Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو رسم الخط: ایک تاریخی بحث

گوپی چند نارنگ

اردو رسم الخط: ایک تاریخی بحث

گوپی چند نارنگ

MORE BYگوپی چند نارنگ


    (نوٹ: کچھ عرصہ ہوا ’’دوست‘‘ میں خواجہ احمد عباس کا ایک مضمون (دھرم یگ) ہندی سے ترجمہ کرکے شائع کیا گیا تھا۔ اس میں خواجہ صاحب نے اردو والوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنا رسم الخط دیوناگری کر لیں۔ ’’دوست‘‘ کی جانب سے اس کا جواب دیا گیا، اس کے بعد کافی دیر تک یہ بحث دلچسپ طریقہ پر چلتی رہی۔ ہمیں مسرت ہے کہ اردو کے ایک اہم محقق اور نقاد ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اس سلسلے میں ہماری دعوت قبول کرکے یہ مضمون اس موضوع کے متعلق لکھا۔ ہم اسے شکریے کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ ایڈیٹر ’’دوست‘‘)

    پچھلے کچھ دنوں سے اردو رسم الخط کا مسئلہ بری طرح بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ جو جس کے جی میں آتا ہے لکھ مارتا ہے۔ ایک سے ایک کی رائے مختلف ہے۔ کسی کا منھ ادھر ہے تو کسی کا اُدھر۔ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ کان پر قلم رکھے بیٹھے ہیں۔ رسم الخط کا نام سنا نہیں کہ انہوں نے اس کا بخیہ اُدھیڑا نہیں۔ ہندوستان میں اردو کے علاوہ دوسری زبانیں بھی ہیں۔ قومی وحدت کے مسائل کا سامنا انہیں بھی ہے۔ لیکن رسم الخط کا ہوا جیسا اردو کے بعض کرم فرماؤں کو ستا رہا ہے، دوسروں کو نہیں۔ لیڈر قسم کے لوگوں کی بات دوسری ہے۔ ان کا تو دھندا یہی ہے کہ جتنی بے پرکی اڑا سکیں اڑائیں۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہندوستان کے بعض صفِ اول کے ادیب بھی رسم الخط کو تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ شاید ان کی نظرسیاسی پہلو پر تو ہے، لسانی پہلو پر نہیں۔

    لطف کی بات یہ ہے کہ رسم الخط کی بحث میں بڑھ چڑھ کر حصہ وہی لوگ لیتے ہیں جنہیں معلوم نہیں کہ زبان کی نوعیت کیا ہے۔ جتنا اہم یہ موضوع ہے اورجس قدر سنجیدگی کا یہ مطالبہ کرتا ہے اسی قدر غیر سنجیدگی سے اسے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رسم الخط کو کوئی لباس کہتاہے تو کوئی پاجامہ۔ یعنی ایک اتارا دوسرا پہن لیا۔ یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے کہ جو لوگ اردو رسم الخط کو تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں وہ اردو اصوات توکُجا، اردو اعراب سے بھی پورے طور پر واقف نہیں ہوں گے۔

    جناب خواجہ احمد عباس نے اپنے مضمون (مطبوعہ دھرم یگ (ہندی) دوست (اردو) میں جو باتیں کہی ہیں ان سب کا احاطہ کرنا تو سردست ممکن نہیں، رسم الخط کے مسئلے پر سیر حاصل بحث کرنے کا بھی یہ موقع نہیں۔ البتہ بعض بنیادی باتوں کو صاف کر دینا نہایت ضروری سمجھتا ہوں۔

    اردو اور ہندی ایک زبان نہیں
    رسم الخط کی بات کرتے ہوئے سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ ہندی اور اردو ایک زبان ہیں۔ یہ بات جتنی صحیح ہے اتنی صحیح نہیں بھی ہے یعنی بنیاد کے اعتبار سے بیشک ہندی اور اردو دونوں زبانیں ایک ہیں لیکن اپنے ارتقا کے دوران بوجوہ یہ زبانیں ایک دوسرے سے الگ ہو گئیں۔ واقعہ یہ ہے کہ دونوں زبانیں شورسینی پراکرت کی جانشین ہیں اور دہلی کے گردونواح کی کھڑی بولی پر قائم ہیں۔ اردو ہندی کو اب دو ملتی جلتی لیکن آزاد اور مستقل زبانیں سمجھنا چاہئیں۔

    بنیاد کو ایک تسلیم کرنے سے یہ قطعاً لازم نہیں آتا کہ دونوں کا رسم الخط ایک ہو۔ اگر یہ بات ضروری ہوتی تو آج اڑیا، بنگالی اورآسامی زبانوں کا رسم الخط ایک ہی ہوتا۔ کیونکہ یہ تینوں ماگدھی پراکرت کی جانشین ہیں لیکن اس کے باوصف ان کا رسم خط ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اس مثال کو سنسکرت تک لے جائیے تو معلوم ہوگا کہ سنسکرت تمام ہند آریائی زبانوں کی بنیاد ہے یعنی بنگالی، اڑیا، آسامی، اودھی، مگھی، میتھلی، بھوج پوری، برج، کھڑی، ہریانی، گجراتی، راجستھانی، پنجابی وغیرہ سبھی زبانوں کا سلسلہ سنسکرت تک پہنچتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ان سب کا رسم الخط ایک نہیں ہے۔ یہی ہندی اور اردو کا معاملہ ہے۔ دونوں آریائی ہیں لیکن اپنے ارتقائی سفر میں یہ دونوں زبانیں اتنی آگے بڑھ چکی ہیں کہ اب ان کے لیے ایک ہی رسم الخط کا تجویز کرنا دونوں کے حق میں مضر ہوگا۔

    زبان اور رسم الخط کا تعلق
    یہ کہنا کہ ’’لِپی اور بھاشا کا ایک ہونا ضروری نہیں ہے‘‘ مناسب نہیں ہے۔ ہر زبان کا اپنا مزاج ہوتا ہے اور اسی کے مطابق اس کا رسم الخط رائج ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو رسم الخط میں کبھی تبدیلیاں رونما نہ ہوتیں اور وہی رسم الخط جو ویدوں کے زمانے میں تھا آج تک جاری رہتا۔ کھروشٹی سے دیونا گری تک شمالی ہندوستان کے رسم الخط میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں، وہ بادشاہوں یا اعلیٰ طبقے کے افراد نے نہیں کیں بلکہ زبانوں کے فطری ارتقا کا ساتھ دینے کے لیے ہوئی ہیں۔ ارتقائی سفر کے دوران زبان کی پرانی آوازوں میں تبدیلیاں ہوتی ہیں اور ہر تاریخی موڑ پر نئی آوازیں داخل ہوتی ہیں۔ رسم الخط آوازوں کو علامتوں کے ذریعہ ظاہر کرنے کے کام آتاہے۔ چنانچہ پرانی علامتیں منسوخ ہو جاتی ہیں اور نئی آوازوں کے لیے نئی علامتوں کے اختیار کرنے کا عمل جاری رہتا ہے۔

    گویا اصل چیز بولی جانے والی زبان ہے۔ رسم الخط جس کا تعلق تحریری زبان سے ہے، ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ زبان کی تحریری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ یعنی رسم الخط تابع ہے زبان کے۔ اس کے برعکس جو لوگ رسم الخط کی تبدیلی کا مشورہ دیتے ہیں، وہ رسم الخط کو قائم بالذات سمجھتے ہیں جو صریحاً غلط ہے۔ زبان اور رسم الخط میں نہایت گہرا رشتہ ہے۔ زبان کو اگرجسم قراردیں تو رسم الخط کھال ہے۔ رسم الخط تبدیل کرنے کا مطلب گویا جسم کو نئی کھال میں داخل کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ بات کس حد تک قابل عمل ہے۔

    کہاجاتاہے کہ فلاں فلاں زبان نے اپنا رسم الخط تبدیل کر لیا ہے اور ترقی پذیر ہے۔ ہمیں اس بات کے قبول کرنے میں تامل نہیں۔ اگر کسی زبان کا رسم الخط انتہائی ناقص ہے یا رسم الخط کی تبدیلی سیکڑوں برسوں کی لسانی اور تہذیبی تحریکوں کے زیر اثر ہو جائے تو وہ تبدیلی نامناسب نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں ترکی اور ازبیکی کی مثال دی گئی ہے۔ دونوں زبانوں کے رسم الخط میں تبدیلی ان ملکوں کے تاریخی اور سماجی حالات کے تقاضے کے تحت ہوئی ہے۔ حکومتوں کے اقدام کی حیثیت صرف اتنی ہے کہ سرکاری طور پر اس تبدیلی کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ایسی کوئی تبدیلی عمرانیاتی طور پر از خود اگر اردو رسم الخط میں رونما ہو تو یقیناً وہ ہمارے لیے قابل قبول ہوگی۔ ورنہ رسم الخط کو خواہ مخواہ تبدیل کرنا زبان کے تہذیبی تقاضوں کو نظرانداز کرنا ہے۔

    ہندی اور اردو میں لسانی اور صرفی ونحوی مطابقت ہے لیکن اس کے باوصف دونوں میں کچھ نہ کچھ فرق بھی ہے۔ اردو میں ہندی کی گیارہ ہکار (Aspirated) آوازیں اور تین معکوسی (Retroflex) آوازیں استعمال ہوتی ہیں۔ ان کے لیے اور دو مصوتوں کے لیے اردو والوں نے فارسی رسم الخط میں سولہ علامتوں کا اضافہ کیا ہے۔ اس کے برعکس ہندی والے اردو کی پانچ صفیری (Spirant) آوازوں یعنی ف، ز، ژ، خ، غ اور بندشی ق وغیرہ کو نہیں اپنا سکے۔ علامتوں میں اس نوعیت کی بنیادی تبدیلی کرنے سے جو ہندی داں حضرات کے مزاج کا ساتھ نہیں دیتی، یہ بہتر ہے کہ رسم الخط تبدیل کرنے کے مشوروں کو فی الحال محفوظ رکھا جائے۔ اردو نے اپنا موجودہ رسم الخط پچھلی کئی صدیوں کے تاریخی اور تہذیبی تقاضوں کے تحت اختیار کیا ہے۔

    اردو ایک مخلوط زبان ہے۔ اس نے ہندوستان اور عرب وایران سب سے استفادہ کیا ہے۔ چنانچہ اس کا رسم الخط بھی اشتراک اور ارتباط کی نہایت عمدہ مثال ہے۔ ہمیں فارسی رسم الخط سے ۳۴ علامتیں ملیں۔ ان میں دو حروف علت اور چودہ حروف صحیح بھ، پھ، تھ، دھ، جھ، چھ، کھ، گھ، ٹ، ڈ، ڑ، ٹھ، ڈھ، ڑھ، یعنی کل سولہ علامتوں کا اضافہ کرکے ہم نے ایک نیا ملا جلا رسم الخط بنایا ہے جو اب تک اردو کے فطری تقاضوں کا ساتھ دیتا رہا ہے۔ غور فرمایئے سولہ علامتوں کا اضافہ کچھ اہمیت رکھتا ہے۔ جس رسم الخط میں ایک تہائی علامتوں کا اضافہ تاریخی اور تہذیبی ضرورتوں کی بنا پر ہوا ہو، وہ رسم الخط ہمارا اپنا ہے یا اب بھی ہم اسے غیرملکی کہتے رہیں گے۔

    جو لوگ اردو رسم الخط کی تبدیلی کا مشورہ دیتے ہیں وہ بنیادی طور پر اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اردو رسم الخط غیرملکی ہے، تبھی تو وہ گجراتی یا مرہٹی کا رسم الخط تبدیل کرنا اتنا ضروری نہیں سمجھتے جتنا اردو کا۔ حلانکہ گجراتی اور مرہٹی کے رسم الخط دیوناگری سے نہایت قریب ہیں اور بڑی آسانی سے تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ اردو رسم الخط کو تبدیل کرنے کی بنیاد میں شعوری یا غیرشعوری طور پر یہی جذبہ کار فرما ہے کہ ہمارا رسم الخط غیرملکی ہے۔ حالانکہ ایسا سمجھنا درست نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اردو نے اپنا رسم الخط عرب وایران سے لیا اور اس کے ذخیرۂ الفاظ کا ساتھ دینے کے لیے یہ موزوں بھی ہے۔ لیکن ہند آریائی صوتیاتی نظام کو پورا کرنے کے لیے ہم نے اس میں بنیادی تبدیلیاں کیں اور اس طرح سے اپنا بنا لیا۔ یہ واقعہ ہے کہ اس توسیع شدہ صورت میں عرب اور ایرانی اسے اپنا کہنے کے لیے تیارنہیں۔ یونیورسٹی کے کام میں اردو کے عرب اور ایرانی طلبا سے اکثر سابقہ رہتا ہے۔ یہ بات تجربے پر مبنی ہے کہ اردو کی معکوسی اور ہکار آوازوں اور ان کی علامتوں پر عبور حاصل کرنے اور بے تکلفانہ استعمال کرنے کے لیے انہیں کم سے کم کئی ماہ کی مسلسل مشق کی ضرورت ہوتی ہے۔

    تہذیبی روابط
    ہمارے رسم الخط کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہماری ضرورتوں کا ساتھ دینے کے علاوہ یہ پاکستان، ایران، افغانستان، شام، ایران، عراق، مصر، سعودی عرب وغیرہ بیسیوں ایشیائی ملکوں سے ہمارے تہذیبی روابط کی بنیاد مضبوط کرنے کا کام دیتا ہے۔ لکھنے میں دوسرے خطوں کی نسبت ایک تہائی جگہ کم لیتا ہے اور اس میں وقت بھی نسبتاً کم صرف ہوتا ہے۔

    دیوناگری رسم الخط کواختیار کرنے کی ایک دلیل یہ بھی دی گئی ہے کہ ’’ایسا کرنے سے اردو کے ساہتیک خزانے ان سب کے لیے کھل جاتے ہیں جو فارسی لپی نہ جاننے کے کارن آج اردو کی لطافت اور مٹھاس سے لطف نہیں اٹھا سکتے۔‘‘ ان سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ جو زبان اپنے علمی خزانوں کو دوسروں پر کھول دینے کی خواہاں ہو، وہ دوسروں کا رسم الخط اختیار کرے۔ یہ دلیل غلط ہے۔ اس دلیل کے حامی اس حقیقت سے بے خبر نہ ہوں گے کہ انگریزی یا روسی زبانوں نے اپنے علمی خزانوں کو عام کرنے کے لیے اپنے رسم الخط تبدیل نہیں کیے بلکہ اس کے برعکس دوسری زبانوں کے ترجموں سے خود کو مزید مالا مال کیا ہے اور جن زبانوں کو انگریزی یا روسی کے علمی خزانوں سے استفادہ کرنا مقصود تھا، خود انہوں نے انگریزی اور روسی کے ادبی وعلمی شاہکاروں کو اپنی زبان میں منتقل کیا ہے۔ ہندی اور اردو میں بھی ربط بڑھانے کے لیے ترجموں کا اور دونوں رسم الخط میں کتاب کو ایک ساتھ شائع کرنے کا عمل پہلے سے جاری ہے، اسے بڑھایا جا سکتا ہے۔ ایسا سماجی تہذیبی ضرورت سے از خود ہو رہا ہے، اس کے لیے کسی سرکاری فیصلے کی ضرورت نہیں۔

    لسانی رنگا رنگی
    اردو رسم الخط کو تبدیل کرنے کا مشورہ دینے والے کبھی کبھی اردو والوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ ’’بھارت کی سب بھاشاؤں کو ایک لپی اختیار کرنی چاہئے۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان ایک تکثیری ملک ہے، اس کا جینیس اس کی رنگارنگی میں ہے۔ ہندوستان میں سیکڑوں بولیاں اور بیسیوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ سب کا اپنا اپنا مزاج اور اپنا اپنا رسم الخط ہے۔ ہندوستان میں اس وقت چار بڑے لسانی خاندان ہیں۔ آسٹری، تبّتی، برمی، دراوڑی اور ہندآریائی۔ ہند آریائی خاندان کی زبانوں کا فروغ آریوں کے داخلہ ہند کے بعد شروع ہوا۔ اس سے پہلے آسٹری اور دراوڑی خاندان کی زبانیں ہندوستان بھر میں پھیلی ہوئی تھیں۔ شمالی ہندوستان پر جب ہندآریائی تسلط ہوا تو میل جول اور اخذوقبول کے عمل سے لسانی سطح پر حیرت انگیز رنگارنگی پیدا ہوگئی۔ یہاں آج بھی ہر بیس تیس میل پر بولی بدل جاتی ہے اور اس سے رسم الخط بھی متاثر ہوتا ہے۔ ہندوستانی زبانوں کے رسم الخط میں جو بوقلمونی اور کثرت نظر آتی ہے، وہ ہمارے جغرافیائی، تاریخی، تہذیبی اور سماجی حالات کی پیدا کردہ ہے۔ اس صورت حال میں سب زبانوں کے لیے ایک ہی رسم الخط تجویز کرنا اپنے بنیادی تہذیبی تقاضوں سے بے نیاز ہونا ہے۔

    ہندوستان نے حال ہی میں پرانی زنجیروں کو توڑا ہے۔ ملکی اور قومی سطح پر فرد کی اہمیت اور جمہوری آزادی کا خواب دیکھا گیا ہے۔ ایسے نظام میں جہاں سب کو برابر کے مواقع حاصل ہوں اور اپنا اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی اجازت ہو، ایک رسم الخط کی بات کرنا گویا لسانی آزادی کے امکانات کو محدود کرنے کا اعلان کرنا ہے۔ روس جیسے ملک میں بھی جہاں حکومت کی بنیاد کلیت پسندی پر ہے اور انفرادی آزادی کے معنی اجتماعی آزادی کے ہیں، تمام صوبائی زبانوں کے رسم الخظ رد نہیں کیے گئے۔ صرف انہیں صوبائی زبانوں کے لیے روسی رسم الخط اختیار کیا گیا ہے جن کا پہلے سے کوئی باقاعدہ رسم الخط نہ تھا یا جن کا رسم الخط ناقص تھا۔ ورنہ دوسری زبانوں کے وہی رسم الخط جو نئے نظام سے پہلے رائج تھے، اب بھی مقبول ہیں۔ مثال کے طور پر آذربائی جان اور جارجیا کی زبانوں کے رسم الخط اب بھی روسی رسم الخط سے مختلف ہیں۔

    قومی یکجہتی
    قومی یکجہتی یا جذباتی ہم آہنگی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ سب زبانوں کی لِپی ایک ہو۔ ایک رسم الخط کو دوسرے پر ترجیح دینے سے نفرت بڑھےگی، کم نہیں ہوگی۔ تنگ نظری یا تعصب کی دیوار رسم الخط پر قائم نہیں۔ اس کی بہت سی دوسری وجوہ ہیں۔ رسم الخط خواہ مخواہ زدمیں آ گیا۔ قومی یکجہتی کا پرچم لہرانا بہت خوب ہے لیکن اس کے لیے لسانی آزادی سے منھ موڑنا ضروری نہیں۔ ہندوستان ایک وسیع اور عریض ملک ہے۔ یہاں مختلف زبانوں، نظریوں، فرقوں اور نسلوں کے لوگ ملیں گے۔ رسم ورواج، اخلاق وآداب اور طور طریقوں میں بھی بڑا فرق نظر آئےگا لیکن ہندوستانی مزاج اس رنگا رنگی اور کثرت کی مذمت نہیں کرتا۔ اسے یہ جلوہ صدرنگ پسند ہے اور ہماری زندگی دراصل عبارت ہے اسی وسعت اور تکثیریت سے۔ ہندوستان کی بقا اسی رنگا رنگی میں ہے۔ ہماری ترقی کا دارومدار اسی پر ہے کہ ہر پھول کو اپنے طور پر کھلنے اور مہکنے کی اجازت دی جائے۔

    تمام علاقائی زبانوں کا درجہ برابر ہے اور سب کو اپنے رسم الخط کے ساتھ ترقی کرنے کی اجازت ہے۔ قومی یکجہتی کے نام پر ایک رسم الخط کی تجویزپیش کرنا ایسا ہے جیسے گیہوں کی قلت سے متاثر ہوکر ہندوستان میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک گیہوں کی کاشت کا حکم دیا جائے اور مٹی اور آب وہوا کے فرق اور باشندوں کی مقامی ضرورتوں اور عادتوں کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے۔ قومی یکجہتی کے تصور کی بنیاداس حقیقت پر ہے کہ ہندوستان میں مختلف اور متضاد عناصر ہیں، ان میں ہم آہنگی ہونی چاہیئے۔ یعنی ضرورت ہم آہنگی پیدا کرنے کی ہے، رنگا رنگ عناصر کو مٹانے کی نہیں۔ کیونکہ اگر عناصر ہی مٹ گئے تو رہ بھی کیا جائےگا۔ رسم الخط کو تبدیل کرنے کا مشورہ گویا عناصر کو مٹانے کی کوشش ہے اور اسی لیے ہم اس کی موافقت کرنے سے قاصر ہیں۔

    مأخذ:

    اردو زبان اور لسانیات (Pg. 108)

    • مصنف: گوپی چند نارنگ
      • ناشر: وقار الحسن صدیقی
      • سن اشاعت: 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے