (Collectively) تہذیبی اور مذہبی روح کی نمائندگی کرتا ہے۔ سناتن دھر م کی تبلیغ و تشہیر کے لیے رشیوں اور منیوں نے سنسکرت زبان کو اپنایا۔ وید،راماین اور مہابھارت جیسے مقدّس صحائف سنسکرت زبان میں ہی لکھے گئے لیکن کوئی بھی مذہب زبان کا محتاج نہیں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی کتابیں بہت جلد زبان کے حصار سے باہر نکل جاتی ہیں اور اس کا ترجمہ دنیا کے مختلف زبانوں میں ہو جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ راماین کا پہلا ترجمہ تلسی داس نے رام چرت مانس کے نام سے اودھی زبان میں تقریباً 1574میں کیا۔ جس میں بھوج پوری اور برج کی بولی کے اثرات نظر آتے ہیں۔ اس کو قلم بند کرنے میں تلسی داس کو دو سال سات مہینے اور چھبیس دن لگے۔ جس دور میں تلسی داس جی اودھی زبان میں راماین کا ترجمہ کر رہے تھے اسی دور میںفارسی زبان میں پہلا ترجمہ اکبرِ اعظم کے حکم سے ایک دیندار مسلمان عبدالقادر بدایونی نے 1589 میں نثر میں کیا تھا۔ اس کے بعد شہنشاہ جہاںگیر کے عہد حکومت میں راماین کا ترجمہ ملا سعد اللہ مسیح کیرانوی نے کیا تھا، جس میں اشلوک کی تعداد 5407 ہے۔

    سناتن دھرم کا زیادہ تر تبلیغی ادب اردو زبان میں ہے۔ یہ ذخیرہ اتنا بڑا ہے کہ ہندو مذہب سے متعلق ہندوستان کی دوسری زبانوں کے مقابلے میں اُردو میں ہندو مذہب کا سرمایہ اگر سب سے زیادہ بھی نہیں ہے تو کسی سے کم بھی نہیں ہے بلکہ بیش تر زبانوں سے زیادہ ہے۔ اس وسیع اور بیکراں ادب کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تمام زبانوں کی طرح اردو زبان میں بھی راماین کے بے بہا تراجم ہوئے۔ اُردو کا مزاج ہمیشہ سے ہی سیکولر رہا ہے اور مذہبی رواداری اس کے خمیر میں داخل ہے۔ ہندو شعرا و ادباء کے شانہ بشانہ مسلم ادباء و شعرا نے بھی رام کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ جنھوں نے اردو زبان میںنظم،غزل،مثنوی،رباعی،ناول اور ڈرامہ کی ہیت میں راماین نظم کی ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق اردو زبان میں تقریباً ڈیڑھ سو راماین اب تک شائع ہو چکی ہیں۔ راماین کا ترجمہ کرنے والے مسلم ہ ادباء و شعرا میںجناب مہدی نظمی،طالب الہ آبادی،نفیس خلیلی، رند رحمانی، محمد امتیاز الدین خاں ، صفدر آہؔ،مولوی عبدالستار،نور الحسن نقوی،زہرہ نگاہ،عبدلصمد یار خاں ساغرؔ نظامی،طاہرہ بانو سعید،ظفر علی خاں اور ضامن علی خاںوغیرہ کے نام قابلِ ذکر و فکرہیں۔ عبدلصمد خاں ساغرؔ نظامی نے نظمیہ اشعار کے ذریعہ رام کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی عقیدت کے پھول چڑھائے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے:

    زندگی کی روح تھا روحانیت کی شان تھا

    وہ مجسم روپ میں انسان کا عرفان تھا

    ہندیوں کے دل میں باقی ہے محبت رام کی

    مٹ نہیں سکتی قیامت تک حکومت رام کی

    رانی کیکئی کی خواہش تھی کہ اُس کا بیٹا بھرت اجودھیا کی راج گدّی پر نشین ہو اور رام چودہ برس کا بنواس بھوگیں۔ مہدی نظمی نے رانی کیکئی کی تصویر کتنی خوبصورتی کے ساتھ کھینچی ہے۔ رانی کیکئی کا راجہ دشرتھ سے ور مانگنا، رام کی فرمابرداری اور راجہ دشرتھ کا بے ہوش ہو کر گرنا بہت ہی کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے۔

    اک روز ہنس کے کیکئی بولی کہ اے حضور

    ہر شخص یاد رکھتا ہے اپنا وچن ضرور

    تھا آپ کا یہ قول کہ اے شاہِ نیک خوں

    پوری کریں گے آپ مری اک آرزو

    دشرتھ یہ بولے اپنا سخن یاد ہے مجھے

    جو تم کو دے چکا وہ وچن یاد ہے مجھے

    چرنوں کو چھو کے کیکئی بولی بہ احترام

    میں چاہتی ہوں آپ سے اے شاہِ نیک نام

    جنگل میں گھر سے رام کو بے آس بھیج دیں

    چودہ برس کے واسطے بن واس بھیج دیں

    یہ آرزو ہے میری کہ اے شاہِ خاص و عام

    میرا پسر بھرت کرے شاہی بجائے رام

    جاتے ہیں بن کو رام زمانہ ہے سوگوار

    ہے بوڑھا باپ دردِ جدائی سے بے قرار

    کہتی ہے رو کے ساری رعایا نہ جائیے

    چودہ برس کو جانبِ صحرا نہ جائیے

    رام،سیتا اور لکشمن جنگل جنگل گھومتے ہیں۔ راستے میں انھیں ایک پتھّر کی چٹّان ملتی ہے۔ رام کے پیر جیسے ہی اس پتھّر کی چٹّان پر پڑتے ہیں۔ وہ چٹّان ایک خوبصورت عورت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ گوتم رشی کی بیوی اہلیہ بہت خوبصورت تھی، راجہ اندر کو جب اس کا علم ہوا، تو اس نے اہلیہ کو دیکھا اور اس پر فریفتہ ہو گیا۔ وہ گوتم رشی کا بھیش بدل کر ان کی کُٹیا میں جاتا ہے۔ رشی روز صبح گنگا نہانے جاتے تھے۔ واپس آکر دیکھا کہ اندر روپ بدل کر کُٹیا سے نکل رہا ہے۔ انھوں نے اہلیہ کو بد دعا دی اور اُسے پتھّر کی چٹّان بنا دیا۔طالبؔ الہ آبادی نے اہلیہ پر رام کی بیکراں شانِ رحمانی ، شانِ رحیمی اور شانِ کریمی کا کیمیا اثر جذبات انگیز منظر نامہ نہایت ہی فنّی بصیرت اور چابک دستی سے پیش کیا ہے۔

    اہلیہ پری تھی بڑی سندر تھی

    بَری عیب سے تھی گنوں سے بھری تھی

    بڑی دلربا تھی بڑی باوفا تھی

    وہ سیوا میں رہتی تھی ہر دم پتی کی

    کسی نے کہا راجہ اندر سے جاکر

    اہلیہ سے کوئی نہیں آج سندر

    یہ سن کے کہا راجہ اندر نے اچّھا

    کروں گا میں جلدی اہلیہ پر قبضہ

    رشی روز جاتے تھے گنگا نہانے

    جہاں مُرغ بولا چلے تڑکے تڑکے

    ابھی رات آدھی تھی بارہ بجے تھے

    رشی لیکن آواز پر اُٹھ کے بیٹھے

    رشی جی اِدھر چل پڑے سوئے گنگا

    اُدھر راجہ اندر نے بھیس اپنا بدلا

    رشی کی صدا میں پکارا ہے جو در پر

    اہلیہ یہ سمجھی کہ لوٹ آئے شوہر

    کھلا در تو اندر ہوا گھر میں داخل

    جو دیکھا پری کو تو ٹھنڈا ہوا دل

    مگر ناگہاں ایک بجلی سی چمکی

    نہ معلوم کیوں لوٹ آئے رشی جی

    جو گوتم نے دونوں کو دیکھا اکٹھّا

    ہوا اُن کی آنکھوں میں عالم اندھیرا

    رشی جی نے جو دیں بد دعائیں تڑپ کر

    اہلیہ ہوئی بس اُسی وقت پتھّر

    گورو سے یہ سن کر ہوئے رام مضطر

    قدم رکھ دیے اپنے پتھّر پہ بڑھ کر

    جہاں پر وہ چٹّان اب تک پڑی تھی

    اہلیہ وہیں ہاتھ جوڑے کھڑی تھی

    جس عالم میں اُس وقت شوہر تھا اُس کا

    اُسی لوک میں بس اہلیہ کو بھیجا

    راون کی بہن سوپرنکھا جنگل میں رام سیتا اور لکشمن کو دیکھتی ہے تو وہ رام پر فریفتہ ہو جاتی ہے۔ رام سوپرنکھا سے کہتے ہیں کہ میں تو شادی شدہ ہوں تم لکشمن سے شادی کر لو۔ لکشمن کے منہ کرنے پر وہ سیتا پر حملہ کر دیتی ہے، رام سوپرنکھا کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آخر میں رام لکشمن سے کہتے ہیں کہ اس کے ناک اور کان کاٹ لو۔ سوپرنکھا اپنے بھائی کھردوشن کے پاس جاتی ہے ۔ کھردوشن اور رام لکشمن میں جنگ ہوتی ہے۔ جس میں کھردوشن مارے جاتے ہیں۔ اس کے بعد سوپرنکھا راون کے دربار میںفریاد کرتی ہے۔راون اپنے ماما ماریچ کی مدد لیتا ہے۔ ماریچ ایک خوبصورت سونے کے ہرن کا بھیس بنا کر رام، سیتا اور لکشمن کے سامنے چوکڑی بھرنے لگتا ہے۔سیتا رام سے سونے کے ہرن کو پکڑ لانے کے لیے کہتی ہے۔ رام ہرن پکڑنے کے لیے جاتے ہیں۔ سیتااور رام کے مکالمہ کو طالب الہ آبادی نے بڑی شاعرانہ اور فنکارانہ لطافت کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔

    مرگ نینی نے جس سمئے دیکھا مرگ کی اور

    اسی سمئے رگھوناتھ سے بولی ہیں کر جور

    رگھوکل بھوشن دکھ ہرن میرے جیون پران

    داسی کی ونتی سنو دین بندھو بھگوان

    مرگ ایسا دیکھا نہ سنا جیسا یہ سگھڑ سلونا ہے

    دیکھو تو سر سے پاؤں تلک سارا سونا ہی سونا ہے

    ہے ناتھ کھال لاؤ اس کی تو کُٹیا کا سنگار ہوگی

    سونے کے مرگ کی مرگ چھالا کیا ادبھت یادگار ہوگی

    رام کے واپس نہ آنے پرسیتا گھبرا جاتی ہیں۔ سیتا لکشمن کو رام کی مدد کے لیے بھیجتی ہیں۔ لکشمن سیتا کو کُٹیا کے اندر رہنے کی ہدایت کرتے ہیں اور ایک لکیر دروازہ پر کھینچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تک آپ اس کھینچی ہوئی لکیر کے اندر رہیں گی آپ حفاظت سے رہیں گی اور لکشمن اپنے بھائی رام کو تلاشنے نکلتے ہیں۔ اسی درمیان راون جوگی کا بھیس بدل کر سیتا کی کُٹیا کے سامنے آتا ہے اور بھیک مانگتا ہے۔ راون سیتا کو لکشمن ریکھا کے باہر آکر بھیک دینے کو کہتا ہے۔ اس سلسلے میںطالبؔ الہ آباد ی لکشمن ریکھا کی مان مریادا اور راون کی فریب دہی کی شاعرانہ نشاندہی کرتے ہیں۔

    سیتا کی آنکھوں نے دیکھا اک بوڑھا جوگی آتا ہے

    آواز اسی جوگی کی ہے وہ ہی جوگی کچھ گاتا ہے

    ہے مائی مجھکو بھکشا دے مرتبہ ہے اعلیٰ تیرا

    بھگوان تجھے جیتا رکھے ہو سدا بول بالا تیرا

    یہ سوچ کے جوگی بول اُٹھا ریکھا کے باہر آ مائی

    جوگی بابا لیتے نہیں اس طرح بندھی بھکشا مائی

    سیتا نے کہا چھما کرئیے میں ریکھا چھوڑ نہیں سکتی

    یہ آن ہے میرے دیور کی میں اس کو توڑ نہیں سکتی

    ریکھا کے باہر آتے ہی اُس جوگی نے بانا بدلا

    راون راون ہو گیا وہیں وہ ٹھاٹھ فقیرانہ بدلا

    جنگل میں رام ماریچ کو تیر مارتے ہیں۔ تیر لگتے ہی سونے کا ہرن ماریچ بن جاتا ہے۔ راون سیتا کو رتھ پر بٹھا کر پنچوٹی سے آسمان کی جانب اُڑا کرلے جاتا ہے۔جٹایو سیتا کو آہ و جاری کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ جٹایو راون سے سیتا کو چھوڑنے کے لیے کہتا ہے۔ جٹایو ناکام ہوکر راون سے جنگ کرتا ہے اور بد حواس ہو کر گر جاتا ہے۔رام اور لکشمن سیتا کی جدائی میں در در بھٹکتے رہتے ہیں۔ راستے میں ان کی ملاقات جٹایو سے ہوتی ہے۔جو راون کے حملہ سے گھائل اور خون سے شرابور تھا۔ جٹایو رام کو بتاتے ہیں کہ لنکا کا راجہ راو ن سیتا کو اُٹھا لے گیا ہے۔بھوکے پیاسے رام اور لکشمن سیتا کے غم میں در بدر تلاش کرتے رہتے ہیں۔ راستے میں انھیں دلت شبری کی کُٹیا ملتی ہے۔ دلت شبری رام سے بے پناہ والہانہ عقیدت رکھتی ہے ۔ رام اور لکشمن کو کھانے کے لیے وہ بیر لاتی ہے اور چکھ چکھ کر بیر اپنے پربھو رام کو کھانے کے لیے دیتی ہے۔ پربھو رام شبری کے جوٹھے بیر کو بڑے ذوق و شوق سے کھاتے ہیں۔ وہ لکشمن سے بھی بیر کھانے کے لیے کہتے ہیں۔ لکشمن بیر کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ شبری کے جوٹھے بیر کھلانے کی تصویر کوطالبؔ الہ آبا دی نے اپنی مایئہ ناز شعر ی تصنیف ’’سیتا رام‘‘ میں بڑے جذبات آفریں رنگ و آ ہنگ میں پیش کیا ہے۔ جو قابلِ دید ہے۔

    سُندر پتّوں کے آسن پر اپنے پربھو کو بٹھلاتی ہے

    میہمانی کے کچھ بیروں کو ڈلیا میں بھر کر لاتی ہے

    پریمکا کا سچّا پریم دیکھ رگھوناتھ جی ہاتھ بڑھاتے ہیں

    جھوٹے بیروں کو بیر بیر خوش ہو کر بھوگ لگاتے ہیں

    لکشمن تم نے کھایا ہی نہیں دیکھو تو کیسا میٹھا ہے

    پاتال سے لے کر سورگ تلک جو ہے وہ اس سے پھیکا ہے

    ہنومان کا اشوک واٹکا میں پھل کھانا، پیڑوں کو درہم برہم کرنا، راون کے دربار میں ہنومان کے آنے کی خبراور ہنومان کا لنکا میں آگ لگانے کا منظر طالبؔ الہ آ بادی بڑی انسانی بصیرت اور فنّی چابک دستی سے کرتے ہیں ۔

    اب توہنومان باغ میں آئے

    پھل پہ پھل توڑ توڑ کر کھائے

    ڈالیوں پر اچک کے کھاتے تھے

    پیڑ سے پیڑ پر وہ جاتے تھے

    جب کہ اچھے کُمار مارا گیا

    تھا جو راون کا لاڈلا بیٹا

    باغ میں میگھناد تب آیا

    ساتھ تھی اس کے اک بڑی سینا

    سب کو ہنومان نے حلال کیا

    خون سے پرتھوی کو لال کیا

    وہ دیا میگھناد کو مُکّا

    بس وہیں اس کو آ گئی مرچھا

    کہا راون نے خوب ہنس ہنس کر

    کیوں بے بندر تو آ گیا پھنسکر

    دونوں میں دیر تک ہوئی تکرار

    کہا راون نے سب سے آخر کار

    اب کرو بس سزا یہ تم اس کی

    مثلِ مشعل جلاؤ دُم اس کی

    چیتھڑے خوب دُم میں کس کس کر

    تیل مٹّی میں ڈال کر اوپر

    آگ لوگوں نے جس گھڑی دے دی

    آئی اُ س وقت زور سے آندھی

    اب چلے کود کود کر ہنومان

    آگ کا شہر میں اُٹھا طوفان

    چھت سے چھت پر کود جاتے تھے

    آگ ہر گھر میں وہ لگاتے تھے

    ہو گئے خاک جل کے لاکھوں گھر

    سارے لنکا میں مچ گیا محشر

    اس کے بعد ہنومان جی سمندر پار کرکے بھگوان رام کے پاس جاتے ہیں۔ ماتا سیتا کا پیغام رام کو دیتے ہیں۔ رام لکشمن، ہنومان،سگریو،جامونت اور انگد وغیرہ کی مدد سے پُل باندھتے ہیں اور فوج لے کر لنکا پہنچتے ہیں۔ وبھیشن اپنے بھائی راون کو بہت سمجھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ ناکام رہتا ہے۔ راون وبھیشن کو بے عزّت کرکے دربار سے نکال دیتا ہے۔ وبھیشن رام کے پاس پہنچتاہے۔ رام اس کی بڑی عزّت کرتے ہیںاور اسے اونچا مرتبہ دیتے ہیں۔ لنکا فتح کے بعد وبھیشن کو لنکا کا راجہ بنا دیتے ہیں۔ راون کا بیٹا میگھناد بڑا بہادر تھا۔ میگھناد اور لکشمن کی جنگ ہوتی ہے۔ جس میں لکشمن بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ رام بھائی کے غم میں آہ و جاری کرتے ہیں۔ فریاد کرتے ہیں۔ بید راج کے کہنے پر ہنومان کشکندھا پہاڑ پر جاتے ہیں۔ وہ بوٹی کو پہچان نہیں پاتے ہیں تو پوراپہاڑ ہی اُٹھا لاتے ہیں اور لکشمن کو دوبارہ زندگی نصیب ہوتی ہے۔ اس ضمن میں طالب الہ آبادی فرماتے ہیں۔

    بوٹی لانے کو جب چلے ہنومان

    تب اُٹھا دشمنوں میں اک طوفان

    کالنومی کو بھیجا راون نے

    جاکے جنگل میں راستہ روکے

    بن میں ہنومان جس گھڑی آئے

    پیا س سے تھے بہت وہ مرجھائے

    بوٹیوں سے بھرا تھا وہ پربت

    پتّیوں سے لدا تھا وہ پربت

    بوٹی ہنومان نے نہ پہچانی

    تب تو چٹّان ہی پڑی لانی

    لائے اس شان سے جو وہ بوٹی

    ہوئے چنگے ترنت لچھمن جی

    دھیرے دھیرے اس عظیم جنگ میں کنبھکر ن جیسا بہادر اور راون کے سارے دلاور بیٹے مارے جاتے ہیں۔ مندودری اپنے شوہر راون کو آخری وقت تک سمجھانے کی کوشش کرتی ہے اور کہتی ہے کہ سیتا رام کو واپس کر دے لیکن راون انتہائی مغرور ، ضدّی، سرکش اور ظالم تھااور وہ خود کو انتہائی انانیت کے باعث ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا۔ اس کے مزاج میں انتہائی درجہ کا اضطراب اورتحرُّک تھا۔ اس کا ہرانانیت بھرا عمل جوشِ تحرُّک، جوشِ تموّج اور جوشِ تلاطم سے بھرا ہوا تھا۔ جس کے باعث اس کے تمام شر آگیں اعمال عدمِ توازُن اور گناہ کی جانب مرکوز ہو جاتے تھے۔ وہ اپنی دُنیاوی دولت (سونے کی لنکا) پر بیحد نازاں اور فخرکُناں تھااور روحانی دولت سے مالامال رام کو انتہائی حقارت سے دیکھتا تھا۔ راماین میں رام اور راون کے جنگ کی عکاّسی نہایت جمالیاتی اور اقداری آن بان شان سے کی گئی ہے اور یہ بنیادی طور پر نیکی اور بدی کا ابدی رزمیہ ہے۔ راماین میں میدانِ دین(دھرم کشیتر) کی فتح اورانانیت آگیںاور شر آگیں عمل کے میدان(کرم کشیتر) کے شکست کی ترجمانی کی گئی ہے۔ اس لیے غلط اور منفی ذہنی رویہ اور منفی عوامل کی وجہ سے راون کو شکستِ فاش نصیب ہوئی۔ یہ ایک طرح سے بنیادی انسانی اور روحانی اقدار کی غیر انسانی ،شیطانی اور ابلیسی عناصر اور اقدار پر فتح کی علامت ہے۔ راماین بنیادی طور پر میدانِ دین اور شیطانی میدانِ عمل کے درمیان رزم کا فنّی اور جمالیاتی آئینہ خانہ ہے۔ رام کے ساتھ جتنے بھی معاون کردار ہیں۔ وہ تمام اچھّائی، سچّائی اور بھلائی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ وہ سب تمثیلی کردار ہیں لیکن یہ جیتے جاگتے کردار ہیں۔ وہ نظر یاتی کٹھپتلی نہیں ہیں۔ یہی بالمیکی کا عظیم تر انسانیاتی اور حسنیاتی کارنامہ ہے۔ اس کے برعکس راون کے ساتھ جتنے بھی معاون کردار ہیں، وہ بھی منفی جذبات و احساسات کے نمائندہ تو ہیں لیکن وہ بھی جیتے جاگتے کردار نظر آتے ہیں۔ ان کی نفسیاتی ترجمانی راماین میں نہایت ہی زندہ اور دھڑکتے ہوئے انداز میں نظر آتی ہے۔ رام کے معاون کردار صداقت پرور ہیں۔اس کے بر عکس راون کے معاون کردار ہوش اور صداقت سے بے نیاز ، ابلیسی اور غیر متحرک کردار ہیں۔ گو بذات خود راون نہایت اضطرابی اور حرکی قوت اور طاقت کا نمائندہ ہے لیکن اُس میں آدرشی معراج کی طرف بلند پروازی کا ذرا سا شائبا بھی نہیں ملتا ہے۔ اس کے بر عکس رام، ہنومان، سیتا اور لکشمن میں صعودی اور عمودی کیفیت ملتی ہے۔ جو ان کو آدرشی بلندی کے معراج کی طرف مسلسل بلند پروازی کے لیے مائل کرتی ہے۔ اسی لیے تمام عینی کردار ہر عہد میں اعلیٰ ترین انسانی اور روحانی اقدار کی روشن علامت رہے ہیں اور وہ ہر زمانے میں قابلِ تقلید رہے ہیں۔راماین بنیادی طور پر ظلمت پسند صفت، قوت اور ملکہ کی ترجمانی سے آگے بڑھ کر حرکت پسند، قوت ،طاقت اور ملکہ کی بھی عکّاسی کرتی ہے لیکن ان دونوں منفی قوتوں کی جہت زمینی اور اُفقی سطح(Horizental Plane) پر ہوتی ہے اور قدرتی طور پر وہ سچ کے بجائے جھوٹ ، نیکی کے بجائے بدی، حسن کے بجائے بد صورتی، توازُن کے بجائے عدمِ توازُن کی طرف فطری طور پر راغب ہوتے ہیں۔ ان دونوں کے بر خلاف روشن، فَروزاں اور منّور صداقت پسند صفت، قوت اورملکہ کی بھرپور طور پر عینی نمائندگی کی گئی ہے۔ جو قدرتی طور پر صعودی سطح(Vertical Plane) پرمائلِ پرواز ہوتے ہیں۔

    لنکا فتح کرنے کے بعد رام، لکشمن اور سیتا اپنے تمام رفیقوں اوراحباب کے ساتھ اجودھیا واپس لوٹتے ہیں۔رام کے کہنے پر چودہ برس تک بھرت نے رام کی کھڑاؤ گدّی پر رکھ کر اجودھیا پر راج کیا۔ رام کے اجودھیا واپس آنے پر رام کا راجیابھشیک ہوتا ہے۔ رام اجودھیا کی گدّی پر بیٹھتے ہیں اور حکومت کرتے ہیں۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد بیکراںوفا، ایثار اور فرض کی مثالی دیوی سیتا پر ایک دھوبی کے بیجاالزام لگانے پر رام اُس زمانے کے رسم رواج کے مطابق انھیںجنگل میں چھوڑ آنے کے لیے لکشمن کو بھیجتے ہیں ۔ جہاں جنگل میں سیتا بالمیکی کی کُٹیا میں پناہ لیتی ہیں اور وہیں پر لو اور کُش پیدا ہوتے ہیں۔ رام اشومیدھ یگیہ کرتے ہیں۔ یگیہ کے دوران گھوڑا چھوڑا جاتا ہے۔ لو اور کُش رام کے گھوڑے کو پکڑ لیتے ہیں۔ جہاں لکشمن اور لوکُش سے جنگ ہوتی ہے۔ جنگ کے دوران سیتا لکشمن کو دیکھتی ہیں۔ وہ دونوں راج کُماروں کو لکشمن سے ملواتی ہیں۔ سیتا اور لوکُش اجودھیا لائے جاتے ہیں۔ پھر سیتا کو اپنی پاک دامنی کا شبوت پیش کرنے کے لیے اگنی پریکشا دینی پڑتی ہے۔ سیتا جی اگنی پریکشاسے کامیاب گزرنے کے بعد ناری لجّا اور سمّان کے باعث دھرتی میں سماجاتی ہیں۔ بعد میں رام لو کو کُشواتی اور کُش کو شراوستی کا راجہ بنا دیتے ہیں۔ سیتا کی اگنی پریکشا کا بیان پاکستانی شاعرہ زہرہ نگاہ نے بڑے ہی فنی بصیرت اور فنی لطافت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں:

    سیتا کو دیکھے سارا گاؤں آگ پہ کیسے دھرے گی پاؤں

    بچ جائے تو دیوی ماں ہے جل جائے تو پاپن

    سب جو چاہیں سوچیں سمجھیں لیکن جو بھگوان

    وہ تو کھوٹ کپٹ کے بیری وہ کیسے نادان

    اگنی پار اتر کے سیتا جیت گئی وشواس

    دیکھا دونوں ہاتھ بڑھائے رام کھڑے ہیں پاس

    راماین دنیا کے عظیم رزمیہ(Epic)ادب میں ایک خصوصی معنویت، قدر و قیمت اور آفاقی اہمیت کا امین ہے۔رام میدانِ دین کے علمبردار ہیں۔ انھوں نے تمام انسانی اور روحانی اقدار کا بھرپور تحفظ کیا اور وہ بنیادی طور پر میدانِ دین کے مرکزی کردار تھے اور ان کا حریف راون انانیت زدہ میدانِ عمل کا نمائندہ تھا۔ یہ دونوں راماین کے مرکزی تمثیلی اور علامتی کردار ہیں۔ راماین میں زندگی اور زندگی کی تمام قدروں کو سیاح اور سفید رنگ و آہنگ میں دیکھا گیا ہے۔ رام بنیادی طور پر صداقت، خیر اور حسن کے نقیب ہیں یا دوسرے لفظوں میں صداقت، ہوش و آگہی اور روحانی سرمدی،نشاط و انبساط کی روشن فروزاں اور منوّر تمثیل ہیں۔ راون ان کے بر خلاف شر (برائی) کی تمثیل ہے۔ وہ زندگی کے تمام منفی اقدار کا ترجمان ہے۔رام اور راون کی جنگ در حقیقت انسانی اور روحانی دولت اور ابلیسی،شیطانی اور دنیاوی دولت کے جنگ کی نمائندہ ہے۔ بالآخر انسانی اور روحانی دولت کی جیت ہوتی ہے۔ جو در حقیقت صداقت اور خیر کی جیت ہے۔ اُردو کے عظیم ترین شاعر علامہ اقبالؔ نے بھی رام کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

    لب ریز ہے شرابِ حقیقت سے جامِ ہند

    سب فلسفی ہیں خطّئہ مغرب کے رام ہند

    یہ ہندیوں کے فکرِ فلک رس کا ہے اثر

    رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بامِ ہند

    اعجاز اُس چراغِ ہدایت کا ہے یہی

    روشن تر از سحر ہے زمانے میں شامِ ہند

    ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز

    اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند

    مہابھارت ہندو رزمیہ صحیفہ ہے ، جو زبانی روایت ( Oral Tradition) سے وابسطہ ہے۔مہابھارت دنیا کے عظیم رزمیہ (Epic) ادب میں ایک خصوصی معنویت اور اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ہندستان کا مہابیانیہ (Metanarative) ہے۔ جو ہندستان کی اجتماعی(Collectively) تہذیبی روح کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنی آفاقیت (Universality) کے باعث یہ قومی سراحد کی شکست و ریخت کرتا ہے اور اپنی عالمگیر معنویت اور اہمیت کے سبب دنیا کے مختلف زبانوں میں وقتاً فوقتاً ترجمہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ قومی زبانوں کے یہ تراجم اردو زبان میں بھی عصری ناولوں،ڈراموں،مختصر کہانیوں اور نظموں کے لیے فیضان کا سرچشمہ ہیں۔ یہ معاصر (Contemporary) اردو ادب میں موضوعاتی اور ہیئتی تجربات کے زبردست محرک بھی ہمیشہ رہے ہیں۔ اس وسیع تر اخلاقی(Ethical) اور جمالیاتی (Aisthetic) تناظر میں مہابھارت تہذیبی روشن ضمیری کا مینارئہ نور ہے۔مہا بھارت میں بھرت خاندان کی عظیم الشان جنگ کا بیان کیا گیا ہے۔ سر زمینِ ہند میں اتنی بڑی جنگ آج تک نہیں ہوئی ہے ۔ مہا بھارت کی جنگ اٹھارہ دنوں تک کوروکشیتر کے میدان میں ہوئی۔ اس عظیم جنگ میں پانڈوؤں کی سات اور کوروؤں کی گیارہ اکچھوہڑی فوج ختم ہو گئی۔ ایک اکچھوہڑی فوج میں ایک لاکھ نو ہزار تین سو پچاس پیدل، چھ لاکھ پانچ ہزار چھ سو گھوڑے، دو لاکھ ایک ہزار آٹھ سو ستر ہاتھی ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ کُل انیس لاکھ اڑسٹھ ہزار تین سو فوجی ،ایک کروڑ نو لاکھ آٹھ سو گھوڑے اور،چھتیس لاکھ تینتیس ہزار چھ سو ساٹھ ہاتھی مہابھارت کی جنگ میں مارے گئے۔مہابھارت کے تراجم دنیا کی تمام زبانوں میں ہوئے۔ اردو میں بھی مہابھارت کے تقریباً 52 تراجم دستیاب ہوئے ہیں۔ ہندو ادیبوں کے شانہ بشانہ مسلم ادیبوں نے بھی مہابھارت کے تراجم بڑی عمدگی کے ساتھ کیا ہے۔ ان مسلم ادیبوں میں خصوصی طور سے خواجہ حسن نظامی، عبدلعزیز خالد، قاضی محمد نیّر قریشی اورمنشی ریاض الدین وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیںجنھوں نے مہابھارت کے تراجم بڑے ہی فنی بصیرت، خوش اسلوبی اور شعور و آگہی کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔

    شری مد بھگوت گیتا ہندو دھرم کا وہ ا عظیم بحر بیکراںصحیفہ ہے جو علم و دانش کا خزانہ ہے۔ اس کا مطالعہ انسان میں بلند حوصلہ،شجاعت اور بہادری کے جذبات کو بیدار کرتا ہے۔ علاوہ بریں انسان اپنے انجام کوبھی متوجہ ہو جاتا ہے۔ نغمئہ خدا وندی کر کے قلب و جگر کو سکون عطا کرتا ہے۔ یہ صحیفہ ایک بحر بیکراں ہے کہ انسان اس میں جتنی بار غوطہ لگاتا ہے، ہر بار اس کو نئے نئے اور طرح طرح کے نایاب گوہر حاصل ہوتے ہیں۔ شری مد بھگوت گیتا مہابھارت کے بھیشم پرب کے چھٹے باب کا ایک جز ہے اور نظم کے پیرائے میں ڈرامے کی طرز پر تخلق کیا گیا ہے۔

    مہابھارت کے بھیشم پرب کے 25ویں باب سے 42 ویں باب تک کا نام شری مد بھگوت گیتا ہے۔ شری مدبھگوت گیتا میں تقریباً 700 اشلوک درج ہیں جو اٹھارہ ابواب میں بیان کیے گئے ہیں۔ شری مد بھگوت گیتا کے اٹھارہ ابواب میں شری کرشن کی نصائح کا بیان کیا گیا ہے۔ جو ا نھوں نے ارجن کو کروکشیتر کے میدان میں ان کی ہمت اور حوصلہ افزائی کے لیے تلقین کیے تھے۔ جس وقت کوروؤں اور پانڈوؤں کی فوجیں جنگ کے میدا ن میں آمنے سامنے جمع ہوئیں تو ارجن نے شری کرشن سے، جو اس وقت جنگ کے میدان میں بظاہر ارجن کے رتھ بان کی حیثیت سے شریک تھے۔ رتھ کو اپنی صفوں سے آگے نکال کر بیچ میدان میں لے چلنے کے لیے کہا، تاکہ وہاں سے دشمن کی فوجوں کا معائنہ کیا جا سکے۔

    مہابھارت کی جنگ میں ارجن نے اپنے مقابلہ میں اپنے ہی خاندان والوں، چچا،دادا،مامو،بیٹے،پوتے ،دوست و احباب اور استاد وغیرہ کو کھڑے دیکھا تو اس کا دل رحم سے بھر گیا اور اس نے شری کرشن سے یہ کہتے ہوئے جنگ کرنے سے انکار کر دیا کہ میرے ہتھیار میرے ہاتھوں سے چھوٹ رہے ہیں۔ میرا منھ خشک ہو رہا ہے۔ میرا جسم لرز رہا ہے اور میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں۔ مجھکو بُرے بُرے شکن نظر آ رہے ہیں اور کوئی بھلائی نہیں دکھائی دیتی ہے۔ ایسے موقع پر شری کرشن نے ارجن کو علم،عمل،زندگی اور کائنات کے فلسفہ سے روشناس کرایا ہے۔ وہ ارجن کوبے غرض عمل اور فرض کی ادائگی کے فلسفہ کو سمجھاتے ہیں۔ علم ،عمل،زندگی اور کائنات کے فلسفہ کا بیان انھوں نے شری مد بھگوت گیتا کے اٹھارہ ابواب میں بیان کیاہے۔ جو حسب ذیل ہیں:

    ارجن وشاد یوگ(ارجن کی اداسی)،سانکھیہ یوگ(ماہیت روح)،کرم یوگ(عمل کا فلسفہ)،گیان کرم سنیاس یوگ(عارفانہ ترک عمل)،کرم سنیاس یوگ(ترک عمل کا فلسفہ)،آتم سنیم یوگ(تعلیمِ ضبط نفس)،گیا وگیان یوگ( علم و عرفان کا فلسفہ)،اکشھر برہم یوگ(لافانی علم کا فلسفہ)،راج ودیا یوگ(اعلیٰ ترین علم کا فلسفہ)،وبھوتی یوگ(خدا کی عظمت کا فلسفہ)،وشو روپ درشن یوگ(ظہور جلوہ کا فلسفہ)،بھگتی یوگ( عقیدت کا فلسفہ)،کشیتر اور کشیترگیہ وبھاگ یوگ(مادہ اور روح کے فرق کا مسئلہ)،گُن تریہ وبھاگ یوگ(تین خاصیتوں کی تقسیم کا فلسفہ)، پرشوتم یوگ( اعلیٰ ترین روح کے حصول کا فلسفہ)،دیو اسر سمپت وبھاگ یوگ(ملکوتی اور شیطانی قوتوں کی تقسیم کا فلسفہ)،شردھاترے وبھاگ یوگ(عقیدت کے تین اقسام کا فلسفہ) اور موکش سنیاس یوگ( نجات اور ترک علائق کا فلسفہ)۔

    راماین اور مہابھارت کی طرح شری مد بھگوت گیتا کے بھی تراجم اردو زبان میں خوب ہوئے۔میری تحقیق کے مطابق اب تک تقریباً ایک سو اُنتس تراجم اردو زبان میں ہو چکے ہیں۔ ہندو ادبا اور شعرا کے ساتھ ساتھ مسلم ادیبوں اور شاعروں نے بھی شری مد بھگوت گیتا کے تراجم کو بہ حسن و خوبی انجام دیا ہے۔شری مد بھگوت گیتا کے تراجم کو اردو میں پیش کرنے والوں میں خصوصی طورپر ابوالفیض فیضی،اعظم جلالآبادی،الم مظفر نگری،برکت رائے،بنت زہرہ رضوی،حبیب،حسن الدین احمد،خلیفہ عبدالحکیم، خواجہ دل محمد، خواجہ زکریا فیاضی،رفیع الدین خادم،ساغر اکبر آبادی،سید غیاث الدین، عبدالقادر ندوی، سیماب اکبر آبادی، شان الحق حقی،شیخ عبدلغنی،محمد اجمل خاں،مسز برکت رائے،ڈاکٹر ساجد احمد صدیقی ،چاند،اور انو جلال پوری وغیرہ ہیں۔

    محمد اجمل خاںنے اپنی کتا ’’نغمئہ رحمانی‘‘ میں شری مد بھگوت گیتا کے اٹھارہ ابواب کا ترجمہ نثر میں کیا ہے۔ گیتا کے پہلے اشلوک کا ترجمہ انھوں نے یو پیش کیا ہے:

    ’’ دھرت راشٹر نے کہا:

    اے سنجئے !مجھے بتاؤ کہ اس پاک سر زمین میں جسے کورو کشیتر (کورو کا میدان) کہتے ہیں،

    جنگ کرنے کی خواہش سے جمع ہو کر میرے اور پانڈو کے بیٹوں نے کیا کیا۔‘‘

    انوا جلالاپوری کی کتاب ’اردو شاعری میں گیتا‘معنویت اور اہمیت کی حامل ہے۔ شاعر نے شری مد بھگوت گیتا کے اٹھارہ ابواب کو نظمیہ شاعری میں پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے، جس وہ کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ شری مد بھگوت گیتا کے پہلے باب کا ترجمہ انوار جلال پوری بڑی ہی کامیابی اور خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے۔ چند اشعار خاطر نشیں ہوں:

    کہانی تو سنجے سناتا رہا

    ہے میداں میں کیا بتاتا رہا

    وہ میداں جو تھا جنگ ہی کے لیے

    وہیں سے جلے دھرم کے بھی دیے

    دھرت راشٹر آنکھوں سے محروم تھے

    مگر یہ نہ سمجھو کہ معصوم تھے

    شری مد بھگوت گیتا کے سات سو اشلوک کا ترجمہ شاعر ی میں کرنا بڑا مشکل کام ہے لیکن شری مد بھگوت گیتا کے ارجن اور شری کرشن کے مکالمہ کو انور جلال پوری نے شعری پیکر میں ڈھالنے کی کامیاب ترین کوشش کی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

    یہ سن سن کر ارجن بھی بے چین تھا

    سوال اس نے کیشو سے ہی کر دیا

    بتائیں مجھے کون ہے مطمئین

    مرے واسطے ہے سمجھنا کٹھن

    کسے گیان اور دھیان والا کہوں

    حقیقت سمجھ کر میں کس کی سنوں

    مکمل انھیں دیکھا ہے مجھے

    وہ کیا ہیں انھیں جاننا ہے مجھے

    اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بہت بڑی تعداد میںمسلم ادبا و شعرا نے ہندوؤں کے مذہبی صحائف کے تراجم تمام اصنافِ سخن میں بڑے ہی فنّی بصیرت ،فنّی لطافت اور فنی شعور و آگہی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ آج اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں جب سیاست دانوں نے زبان اور مذہب کی آڑ میں ملک کی حقیقی تصویر کو بدلنے کی پُر زور کوشش کر رہے ہیں تو ایسے ماحول اور حالات میں مسلمانوں نے ہندوؤں کے جو مذہبی صحائف کے تراجم کیے ہیں ان کی معنویت واہمیت اور قدر و قیمت کافی حد تک بڑھ جاتی ہے اوریہ تمام مترجمین ہندستان کی گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے