Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو شاعری کی ہندوستانی روح

زرینہ ثانی

اردو شاعری کی ہندوستانی روح

زرینہ ثانی

MORE BYزرینہ ثانی

    ہندوستان کی تاریخ کی ورق گردانی سے یہ بات بخوبی ذہن نشین ہو جاتی ہے کہ ہمارا ملک کسی ایک تہذیب کا مرہون منت نہیں بلکہ مختلف تہذیب و تمدن اور مختلف مذاہب اور اعتقاد کے ماننے والوں کا حسین امتزاج ہے جسے ہم سیکولرازم کے نام سے موسوم کر سکتے ہیں ہماری موجودہ حکومت سیکولر ہے اس کے قواعد اور قوانین کسی خاص فرقے یا مذہب کے اصولوں پر مبنی نہیں بلکہ پوری ہندوستانی قوم کے لیے بنائے گئے ہیں اس لیے اس میں عالمگیر انسانی جذبہ اور آفاقیت شامل ہے۔ ہمارے ملک کی قدیم قوم دراویدی تھی جب آرین بحیثیت فاتح اس ملک میں داخل ہوئے تو اس قدیم قوم کو جنوب کی جانب دھکیل دیا۔ لیکن ملکی تہذیب میں دونوں قوموں کے عناصر شامل رہے۔ اس کے بعد مسلمان اس ملک میں آئے جو ایرانی اور زرتشتی تہذیب کے زیر اثر رہ چکے تھے۔ ان کی تہذیب کے عناصر بھی ہماری ملکی تہذیب میں شامل ہوتے گئے۔ اس سلسلے میں ہمیں ان تحریکوں کو بھی مد نظر رکھنا ہے جو انقلابی صورتوں میں رونما ہوئیں۔ بودھ مت اور جین مذہب ہماری تہذیبی نشو ونما میں ایک انقلابی اثر رکھتے ہیں لیکن جب ان مذاہب کے ماننے والوں نے راہِ حق سے روگردانی کی تو اس کے ردّ عمل میں ویشنوی تحریک ابھری۔ مسلمانوں کی آمد نے اسلامی رنگ کو پیش کیا۔ اس طرح باہمی اختلاط کی وجہ سے کوئی خاص شکل کسی خاص تہذیب کی باقی نہ رہ سکی بلکہ شیر وشکر ہو کر جدید ہندوستانی روپ میں جلوہ گر ہوئی جسے ہم غیر مذہبی مشترک تہذیب کے نام سے موسوم کر سکتے ہیں ظاہر ہے کہ اس صورت کسی خاص فرقے کسی خاص تہذیب کسی خاص طبقے کی زبان ایسی نہیں ہو سکتی جو تمام لوگوں کی ترجمان بن سکے۔ آپس کے لین دین، باہمی ربط ع تعلق کی وجہ سے ایک زبان کے الفاظ دوسرےمیں ضم ہوتے گئے اور رفتہ رفتہ ایک مخلوط زبان وجود میں آئی۔ یہ ہمارے اتحاد کی طرف اشارہ کرتی ہے ہمارے تہذیبی اور ثقافتی رشتوں کو مستحکم بناتی ہے ہمارے سماجی میل جول کے ارتقا کی اہم کڑی ہے جسے ہم سیکولر زبان کہہ دیں تو بے جانہ ہوگا اس زبان کے متعلق سید رفیق مارہروی لکھتے ہیں۔

    ’’اردو زبان شیخ و برہمن کی مشترکہ ملکیت ہے یہ زبان انھیں دونوں کی باہمی محبت اور اخوت کے سایہ میں نشو ونما پائی ہے زمانہ قدیم میں اگر کسی بزم میں عرفیؔ و نظیریؔ سرگرم سخن نظر آتے ہیں تو ایسی بزموں کی کمی نہیں جس میں سور داسؔ اور کبیرؔ کے نغموں سے فضا گونجا کرتی ہے اس شیرازۂ مطلاّ و زریں و درخشاں اوراق پر جہاں امیر خسروؔ، میر تقی میرؔ، سوداؔ، آتش وغیرہ کے نام نظر آتے ہیں وہاں رام ولیؔ، دیوانہؔ، پروانہؔ، راقمؔ وغیرہ کے بھی اسمائے گرامی منقوش ہیں‘‘ اسی طرح ہمارے مشہور و معروف نقاد اور زبان داں سید احتشام حسین صاحب اس زبان کے ادب کے متعلق رقم طراز ہیں ’’اردو میں جتنا صالح، غیر فرقہ وارانہ اور ترقی پسند ادب موجود ہے اتنا ہندوستان کی کسی دوسری زبان میں نہیں۔ سامراج کی مخالفت، جمہوریت نوازی، اور اتحاد سے اس کا ادب بھرا پڑا ہے۔ ‘‘ علی جواد زیدی نے اردو زبان کو وحدت قومی کی تشکیل کا اہم وسیلہ اور متحدہ قومیت کا ایک محکم ستون کہا ہے۔

    یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اردو اادب نے تقلید کے لیے فارسی ادب کو منتخب کیا۔ فارسی کا حاکم وقت کی زبان ہونے کا شرف، ادب میں گراں بہا خزانے کی موجودگی ذریعہ تعلیم کا فارسی ہونا مدلّل اور معقول وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہماری نظریں تقلید کے لیے اس طرف اٹھیں۔ فارسی شاعری کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے کئی رجحانات میں سیکولرازم کا رجحان بھی خاصا اہم ہے۔ اس کی وجہ شریعت واور طریقت کا تصادم ہے۔ جن صوفیائے کرام کے ظاہری افعال پر خردہ گیری اور نکتہ چینی کی گئی۔ انھیں ایذائیں دی گئیں، دار و رسن تک پہنچایا گیا تو اہل ظاہر کے خلاف بغاوت کی ایک آگ پھیل گئی لیکن چند مصلحتوں کی بنا پر ان باغیانہ جذبات کا کھلم کھلا اظہار ممکن نہ تھا۔ اس لیے اہل طریقت اور صوفیائے کرام نے ادب کی پناہ تلاش کی اور اپنے دل کی بھڑاس شعر و شاعری کے ذریعہ نکالنی شروع کی۔ کیونکہ ان کے نزریک مذہبی ظاہر داری بے معنی، مہمل اور لغو تھی وہ اپنی نیت کی پاکیزگی اور تقدس پر اعتماد کا مل رکھتے تھے۔ اخلاق کی بلندی اور انسانی عظمت کے قائل تھے۔ لہٰذا جب اردو نے فارسی کی تقلید کی تو کچھ تو تقلیدی اثرات کی وجہ سے اور کچھ اس کی اپنی ملکی اور تہذیبی خوصیات کی بنا پر ایک مستقل سیکولر روایت نے جنم لیا۔ یہ ضرور ہے کہ ابتدا میں یہ رجحان خال خال ہی ملتا ہے۔ اس کی کوئی واضخ اور خاص شکل بھی نہیں۔ لیکن جوں جوں اردو ادب ارتقا کی منزلیں طے کرتا گیا ہمارے شعور میں پختگی آتی گئی جدید تعلیم کی برکات ہم پر نازل ہوتی گئیں ہمارے سوچنے سمجھنے کے ڈھنگ بدل گئے سیکولرازم کا تصور واضح تر ہوتا گیا اور ہمارے ادب نے اس رجحان اور اس کی روایت کا پاس کرتے ہوئے اس کے ارتقا میں نمایاں حصہ لیا۔ اس طرح ابتدا سے لیکر آج تک یہ رجحان تقریباً پر اچھے اور بڑے فنکار کے یہاں ملتا ہے۔ ‘‘

    اس کی ابتدائي شکل خسروؔ، سور داسؔ اور کبیرؔ کے یہاں ملتی ہے۔ جنھوں نے ہماری زبان میں نفاق و افتراق سے دور رہنے کی تلقین اتحاد اور مساویانہ سلوک، اخوت و محبت کے برتاؤ کا پیغام دیا ہے۔ یہی خیالات ہیں جو آگے چل کر سیکولرازم کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ولیؔ کا نظریۂ تصوف اور اس زمانے کے صوفیائے کرام کی تصوف کی تبلیغ جو اردو کے ذریعہ کی گئی اس رجحان کی نشان دہی کرتی ہے اس کے بعد ہم سوداؔ کے ’’شہر آشوب‘‘ میں اس کی ہلکی سی جھلک پاتے ہیں۔ جس میں انھوں نے حالاات پر تنقید ی نظر ڈالی ہے سوداؔ کو جس چیز نے اس بات پر اکسایا وہ ان کی طبیعت پر غالب شدہ یہی رجحان تھا۔ جس کے تحت انھوں نے سمجھا ملک کی خامیوں اور برائیوں پر نکتہ چینی کا حق حاصل ہے ملک میں مساوات ہونی چاہیے۔ انسان کی فلاح و بہبود اول مقصد ہو۔ اس طرح ان کا محتسب سے احتساب کرنا بھی اسی رجحان کی دین ہے۔

    1857 ہمارے سیاسی اور ملکی زندگی کا بڑا اہم موڑ ہے۔ ہماری دولت اور حکومت ہمارے قبضۂ قدرت سے نکلی جا رہی تھی ہم نے اسے پکڑ نے کی آخری ناکام کوشش 1857 ہی میں کی جسے غدر کے نام سے موسوم کیا گیا۔ لیکن ہماری دولت حکومت، شان و شوکت، عظمت و جلالت ہم سے رخصت ہوگئیں رفتہ رفتہ ہم طوق وسلاسل کے پابند ہو کر رہ گئے۔ غالبؔ، ظفرؔ، ذوقؔ، مومنؔ کے یہاں اس کی جھلیکیاں ملتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سیکولرازم کا رجحان جو ہمارے مزاج اور ادب میں شامل ہو چکا تھا نظر آہی جاتا ہے۔ غالب کا پیش کردہ نظریۂ تصوف ہمہ گیر اور انسانی قدروں کا علمبردار ہے۔ خود کو’’ موجد‘‘ کہہ کر اپنا کیش’’ترک رسوم‘‘ بتانا بت خانے میں مرنے کے بعد برہمن کو کعبہ میں گاڑنا، ’’سبحۂ صددانہ‘‘ کا خیال کرنا بلکہ راہ کو ہموار دیکھ کر زنّار باندھ لینا، ادب میں سیکولر روایات کو آگے بڑھانے اور اردو شاعری کو جدت و ندرت، تنوع اور رنگا رنگی سے ہمکنار کرنے کے مترادف ہے۔

    نظیرؔ اکبر آبادی عوامی شاعر کہلاتے ہیں اور ان کے یہاں سیکولر رجحانات واضح شکل میں ہیں۔ ڈاکٹر اعجاز حسین انھیں ادب کے ہر دور سے اس لیے الگ رکھتے ہیں کہ ان کے کلام کی خصوصیات خود ایک دور کے برابر ہیں۔ ہم نظیر کے یہاں ہر طبقے کے لوگوں کے جذبات اور احساسات پاتے ہیں وہ زندگی کے ہر تقاضے کو شاعری میں سمولیتے ہیں۔ ہندو صنمات کے سلسلے میں ان کی معلومات بڑی وسیع اور ہمی گیر ہیں۔ جہاں انھوں نے مسلم پیشواؤں اور رہنمایانِ دین کی شان اور عقیدت میں نغمے گائے ہیں وہاں ہندو بزرگوں اور رہنماؤں کے سامنے ادب واحترام سے نظریں جھکاتے ہیں ان کے یہاں کرشن کی عقیدت سے سرشار نظمیں ملتی ہیں۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں۔

    ’’نظیرؔ کی نظمیں کرشن کلچر کی اہمیت کی نمائندگی کرنے میں کامیاب ہیں شروع سے آخر تک ان میں لوک گیت کا لطف ملتا ہے۔ ‘‘ اس کے علاوہ روزمرہ کی ضروریات، عوام سے وابستگی، اتحادی عناصر، ملکی خصوصیات کا بیان اسی روایت کی نشان دہی کرتے ہیں۔

    جیسا کہ میں عرض کر چکی ہوں یہ روایت اور رجحان کسی واضح شکل میں ہمارے سامنے نہیں آیا۔ ادب کے انتدائی دور میں دربار سے وابستگی کے باعث امیرانہ اور جاگیردارانہ زندگی کی عکاسی ملتی ہے۔ اس دور میں ادب کت سرپرست امرا اور سلاطین تھے ان کی خوشنودی اور حصول مقصد کے لیے ظاہرداری، مبالغہ آمیزی اور ان کی طرز معاشرت کے رجحان کو پیش نظر رکھا گیا۔ ہر چند ان رجحاننات کے در آنے کا وقفہ مختصر سہی! آگے چل کر ان ہی رجحانات کا رد عمل یہ ہوا کہ ادب نے خود کو عوام سے قریب تر کرنے کی بلیغ کوشش کی اور وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب رہا۔ جاگیردارانہ نظام ہر ضرب کاری سرمایہ داری کی خدمت، مزدوروں کا واجب حق مزدکا مطالبہ، مساوات کا آوازہ، اتحاد کی تلقین وغیرہ ادب میں جگہ پاتے گئے اور رفتہ رفتہ سیکولرازم کا ہلکا اور دھندلا خاکہ ہمارے ذہن پر واضح ہوتا گیا۔ اس کے بعد ادب و شاعری کو وطن کے لیے صوراسرافیل بنانے کی کوشش کی گئی۔

    ہمارے اردو ادب کا عروج ہماری حکومت کے زوال کے ساتھ ساتھ ہوا۔ ملک میں ہنگامی اور اضطراری دور تھا۔ لیکن ادب نے یکجہتی پیدا کرنے اور حالات کو سدھارنے کی کوشش کی۔ اس کی تہہ میں سیکولرازم کی روایتیں کام کر رہی تھیں یہ ضرور ہے کہ ان رجحانات کو مختلف نام سے موسوم کیا گیا۔ لیکن ہم خوب سمجھتے ہیں جس بھیس میں’’یہ‘‘ آئے کہیں حصول آزادی کے لیے سردھڑ کی بازی لگا کر ان میں اترآنے کی صورت میں نمودار ہوئے کہیں قومی یکجہتی کا پیغام بن کر چمکے۔ کہیں ہندو مسلم اتھاد کے روپ میں سامنے آئے۔ ‘‘

    بقول مولانا فضل الحق ’’انگریزوں نے اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ مذہبی بنیادوں پر فرقوں کا اختلاف تسلط اور قبضہ کی راہ میں سنگ گراں ثابت ہوگا‘‘ اس لیے انھوں نے نفاق اور افتراق پیدا کرنے کی اپنی تمام تر کوششیں صرف کیں تاکہ اطمینان کے ساتھ دنیا سامراجی تسلط قائم رکھ کر ہندوستان کی دولت سمیٹتے رہیں۔ لیکن تابکے؟ ہمارے قائدینکی دور رس نظروں زمانے کے مزاج دانوں اور نبض شناسوں نے فوراً اس بات کو تاڑ لیا کہ افتراق اور نفاق ہماری شکست کی آواز ہوگی اور ہم نے سیکولرازم کا جو حسین بت تراشا ہے وہ پاش پاش ہو جائے گا اس لیے انھوں نے اس روایت کے تحفظ کے لیے قوم کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہونے کی دعوت دی۔ آپس میں پیار و محبت، اخوت و مساوات برتنے کا پیغام دیا اور اس کی افادیت سے لوگوں کو باخبر کیا۔ تاکہ مادر ہند کے پیروں سے غلامی کی زنجیریں کاٹی جا سکیں شعرا نے اتفاق و اتحاد پر مشتمل ادب کے ایک بڑے ذخیرے کا اضافہ کیا ان شعرا کے متعلق پروفیسر سید احتشام حسین صاحب لکھتے ہیں ’’وہ اتحاد، انسانی، اخوت و محبت کے مبلغ تھے۔ ان کے اشعار سے ےو یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ ہر مذہب کے انسان تھے وہ اس خدا کا ذکر کرتے تھے جو انسان کی روح میں موجود ہے۔۔۔ ظاہری مذہب اور مذہبی اداروں کو بھی مزارکے نام سے موسوم کرتے ہیں ان کے خیالات ان ویشنو بھگت شعرا سے ملتے ہیں جو صرف مذہب کی روح کو پیش کرتے ہیں۔ ان شعرا کا مذہب بھی انسان کی محبت اور سچائی کی پرستش ہے۔ ‘‘

    غلامی کے بعد ہمارے جذبات اور احساسات اورت ہمارے شعور اور ادراک نے مفلوجی کیفیت کو پسند نہ کیا بلکہ آزادی کی خواہش کو بیدار کیا اصلاح پسندی کی راہ دکھائی۔ رفتہ رفتہ انگریز کی سامراجی طاقت کو ختم کرنے کے لیے مختلف تحریکیں منظر عام پر آنے لگیں۔ جو جس قدر کچلی گئیں اتنی ہی ابھریں۔ ہماری شاعری اور ادب نے وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو دیکھا۔ اصلاحی عناصر کو اپنے دامن میں سمویا ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کا پیغام دیا۔ اور ایسی شاعری جو قوم کے حق میں افیون کا کام کرتی تھی سَمِ قاتل قرار دی گئی تاکہ ادب کے ان عناصر کا خاتمہ کیا جائے جو ذہنی عیاشی اور مفلوجی کیفیت پیدا کرتے ہیں اور زندگی کے رجائی پہلو کو اجاگر کریں تاکہ سرگرم عمل ہو کر اپنا مقصد حاصل کر سکیں ایسے شعرا میں حالیؔ، آزادؔ، شبلیؔ، اسمعٰیل میرٹھی وغیرہ کے نام سر فہرست ہیں۔

    1857 میں پنجاب میں کرنل ہالرائڈ کی سرپرستی میں قائم شدہ انجمن مشاعری کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جس کے سرگرم کار کن حالی اور آزاد جیسے خادم ادب اور دردمندانِ قوم تھے۔ اس انجمن نے ہمیں نیچرل اور اصلاحی شاعری کی طرف مائل کیا۔ حب الوطنی کے جذبات سے مملو نظمیں تخلیق ہوئیں سماجی اور سیاسی تقاضوں اور زندگی کی بدلتی ہوئی قدروں کو پیش کیا گیا۔ حالیؔ نے اپنی شاعری میں جو نظریات پیش کیے ان کو بعینہ سیکولر تو نہیں کہا جاسکتا تاہم وہ اس بات کی نشان دہی ضرور کرتے ہیں کہ ادب کس سمت جا رہا ہے ان کے یہاں وطن دوستی وطنی وابستگی اور اصلاحی رجحان ملتا ہے کیونکہ وہ زمانےکے بناض اور اصلاحی فطرت کے مالک تھے معاشرتی رجحان اور اخلاقی جذبے کا غلبہ ہے۔ اتحاد پسندی اور یکجہتی کے لیے ان کے یہاں اشعار ملتے ہیں،

    تم اگر چاہتے ہو ملک کی خیر

    نہ کسی ہم وطن کو سمجھو غیر

    سب کو میٹھی نگاہ سے دیکھو

    سمجھو آنکھوں کی پتلیاں سب کو

    ملک ہیں اتفاق سے آباد

    شہر ہیں اتفاق سے آباد

    ہند میں اتفاق ہوتا اگر

    کھاتے غیروں کی ٹھوکریں کیونکر

    حالیؔ کی نظم حب وطن کے بارے میں ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی لکھتے ہیں،

    اس نظم میں حالی نے وطن کی محبت کا اجتماعی احساس اور شعور پیدا کیا ہے۔ وہ تعمیر وطن کے لیے قوم کے جذبات کو متحرک کرنا چاہتے ہیں۔ لوگوں کو خدمت قوم کی طرف راغب کرتے ہیں۔ علم و ہنر کی ترغیب دلاتے ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ وطن کی ترقی، بلندی اخلاق، اعلیٰ کردار اور علم و ہنر کے اکتساب کے بغیر ناممکن ہے۔ ‘‘

    آزاد کی نظموں میں بھی حب الوطنی کاجذبہ جھلکتا ہے اور ان کی سیاسی نظمیں بڑی جاندار ہیں۔ انھوں نے قوم کی ترقی کے لیے پیغام دیا ہے اور وطن کے لیے جان دینے کی تلقین کی ہے ان کے یہاں دردمندی اور دلسوزی دوسرے شعرا کی بہ نسبت زیادہ ہے جس کی وجہ ان کے والد کا جنگ آزادی کے حصول کی کوشش میں گولی کا نشانہ بن جانا، ہوسکتی ہے۔ منیرؔشکوہ آبادی کےیہاں بھی فرنگی قید کے مصائب کا بیان، آزادی کی تڑپ اور حصول آزادی کے لیے جد و جہد کی تلقین ہے، ان کے اس قسم کے کلام میں صداقت اور خلوص کے ساتھ ساتھ سوزوگداذ بھی ہے کیونکہ منیر ؔ شکوہ آبادی بذات خعد فرنگی مصائب کے شکار رہے اور کالے پانی کی سزا بھگتی، شبلی اس سلسلے میں ایک اہم کرادر بن کر ابھرتے ہیں۔ ان کے متعلق سید سلیمان ندوی کی رائے ہے، ’’علماء میں وہ پہلےشخص تھے جنھوں نے وقت کی سیاسی باتوں میں دلچسپی لی کانگرس کی حمایت کی، ہندومسلم مصالحت پر مضامین لکھے۔ گویا شبلی نے ادب کی سیکولر روایات کو آگے بڑھانے میں مدد کی۔ ان کی سیاسی نظموں کے متعلق سجاد ظہیر رقمطراز ہیں۔ ’’ان کی سیاسی شاعری نے ان (قوم) کے سوئے ہوئے جذبات کو جگایا جن پر پست ہمتی اور احساس کمتری کی چادریں پڑی ہوئی تھیں‘‘

    سرسید کی تحریک اور ان کی تحریروں نے حالیؔ کی شاعری کو نکھارا اور آزادی کے لیےراہ ہموار کی۔ اس کے بعد ادب میں اقبالؔ، چکبستؔ جیسی عظیم الشان ہستیاں منصۂ شہود پر آئیں۔ چکبست کی شاعری میں نئے نئے مسائل تنوع اور رنگارنگی کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ ان کی شاعری نے سیاسی اجتماعی اور حب الوطنی کے تصورات کو بڑی فراخ دلی کے ساتھ اپنے دامن میں سمویا ہے۔ وہ فرقہ وارانہ ذہنیت کے سخت خلاف تھے۔ لیکن ان کا مطمح نظر ہوم رول بن لکر رہ جاتا ہے یہاں تک کہ فرقہ وارانہ فساد اور اختلافات کی چارہ سازی بھی اسی میں تلاش کرتے ہیں۔

    رقیب کہتے ہیں رنگ وطن نہیں یکساں

    بناہے قوسِ قزح خاکِ ہند کا داماں

    جدھر نگاہ اٹھے اس طرف نیا ہے سماں

    نہ ایک رنگ طبیعت نہ ایک رنگ زباں

    اس لیے،

    جو ہوم رول پہ بہ چشم شوق شیدا ہو

    تمام رنگ مٹیں، ایک رنگ پیدا ہو

    یہاں تک کہ ہوم رول ان کا دین اور ایمان بن جاتا ہے اور ہوم رول کے بدلے بہشت کو بھی ٹھکرادیتے ہیں ہندوستان کے تمام آزار کی دوا اسی کو سمجھ لیتے ہیں۔ حب الوطنی کا جذبہ ان کی شاعری میں رچابسا ہے کیونکہ یہ جذبہ ملک کو آزاد کرانے کے لیے تلوار کی جھنکار کا حکم رکھتا ہے،

    اے صور جب قومی اس خواب سے جگادے

    بھولا ہوا فسانہ کانوں کو پھر سنادے

    مردہ طبیعتوں کی افسردگی مٹا دے

    اٹھتے ہوئے شرارے اس راکھ سے دکھا دے

    حب وطن سمائے آنکھوں میں نور ہو کر

    سر میں خمار ہو کر، دل میں سرور ہوکر

    سیکولرازم کی روایات کو آگے بڑھانے اور اسے سرسبز اور شاداب رکھنے میں حب الوطنی، اتحاد و یکجہتی، قومی ترقی و فلاح اور آزادی کی خواہش کا بڑا ہاتھ ہے۔ ہم ان عناصر کو چکبست کی شاعری میں پاکے یہ کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے اس روایت کو تقویت دینے اور آگے بڑھانے میں اہم کردارادا کیا۔ ان کے یہاں ملکی روایت کا گہرا شعور، ہندی کلچر کی شمولیت اور ہندی تشبیہات اسی رجحان کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ہوم رول کی تحریک کو سہارا دینا اس بات کی شہادت ہے کہ جس چیز کو انھوں نے وطن کی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مناسب سمجھا، اس کی اشاعت کی، وطن سے وابستگی، ملکی رجحانات و وطن کی تہذینی و ثقافتی روایات کے لحاظ کے ساتھ ساتھ ہوم رول ہمارے تمام تر دردوں کا درماں نہ بن سکا بلکہ اور وسعت کا خواہاں رہا۔ اقبالؔ نے چارہ سازی کی کوشش کی ان کے یہاں انقلاب کی آہٹ ہے ان کے جذبۂ وطن پرستی کے متعلق عبادت بریلوی لکھتے ہیں:

    ’’یہ وطن پرستی جذباتی وطن پرستی نہیں بلکہ ایک سیاسی نصب العین ہے جس میں ؑلامی سے نفرت، آزادی سے محبت اور بندہ و آقا کے تعلقات کی صحیح بصیرت کی جھلکیاں نظر آتی ہیں‘‘ اقبالؔ کے یہاں انسانی زندگی کی بھلائی اور اس کی سربلندی کا جو تصور ملتا ہے اس کو ہم سیکولر روایات کا ایک جزو کہہ سکتے ہیں۔ جو فلسفہ اور تفکر کی آمیزش سے ایک نئے رنگ اور روپ میں سامنے آتا ہے۔

    1885 میں کانگرس کا قیام عمل میں آیا۔ یہ اپنے وقت کی سب سے موثر سیاسی جماعت رہی اس کے بنیادی رجحانات میں سیکولرازم شامل تھا اس میں بلاتفریق مذہب و ملت ہر ایک کو شمولیت کی اجازت تھی اور اسی جذبے نے ملک کو آزاد کرانے میں مدد دی۔ ابتدا میں اس کا مقصد سماجی اصلاح اور کطھ حقوق کا مطالبہ تھا مگر بعد میں یہ خالص سیاسی جماعت بن گئی۔ گاندھی جی کا تحریک خلافت کی پشت پناہی کرنے میں سیکولررجحان کا بڑا ہاتھ ہےاس وقت ہندوستان کے باشندے بلاامتیاز مذہب و ملت ایک تھے اور اپنے آپ کو فخر کے ساتھ ہندوستانی کہتے تھے۔ یہ رجحان ہمارے شعر و ادب میں بھی نمایاں ہوا۔ اقبالؔ، اکبرؔالہ آبادی، سرود جہان آبادی، چکبستؔ، ظفر ؔعلی خاں، جوشؔ ملیح آبادی، سیمابؔ اکبرآبادی، علیؔ اختر، محرومؔ وغیرہ نے اتحاد و اتفاق پر نظمیں لکھیں اپنی شاعری میں حب الوطنی کے جذبات کا بیان کیا۔ سیاسی تقاضوں کوسمویا۔ ملک میں امن و آشتی اور آزادی کی تمنا کو تیز تر کرنے کے لیے فنِ شاعری کو موثر استعمال کیا۔

    افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم ان میں سے بعض شعرا کو خالص اسلامی مان لیتے ہیں۔ لیکن جب ان کی شاعری کا بغور مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہیں تو سیکولر رجحانات کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ کیا اقبالؔ کی نظمیں ’’نیاشوالہ، تصویر درد، ہمالہ، ترانہ ہندی‘‘ سیکولر رجحانات کی تبلیغ نہیں؟ کیا ظفر علی خاں کا طنز اور ان کی سیاسی نظمیں ملک کی فلاح وبہبودی کی طرف بلیغ اشارہ نہیں؟ کیا اکبرؔالہ آبادی نے اتحاد و اتفاق کی افادیت کو واضح نہیں کیا؟ اردو شاعری میں سیکولر روایات تو اس قدر رچ بس گئی ہیں کہ محسنؔ کاکوری نعت جیسے خالص اسلامی موضوع پر نظمیں لکھتے وقت بھی ان روایات سے اپنا دامن نہ بچا سکے ان کی تشبیب میں ہندو صنمیات کا تذکرہ، ملکی خصوصیات ثقافتی اور تہذیبی رجحان کی عکاسی اور ہندو تشبیہات اس شہادت کے لیے پیش کیے جا سکتے ہیں۔ محفل شعر میں ہندو مسلم اور دوسرے لوگوں کا شانہ بہ شانہ مشترک ہونا، مذہبی القابات، ہرمذہب کی تشبیہات کا استعمال ہندو شاعروں کے مسلم شاگرد اور مسلم اساتذہ کے ہندو شاگرد اسی روایات کی اہم کیاں ہیں۔

    عظمت اللہ خاں اور آرزوؔ لکھنوی کا ہندی بحریں استعمال کرنا اور ایسی نظمیں اور گیت لکھنا جس میں ہندوستانیت ہو، اسی رجحان کو نمایاں کرتا ہے۔ اقبالؔ کی نظم ’’ہندوستانی بچوں کا گیت‘‘ سیکولرازم کی بہترین مثال کہی جا سکتی ہے گورونانک اور سوامی تیرتھ پر لکھی گئی نظمیں ان کی وطن سے وابستگی کو ظاہر کرتی ہیں۔ اقبالؔ کی نظم’’ نیا شوالہ‘‘ کے متعلق سید اعجاز حسین رقم طراز ہیں۔ شاید اتنے خوبصورت اور بے باکانہ انداز میں اس پہلے اتفاق اور اتحاد کی تلقین نہ کی گئی ہو!‘‘

    ابال کا حساس دل قوم کے افتراق اور نفاق پر خون کے آنسو روتا ہے،

    جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو

    ہاں ڈبو دے اے محیط آب گنگا تو مجھے

    سرزمین اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے

    وصل کیسا؟ یاں تو اک قرب فراق انگیز ہے

    بدلے یک رنگی کے یہ نا آشنایہ ہے غضب

    ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب

    جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں

    اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں

    اقبال کا رونا صرف ان کا رونا نہیں نلکہ سارے گلستان کا رونا ہے۔ یہ اس لیے کہ ہندوستان کی تقدیر گردش میں ہے۔ اس کا فسانہ عبرت خیز ہے۔ اقبالؔ ناز کرتے ہیں کہ وطن کا درد ان کے دل میں جاں گزیں ہے وہ وطن کے نوحہ خوانوں میں ہیں۔ لیکن یہ نوحہ صرف گریہ انگیز ہی نہیں بلکہ ایک پیغام کا حامل بھی ہے اور قوم کی غیرت دلانے والا بھی۔ مکار اور عیار حکمرانوں نے نشان برگ گل تک نہ چھوڑا۔ بلکہ آستینوں میں بجلیاں چھپا کر رکھ دیں۔ ایسی حالت میں عہد کہن کی داستانوں کو لے کر خاموش بیٹھا قرین مصلحت نہیں بلکہ سوچنا اور عمل کرنا ہے،

    نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو!

    تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

    اس کے بعد عمل کی اہمیت اور حقیقت کو واضح کرتے ہیں،

    یہی آئین قدرت ہے یہی اسلوب فطرت ہے

    جو ہے راہ عمل پر گامزن محبوب فطرت ہے

    انہیں یقین ہے کہ ان کے آنسوؤں سے محفل گلستان بن جائے گی ملک کی ظلمت چھٹ جائے گی اور محبت و اتحاد کی وجہ سے بکھیرے ہوئے دانے ایک ہی تسبیح میں پروئے جا سکیں گے کیونکہ،

    محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے

    کیا ہے اپنے بخت خفیہ کو بیدار قوموں نے

    کیا اس بحث کے بعد ہم اس نتیجے پر نہیں پہنچتے کہ اقبالؔ کی ملکی شاعری نے سیکولر روایات کو آگے بڑھانے میں نمایاں کرادر ادا کیا ہے،

    انگریزی تہذیب و تمدن کے غلبہ اور اس کی کورانہ تقلید کے برے نتائج سے ہمارا ادن ہمیں آگاہ کرتا ہے ہمیں بتاتا ہے کہ ہم اپنی طاقت کا صحیح اندازہ کریں اپنی خوبیوں کی پہچانیں اور غیروں کے دست نگر نہ رہیں۔ اپنے اخلاق کو استوار کریں جو قومی ترقی کا سنگ بنیاد ہے۔ کسی کی اندھی تقلید میں اپنی ملکی اور قومی خصوصیات کو ہاتھ سے نہ دے دیں۔ اکبرؔ جو طنز کے بادشاہ ہیں انگریری تہذیب کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہی تہذیب، جو اقبال کی نظر میں دکانِ شیشہ گری اور جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے۔ اکبرؔ نے اپنے زمانے کے منفی پہلو پر بھر پور طنز کا وار کیا ہے لیکن قباحت یہ ہے کہ بعض تابندہ پہلو بھی اس کی زد میں آگئے۔ اس کے باوجود سیکولر روایات کا احساس بھی ہمیں ان کے یہاں ملتا ہے وطن کی حالت زار پر کراہنا، اس کی چارہ سازی کے لیے کونین کی گولیوں کو شکر میں لپیٹ کر دینا۔ اتحاد و اتفاق کی تلقین اس کی علامات ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں،

    آتا ہے وجد مجھ کو ہر دین کی ادا پر

    مسجد میں ناچتا ہوں ناقوس کی صدا پر

    تو یہ روایت واضح پیکر اختیار کر لیتی ہے۔ ہندوستان کسی ایک قوم کا مسکن نہیں بلکہ یہاں مختلف اقام شیر و شکر ہو کر رہتی ہیں، ہماری حکومت کے قانون کسی ایک مذہب کے قوانین اور اصولوں پر مبنی نہیں بلکہ عالمگیر اخوت کے علمبرادر ہیں اور سیکولرازم اس کا اہم کرادر ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے ملک کے باشندوں کا بھی کوئی مذہب نہیں، بلکہ یہاں کے رہنے والوں کو اپنے اپنے مذہبی رسوم اور طریق عبادت کی ادائیگی کی پوری پوری آزادی ہے جس سے ہمارے اصولوں کی وسعت اور ہمہ گیری ظاہر ہوتی ہے ہمارے ادب اور شاعری میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں کہ ہم نے اپنے اپنے مذیب کو گلے سے لگایا ہے۔ ظفرؔ علی خاں اپنی نظم’’نوید آزادی ہند‘‘ میں ہندوستان کاس روایر کو بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں انھوں نے مستقبل میں ان ہی بنیادوں پرآزادی کا مژدہ جان فزا سنایا ہے،

    برہمن مندروں میں اپنی پوجا کر رہے ہوں گے

    مسلمان دے رہا اپنی مساجد میں اذاں ہوگا

    من و تو کے یہ جتنے فرشتے ہیں مٹ چکے ہوں گے

    نصب اس وقت ہندومسلماں کا جواں ہوگا

    اس طرح افسرؔ میرٹھی نے’’وطن کا راگ‘‘ جمیلؔ مظہری نے ’’بھارت ماتا‘‘ اور آرزو لکھنوی نے’’قومی گیت‘‘ میں اسی تصور کو پیش کیا ہے،

    تیری چھاتی دھرتی سمندر

    جس کی موجیں مسجد مندر

    دونوں کی ہے گونج برابر

    اللہ! اللہ، ایشور، ایشور

    ماتا کو پرنام۔ اے ماں! اے ماں تجھ کو سلام (آرزوؔ)

    ظفر علی خاں کی سیاسی اور انقلابی نظمیں اہم ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری سیکولر روایات کی علمبردار بھی ہیں۔ اتحاد و اتفاق کی تلقین اور حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے ہندوستانی قوم پر ظلم و ستم ہوتا دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں ان کی نظمیں’’ مارشل لا’’ فریاد جرس‘‘ سائمن کمیشن کا مقاطعہ اور’’سورج‘‘ اس سلسلے میں پیش کی جا سکتی ہیں۔ انھوں نے ناقوس اور اذان سے بے پروا ہو کر ہندوستان سے عشق کیا ہے اور اسی عشق کے والہانہ جذبے سے سرشار ہو کر ہندوستان کےانقلاب اور آزادی کی پیش گوئی کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے نفاق و افتراق پر آہیں بھی بھریں۔ ان کے یہاں ایک چھبتے ہوئے طنز کے ساتھ ساتھ جوش و خروش ہے جو قوم کو عمل اور جد و جہد کے لیے ابھارتا ہے۔

    ہمارے ادب میں سماجی اصلاحوں کے لیے آواز اٹھایا گیا غربت و افلاس کا قلع قمع کرنے کی تبلیغ کی گئی۔ سرمایہ داری کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں۔ ظلم و استبداد کی جڑیں کاٹنے کے لیے اکسایا گیا اس آواز و پیغام کے مخاطب قطع نظر اس سے کہ وہ کسی بھی فرقے یا مذہب کے پیرو ہوں، ہندوستانی تھے۔ اگر ہم غور سے ان باتوں کا تجزیہ کریںتو یہ اسب کی سیکولرروایات کو اپنے اندر سموئے ہوئے سیاسی زمرے میں آجاتا ہے اس سلسلے میں مصنف نئے ادبی رجحانات کا قول قابل ذکر ہے کہ ’’قوم و افراد سے گزر کر شعرا نے پورے جتھے اور کار آمد طبقے کی حالت کا نقشہ کم و کاست پیش کرنے کی کوشش کی جو اپنی جگہ پر نہ صرف اپنی نوعیت کے اعتبار سے بلکہ شاعری کے لحاظ سے بھی قابل قدر ہے۔

    اس سیکولرروایات کا اثر ہے کہ مذہب و ملت کے نام پر جو خوں ریزیاں اور فساد، ہنگامہ گیرودار، اور قیامت صغریٰ مچی اس کی خدمت کی گئی۔ یوں بھی کسی مذہب نے انسان کا خون کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ مذہب انسان کی فلاح و بہبودی کا ضامن ہوتا ہے اور دوسرے مذاہب کا احترام سیکھاتا ہے اسی رجحان کو پیش کرنے والے فن کاروں میں کرشن چندر، علی عباس حسینی، خواجہ احمد عباس، احمد ندیم قاسمی، قرۃ العین، تلوک چند محروم، سیماب اکبرآبادی، جوشؔ وغیرہ کا شمار ہو سکتا ہے۔

    جوشؔ نے انسانی عظمت کے گیت گائے ہیں، وہ انقلابی شاعری میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ بقول خلیل الرحمان اعظمی، ’’انھیں ایجی ٹیشنل نظموں اور منظوم صحافت کی بنا پر انھیں شاعرِ انقلاب کہا گیا ہے‘‘ ان کا لہجہ بڑا ہی گرجدار اور جوشیلا ے ایک شدت اور مشتعل ہوجانت والی کیفیت پائی جاتی ہے جوان کی رومانی فطرت کی دین ہے جس کی بنا پر نقادوں نے ان پر اس طرح رائے زنی کی ہے، ’’جوش کی انقلابی شاعری کا اکثر و بیشترحصہ ایک کف در وہاں چیخ سے زیادہ وقیع نہیں‘‘، ’’جوش اردو میں تو بہت چیختے چنگھاڑتے ہیں مگر جب ان کا ترجمہ انگریزی میں کیا جائے تو گھاس معلوم ہوتے ہیں۔ ’’جوش کی نظموں میں خیالات کی گہرائی ناپید ہے اس میں خطابت کا دم خم زیادہ ہے‘‘ لیکن ہم عبادت بریلوی کے اس قول سے متفق ہیں۔ ’’وہ آزادی کے پرستار ہیں۔ مساوات ان کا نصب العین ہے۔ غلامی سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ فرقہ پرستی انھیں ایک آنکھ نہیں بھاتی، محبت ان کا مسلک ہے انسان دوستی پر وہ ایمان رکھتے ہیں۔ ‘‘ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سیکولرنظریات کے حامی ہیں اور اردو ادب کی اس روایت کو انھوں نے برا سہارا دیا۔

    سیمابؔ، سرورؔ، تلوک چند محروم وغیرہ کی سیاسی شاعری میں بھی یہ رجحان غالب رہا۔ سیمابؔ کی نظمیں’’ہندوستان، صبح آزادی کا گیت، جنگی ترانہ، قومی ترانہ، کانگرس سے خطاب، اختلاف‘‘ وغیرہ سرورؔ جہان آبادی کی نظمیں ’’خاک وطن، عروس وطن، مادرہند، گلزار وطن‘‘ تلوک چند محروم کی نظمیں’’ہندوستان ہمارا، بھارت ماتا، محبان وطن، ہندومسلمان‘‘ وغیرہ اس روایت کو بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوئیں۔

    سیکولرازم کی روایت کو اس وقت بڑی تقویت ملی جب ہم چھوت چھات اور ذات پات کے خاتمے پر کمربستہ ہوئے سچ پوچھیے تو ہر انسان برابر ہے زیادہ برہمن ہو یا شیخ، شودر ہو جا چھتری۔ ہمارے سیکولر نظام میں اس بات پر برا زور دیا گیا ہے کہ انسان کی فضیلت اور برتری کا اندازہ اس کی صلاحیتوں اور قابلیتوں سے لگایا جائے۔ مذہب و ملت ذات و پات اس کی ترقی میں روکاوٹ نہ بن سکیں اس کے لیے گاندھی جی نے بڑی کاوشیں کیں۔ ہمارے نچلے طبقے کو ابھارنے کی تلقین کی۔ آج اسی کا نتیجہ ہے کہ نچلا طبقہ بھی برسر اقتدار آرہا ہے اور یہ ہونا بھی چاہیے یہی سیکولر حکومت کا طرہ امتیاز ہے اسی رجحان کو ہماری شاعری نے حسن و خوبی اور شعری صداقت کے ساتھ سمولیا۔ ملاحظہ۔

    تفریق جو ہے قائم یہ غیر قدرتی ہے

    اسفل بھی آدمی ہے افضل بھی آدمی ہے

    دوراز رہ حقیقت یہ فرق ظری ہے

    ہر قصر تن میں روشن اک شمع زندگی ہے

    جلوے ہیں سب اسی کے، رازِ حایت کیا ہے

    ہیں پھول اک چمن کے تخصیص ذات کیا ہے

    (برق دہلوی)

    تلوک چند محروم کی نظم’’ چھوت چھات: کا بھی ایک بند پیش کیا جاتا ہے۔

    یہ چھوت چھات کیسی تو نے رو رکھی ہے

    ناراض تجھ سے ترا خلاّق زندگی ہے

    پاکیزگی پہ اپنی یہ ناز ابلہی ہے

    جوپاک ذات تجھ میں ہے ان میں بھی وہی ہے

    ہرگز تجھے نہ یوں تو عزت نصیب ہوگی

    گویا ملک کی عزت و وقار، عظمت وبلندی کے لیے ہمارے ملک کے باشندے شانہ بہ شانہ چلیں۔

    اس دور کے بعد آنے والے شعرا نے اس بات کو پوری طرح محسوس کیا کہ فرسودہ نظام کو بدل کر ایسا نظام قائم کرنا ہے جس کی بنیاد انسانی تقاضوں کی تکمیل اور انسان کی صالح اقدار پر ہو۔ کسی خاص مذہب یا فرقے کی تفریق کہ بغیر انسانیت سے ہمدردی ہو۔ عالمگیر اخوت و مساوات ہو۔ یعنی سیکولرازم کو برسراقتدار لانے کی کوششیں کی جائیں۔ کیونکہ ایسے ملک کی جہاں مختلف مذاہب اور مختلف عقائد کے ماننے والے رہتے بستے ہوں محرومؔ، جوشؔ، افسرؔ میرٹھی، ساغرؔ نظامی، فراقؔ، عرشؔ، آنند نرائب ملّا، گوپی ناتھ امنؔ، جمیلؔ مظہری، روشؔ صدیقی، جانثار اخترؔ، علی جواد زیدی، سردار جعفری، اعجاز صدیقی، فیضؔ، مجازؔ، وامقؔ، احمد ندیم قاسمی، کیفیؔ اعظمی، ساحرؔ وغیرہ کا نام لے سکتے ہیں۔

    اس وقت کی شاعری میں ایک جوش و خروش پیدا ہو گیا درد وسکینت کا غلبہ کم رہا۔ قنوطیت اور مفلوجی کیفیت کے بجائےتلوار کی جھنکاریں سنائی دیتی رہیں۔ محبوب کی گھنیری زلفوں کی جھاؤں میں نغمے سننے کے بجائے توپ و تفنگ کی آوازیں خوش آئیندمعلوم ہوئیں۔ سرمایہ داری پر ضرب کاری لگائی گئی۔ حصول آزادی کے لیے زمین وطن نے خون مانگا توبے دھڑک جانیں قربان کی گئیں۔ آزادی کی راہ میں جتنی رکاوٹیں آئیں ان کا بے دردی سے خاتمے کا اعلان کیا گیا۔ یہ تمام عجحانات ہماری شاعری میں منعکس ہیں ملاحظہ ہو،

    توڑ پرانا نظام

    دائرۂ خاص و عام

    بندشِ قوم و مقام

    دے یہ جہاں کو پیام

    لے کے نصرت کا نام

    انقلاب زندہ باد

    *

    دور ہو سب ایک بار

    تفرقہ روز گار

    مفلس و سرمایہ دار

    بندہ و بااختیار

    کشمکش گیر دوار

    انقلاب زندہ باد

    (آنند نرائن ملا)

    *

    خراب باوۂ خودی مئے عمل پیے ہوئے

    علم بدوش صف بہ صف کلاہ و کج لیے ہوئے

    مثال بحر بے کراں بڑھے چلو بڑھے چلو

    برادرانِ نوجواں بڑھے چلو بڑھے چلو

    بنائے کہنہ توڑ دو بناؤ اک جہان نو

    جہان نو جہان نو سقفِ آسمان نو

    نئے مکیں نیا مکاں بڑھے چلو بڑھے چلو

    برادرانِ نوجواں بڑھے چلو بڑھے چلو

    جو عقل راہ روک دے تو اس کا ساتھ چھوڑ دو

    جو مذہب آکے ٹوک سے تو اس کی قیدتوڑ دو

    ہوا کی طرح سرگراں بڑھے چلو بڑھے چلو

    (جمیل مظہری)

    *

    سرخی خون و فا سے زندگی گلزیر ہے

    غیرت مزدور برقِ خرمن پرویز ہے

    جس کا تیشہ آج شعلہ بار آتش خیز ہے

    ہاں وہی ہے کامراں وکام گار و کامیاب

    انقلاب اے ساکنانِ ارض مشرق انقلاب

    (روش صدیقی)

    *

    سونے والوں کو ایک دن جگادیں گے ہم

    رسم و راہِ غلامی مٹادیں گے ہم

    بربریت کے ٹکڑے اڑا دیں گے ہم

    آسمان و زمین کو ہلادیں گے ہم

    کون کہتا ہے کمزور نربل ہے تو

    ہر طرف خون کے دریا بہادیں گے ہم

    جس طرف سے پکارے گی روحِ وطن

    اس طرف ہی وفا کی صدادیں گے ہم

    اے وطن! اے وطن! اے وطن!

    سرسے باندھے ہوئے ہیں کفن ہی کفن

    اے وطن اے وطن اے وطن

    جان من جان من جان من

    ہماری پر خلوص کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم سیکولر حکومت کی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ آج بھی ہمارے ادب کی یہ روایت ارتقا کی طرف مائل ہے ہمارے شعرا نے بہت سی نظمیں کہی ہیں۔ جس میں اس روایت کا پاس اور رچاہوا شعور ہے۔ اس کی استواری کی خواہش اور ارتقا کی تمنا ہے ایسے شعرا میں آنند نرائن ملا۔ ساغر، مجاز، عرش، سکندر علی وجد، سلیمان ادیب، جگن ناتھ آزاد، شمیم کرہانی وغیرہ شامل ہیں۔

    آج جب کہ ہم اپنے سیکولرازم کے تحفظ کے لیے جان کی بازی لگا رہے ہیں ہمارا روب ہمارے ساتھ ہے۔ کئی نئی نظمیں منظر عام پر آکر ہمارے حوصلوں کو تب و تاب جادوانہ عطا رہی ہیں۔ ہمیں اپنی قوتِ بازو پر بھروسہ ہے کہ ہم اپنی اس متاع عزیز کی حفاظت کر سکتے ہیں۔

    موجودہ جنگی فضا سے متاثر ہو کر کہی گئی محترم اعجاز صدیقی کی نظم’’ کرب خود کلامی‘‘ کا ایک بند پیش کیا جاتا ہے۔ جس میں اس روایت کا رچا ہوا شعور ہے جو سیکولرازم کی علمبردار ہے۔

    ایشیا

    ہند کی عظمت پہ رہا ناز کناں

    آج بھی

    ہند ہے اک طرہ اقوام جہاں

    یہ مذاہب کا مہکتا ہوا گلدستہ ہے

    اور مذاہب کا کسی پر بھی نہیں کوئی دباؤ

    سب ہیں آزاد

    کہ جمہوریت ان کی ہے اساس

    اس طرح ہم نے دیکھا کہ اردو ادب میں سیکولرروایات ابتدا سے گھلی ملی ہیں۔ یہ ہمارا مقدس روثہ ہے جس کے ہم امین ہیں اور جس کا تحفظ ہمارا فرض عین ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے