aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو رسم الخط: تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ

گوپی چند نارنگ

اردو رسم الخط: تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ

گوپی چند نارنگ

MORE BYگوپی چند نارنگ

     

    زبان کی طرح رسم الخط بھی عوامی چیز ہے اور ہر شخص کو اس پراظہار خیال کا حق پہنچتا ہے۔ اس لیے اس مسئلے پر لکھنے والوں میں عالم اور عامی سبھی شامل ہیں، لیکن زیادہ تر تحریریں جذباتیت سے مغلوب ہو کر لکھی گئی ہیں، جن کا مقصد اتنا روشنی پھیلانا نہیں جتنا گرمی بڑھانا ہے۔ ضرورت ہے کہ اردو رسم الخط کے مسئلہ پر معروضی علمی انداز سے نظرڈالی جائے اور تبدیلی کا مشورہ دینے والوں کے محرکات کا پتہ چلایا جائے، نیز موجودہ رسم الخط کو زندہ رکھنے کے تہذیبی اور لسانیاتی پہلوؤں پر غور کیا جائے۔


    آزاد ہندوستان کا ایک المیہ یہ ہے کہ زبان کے مسائل کو سیاست کی نظر سے اور سیاست کے مسائل کو مذہب کے نقطۂ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ انداز نظر سامراجی ایجنڈے کا اور ہماری اس میراث کا جزو ہے جو ہم نے بیسویں صدی میں پچھلی نسلوں سے حاصل کی ہے۔ فرقہ واریت، منافرت، تعصب اور تنگ نظری نے ہماری حالیہ تاریخ کے اوراق کو بری طرح داغ دار کر دیا ہے۔ اردو کے حقوق کا مسئلہ دراصل محض اردو کے حقوق کا مسئلہ نہیں ہے، یہ اکثریت کے ردعمل کا مسئلہ بھی ہے۔ پنڈت آنند نرائن مُلا نے اپنے خطبۂ صدارت جے پور اردو کانفرنس میں کہا تھا،

    ’’تقسیم ہند کی وجہ سے اکثریت کے دلوں میں جو غبار آ گیا ہے، وہ کسی طرح مٹنے کا نام نہیں لیتا اور پاکستان کے خلاف جو غصہ ہے، وہ غریب اردو پر اتارا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کو اس ملک کی زبان ماننے سے انکار ہے۔‘‘

     آزاد ہندوستان میں اردو کے حقوق کی اور اس کے رسم الخط کو زندہ رکھنے کی کوئی بھی بحث فرقہ وارانہ سیاست کے منفی اثرات، ہندومسلمان علاحدگی پسندی کے رجحانات اور تقسیم کے پس منظر کو فراموش کرکے کی ہی نہیں جا سکتی۔ یہ وہ حقائق ہیں، جن کا سامنا کرنے اور انہیں سمجھنے کے بجائے اکثروبیشتر ہم ان سے آنکھیں چراتے ہیں۔

     ان باتوں کا ذکر کرکے منھ کا ذائقہ تو خراب ہوتا ہی ہے، تاہم یہ واقعہ ہے کہ جب بھی ہم اردو کے مسئلہ پر غور کریں گے، شعوری یا تحت الشعوری طور پر یہ بیانات ہمارے ذہن میں حاضر ہوں گے کہ فرقہ وارانہ ذہنیت رکھنے والا ایک طبقہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ’’اردو پاکستان کی زبان ہے‘‘ یا ’’اردو کا رسم الخط غیرملکی ہے‘‘ یا ’’اردو کو اس کے رسم الخط میں زندہ رکھنے کی کوشش فرقہ وارانہ ہے اور مشترک تہذیب کی راہ میں سنگ گراں۔‘‘ خصوصاً جب خود اردو میں ایسے کرم فرماؤں کی کمی نہیں جو مابعد الطبعیات اور لسانیات میں خلط مبحث کرتے ہیں۔

    کسی رسم الخط کاما بعد الطبعیاتی مطالعہ 1 پیش کرنے میں کوئی قباحت نہیں، لیکن اگر کھینچ تان کر ایسے نتائج اخذ کیے جائیں جن کا مقصد اردو کو لسانی طور پر محدود کرنا یا اس کی مشترکہ سماجی اور تہذیبی حیثیت کو نقصان پہنچانا ہو تو موجودہ حالات میں اسے اردو کی خدمت نہیں کہا جا سکتا۔ فرقہ وارانہ سیاست نے لسانی اور تہذیبی سطح پر جو زہر پھیلایا ہے وہ رگ وپے میں بری طرح سرایت کر گیا ہے، اور جب تک اس کا اثر باقی ہے، زبان کے مسئلے پر سوچتے ہوئے اس زہر کے عمل اور درعمل سے صرف نظر کرنا خود کو دھوکہ دینا ہے۔

    اس پس منظر میں اردو کے ان ادیبوں اور شاعروں کی باتوں پر غور کیجیے جو اردو کے ادیب ہوتے ہوئے اردو رسم الخط کو بدل کردیوناگری کردینے کے مشورے دیتے ہیں، تو معلوم ہوگا کہ شعوری یا غیرشعوری طور پر وہ اپنی زبان کو زندہ رکھنے کے لیے کتنی بڑی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ آج سے دس برس قبل جب بمبئی کے اردو حلقوں سے دیو ناگری کی حمایت میں سب سے پہلی آواز اٹھی تھی تو ہم نے اس سے اختلاف کیا تھا۔ ہم اس مشورے کے اب بھی خلاف ہیں، لیکن اس کی تہہ میں بے تعصبی، بلند نظری اور وسیع تر ملکی اور لسانی مفاد کا احساس اور قربانی وایثار کا جو جذبہ ملتا ہے، اس کی دل سے قدر کرتے ہیں۔ ایسا مشورہ دینے والے ان لوگوں سے مختلف ہیں جو اصلاً ہندی کے حامی ہیں، اور اردو کو ہندی میں ضم کرنے کے لیے اردو والوں سے اپنا رسم الخط چھوڑ دینے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔

    یہ مطالبہ تو غیروں کا ہے، لیکن جس مشورے کا ہم ذکر کر رہے ہیں، وہ ’’اپنوں‘‘ کا ہے۔ ایسا مشورہ دینے والے اردو ادیب مارکسی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے نظریہ زبان کی رو سے عوامی زبان یا پرولتاری زبان ہی اصل زبان ہے۔ یہ بات بڑی حد تک صحیح بھی ہے کیونکہ بالعموم کسی بھی زبان کی جڑیں اس کی بولیوں میں پیوست ہوتی ہیں۔ اردو بھی بولیوں کے بطن سے آئی ہے، لیکن اس کے مخصوص تہذیبی اور سماجی کردار کی وجہ سے اس کا رشتہ بولیوں سے وہ نہیں رہا جو اس کے مقابلے میں ہندی کا ہے۔ چنانچہ یہ نظریہ زبان اردو کے ساتھ پورا انصاف نہیں کر سکتا۔ اس کی رو سے لازم آتا ہے کہ بنیادی اہمیت بولیوں کی ہے، یعنی برج، راجستھانی، ہریانی، کھڑی، قنوجی، بندیلی، اودھی، مگھی، میتھلی، بھوج پوری، پہاڑی وغیرہ۔

    ہندی میں یہ سب بولیاں بشمول کھڑی کے موجود ہیں جب کہ اردو صرف کھڑی کا ارتقائی روپ ہے، اور ارتقائی روپ بھی وہ جس کی نشوونما مخصوص شہری تمدن میں متوسط اور اعلیٰ طبقے کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے ان حضرات کے نزدیک اردو زبان ہے جسے طبقۂ اشرافیہ نے پروان چڑھایااور جومحض اپنے رسم الخط کی وجہ سے ہندی سے مختلف ہو گئی۔ گویا اس نظریے کے تسلیم کرنے والوں کی نظر میں اردو ایک طرح کی مصنوعی زبان ہے جو پڑھے لکھے طبقے اور شہری آبادی تک محدودہے اور جاگیردارانہ ماحول کی پروردہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ہندی وسیع تر فطری زبان ہے جس کا دامن ہزاروں میلوں میں پھیلی ہوئی بولیوں سے بندھا ہوا ہے۔ اس نظریہ سے یہ منطقی نتیجہ برآمد ہوتا ہے، چونکہ موجودہ جمہوری دور میں اشرافیہ کی زبان پر عوامی زبانیں غالب آ جائیں گی، اس لیے بہتر یہی ہے کہ اردو والے خود ہی اپنے رسم الخط سے دستبردار ہو جائیں، اور دیوناگری کو اپنا لیں۔

    یہ نظریہ جہاں تک مذہب، نسل، فرقہ اور زبان کی چھوٹی وفاداریوں سے بلند ہونے کا حوصلہ عطا کرتا ہے یا عوام کی لسانی طاقت پر زور دیتا ہے یا زبان کے بولنے والوں کو لسانی وحدت کے طور پر پیش کرتاہے، وہاں تک تویقیناً قابل قدر ہے لیکن اردو اور ہندی میں جو انتہائی پیچیدہ اور مخصوص تہذیبی اور لسانی رشتہ ہے یعنی جس طرح دونوں کی بنیاد کھڑی بولی پر ہے، لیکن تاریخی حالات کے زیر اثر دونوں کا ارتقا پچھلی کچھ صدیوں کے سفر میں جس طرح الگ الگ ہوا ہے، جس سے یہ دو منفرد زبانیں بن گئی ہیں، یا ہندو اور اسلامی تہذیب میں اخذ وقبول اور ارتباط واختلاط کا جو عمل صدیوں تک جاری رہا، اردو جس طرح اس سے متاثر ہوئی ہے اور مشترک تہذیبی قدروں کے فروغ میں، اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان لسانی مفاہمہ کی حیثیت سے اردو نے جو بیش بہا خدمت انجام دی ہے اور اس میں اور ہندی میں جو بنیادی لسانی اشتراک اور بنیادی تہذیبی اختلاف ہے، ان سب پیچیدگیوں کو سمجھنے میں یہ نظریۂ زبان زیادہ دور تک ہمارا ساتھ نہیں دیتا۔

     صدیوں کی تاریخی ضرورتوں، رواج اور چلن اور معیار بندی نے اردو کو جو خاص لسانی، سماجی اور تہذیبی منصب اور مقام عطا کیا ہے، اس کو بھی یہ نظریہ تسلیم نہیں کرتا، اور یہیں سے اس کی کوتاہی واضح ہو جاتی ہے۔ چنانچہ باوصف اس کے کہ ہم اس نظریہ کے حامیوں کی نیت پر شبہ نہیں کرتے، ہم اس نظریہ کی تائید سے قاصر ہیں۔

    تبدیلی کا مشورہ دینے والے اردو ادیب یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے اردو کے حقوق کا مسئلہ ختم ہو جائےگا اور قومی یکجہتی کے لیے فضا سازگار ہو جائےگی۔ آزادی کے چند برس بعد جب بعض سیاست دانوں نے اس پر زور دینا شروع کیا تھا کہ قومی وحدت کے لیے یہ ضروری ہے کہ تمام زبانوں کا رسم الخط ایک کر دیا جائے تو بعض صوبائی حکومتوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ بعد میں جب قومی یکجہتی کونسل نے بھی تمام زبانوں کے لیے دیوناگری اختیار کرنے کامشورہ دیا تو جنوبی ہندوستان میں اس کے خلاف شدید احتجاج ہوا تھا اور بالآخر پنڈت جواہر لعل نہرو کو کانگریس کے مدورائی اجلاس میں یہ یقین دلانا پڑا تھا کہ کسی بھی زبان کا رسم الخط اس کے بولنے والوں کی مرضی کے خلاف تبدیل نہیں کیا جائےگا، اور اس سلسلہ میں آئین ہند کی دفعہ (۱) ۲۹ کا حوالہ دیا گیا تھا جس کی روسے ہندوستان کی لسانی اقلیتوں کو اپنی زبان اور اس کے رسم الخط کے تحفظ اور استعمال کا پورا پورا حق حاصل ہے۔

    ہمارے رسم الخط کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ہماری ضرورتوں کا ساتھ دینے کے علاوہ یہ پاکستان، ایران، افغانستان، شام، اردن، عراق، مصر، سعودی عرب، انڈونیشیا، ملیشیا وغیرہ بیسیوں ایشیائی ملکوں سے ہمارے تہذیبی روابط کو استوار کرنے کا کام دیتا ہے۔ لکھنے میں دوسرے خطوں کی بہ نسبت یہ ایک تہائی جگہ کم لیتا ہے اور اسی اعتبار سے اس میں وقت بھی کم صرف ہوتا ہے۔

    لسانی اور تہذیبی کثرت اور بوقلمونی کے اعتبار سے ہندوستان دنیا کے زرخیزترین خطوں میں سے ہے۔ ہندوستان میں اس وقت چار بڑے لسانی خاندان ہیں: آسٹری، تبتی، برمی، دراوڑی اور ہندآریائی۔ ہند آریائی خاندان کی زبانوں کے فروغ سے پہلے ہندوستان بھر میں آسٹری اور دراوڑی خاندان کی زبانیں پھیلی ہوئی تھیں۔ شمالی ہندوستان پر جب ہندآریائی کا تسلط ہوا تو میل جول اور اخذوقبول کے عمل سے لسانی سطح پر حیرت انگیز رنگارنگی پیدا ہو گئی جس سے یہاں بقول شخصے ہر بیس تیس میل پر بولی بدل جاتی ہے، اور اس کی رعایت سے رسم الخط بھی متاثر ہوتا ہے۔ ہندوستانی زبانوں کے رسم الخط میں جو رنگارنگی اور اختلافات نظر آتے ہیں، وہ ہمارے جغرافیائی، تاریخی، تہذیبی اور سماجی حالات کے پیدا کردہ ہیں۔

    ہمارے آئین کی بنیاد سیکولر تصور پر رکھی گئی ہے۔ ایسے نظام میں جہاں سب کو برابر کے مواقع حاصل ہیں اور اپنے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت ہے، قومی یکجہتی کے نام پر رسم الخط کو تبدیل کرنا گویا لسانی آزادی کے امکانات کو ختم کرنا ہے۔ ایک رسم الخط کو دوسرے پر ترجیح دینے سے نفرت بڑھےگی، کم نہیں ہوگی۔ تنگ نظری اور تعصب کی دیوار رسم الخط پر قائم نہیں بلکہ جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکاہے، اس کی دوسری بہت سی وجہیں ہیں۔ ہندوستان میں مختلف زبانوں، مذہبوں، عقیدوں، فرقوں اور نسلوں کے لوگ بستے ہیں، جن کے رسم ورواج، اخلاق وآداب اور طور طریقوں میں بڑا فرق ہے۔ ہندوستانی مزاج اس رنگا رنگی اور کثرت کی مذمت نہیں کرتا، بلکہ اس کے جلوہ صدرنگ پر اصرار کرتا ہے۔

    جب ہماری زندگی عبارت ہی وسعت اور کثرت سے ہے اور ہندوستان کی بقا ہی رنگارنگی میں ہے تو رسم الخط کی تبدیلی کا مشورہ دینا کہاں کی دانش مندی ہے؟ قومی یکجہتی کے تصور کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ ہندوستان میں مختلف اور متضاد عناصر ہیں، ان میں ہم آہنگی ہونی چاہئے، یعنی ضرورت ہم آہنگی پیدا کرنے کی ہے، عناصر کو مٹانے کی نہیں۔ رسم الخط کے تبدیل کرنے کا مشورہ چونکہ عناصر کو مٹانے کی کوشش ہے، اس لیے تہذیبی نقطۂ نظر سے قابل عمل نہیں۔

    (۲)
    مسئلہ کے تہذیبی پہلو پر غور کر لینے کے بعد اب اس کے لسانیاتی پہلو کو لینا چاہئے لیکن اس سے پہلے دو مفروضوں کی تردید ضروری ہے، اول یہ کہ اردو رسم الخط کے بغیر اردو زبان کا تصور نہیں کیا جا سکتا، دوسرے یہ کہ اردو کا رسم الخط غیرملکی ہے۔ پہلے سوال پر بحث کرتے ہوئے زبان اور رسم الخط کا رشتہ بھی زیربحث آئےگا۔ رسم الخط بعض لوگوں کے نزدیک لباس کا درجہ رکھتا ہے، یعنی ایک اتارا اور دوسرا پہن لیا اور بعض کے نزدیک کھال کا یعنی جس طرح ایک جسم کو دوسری کھال میں داخل نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح ایک زبان کے لیے دوسرا رسم الخط اپنانا بھی ناممکن ہے۔ لسانیات کی رو سے اصل اور بنیادی چیز بولی جانے والی زبان ہے، رسم الخط ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ پہلے زبان اور اس کا چلن وجود میں آتا ہے، تحریر کی ضرورت بعد میں پیش آتی ہے۔ رسم الخط زبان کا تابع ہے، زبان رسم الخط کے تابع نہیں۔ رسم الخط زبان کی آوازوں کو علامتوں کے ذریعہ ظاہر کرتا ہے اور اس کا کام زبان کو ضبط تحریر میں لاکر ترسیل میں مدد دینا ہے۔ زبان میں تبدیلی ہوگی تورسم الخط بھی اس سے متاثر ہوگا۔

    اگرچہ کسی بھی دو زبانوں کی آوازیں ایک سی نہیں ہوتیں لیکن اتنی بات طے ہے کہ کسی بھی زبان کو کسی دوسرے رسم الخط میں لکھا جا سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کرنا ہوتا ہے کہ نئی آوازوں کے لیے نئی علامتیں وضع کرنی پڑتی ہیں۔ غرض جہاں تک اصول کا تعلق ہے، اردو کے لیے رومن اور دیوناگری دونوں رسم الخط مناسب اضافوں کے ساتھ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ انگریزوں کے زمانے میں مدتوں تک ہندوستانی فوج میں اردو رومن حروف کے ذریعہ سکھائی جاتی تھی اور اس میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ جدید دور میں اردو کتابیں آئے دن دیوناگری میں شائع ہو رہی ہیں اور ان کے پڑھنے والوں کو کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی۔ نیز جدید لسانیات میں تجرباتی کام کے لیے خواہ وہ کسی بھی زبان سے متعلق ہو، International Phonetic Alphabets یعنی بین الاقوامی صوتیاتی علامتوں کا استعمال ہوتا ہے جو رومن کی توسیعی شکل ہیں اور ان کے ذریعہ تلفظ کے نازک سے نازک فرق کو بھی سائنسی صحت سے واضح کیا جا سکتا ہے۔

    دنیا میں اردو جہاں جہاں جدید لسانیاتی Aural-Oral طریقہ سے پڑھائی جاتی ہے، وہاں اول اول اردو آوازوں کی صوتی مشق رومن کے ذریعہ کرائی جاتی ہے اور اردو رسم الخط اس کے بعد سکھایا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ اصولی طور پر اردودوسرے رسم الخط کے ذریعہ لکھی اور پڑھی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں بعض عالمی زبانوں کی مثال لیجیے۔ ترکی کے لیے رومن کو اختیار کر لیا گیا ہے، نیزروس کی کئی علاقائی زبانوں کے لیے روسی رسم الخط استعمال کیا جاتا رہا ہے، لیکن وہ زبانیں زندہ ہیں اور ان کی نشوونما جاری ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی زبان کو دوسرے رسم الخط میں لکھا جا سکتا ہے اور اس میں وہ زبان زندہ رہ سکتی ہے۔ اس سے لازم آیا کہ اردو زبان کا تصور اردو رسم الخط کے بغیر ممکن ہے اور اردو کو دوسرے رسم الخط میں لکھا جا سکتا ہے، اور اس میں وہ زبان زندہ رہ سکتی ہے، لیکن جتنا یہ لسانی اصول صحیح ہے کہ کسی بھی زبان کو کسی دوسرے رسم الخط میں لکھا جا سکتا ہے، اتنی ہی یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ اردو اور ہندی میں جو قریبی لسانی رشتہ ہے، اس کی نظیر دنیا کی کسی دوبڑی زبانوں میں جن کا رسم الخط تبدیل کیا گیا ہو، نہیں ملےگی۔

    اول تو اردو اور ہندی میں جو فرق ہے وہ صرفی ونحوی سطح پر ضمنی نوعیت کا ہے۔ اصل فرق صوتیات، لفظیات اور معنیات کا ہے جس کی حد بندی رسم الخط اور صرف رسم الخط سے ہوتی ہے۔ چنانچہ رسم الخط میں تبدیلی کے مشورے کو ماننے کا مطلب ہوگا کہ ہم اردو کی انفرادیت سے ہاتھ اٹھانے کو تیار ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہندی کو جو کل ہند حیثیت حاصل ہے اور اس کی پشت پرجو ہمہ گیر لسانی طاقت ہے، جس کا سکہ پنجاب اور راجستھان سے بہار تک چلتا ہے، اس کا تقاضا یہی ہے کہ یہ سارا علاقہ ہندی کے تصرف میں ہو۔ اتفاق سے اردو کا علاقہ بھی اسی علاقہ کا حصہ ہے۔ چنانچہ رسم الخط بدل دینے سے اردو کی حیثیت ایک اسلوب کی ہو جائےگی، علاقائی اسلوب کی بھی نہیں، محض سماجی اسلوب کی۔

    ظاہر ہے کہ اردو زبان جس کی پشت پر صدیوں کی تاریخ ہے اورجس کا عظیم الشان علمی وادبی سرمایہ ہے، محض ایک سماجی اسلوب کی حیثیت پر قانع نہیں ہو سکتی۔ غرض اردو رسم الخط تبدیل کرنے کا مشورہ اصولی طور پر قابل عمل ہوتے ہوئے بھی لسانیاتی اور تہذیبی دونوں نقطۂ نظر سے ناقابل عمل ہے۔ نیز سوال صرف دیوناگری کو اپنانے کا نہیں، اپنے رسم الخط کو چھوڑنے کا بھی ہے، یعنی یہ کہ وہ رسم الخط جس سے ہم صدیوں سے مانوس رہے ہیں اور جس کی حیثیت ہمارے صدیوں کے علمی وادبی سرمایے کی کنجی کی ہے، اس میں ایسی کیا کمزوری یا خرابی ہے کہ ہم خواہ مخواہ اس سے دست بردار ہو جائیں؟

    دوسرا مفروضہ جس کی تردید ضروری ہے یہ کہ اردو رسم الخط غیرملکی ہے۔ ہندوستان کی بیس سے زائد زبانوں میں سے جن دو زبانوں کا رسم الخط خاص طور پر بدلنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، وہ اردو اور سندھی ہیں، اور مشورے کی تہہ میں شعوری یا لاشعوری طور پر یہی جذبہ کارفرما ہے کہ ان زبانوں کا رسم ا لخط غیرملکی ہے، اس لیے قومی یکجہتی کی راہ میں سنگ گراں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارا رسم الخط سامی الاصل ہے، عربی سے اسے فارسی نے لیا اور فارسی سے اردو نے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارا رسم الخط کلیۃً عربی فارسی رسم الخط کی نقل ہے بلکہ علامہ کیفی کی اصطلاح میں صدیوں کے استعمال سے اس کی تارید تہنید ہو چکی ہے۔

    یہ رسم الخط اب اردو اور صرف اردو کا رسم الخط ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ مصمتوں میں ز، ذ، ض اور ظ کا تلفظ عربی میں الگ الگ ہے جب کہ اردو میں ان چاروں علامتوں کو ایک ہی صوت یعنی ز کے طور پر بولا جاتا ہے۔ اسی طرح کئی دوسری علامتوں کی بھی تہنید ہو چکی ہے اور انہیں ان کی مقابل ہند آریائی آوازوں میں ضم کر دیا گیا ہے، مثلاً ث اور ص کو ہم نے س کی آواز میں، ح کو ہ کی آواز میں، اور ط کو ت کی آواز میں ملا کر عربی الاصل آوازوں کی انفرادیت ختم کردی ہے۔ عربی میں ہمزہ مصمۃ ہے اور اس کے بغیر کسی مصوتہ کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا لیکن اردو میں اس کی ایسی کایا کلپ ہوئی ہے کہ یہ حرف بے صوت ہو کر رہ گیا ہے اور اس کا استعمال ہم محض دو مصوتوں کے لفظ میں ایک ساتھ آنے کے لیے کرتے ہیں۔

     تارید کے اس عمل کا دوسرا رخ ان اضافوں سے متعلق ہے جو ہم نے اردو رسم الخط میں کیے ہیں۔ ہمارے مصوتے دس کے دس وہی ہیں، جو دیوناگری کے ہیں، ان میں سے چار یعنی یا ے مجہول (لینا، دینا)، واؤ مجہول (بولنا، تولنا)، یا ے لین (پَیر، بَیر)، واؤ لین (پودا، سودا) کا تصور عربی یا فارسی سے نہیں بلکہ اردو سے مخصوص ہے۔ اردو رسم الخط میں زیادہ اضافے معکوسی اور ہکار علامتوں میں ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر عربی یا فارسی میں ٹ، ڈ اورڑکا تصور نہیں، یہ معکوسی آوازیں اور ان کے ہکار روپ ٹھ، ڈھ اور ڑھ ہندوستان سے مخصوص ہیں اور اردو والوں نے اس کے لیے نئی علامتیں وضع کی ہیں۔ یہی معاملہ آٹھ بندشی ہکار آوازوں یعنی بھ، پھ، تھ، دھ، چھ، جھ اور کھ، گھ کا ہے۔ ہم نے بندشی حروف اور ہاے دو چشمی دوسروں سے لیے، لیکن ب، پ کو ہاے دوچشمی سے ملا کر ہکار آوازوں کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت اردو ہی میں پیش آئی۔ یہ آٹھ ہکار بندشی اور چھ معکوسی یعنی چودہ آوازیں اردو کی اردوئیت کا لازمی عنصر ہیں۔

    اردو کے صوتی توازن کی یہ دلچسپ مثال ہے کہ جس طرح ف، ز، خ، غ اور ق غیرملکی آوازوں کے بغیر اردو کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح مذکورہ بالا چودہ دیسی آوازوں کے بغیر بھی اردو کا تصور ناممکن ہے۔ ۳۶حروف کے رسم الخط میں چودہ حروف صحیح اور چار حروف علت کی آوازوں کے تصور کا اضافہ اردو میں تہنید کے عمل کا کھلا ہوا ثبوت ہے۔ ان اضافوں سے ہم نے ایک نیا ملا جلا رسم الخط بنایا ہے جو اردو کے فطری تقاضوں کا ساتھ دیتا ہے۔ بلاشبہ ہم نے اسے عربی فارسی سے لیا ہے، لیکن ہند آریائی صوتیاتی نظام کا ساتھ دینے کے لیے چودہ آوازوں کے تصور کا اضافہ کچھ اہمیت رکھتا ہے۔ اتنی تبدیلیوں کے بعد یہ رسم الخط اس حد تک ہمارا اپنا بن گیا ہے کہ تبدیل شدہ صورت میں عرب اور ایرانی اسے اپنا کہنے کو تیار نہیں۔

    چنانچہ ان حالات میں اسے عربی فارسی رسم الخط کہنا غلط ہے اور ہمیں اس کو اردو رسم الخط کہنے پر اصرار کرنا چاہئے۔ جس طرح اردو ایک آزاد اور مستقل زبان ہے، اسی طرح اردو رسم الخط بھی ایک آزاد اور مستقل رسم الخط ہے۔ جہاں تک دوسروں سے کچھ لینے کا سوال ہے تو اخذ وقبول کا عمل ہندوستانی زندگی کے کس شعبے میں نہیں ملتا۔ ویدک زمانے میں تہذیبی لین دین دراوڑی اور آریائی تہذیبوں کے درمیان ہوا، عہد وسطیٰ میں اختلاط وارتباط کا یہی عمل ہندی اور اسلامی تہذیبوں کے درمیان جاری رہا اور اس کی کارفرمائی ہمارے سماج کے ہر شعبہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

    آج کس کو فکر ہے کہ حلوا، برفی، فالودہ، قلاقلند، قورمہ، کوفتہ اور بریانی کی وطنیت کیا ہے یا قمیص، پائجامہ، شلوار اور شیروانی کہاں سے آئے تھے، یا شریفہ، انگور، سنگترہ، سردہ اور سیب ملکی ہیں یا غیر ملکی؟ جب ان سب چیزوں کو ہم اپنا سمجھتے ہیں اور انہیں ہندوستانی تصور کرتے ہیں تو اس رسم الخط کو جسے ہم نے صدیوں پہلے اپنا لیاتھا اور جس کے چلن کی حیثیت ہماری تہذیب کے جسم میں خون کی روانی کی سی ہے، ہم اسے غیرملکی کیوں سمجھتے ہیں اور اسے ہندوستانی کیوں نہیں کہتے؟

    (۳)
    اس مقام پر ایک نظر اردو رسم الخط کے صوتیاتی تجزیے پر ڈال لینی چاہئے۔ اردو رسم الخط کو اگر مصمتوں کا نگارخانہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ہمارے ہاں جتنی علامتیں ہیں، ان کے مقابل اتنی آوازیں نہیں۔ سائنسی رسم الخط میں آوازاور علامت میں ایک اور ایک کی نسبت ہوتی ہے۔ بندشی آوازوں میں ہمارے ہاں سوائے ایک کے کوئی علامت فاضل نہیں، یعنی پ، ب، ت، د، ٹ، چ، ج، ک، گ، اورق۔ ان گیارہ علامتوں میں ایک اور ایک کی نسبت ہے، صرف ت کے لیے ط کی صورت میں دوسری علامت موجود ہے۔ (ق کا چلن پاکستان میں نسبتاً کم ہے اور حیدرآباد دکن میں یہ آواز قریبی صفیری آواز خ میں بدل جاتی ہے، لیکن شمالی ہندوستان کے اردو علاقوں میں اب بھی اس کی انفرادیت برقرار ہے۔) دس بندشی ہکار آوازیں یعنی پھ بھ، تھ دھ، ٹھ ڈھ، چھ جھ اور کھ گھ خالص ہند آریائی آوازیں ہیں اور ان کا ایک سٹ کی حیثیت سے اردو میں موجود ہونا اس کے ہند آریائی زبان ہونے کی نمایاں ترین خصوصیت ہے۔

     دیوناگری میں ہکارآوازوں کے لیے الگ الگ علامتیں ہیں، اردو میں ایسا نہیں۔ لیکن چونکہ ان آوازوں میں ہکاریت مشترک عنصر کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے اردو میں الگ الگ علامتوں کی کمی کو ہائے دو چشمی سے ملا کر لکھنے سے پورا کر لیا گیا ہے۔ ایسا کرنے سے ہماری ضرورت بھی پوری ہو گئی ہے اور ایک طرح کی کفایت بھی ہو گئی ہے کیونکہ دس علامتوں کا کام ہم ایک علامت سے لیتے ہیں۔ اردو میں فاضل علامتوں کی بڑی تعداد صفیری آوازوں میں ملتی ہے، یعنی ز کے لئے ہمارے پاس ذ، ض اور ظ فاضل ہیں، س کے لئے ث اور ص فاضل ہیں، اور ہ کے لیے دوسری علامت ح ہے۔ اس کے علاوہ اردو کی وہ مخصوص آوازیں بھی جو کسی دوسری ہندآریائی زبان میں اس کثرت سے نہیں ملتیں، اس کے صفیری سٹ سے تعلق رکھتی ہیں، یعنی ف، ز، ژ، خ اور غ۔ بشمول ق کے یہ وہ چھ علامتیں ہیں جن سے اردو اور ہندی کی صوتیاتی حد بندی ہوتی ہے، اور یہی وہ آوازیں ہیں جن سے اردو صوتیات کی معیار بندی ہوتی ہے۔

     اردو لب ولہجہ میں جو مخصوص توانائی، شستگی اور چستی ملتی ہے، اس میں بڑا ہاتھ ان ہی صفیری آوازوں کا ہے، اس کے برعکس ہند آریائی میں ف کی آواز ’’پھ‘‘ میں، ز اور ژ ’’ج‘‘ میں، خ ’’کھ‘‘ میں اور غ ’’گ‘‘ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس طرح اگر ایک طرف اردو آوازوں کا بندشی سٹ سرتا سرہند آریائی یعنی دیسی ہے تو دوسری طرف صفیری سٹ ہند ایرانی یعنی فارسی سے ماخوذ ہے، اور یہ دونوں مل کر اردو کی ملی جلی یعنی گنگا جمنی صوتیات کی شیرازہ بندی کرتے ہیں۔ پس واضح رہے کہ اردو رسم الخط کی آوازیں سب کی سب خالص ہندوستانی نہیں، بلکہ اردو کی صوتیاتی ملی جلی ہند ایرانی ہے، جیسا کہ ابھی ثابت کیا گیا۔

    اردو کے باقی مصمتوں یعنی پہلوی آوازوں میں ’ل‘ غنائی آوازوں میں ’’م‘‘ اور ’’ن‘‘ اور تھپک دار آوازوں میں ’’ر‘‘ اور ’’ڑ‘‘ میں کوئی علامت فاضل نہیں، اور حرف وصوت میں ایک اور ایک کی نسبت ہے۔

    اردورسم الخط کو جس چیز نے کفایت حرفی کا شاہکار بنا دیا ہے، وہ حروف علت کی حیرت انگیز کمی ہے۔ یہی خوبی بعض سطحوں پرپیچیدگیاں بھی پیدا کرتی ہے۔ اردو میں حروف علت یوں تو چار ہیں، الف، واؤ، یائے معروف اور یائے مجہول، لیکن صحیح معنوں میں حرف علت صرف ایک ہے یعنی الف، کیونکہ واؤاور یائے بہ طور نیم مصوتہ یا نیم حرف صحیح بھی استعمال ہوتے ہیں۔ (وہاں، گواہ، یہاں، گویا)۔ غور فرمائیے، اردو میں مصوتوں کے لیے بنیادی حرف توصرف ایک ہے لیکن مصوتے دس ہیں۔ حروف علت کی یہ کمی دوسرے حروف کے ضمنی استعمال اور اعراب کے استعمال سے پوری کی جاتی ہے۔ دس مصوتوں کی آوازیں یوں ہیں، مِل، میل (فاصلہ کے معنی میں) ، میل (میل جول)، مَیل، مَل، مال، مول (مول تول) مَول (درخت کا مولنا) مُل اور مُول (بمعنی جڑیا بنیاد)

    گویا صرف مال میں حرف علت کا فرق الف کی مدد سے ظاہر کیا گیا ہے، مِل، مَل اور مُل میں یہ فرق اعراب یعنی زیر، زبر، پیش کی مدد سے ظاہر ہوا ہے، لیکن جہاں تک باقی چھ مصوتوں یعنی میل، میل، مَیل یا مول، مول، اور مول کا تعلق ہے تو عام تحریر میں ان کے فرق کو ظاہر کیا ہی نہیں جاتا۔

    ع کی حیثیت عربی میں حرف صحیح کی ہے، لیکن اردو کے عام لہجہ میں اس کا تلفظ حرف علت کا سا ہے اور یہ اردو کے دس مصوتوں میں سے کسی کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے، مثالیں ملاحظہ ہوں، 

    عِبرت (مِل) عید (میل)
    شعر (میل) عَیش (مَیل)
    عَدل (مَل) عام (مال)
    بُعد (مول) عَور (مُول)
    عُمر (مُل) شعور (مول)

    ہمزہ کاحال ع سے بھی عجیب ہے، یعنی اردو میں اس کی کوئی آواز ہی نہیں۔ مثال کے طور پر جاؤں، آؤں میں اوں کی آواز کے لیے واؤ اور نون غنہ موجود ہے، یہ ہمزاہ کی آواز نہیں۔ اسی طرح کئی، گئی، کوئی یا سوئی کا معاملہ ہے۔ ان میں ای کی آواز یائے معروف کی آواز ہے۔ غائب صائب میں بھی ہمزہ بے آواز ہے، کیونکہ خفیف ای کی آواز دراصل کسرہ کی آواز ہے، ہمزہ کی نہیں۔ ہمزہ اردو میں علامت بے صوت ہے اور اس کا کام دو مصوتوں کے ایک ساتھ آنے کا املائی اعلان کرنا ہے اور بس۔

    اس صوتیاتی تجزیہ سے ظاہر ہے کہ قطع نظربعض فاضل علامتوں کے اسراف کے اردو رسم الخط کفایت حرفی کی اچھی مثال پیش کرتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ نیم شکلوں اور جوڑوں کی کثرت کی وجہ سے اردو رسم الخط سیکھنے میں نسبتاً زیادہ وقت صرف ہوتا ہے، لیکن لکھنے اور پڑھنے میں یہ اتنا ہی آسان بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی رسم الخط کا سیکھنا فرد کی زندگی میں ایک محدود عمل ہے جو عمر کی ایک خاص منزل پر انجام پا جاتا ہے، جب کہ اس کا استعمال نسبتاً لامحدود عمل ہے جو ساری عمر جاری رہتا ہے۔ اس لیے اردو رسم الخط کی آسانیاں اور اس کا فائدہ سامنے کی بات ہے۔ بنیادی طور پر اردو کی کفایت حرفی کا تعلق حروف علت کی کمی سے ہے۔ کسی بھی زبان میں لفظ تو لفظ، صوتی رکن بھی بغیر مصوتہ کے ادا نہیں ہو سکتا۔ گویا مصوتے، مصمتوں سے کئی گنا زیادہ استعمال ہوتے ہیں، اور اردو میں یہی مصوتے اکثر و بیشتر بغیر علامت کے لکھے جا سکتے ہیں۔

    یوں تو مصوتوں کے لیے اعراب موجود ہیں، لیکن ان کو لگاتا کون ہے؟ ہم بجائے اعراب کے عموماً اعراب کے صفریہ تصور (Zero Concept) سے کام لیتے ہیں، اور عام طور پر چلن کی بنا پر ہمیں لفظ کے صحیح تلفظ میں دقت نہیں ہوتی۔ یہی وہ خوبی ہے جو اردو رسم الخط کو مختصر نویسی کے قریب لے آتی ہے اور اس کے استعمال میں آسانیاں پیدا کرتی ہے۔

    (۴)
    البتہ توسیع شدہ اور ملاجلا رسم الخط ہونے کی وجہ سے اردو رسم الخط میں بعض پیچیدگیاں بھی ہیں جو الجھن کا سبب بنتی ہیں۔ اس میں کچھ ایسے عناصر بھی ہیں جن کی تہنید نہیں ہو سکی۔ قدما کے بعد اردو میں تارید و تہنید کا عمل بہت کچھ رک سا گیا تھا جس کے خلاف حالی نے اور ان کے بعد مولوی عبدالحق اور علامہ کیفی نے آواز اٹھائی تھی۔ تہنید کے سلسلے میں آج تک بحث ہمیشہ لفظیات کی کی گئی ہے۔ ضروری ہے کہ اب یہ سوال حرف وصوت کے بارے میں بھی اٹھایا جائے اور اردو کی طباعتی اور تدریسی ضرورتوں کو بھی سامنے رکھا جائے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل امور پر غور کیا جا سکتا ہے۔

    اردو رسم الخط کا سب سے بڑا مسئلہ دوہری اور تہری علامتوں کا ہے یعنی زکی آواز چار طرح سے لکھی جاتی ہے (ز، ذ، ض اور ظ سے) س کی آواز کے لیے تین علامتیں ہیں (س، ث، اور ص) اور ت کے لیے ط، اور ہ کے لیے ح بھی موجود ہے۔ نیز ع کی تا ک جھانک مصوتوں کے ساتھ برابر جاری رہتی ہے۔ گویا اردو رسم الخط میں آٹھ علامتیں (ذ، ض، ظ، ث، ص، ط، ح، ع) فاضل ہیں۔ رسم الخط کے سائنسی ہونے کے لیے آواز اور علامتوں میں ایک اور ایک کا رشتہ ہونا ضروری ہے۔ اس لیے بعض حضرات یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ اگر اردو رسم الخط سے ان آٹھ فاضل علامتوں کو نکال دیا جائے تو نہ صرف یہ سائنٹفک ہو جائےگا بلکہ اس کی علامتوں میں ایک چوتھائی کی کمی بھی ہو جائےگی، جس سے اس کی کفایت حرفی کی صلاحیت اور لکھنے پڑھنے کی آسانیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ ان فاضل علامتوں کے نکال دینے سے اردو الفاظ کے تلفظ میں کوئی فرق واقع نہ ہوگا، مثال کے طور پر خط کو ط سے لکھیے یا ت سے یا حالت کو ح سے لکھیے یاہ سے، تلفظ وہی کا وہی رہےگا، 

    موجودہ طریقہ مجوزہ طریقہ
    فیصلہ فیسلہ
    ثابت سابت
    ظالم زالم
    ذکا زکا
    ضمیر زمیر
    طومار تومار
    صبر سبر
    حاوی ہاوی

    اس میں شک نہیں کہ صوتی اعتبار سے یہ تجویز ناقابل عمل نہیں، لیکن تہذیبی اور سماجی نقطۂ نظر سے دیکھا جاے تو معلوم ہوگا کہ اس پر عمل کرنے سے اتنافائدہ نہیں جتنا نقصان ہوگا۔ رسم الخط صرف آوازوں کے اظہار کا نام نہیں۔ یہ وسیع ترلسانی روایت کا جزو بھی ہے۔ رسم الخط بنیادی طور پر آواز کو ظاہر کرتا ہے لیکن بالواسطہ طور پر آوازوں کے ذریعہ لفظوں کو اور لفظوں کے ذریعہ جملوں اور عبارتوں اور اس طرح پوری زبان کی ترسیل وتفہیم کا آلۂ کار ہے۔ اس سارے سلسلہ میں لفظ کی خاصی اہمیت ہے۔ یہ بات پہلے کہی جا چکی ہے کہ اردو کی اردوئیت جہاں اس کی مخصوص صوتیات سے قائم ہوتی ہے، وہاں مخصوص لفظیات سے بھی اس کا تعین ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جتنا اہم اس کا دیسی جزو ہے اتناہی اہم اس کا عربی فارسی جزو بھی ہے۔ اس جزو میں مذکورہ بالا آٹھ فاضل علامتیں بطور خاص الخاص اصوات کے استعمال ہوتی ہیں۔ ان کا سب سے برا فائدہ یہ ہے کہ وہ الفاظ جو تلفظ میں یکساں ہیں، ان میں معنی کا فرق املا کی وجہ سے ان ہی حروف کی بدولت قائم ہوتا ہے۔ مثلاً عام اور آم، لعل اور لال، جعل اور جال، صدا اور سدا، عرضی اور ارضی، صورت اور سورت، کسرت اور کثرت، نظیر اور نذیر، بعض اور باز، زن اور ظن وغیرہ۔

    ان فاضل علامتوں کو رسم الخط سے خارج کرنے کا مطلب ہوگا کہ اول تو یکساں تلفظ والے الفاظ کے معنی میں تمیز کرنا دشوار ہو جائےگا، دوسرے اس سارے ذخیرۂ الفاظ کو جس کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے بجائے بارہ کے صرف چار علامتوں سے لکھنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس سرمایے کی صورت مسخ ہو کر رہ جائےگی۔ لکھنے پڑھنے میں اگر ایک طرف کچھ آسانی پیدا ہوگی تو دوسری طرف کئی دقتیں بھی سامنے آئیں گی کیونکہ ہزاروں الفاظ کی صورت علامتوں کی اس تبدیلی سے پہچانی نہ جا سکےگی اور اردو کے قدیم علمی سرمایے سے استفادہ کرنا بھی مشکل ہو جائےگا، نیز اردو لغات کی تمام کتابوں کو دوبارہ تیار کرانا ہوگا۔ اس کے علاوہ جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقی وسطیٰ کے بیسیوں ملکوں سے رسم الخط کی بنا پر ہمارا جوتہذیبی رشتہ ہے، وہ بھی مجروح ہوگا۔

    غرض یہ کہ صوتیاتی طور پر اردو میں یہ علامتیں مردہ سہی، لیکن تہذیبی نقطۂ نظر سے ان کی زندگی میں کلام نہیں، پھر کئی صدیوں سے یہ اردو میں رائج ہیں اور ان کے استعمال کی ہمیں عادت سی ہو گئی ہے۔ زبان میں عادت اور چلن کی بڑی اہمیت ہے اور کسی چلن کو اس وقت تک ترک نہیں کیا جا سکتا جب تک اس سے کسی بڑے فائدہ کی توقع نہ ہو۔ کم از کم اس معاملہ میں ہمیں زبان کی عملی آسانی کو صوتیاتی صحت پر مقدم رکھنا چاہئے۔ انگریزی رسم الخط اردو سے کچھ کم غیر سائنسی نہیں، اس کی اصلاح کی کوششیں برابر ہوتی آئی ہیں۔ جارج برنارڈ شانے پورے خلوص نیت سے اس کام کے لیے اپنے وصیت نامے میں جو گراں قدر رقم وقف کی تھی، اس کا جو انجام ہوا ہے، ہم سب پر واضح ہے۔ لہٰذا یہ مشورہ کہ اردو کی فاضل علامتوں کو جوں کا توں رہنے دیا جائے اگر چہ غیر سائنسی ہے، لیکن تہذیبی اعتبار سے بے معنی نہیں۔

    البتہ اگر کسی تبدیلی سے اردو رسم الخط کا پورا تہذیبی ڈھانچہ متاثر نہ ہوتا ہو اور اس کی نوعیت جزوی ہو تو اس کے تسلیم کرنے میں تامل نہ ہونا چاہئے۔ اصلاحات کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ اردو لکھنے اور پڑھنے میں آسانی ہو اور کتابیں جلد اور صحت کے ساتھ شائع ہو سکیں۔ ایسی چند اصلاحیں یہ ہو سکتی ہیں، 

    (۱) عربی کا الف مقصورہ اردو میں چونکہ کھپ نہیں سکا، اس لیے ضرورت ہے کہ ایسے اکثر استعمال ہونے والے الفاظ اردو کے قاعدے سے لکھے جائیں، مثلاً علیحدہ کو علاحدہ، زکوٰۃ کو زکات، رحمن کو رحمان، فتویٰ کو فتوا، استعفیٰ کو استعفا، اسمٰعیل کو اسماعیل، ادنیٰ کو ادنا، اعلیٰ کو اعلا اور اولیٰ کو اولا لکھنا مناسب ہوگا۔ البتہ اگر ایسا کوئی لفظ کسی عربی فارسی مثال یا ترکیب یا مصرع میں آئے جس کی حیثیت اقتباس یا مقولہ کی ہوتو اس کو عربی فارسی کے قاعدے سے لکھنا مناسب ہوگا۔

    (۲) وصل کے الف لام کو جوں کا توں لکھنا چاہئے۔ عبدالستار، فخرالدین، بالترتیب، فی الحال، بالکل۔

    (۳) واؤ معدولہ کے سلسلے میں یہ تجویز کہ خورشید کو خرشید لکھنا چاہئے، قابل قبول نہیں۔ اس لیے کہ واؤ بعض حالتوں میں پیش کے قائم مقام کے طور پر استعمال ہوتی ہے، مثلاً ہُوا (ہونا کا ماضی) ہوئی، ہوئے، دوکان، سوراخ۔ اس کے علاوہ یہ بعض فارسی الفاظ میں خ کے فوراً بعد آتی ہے اور الف سے ملا کر بولی جاتی ہے، مثلاً خواب، خواہش، خواجہ، خواہر، خوابیدہ، خود، خوش۔ اس واؤ کو ظاہر کرنے کے لیے اس کو نیچے لکیر لگاکر لکھنا مناسب ہوگا (خواب، خواہش، خواجہ)

    (۴) نون اور نون غنہ کا فرق درمیانی حالت میں ضروری ہے۔ ابتدائی کتابوں میں پانچ، سانپ، جھانسی، سونگھنا، پہنچ، مانگ، تانتا وغیرہ الفاظ میں نون غنہ کا اظہار اگر ہلال کے نشان سے کیا جائے تو پڑھنے میں سہولت ہوگی۔ نون غنہ کو منفصل (پھانس کو پھاں س) لکھنے کی ضرورت نہیں۔ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی نے کنوا، کنواں اور کواں میں سے کنوا کو بہتر قرار دیا ہے اور کنوا اور دھنوا لکھنے پر زور دیا ہے۔ 2 میرا خیال ہے کہ ان لفظوں میں آخری مصوتہ یقیناً غنیت کا اثر رکھتا ہے۔ (dhu va، ku va) لیکن اس سے پہلے چونکہ نیم مصوتہ واؤ سے، اس کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ یا ذرا پہلے ہوا ناک سے بھی نکلتی ہے جس کی وجہ سے واؤ سے پہلے مصوتے میں بھی غنیت آ گئی ہے۔ اس لیے ایسے لفظوں کو لکھنے کا صحیح طریقہ کنواں، دھنواں ہے نہ کہ کنوا اور دھنوا۔

    (۵) سن اور سنہ میں فرق کرنا چاہئے۔ سِن عمر کے معنی میں ہے جبکہ سنہ سال کے لیے ہے۔

    (۶) اس بات کی طرف پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے کہ اردو مصوتوں میں درمیانی حالت میں یائے معروف، یائے مجہول اور یائے لین لکھنے کے لیے ہمارے پاس ایک ہی علامت ہے۔ مثلاً میل، میل اور میل ایک ہی طرح سے لکھے جاتے ہیں۔ اسی طرح واؤ معروف، واؤ مجہول اور واؤلین کے لیے بھی ایک ہی علامت ہے یعنی مول، مول اور مول بھی ایک ہی طرح سے لکھے جاتے ہیں۔ ان کی الگ الگ پہچان کے لیے جو تجویزیں اب تک پیش کی جاتی رہی ہیں، ان میں سب سے بہتر یہ ہیں، 

    یائے معروف کے لیے۔۔۔ کھڑا زیر (میل، دین، میرا)
    یائے لین کے لیے۔۔۔ ماقبل زیر (مَیل، بَیل، سَیر)
    یائے مجہول کے لیے۔۔۔ صفریہ تصور (میل، سیر، میرا)
    یعنی اسے خالی رہنے دیا جاے۔

    اسی طرح، 
    واؤ معروف کے لیے۔۔۔ الٹاپیش (مول، چور، دور)
    واؤلین کے لیے۔۔۔ ماقبل زبر (مول، چوڑا، دور)
    واؤمجہول کے لیے۔۔۔ صفریہ تصور (مول، جور، دوست)
    یعنی اسے خالی رہنے دیا جائے۔

    ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کا مشورہ کہ ’’بڑی یے کا استعمال بالکل ترک کر دیا جائے‘‘ اردو میں الجھنیں پیدا کرےگا۔ مندرجۂ بالا تجویز کو مان لینے سے نہ صرف بڑی یے کا استعمال صحیح طور پر ہو سکتا ہے بلکہ میز کو مے ز یا میر کو م ی ر لکھنے کے مضحکہ خیز مشورے سے بھی بچا جا سکتا ہے۔

    (۷) اردو میں لفظ کے آخر میں الف اور ہائے مختفی کے استعمال کے اصولوں کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے کئی لفظ دونوں طرح سے لکھے جاتے ہیں، جیسے راجہ: راجا، بھروسہ: بھروسا، بٹوارہ: بٹوارا وغیرہ۔ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی نے اپنے متذکرہ صدر مضمون میں اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے اور صحیح مشورہ دیا ہے کہ مختفی ہ فارسی کی چیز ہے، اور صرف ان لفظوں میں لکھی جائے جو فارسی سے آئے ہیں۔ لیکن ان کا یہ بیان ’’جہاں تک تلفظ سے بحث ہے، اردو میں مختفی ہ کا وجود نہیں‘‘ 3 محل نظر ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر چہ اردو میں خفیف مصوتے لفظ کے آخر میں نہیں آتے لیکن چند لفظ ایسے ضرور ہیں جو الف سے نسبتاً چھوٹی آواز سے ادا ہوتے ہیں، اور ان کو ہائے مختفی ہی سے لکھا جا سکتا ہے۔

     مثال کے طور پر پتا اور پتہ، آنا (فعل) اور آنہ (سکّہ) یا جانا کے ’’نا‘‘ اور کلمہ نہی ’’نہ‘‘ کی آخری آواز کے تلفظ میں فرق ہے۔ آنا، جانا، لینا، دینا وغیرہ کے آخر میں طویل مصوتہ ہے جو الف سے لکھا جاتا ہے، جب کہ پتہ، آنہ، نہ یا آگرہ، پونہ، پٹنہ، کلکتہ کے آخر میں خفیف مصوتہ (ہ) ہے جسے ہائے مختفی سے لکھنے کا رواج ہے۔ نیز اردو میں ہائے مختفی (a) کی چھوٹی آواز کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، مثال کے طور پر ’’بہ‘‘ بمقابلہ ’’با‘‘ اور ’’کہ‘‘ مقابلہ ’’کے۔‘‘ اس لیے یہ کہنا کہ ہائے مختفی کے تلفظ کا اردو میں سرے سے وجودہی نہیں، صحیح نہیں ہے۔ البتہ املا کی معیار بندی کے سلسلے میں اس کا تعین کرنا ہوگا کہ بعض ایسے دیسی الفاظ جن کے آخر میں الف آتا ہے، اور جوخواہ مخواہ ہائے مختفی سے لکھے جاتے ہیں، مثلاً ٹھیکہ، باڑہ، بٹوارہ، کھلونہ، راجہ، باجہ، اڈہ، بٹوہ، پٹاخہ، دریبہ، گینڈہ۔ ایسے تمام الفاظ کوہ سے لکھنا نا مناسب اور الف سے لکھنا مناسب ہے، یعنی ٹھیکا، باڑا، بٹوارا، کھلونا، راجا، اڈا، بٹوا، پٹاخا، دریبا، گینڈا وغیرہ۔ تصریفی صورت میں افسانہ میں کو افسانے میں۔۔۔، قصہ کا کو قصے کا۔۔ لکھنا چاہئے۔

    (۸) اردو رسم الخط میں اصلاح کے بعض حامی ہمزہ کی گردن زدنی کے قائل ہیں۔ میں اپنے مضمون ’’ہمزہ کیوں‘‘ میں دکھا چکاہوں کہ ہمزہ کی پوری تہنید ہو چکی ہے اور اس کے بغیر اردو رسم الخط مکمل ہی نہیں۔ اگر چہ اردو میں ہمزہ کی اپنی کوئی آواز نہیں، لیکن ایک املائی تصور کی حیثیت سے ہمزہ کو اردو میں قبول کیا جا چکا ہے۔ یہ صرف مستعار الفاظ میں نہیں بلکہ دیسی مادوں اور اردو افعال کی تصریفی صورتوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مندرجۂ ذیل الفاظ ہمزہ کے بغیر صحح طور پر لکھے ہی نہیں جا سکتے،

    کئی، گئے، فرمائیے، آئیے نئے، بھائی، نائی،
    جائیں، آئیں، جاؤ، پاؤ، کیکئی۔

    البتہ ہمزہ کے استعمال میں خاصی بے راہ روی ہے، اور اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کے ہاں بھی س کے غلط استعمال کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ چنانچہ ہمزہ کے استعمال کے اصول طے ہونے چاہئیں، اور ان پر عمل کرنا چاہئے۔ ایسے چند اصول یہ ہیں، 

     (۹) ڈاکٹر عبد الستار صدیقی نے ’’اردو املا‘‘ پر اپنے مضمون میں ہمزہ کے استعمال کے سلسلے میں یہ اصول پیش کیا ہے، ’’جب دو حروف علت اپنی اپنی آواز الگ الگ دیں توان کے بیچ میں ہمزہ آ سکتا ہے۔‘‘ 4 یہ اصول آؤ، جاؤ، کھائے، جائے، کے لئے توصحیح ہے، لیکن نئے، گئے، کئی کے لئے صحیح نہیں جن میں صرف ایک حرف علت ہے اور ہمزہ لگایا جاتا ہے۔ نیز دیے، لیے میں اگرچہ دو حروف علت ہیں لیکن ان کا صحیح املا ہمزہ کے بغیر ہی ہے۔ میرے نزدیک ہمزہ کے استعمال کے معاملہ میں بنیادی چیز تلفظ ہے، چنانچہ میرا اصول ہے کہ اگر کسی لفظ میں دو مصوتے ساتھ ساتھ آئیں تو اسے ہمزہ سے لکھنا چاہئے، ورنہ نہیں (نائب، غائب، فائدہ، کھائے، آؤ، گئے، اٹھائیے، جائیے۔) ہونا کی ماضی ہوا کو اگر چہ بعض حضرات ہؤا لکھتے ہیں، لیکن اس کو اس کلیے سے مستثنی سمجھنا چاہئے۔ نیز دو مصوتوں کا جوڑ جہاں عین سے آتا ہے، وہاں ہمزہ استعمال نہیں ہوتا۔

    (۱۰) جن الفاظ میں مصوتہ اور نیم مصوتہ ی کا جوڑ ہے، وہ ہمزہ سے نہیں لکھنا چاہیے۔ لیے، لیجیے، دیے، پیجیے، دیکھیے، سنیے، چاہیئے، کیے، کیجیے، دیجیے۔)

    (۱۱) ذیل کے لفظوں میں دو مصوتے آتے ہیں، اس لئے ہمزہ لکھنا چاہئے، فرمائیے، آئیے، جائیے، کھوئیے، سوئیے۔

    (۱۲) اضافت کے لیے ہمزہ صرف ان الفاظ پر لگتا ہے جو ہائے مختفی پر ختم ہوتے ہیں۔ (جذبۂ دل، نالۂ درد) جہاں ہ تلفظ میں ادا ہوتی ہو، وہاں اضافت کسرہ سے لکھی جاتی ہے (آہ سرد، تہ دل، وجہ جواز، ماہ نو۔)

    (۱۳) اضافت کے لیے یا واؤ کے بعد ہمزہ لکھنا مناسب ہے، کیونکہ دومصوتے ساتھ ساتھ آتے ہیں، اردو ئے معلی، نوائے ادب، آرزوئے دل، روئے زیبا، صدائے دل خراش۔

    (۱۴) باقی تمام حالتوں میں اضافت کسرہ سے ظاہر کی جائےگی، درد دل، جان عالم، دست دعا، شمع روشن، زندگی بےثبات، رائے عالی، رعنائی خیال، والی ریاست، عہد قدیم، نگاہ کرم۔

    (۱۵) عربی الفاظ طلباء، انشاء، منشاء، امراء، وزراء، فقراءاردو میں صرف آخری الف سے بولے جاتے ہیں، یعنی ان میں دو مصوتوں کا جوڑ نہیں، اس لیے انہیں ہمزہ سے لکھنا مناسب نہ ہوگا۔ البتہ اگر پوری ترکیب عربی کی ہے تو وہاں ہمزہ کو برقرار رکھنا چاہیے، مثلاً انشاء اللہ، منشاء الرحمن، ذکاءاللہ۔ یہی حال سوءاتفاق، سوء ظن وغیرہ ترکیبوں کا ہے۔

    (۱۶) بعض حضرات کا خیال ہے کہ ہمزہ صرف وہاں لکھنا چاہیئے جہاں آواز ٹوٹ جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ اصولی طور پر آواز ہر صوتی رکن کے بعد ٹوٹتی ہے، مثلاً وسوسہ، گرداب، زندگی، اشتہار، انتظار، اضطراب، لیکن کہیں بھی ہمزہ کے استعمال کا محل نہیں۔ البتہ اگرچہ کہا جائے کہ جہاں دو مصوتے ایک ساتھ آئیں تو ہمزہ لکھنا چائیے، مناسب ہے۔ مثلاً زیبائی، رعنائی، بے وفائی، جائے، کھائے، آئیں، جائیں، جاؤں، لاؤ، آؤ، یا اگر ایک طرف حرف علت ہو اور دوسری طرف زیر، زبر یا پیش ہوتو بھی ہمزہ لکھنا چاہیے، مثلاً نئے، گئے کئی وغیرہ۔

    (۱۷) جاؤ، کھاؤ، آؤ کے مقابلے میں ناو، بناو کو ہمزہ کے بغیر لکھنا صحیح ہے، کیونکہ ان لفظوں میں آخری آواز مصوتہ نہیں بلکہ نیم مصوتہ واؤ ہے۔

    (۱۸) ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کا یہ مشورہ کہ گائے، چائے، رائے، ہائے میں بھی ہمزہ نہ چاہیے، 5 قابل قبول نہیں۔ اس لیے کہ اردو تلفظ میں ان لفظوں میں آواز نیم مصوتہ ی پر نہیں بلکہ مصوتہ الف پر ختم ہوتی ہے۔ ان لفظوں کو گائے، چائے، رائے، ہائے لکھنا مناسب ہے۔

    (۱۹) اردو میں ہائے چشمی کو ہکار آوازوں کے لیے مخصوص کر دینا چاہیے، یعنی بھاری، پتھر، ہاتھ، کبھی، بھیج، بھی، جھوٹ، مجھے، بجھ، کچھ وغیرہ کو بہاری، پتہر، ہاتہہ، کبہی، بیہج، بہی، جہوٹ مجہے، بجہہ، کچہہ، لکھنا مناسب نہ ہوگا۔ ہائے دو چشمی کو صرف مخلوط آوازوں کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ ذیل کے لفظوں کو ہائے دو چشمی سے لکھنا مناسب ہے: تمھارا، انھیں، جنھیں، ننھا، تمھارا، ننھیال۔

    (۲۰) اردو رسم الخط میں یوں بھی حروف ملاکر لکھے جاتے ہیں۔ لفظ کو ملانے سے اور بھی پیچیدگی پیدا ہوگی۔ چڑھیگا، کرینگے، اٹھینگے، سنیگی، پڑھینگی میں علامت مستقبل گا، گے، گی کو ملا کر لکھنے کی جو لوگ حمایت کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ علامت مستقبل آزادانہ استعمال نہیں ہوتی، اس لیے اسے فعل سے ملا کر لکھنا چاہیے۔ اس اصول کو اگر تسلیم کر لیا جائے تو پھر کو، نے، سے، پر، تک، میں وغیرہ حروف جار بھی آزادانہ استعمال نہیں ہوتے، ان کو بھی اسم سے ملاکر لکھنا لازم آئےگا۔ دیوناگری میں ان کو ملاکر لکھنے کا رواج ہے، لیکن ہمارے رسم الخط کا مزاج دوسرا ہے، اس میں لفظوں کو الگ الگ لکھنا ہی مناسب ہے۔

    (۲۱) سابقوں اور لاحقوں کو ملاکر لکھنا چاہیے۔

    (۲۲) اردو رسم الخط کا ایک مسئلہ حروف کی کرسی اور ان کے جوڑوں کا ہے۔ نستعلیق میں جوڑوں کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نستعلیق کا اطمینان بخش ٹائپ یا ٹائپ رائٹر آج تک تیار نہیں ہو سکا۔ اردو میں اکثر وبیشتر حروف کی چار شکلیں ہیں، ابتدائی، درمیانی، آخری اور آخری غیرمخلوط۔ مثلاً عادت، بعد، نفع، اور دفاع میں ع کی شکل ہر جگہ بدلی ہوئی ہے۔ اصلاح کی ایک تجویز یہ رکھی گئی ہے کہ ’’ہر حرف کی زیادہ سے زیادہ دو شکلیں رکھی جائیں، ایک لفظ کے شروع یا درمیان کے لیے اور ایک آخر کے لیے۔ اس طرح ہرحرف کی پوری یا آدھی شکل نمایاں، واضح اور قطعی رہےگی۔‘‘ 6

    اس تجویز کے تسلیم کرنے میں چند قباحتیں ہیں۔ اول یہ کہ جب نستعلیق پڑھنے لکھنے کی مشق ہو جاتی ہے تو جوڑوں کی کثرت سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی اور اردو لکھنے والے انہیں آسانی سے لکھ لیتے ہیں، دوسرے یہ کہ وہ حروف جو بعد میں آنے والے حروف کے ساتھ ملائے نہیں جا سکتے، ان کی پہلے ہی صرف دو شکلیں ہیں، مثلاً درد اور دید میں د، یا ر ب اور سرد میں ر۔ رہی ٹائپ کی بات، تو اگر نستعلیق سے جوڑوں کی تعداد کو کم کیا جائے تو اس میں اور نسخ میں فرق ہی کیا رہ جائےگا۔ نستعلیق کا سارا حسن ہی اس کے شوشوں، قوسوں اور دائروں میں ہے۔ تو پھر جوڑں کی تعداد گھٹاکر نستعلیق کو مسخ کرنے کی ضرورت کیا ہے۔

    (۵)
    اس مضمون کی بحث سے جو نتائج نکلتے ہیں، مختصراً وہ یوں ہیں، 

    (۱) اردو کے جوادیب رسم الخط کی تبدیلی کا مشورہ دیتے ہیں، ان کے خلوص پر شبہ کرنا یا انہیں اردو دشمن قرار دینا غلط ہے۔ یہ لوگ اکثریت کے ردعمل سے مجبور ہوکر اس طرح کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کے مشورے کی پشت پر شہری اور عوامی زبان کا جو لسانی نظریہ ہے، وہ اردو اور ہندی کے مخصوص تہذیبی اور لسانی رشتے کو سمجھنے میں معاون ثابت نہیں ہوتا، اس لیے اس سے غلط نتائج نکلتے ہیں۔ اردو رسم الخط میں تبدیلی کا مشورہ ناقابل عمل ہے۔

    (۲) قومی یکجہتی کے نام پر بھی رسم الخط میں تبدیلی مناسب نہ ہوگی۔ اس سے قومی یکجہتی کو اتنا فائدہ نہیں جتنا نقصان پہنچےگا۔ اگر پورے ملک کی لسانی یکسانیت کے لیے سب زبانوں کے رسم الخط میں تبدیلی کا سوال ہو تو بات دوسری ہے، ورنہ صرف اردو کے لیے ایسی تجویز پیش کرنا خود قومی یکجہتی کے منافی ہے۔ کیونکہ ایک لسانی اقلیت ہمیشہ کے لیے اپنے رسم الخط سے محروم ہو جائےگی جس کا نتیجہ مستقل بدگمانی اور بے اطمینانی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ نیز پاکستان اور جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطی کے جن بیسیوں ملکوں سے رسم الخط کی وجہ سے ہمارا تہذیبی رشتہ استوار ہوتا ہے، اس تبدیلی سے وہ بھی متاثر ہوگا۔ ہندوستانی تہذیب کی بنیاد رنگارنگی اور کثرت پر ہے۔ سوال عناصر میں ہم آہنگی کا ہے، عناصر کو مٹانے کا نہیں۔ چنانچہ اس ملک میں جہاں متعدد دوسرے رسم الخط ہیں اور انہیں زندہ رہنے کا حق ہے تو اردو رسم الخط کو بھی زندہ رہنے کا حق ملنا چاہیے۔

    (۳) یہ بات صحیح نہیں کہ اگر رسم الخط نہ رہے تو زبان ختم ہو جائےگی۔ زبان رسم الخط کے بغیر بھی زندہ رہ سکتی ہے، لیکن اردو اور ہندی میں جو مخصوص لسانی رشتہ ہے اور جس طرح دونوں کی بنیاد ایک ہی عوامی بولی پر ہے، اس کے پیش نظررسم الخط کی تبدیلی سے اردو کی انفرادیت کے مجروح ہونے کا خطرہ ہے۔

    (۴) اردو کا رسم الخط غیر ملکی نہیں۔ یہ اپنی اصل کے اعتبار سے عربی فارسی ہے، لیکن یہ اس حد تک ’’اردوایا‘‘ جا چکا ہے کہ یہ اردو کا اپنا رسم الخط بن چکا ہے۔ اس میں اتنی علامتوں اور آوازوں کا اضافہ ہوا ہے کہ موجودہ صورت میں اسے عربی یا فارسی والے من وعن اپنا رسم الخط نہیں کہہ سکتے۔ اردو زبان کی طرح اردو رسم الخط کی بھی اپنی آزادانہ اور مستقل حیثیت ہے۔ اس رسم الخط کو اردو رسم الخط کہنے پر اصرار کرنا چاہیے۔

    (۵) اردو رسم الخط کی سب سے بڑی خوبی مصوتوں کے لیے علامتوں کی حیرت انگیز کمی ہے۔ اس سلسلے میں اعراب کے صفریہ تصور سے کام لینے کا رواج ہے جس سے یہ رسم الخط کفایت حرفی کی بہترین مثال پیش کرتا ہے اور مختصر نویسی کے قریب آ گیا ہے۔

    (۶) اردو رسم الخط میں مصمتوں کے لیے کئی دو ہری اور تہری فاضل علامتیں ہیں، لیکن ان کو نکالنے کی چنداں ضرورت نہیں، کیونکہ ایسا کرنے سے اردو کے عربی فارسی ذخیرۂ الفاظ کی صورت مسخ ہو جائےگی اور قدیم علمی سرمایے سے استفادہ مشکل ہو جائےگا۔

    (۷) اردو ایک آزاد اور خود مختار زبان ہے۔ اس کا رسم الخط اس کااپنا رسم الخط بن چکا ہے۔ البتہ تہنید کا عمل رک جانے سے جو ضمنی اصلاحیں اب تک نافذ نہیں ہو سکیں، ان کو نافذ کرنا چاہیے۔ ۱۹۴۴ کی ناگپور کانفرنس سے ان اصلاحوں پر غور ہو رہا ہے، لیکن اب تک کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔ اس سلسلہ میں ہماری بے حسی ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے۔ وقت ہمارا انتظار نہیں کرےگا، ہمیں اپنے باعمل ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔

    حواشی
    (۱) ’’اردو کا رسم الخط: ایک مابعد الطبیعیاتی مطالعہ‘‘، محمد حسن عسکری، شب خون، اکتوبر۱۹۷۰
    (۲) ’’اردو املا‘‘ مشمولہ اردو میں لسانیاتی تحقیق۔ مرتبہ ڈاکٹر عبد الستار دلوی، بمبئی ۱۹۷۱، ص ۶۲
    (۳) مشمولہ اردو میں لسانیاتی تحقیق، ص۵۴
    (۴) اردو میں لسانیاتی تحقیق، ص۶۳
    (۵) اردو میں لسانیاتی تحقیق، ص۶۳
    (۶) ہماری زبان، ۱۵ فروری ۱۹۷۱، ص۱۲

     

    مأخذ:

    اردو زبان اور لسانیات (Pg. 116)

    • مصنف: گوپی چند نارنگ
      • ناشر: وقار الحسن صدیقی
      • سن اشاعت: 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے