Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو رسم الخط کے اختلافات

ماہر القادری

اردو رسم الخط کے اختلافات

ماہر القادری

MORE BYماہر القادری

    قدرت کا یہ عجیب راز ہے کہ ہر نقصان میں تھوڑا بہت فائدہ اور ہر فائدے میں تھوڑا بہت نقصان پوشیدہ ہوتا ہے۔ اب اس کو آپ خواہ طریقِ استعمال کی غلطی سے تعبیر کریں، یا اس کے لیے کوئی جدید اصطلاح وضع فرمائیں۔ کائنات کی تمام عمرانی حیثیتوں پر آپ غور کریں گے تو آپ کو میری کہی ہوئی بات کی تصدیق ہوجائے گی۔ میں تمہید کو طول دیے بغیر صرف ایک مثال یہاں پیش کرتا ہوں، ایک شخص کی یکایک آنکھیں جاتی رہتی ہیں، اسے کچھ نظر نہیں آتا، آپ تصور کریں گے تو آپ کی نگاہوں کے سامنے اندھیرا آجائے گا کہ ایک شخص بیٹھے بٹھائے اندھا ہوگیا۔ اور بصارت جیسی بیش بہا نعمت اس سے چھین لی گئی، یہ تو نقصان کا پہلو ہے، مگر بصارت کے زائل ہوتے ہی اس کے احساس کی قوت میں اضافہ ہوگیا، یہ فائدہ کا پہلو ہے۔ کوئی شک نہیں کہ نقصان کے مقابلہ میں فائدہ بہت ہی کم ہے، مگر کسی چیز کی ’’کمی‘‘ چیز کے وجود کی ’’نفی‘‘ تو نہیں کرتی۔ یہی سودوزیاں کا سلسلہ تمام کائنات میں پھیلا ہوا ہے، ہم کو روز اس کا تجربہ ہوتا ہے، مگر ہم اس کی اہمیت کو محسوس نہیں کرتے۔

    جب کوئی جابر و ظالم حکومت کسی قوم و ملک کو مظالم کانشانہ بناتی ہے، تو مظلوم قوم و ملک کو بہت سے نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں، لیکن ان نقصانات کے ساتھ ساتھ مظلوموں میں بیداری پیدا ہوجاتی ہے۔ اور اسی بیداری کانام قوت اور انقلاب ہے۔ ایران اور توران کی باتیں کیوں کیجیے، اپنے ہی گھر کا حال دیکھیے۔ ہندوستان کو مصائب و آلام کی کس قدر پرخطر وادیوں سے گزرنا پڑا، اور ہندوستانیوں کو کس قدر شدید نقصانات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں، مگر اس کے ساتھ ان میں بیداری بھی پیدا ہو رہی ہے، او ریہ کوئی شاعرانہ تعلی نہیں ہے کہ ہندوستان انقلاب و آزادی کی منزل سے قریب تر ہو رہا ہے۔

    بالکل اسی طرح اردو، ہندی کے جھگڑے نے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ کردیا۔ اور وہ دل جو ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے، اگر جدا نہیں ہوئے، تو کم از کم اپنی جگہ بے چین تو ضرور ہوگئے، اس نقصان کے ساتھ یہ فائدہ ہوا کہ اردو کے بہی خواہوں میں ایک عام بے چینی اور بیداری پیدا ہوگئی، اور کوئی شک نہیں کہ بہی خواہانِ اردو نے بے پناہ سرگرمی دکھلاکر زندگی کا ثبوت پیش کردیا۔ ہر اردو کا بہی خواہ اپنی جگہ، اپنی بساط کے موافق کچھ نہ کچھ کر رہا ہے، اور جنہوں نے اس فتنہ کا دروازہ کھولا تھا وہ اس سرگرمی اور والہانہ بے چینی کو دیکھ کر خود پریشان ہو رہے ہیں، یہ اردو کے لیے نیک فال ہے۔ میں نجوم ورمل کاقائل نہیں ہوں، میں نے آثار و علائم دیکھ کر ’’نیک فال‘‘ کی رائے قائم کی ہے۔

    اردو ہندی کے قضیہ نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں، اور بہت سے ضروری مسائل ہماری نگاہوں کے سامنے خودبخود آگئے ہیں۔ آج کل جراید و رسائل کے ذریعہ اردو ادب میں تفریحی عنصر کا بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے، غزل، نظم، افسانے سب کے سب رومانیت میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں۔ میں تفریح و رومانیت کی افادیت کامنکر نہیں ہوں، مگر تفریح کسی چیز کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ ادب کی بنیادیں اگرتفریح کی نازک چٹانوں پر رکھی جائیں گی تو بہت دن تک عمارت قائم نہ رہ سکے گی، ادب کو تو ایک ٹھوس اور مضبوط بنیاد کی ضرورت ہے، تفریحی عنصر تو اس عمارت پر بس رنگ و روغن کرتاہے۔ اور کوئی عمارت رنگ و روغن کی بوقلمونی کے سہارے کھڑی نہیں رہ سکتی۔ اب وقت آگیا ہے کہ اردو کے بہی خواہ اردو ادب کے اہم مسائل پر غور کریں، اور یہ غور صرف جلسوں، تقریروں، اور اشتہار بازی کی حدتک پاؤں پھیلاکر ختم نہ ہوجائے، بلکہ اس کو عملی صورت میں جلوہ گر ہونا چاہیے۔ میں یہاں ایک ضروری چیز بہی خواہانِ اردو کے غور و فکر کے لیے پیش کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ شخصیت پرستی کے جذبہ سے ہٹ کر اس پر غور کیا جائے گا۔

    اس حقیقت کو سب جانتے ہیں کہ کوئی ادب اس وقت تک مکمل اور اُستوار نہیں ہوسکتا، جب تک اس کا رسم الخط مکمل اور یکساں نہ ہو۔ لہٰذا دوسرے مسائل کی طرف قدم بڑھانے سے قبل ہم کو سب سے پہلے اردو رسم الخط پر توجہ کرنی چاہیے۔ میں جو کچھ آگے چل کر کہوں گا اس کو پڑھ کر شاید آپ کہیں گے کہ یہ تو بہت ہی معمولی بات ہے، مگر بندہ پرور! آپ فیصلہ کرنے میں عجلت نہ فرمائیں، آپ ادب کے اجزائے ترکیبی اور اس کے اہم پہلوؤں پر غور کریں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ یہ بات معمولی نہیں، بلکہ بہت زیادہ اہم بات ہے۔ اتنی اہم کہ آپ کو اولین فرصت میں اس پر غور کرناچاہیے۔

    میں اوپر کہہ چکاہوں کہ رسم الخط کی یکسانی رسم الخط کی جان ہے۔ ہمارے یہاں اردو رسم الخط میں بعض اختلافات پائے جاتے ہیں، یعنی ایک ہی لفظ دوطرح سے لکھا جاتا ہے، اس اختلاف کو مٹانے اور یکسانی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس قسم کے الفاظ کچھ زیادہ نہیں، گنتی کے چند الفاظ ہیں، جن کی ایک ناتمام فہرست نیچے درج کی جاتی ہے۔ جو حضرات رسم الخط کی خصوصیتوں پر نظر رکھتے ہیں، ان کو باہم مشورہ کے ساتھ اس مسئلہ کو حل کرنا چاہیے۔ سب کے مشورے سے جو بات طے ہوگی، وہ ضرور کاآمد اور عمومی افادیت کی حامل ہوگی۔

    طوطا۔ توتا۔

    اُس۔ اوس

    اُن۔ اون

    اُٹھانا۔ اوٹھانا

    پھنچنا۔ پھونچنا

    طیار۔ تیار

    پروا۔ پرواہ

    ہاتھ۔ ہات

    مٹ بھیڑ۔ مڈبھیڑ

    رسم الخط کے اختلافات کی یہ ایک ناتمام فہرست ہے، غور و فکر کے بعد چند اور الفاظ بھی اسی قبیل کے نکل آئیں گے۔ میں نے ان الفاظ پر بہت غور و خوض کیا ہے، لہٰذا ان الفاظ کے متعلق میں اپنے غور و تفکر کانتیجہ اہلِ تفکر کے سامنے پیش کرنے کی اگر جرات کروں تو نامناسب نہ ہوگا۔ مجھے اپنی کہی ہوئی باتوں پر اصرار نہیں ہے، کہ میرے خیال کوقبول ہی کرلیا جائے، میں تو صرف مشورے کی حیثیت سے اپنے خیالات پیش کر رہا ہوں، اور مشورے کو رد بھی کردیا جاتا ہے، اور قبول بھی کرلیا جاتا ہے۔ میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ میرے مشورے کا آپ غور و فکر کی نگاہ سے مطالعہ فرمائیں۔

    طوطے یا توتے (parrot) کے متعلق یہ اعتراض اپنے اندر بڑا وزن رکھتا ہے کہ طوطے کی ’’ط‘‘ خالص عربی ہے، اگرچہ ’’ط‘‘ اردو کا حرف بھی ہے، مگر اپنی خصوصیتوں کے اعتبار سے ’’ط‘‘ کے مقابلے میں ’’ت‘‘ خالص اردو ہے۔ اس لیے توتا لکھنا زیادہ صحیح ہے۔ اس اعتراض کی اہمیت کے اعتراف کے بعد، ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ اس لفظ کو عام طور پر کس طرح لکھا جاتاہے، میرے خیال میں پچانوے فیصدی اردو لکھنے والے اس کو ’’طوطا‘‘ لکھتے ہیں، اور نگاہیں اسی رسم الخط سے مانوس ہوچکی ہیں۔ طوطے کو ’’ت‘‘ کے ساتھ لکھنے میں اردو سیکھنے والے بچوں اور مبتدیوں کے لیے ایک مشکل آکر پڑے گی، ’’توتا‘‘ کے اگر ٹکڑے کیے جائیں تو اردو کے دو لفظ ’’تو‘‘ اور ’’تا‘‘ خودبخود پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس طرح ’’توتا‘‘ لکھے جانے میں بچوں کو خواہ مخواہ التباس ہوگا۔ اور ’’طوطے‘‘ کو وہ جس آسانی اور بغیر ذہن و فکر کی تشویش و انتشار کے پڑھ سکیں گے۔ ’’توتے‘‘ کے پڑھنے میں وہ بات نہ ہوگی۔ بچوں کا ذہن ایک قسم کی الجھن محسوس کرتا ہے، جب ایک ہی لفظ بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، یا ایک ہی رسم الخط کے ہم معنی ٹکڑے کوئی دوسرا لفظ بنادیتے ہیں۔ لکھنے میں عموماً نقطے چھوٹ جاتے ہیں، اس چیز کو ذہن میں رکھ کر ’’توتے‘‘ کی مختلف صورتیں اتنی بہت سی ہوسکتی ہیں،

    نوتے۔ نونے۔ تونے۔ لونے۔

    مگر ’’طوطے‘‘ لکھے جانے میں یہ بات پیدا ہی نہیں ہوتی۔ ان وجوہ کی بناپر میرا مشورہ ’’طوطے‘‘ لکھے جانے کے حق میں ہے۔

    عام اصول ہے اور عام اصول کیا بلکہ رسم الخط کی خوبی اس میں ہے کہ کم سے کم حروف سے الفاظ بنیں، پھر اردو رسم الخط میں ’’اعراب‘‘ حروف کا کام دیتے ہیں، اس صورت میں ہم کو اعراب سے ضرور کام لینا چاہیے۔ ’’اسکے‘‘ مقابلے میں ’’اوس‘‘ لکھے جانے میں ایک تو حرف ’’واؤ‘‘ کا اضافہ ہوجاتا ہے، دوسرے شبنم کے معنی میں ’’اوس‘‘ کا املا بھی یہی ہے۔ اس طرح بغیر کسی ناگزیر ضرورت کے دومختلف المعنی الفاظ بالکل ایک طرح پر لکھے جاتے ہیں۔ اور اس میں بلاوجہ التباس کی ایک شکل نکل آتی ہے۔ حقیقت میں ’’اوس‘‘ لکھنا رسم الخط کی بہت بڑی غلطی ہے، یہاں پیش (ُ) کی حرکت صرف کافی ہے، اگر آپ نے پیش ( ُ) کا ’’واؤ‘‘ سے کام لینا شروع کیا، تو اس قاعدہ کے تحت ’’بُھس‘‘ کو ’’بھوس‘‘ لکھنا ہوگا۔ میرے خیال میں ’’اُس‘‘ لکھنا درست اور رسم الخط کے اصول کے عین مطابق ہے۔

    بالکل یہی حال ’’اُن‘’ اور ’’اون‘‘ کا ہے۔ ’’اون‘‘ لکھے جانے میں تو ’’اُون‘‘ (wool) کا بھی دھوکا ہوسکتا ہے اور ’’اُن‘‘ میں اس التباس کے لیے کوئی گنجائش ہی موجود نہیں ہے۔ اسی طرح ’’اُٹھانا‘‘ کے مقابل ’’اوٹھانا‘‘ لکھنا نامناسب معلوم ہوتا ہے، او ریہاں بھی ’’واؤ‘‘ کا کام ( ُ) سے بآسانی نکل سکتاہے۔

    میں نے اوپر کہا تھا کہ ’’کم سے کم حروف میں الفاظ بننا رسم الخط کی خوبی ہے۔‘‘ مگر مشکلات کے مقابلے میں بعض خوبیوں کو نظرانداز بھی کردیا جاتا ہے۔ ’’پھونچنا‘‘ کے مقابل ’’پھنچنا‘‘ لکھے جانے میں ایک حرف کی بچت تو ضرور ہوتی ہے۔ مگر عام طور پر جب رو میں لکھتے ہیں تو ’’پھچنا‘‘ اور ’’بھیجنا‘‘ یکساں پڑھے جاتے ہیں، اس لیے کہ تیزی کے ساتھ لکھنے میں شوشوں اور نقطوں کا کوئی خیال نہیں کرتا۔ شوشوں اور نقطوں کی باریکیوں کو ذہن میں رکھ کر دیکھو تو بھیجنا، پھنچنا، بھیچنا، کا املا کس قدر ملتا جلتا ہے، ان مشکلات کے مدنظر ’’پھنچنا‘‘ کو ’’پھونچنا‘‘ لکھنا بہت مناسب ہے۔ اس طرح ایک حرف کا ضرور اضافہ ہوگیا، مگر اس اضافہ نے آپ کی کتنی بڑی مشکل کو گھٹادیا۔

    طوطا اور توتے کے بیان میں ’’ط‘‘ اور ’’ت‘‘ سے بحث کی گئی ہے، طیار او رتیار میں بھی اس اصول سے کام لیا جاسکتا تھا، مگر یہاں یہ مشکل آپڑی ہے، کہ عربی میں ’’طیار‘‘ بہت زیادہ اڑنے والے کو کہتے ہیں۔ اس طرح ’’طیار‘‘ لکھنے جانے میں عربی لفظ کے معنی کاالتباس ہوتاہے۔ اور ہم اس قسم کے التباسات کو جس حدتک رسم الخط اجازت دے گا، گھٹاناچاہتے ہیں۔ اس لیے ’’تیار‘‘ لکھنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اورمیرا خیال ہے کہ زیاد لوگ اسی طرح لکھتے ہیں۔

    ’’پرواہ‘‘ میں تو ’’ہ‘‘ بالکل زائد ہے، بعض قدیم شعرانے ’’ہ‘‘ کو البتہ ظاہر کیا ہے، مگر عام طور پر بولنے میں ’’ہ‘‘ کااعلان نہیں کیا جاتا۔ ’’ہ‘‘ کے اعلان سے کوئی معنوی یا صوری فائدہ بھی نہیں ہے، اس لیے بلاکسی فائدے کے حرف کا اضافہ کرنا نادرست ہے، لہٰذا ’’پروا‘‘ لکھنا زیادہ صحیح ہے۔

    ہاتھ اور ہات کا مسئلہ قدرے بحث طلب ہے۔ ’’ہات‘‘ لکھنے والے کہتے ہیں کہ بولنے میں ’’ہ‘‘ کا اعلان نہیں کیا جاتا، اس لیے ’’ہاتھ‘‘ لکھنا درست نہیں۔ رسم الخط اور زبان کے مسئلہ میں عام خیال و رجحان، کثرتِ استعمال کا بھی بڑا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ میرے خیال میں قدیم و جدید کتابوں میں زیادہ تر ’’ہاتھ‘‘ لکھا گیا ہے، ’’ہات‘‘ بہت ہی کم جگہ ملے گا۔ ہاتھ کو اگر ہات لکھیں گے، تو یہ ضرور ہوگا کہ شعرا کو ’’رات اور بات‘‘ کے وزن میں ایک قافیہ مل جائے گا، مگر شعرا کے لیے ایک بڑی دقت یہ ہوجائے گی کہ ’’ساتھ‘‘ کے ہم وزن کوئی شگفتہ قافیہ اردو میں ان کو غالباً نہ مل سکے گا۔ اس کے ماسوا اردو میں ایسے الفاظ آپ کو ملیں گے، جن میں ’’ہ‘‘ لکھی جاتی ہے، جس طرح بولتے ہیں ’’ہاتی‘‘ اور لکھتے ہیں ’’ہاتھی‘‘ میرے خیال میں ’’ہاتھ‘‘ ہی لکھنا مناسب ہے۔

    مٹ بھیڑ اور مڈبھیڑ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں صوبیداری جھگڑا پیدا نہ ہوجائے، مگر اب اِن باتوں پر جھگڑنے کاوقت نہیں رہا۔ ہم کو وسعتِ قلب کے ساتھ رسم الخط اورقواعد کوایک مرکز پر لانا ہے۔ اس لفظ ’’مٹ‘‘ یا ’’مڈ‘‘ ’’دوچیزوں کے باہم ملنے‘‘ کے مفہوم کو ظاہر کرتا ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اعراب کے اختلاف کے ساتھ یہی لفظ ’’گڈمڈ‘‘ میں ’’ڈ‘‘ کے ساتھ ملتا ہے۔ صوتی لحاظ سے بھی اس لفظ میں ’’ٹ‘‘ کا تلفظ زیادہ بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ اس لیے وجدان ’’مڈبھیڑ‘‘ کے جواز کا فتویٰ دیتا ہے۔

    ایک لفظ ایسا بھی اردو میں پایا جاتا ہے جس کے متعلق میں رائے دوں گا، کہ اس میں رسم الخط کے اختلاف کو باقی رکھا جائے، یہ لفظ ’’ہوشیار‘‘ ہے، جسے ہم ’’ہُشیار‘‘ بھی لکھتے ہیں۔ یہاں دیکھیے اُن اور اون‘‘ میں جو (واؤ) اور ( ُ) کی نزاع پائی جاتی ہے، اس کا انطباق یہاں نہیں ہوسکتا۔ اس اختلاف سے سب سے بڑا فائدہ تو شاعری کو پہنچتا ہے، کہ وزن کے لحاظ سے دونوں صورتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اور یہ فائدہ کوئی معمولی فائدہ نہیں ہے۔ پھر بولنے میں ’’ہوشیار‘‘ کے ’’واؤ‘‘ او رہُشیار کے ’’پیش‘‘ ( ُ) سے مختلف خیالات کااظہار ہوتا ہے۔ اس لیے میری رائے ہے کہ ہوشیار اور ہشیار دونوں طرح لکھے جانے چاہئیں۔

    میں آخر میں پھر عرض کرتاہوں، کہ اربابِ فکر رسم الخط کے ان اختلافات پر غور فرمائیں اور مشورے کے بعد فیصلہ صادر کریں، جب اخبارات و رسائل کے ایڈیٹر اور مضمون نگار اس فیصلہ کی پابندی کریں گے تو چند دن میں اختلافات خود بخود مٹ جائیں گے، یہ اختلافات نہ کوئی مذہبی اختلافات ہیں اور نہ صوبہ داری ہیں، اِن کا مٹ جانا کچھ مشکل نہیں ہے۔ بس اربابِ فکر کے ہاتھ پیر ہلانے کی ضرورت ہے۔

    مختلف صوبوں میں جو لسانی اختلافات پائے جاتے ہیں، ان کے متعلق بھی بعض چیزیں میرے ذہن میں ہیں، جن پر فرصت و اطمینان کے ساتھ اظہارِ خیال کروں گا۔

    مأخذ:

    ساقی،دہلی (Pg. 46)

      • ناشر: شاہد احمد دہلوی
      • سن اشاعت: 1938

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے