Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو شاعری کے چند مسئلے

سجاد ظہیر

اردو شاعری کے چند مسئلے

سجاد ظہیر

MORE BYسجاد ظہیر

    سب اس بات کو مانتے ہیں کہ اردو شاعری ہندوستانی تہذیب کی حسین ترین تخلیقوں میں سے ایک نایاب روحانی اور ذہنی تحفہ ہے۔ شاعری کا منصب یہ ہے کہ وہ ہمارے ذہن کے ان گوشوں میں حقیقت اور سچائی کی روشنی ڈالے، جہاں علم کے معمولی وسیلوں سے مشکل کے ساتھ رسائی ہوتی ہے۔ روح اور احساس کے تاروں کو چھیڑ کر انھیں اس طرح مترنم کرے کہ بہترین انسانی خصائص اور ابھریں اور زیادہ اجاگر ہوں، اور ہم پاکیزہ اور لطیف طور سے محظوظ ہوں۔

    اس نظریے سے دیکھا جائے تو یقیناً ولی سے لے کر غالب اور اقبال اور جوش تک اردو شاعری کے بہترین جواہر پارے ان خوبیوں کے حامل رہے ہیں، تاہم شاعری بھی دوسری تہذیبی قدروں کی طرح سماج کے ساتھ ساتھ بدلتی ہے۔ اس کی معنوی اور صوری کیفیت پر سماجی تصورات، نظریے، فلسفیانہ خیالات اکثر اثر ڈالتے ہیں اور جس طرح ہر دور میں عمارتوں کے اسلوب بدلتے ہیں، محرا بیں، راست گوشہ دروں کی جگہ لے لیتی ہیں، اسی طرح شعر کی ماہیت اور اس کے اسلوب میں بھی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ شاعری میں اس نظریاتی، فلسفیانہ اور روحانی تصادم اور تشنج کی کیفیتیں بھی جھلکتی ہیں جو سماج میں خاص طور پر تبدیلی اور انقلاب کے دور میں ظاہر ہوتی ہیں۔

    ایک بڑا فنکار وہی ہے جو ان کیفیتوں کو نہ صرف سمجھے اور محسوس کرے بلکہ ان کے سبب سے انسانوں اور دماغوں میں جو تناؤ پیدا ہوتا ہے، ان کا تخلیقی طور سے اظہار کرے، جس کے معنی یہ ہیں کہ سماجی اور نفسیاتی ارتقا اور زوال کے عمل کی ماہیت اور اندرونی کیفیت، نازک اور پوشیدہ عمل اور ردعمل سے پیدا ہونے والی کیفیتوں کا شعور حاصل کرے اور اس مستقبل کا بھی صحیح اندازہ کرے جو اس دور میں سماجی ارتقا کی منزل ہے اور جس منزل پر پہنچنا انسان کے مادی اور روحانی ارتفاع کے لیے ضروری اور نا گزیر ہے۔ ہر سچا فنکار جھوٹ، دھو کے اور ملمع کو رد کرتا ہے۔ وہ انسانی تعلقات میں حسن، توازن، سچائی اور لطافت کا طلبگار ہوتا ہے، وہ انفرادی اور اجتماعی آزادی چاہتا ہے۔ چونکہ ان کے بغیر نہ تو فرد، نہ قوم اور نہ نوع انسانی پریشانیوں اور دکھوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔

    اردو ادب میں وہ تحریک جو ترقی پسند تحریک کے نام سے مشہور ہوئی، دراصل ہمارے وطن کی عظیم تحریک آزادی کا ایک جزو تھی، جو ہمارے وطن کے عوام اپنے حالات زندگی کو بدلنے کے لیے عرصے سے جاری کیے ہوئے تھے۔ اس کی طاقت اور اس کی تاثیر آزادی کی تحریک سے پیدا ہوئی تھی۔ اس کی خامیاں اور کمزوریاں بھی تحریک آزادی کی خامیوں اور کمزوریوں سے ہی پیدا ہوئی تھیں۔ مثلاً ہم اپنے نئے سماجی اور سیاسی آزادی کے تصور کے ساتھ جاگیری دور کی تو ہم پرستی، عقیدہ پرستی، فرسودہ ریت اور رواج کی پابندی کے مخالف تھے اور ان کی جگہ عقل پسندی، جمہوریت، وطن دوستی، انسان پرستی کے طرف دار تھے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ بے شمار جاگیر ی طور طریقوں، عادات اور سوچنے کے انداز، نچلے اور درمیانہ طبقے کی مزاجی ذہنیت سے بھی بہ یک وقت بندھے ہوئے تھے اور ترقی پسندی کو ایک مسلسل جدوجہد کا ارتقائی عمل سمجھنے کے بہ جائے ایک لباس کی طرح سمجھتے تھے، جس کا پہن لینا گویا ہماری ذہنی تاریکی اور روحانی کثافتوں کو دور کرنے کے لیے کافی تھا۔

    ظاہر ہے کہ تہذیب میں، خاص طور پر ادب میں، کوئی تبدیلی یکایک اور اتفاقیہ نہیں ہوتی۔ بڑے سے بڑا جینیس (GENIUS) بھی اسی مواد اور مسالے سے اپنی نئی تخلیقات کرتا ہے، جو اس کو اپنی قوم سے تہذیبی ورثے میں ملتے ہیں۔ اس کی عظمت اسی میں ہے کہ وہ اپنے تہذیبی ورثے کو لے کر، اسی مٹی اور پتھر کو لے کر جو اس کے وطن کی سرزمین نے صدیوں کے ارتقائی عمل کے بعد اسے دیے ہیں، نئی تخلیق کرتا رہے۔ ایک طرف زبان اور ادب کا پرانا خزانہ، دوسری طرف عوام کی زندہ بولی، ان کے تجربات، ان کے خواب، ان سب کو لے کر اور انھیں سے وہ ایسی نئی چیزیں بناتا ہے جو نئے زمانے کی روح سے ہم آہنگ ہوتی ہیں، جو جذبات کو نیا گداز اور شعور اور نئی جلا اور روشنی بخشتی ہیں۔

    یہاں پر ہم یہ سوال اٹھانا چاہتے ہیں کہ جدید اردو شاعری میں، اس کی ماہیت اور صورت (فارم) کے لحاظ سے نئے حالات اور نئے تقاضوں کے مطابق نیا پن کس حد تک آیا ہے؟ کس حد تک وہ اپنے ماضی کی ان روایات سے چھٹکارا حاصل کر سکی ہے جو بری یا فرسودہ ہیں اور جن کا ترک کر دینا شاعری کی ترقی کے لیے ضروری ہے؟ کس حدتک اردو شاعری میں جدت، وسعت، ندرت پیدا ہوئی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ اردو کے شاعروں نے موجودہ اور آنے والے زمانے کے تقاضوں کا اندازہ کر کے اپنی تخلیقات میں نیا اور انوکھا حسن، نیا آہنگ، نئی معنوی گہرائی پیدا کی ہے۔

    اس سلسلے میں سب سے زیادہ ہولناک بات یہ ہے کہ ترقی پسند اور کئی ایسے اچھے شاعروں کی کوششوں کے باوجود جو اپنے کو ترقی پسند کہنا پسند نہیں کرتے، ہماری شاعری میں فی الجملہ اس کا ہلکا، چھچھلا، بے تہہ، سستا، فرسودہ اور تفریحی پہلو ابھی تک اس کا غالب عنصر ہے اور ہماری بد ذوقی کا یہ عالم ہے کہ زیادہ تر لوگ اردو شاعری کے اسی پہلو کو پسند کرتے ہیں۔ یہ ایک تلخ اور نہایت تکلیف دہ حقیقت ہے کہ اردو مشاعروں میں اکثر شاعر غزلیں پڑھتے ہیں اور سامعین سب سے زیادہ انھیں غزلوں اور ان غزلوں کے انھیں شعروں کو پسند کرتے ہیں اور ان پرداد دیتے ہیں جو متبذل اور گھٹیا ہوتے ہیں۔

    اچھے غزل گو شاعروں کے سامنے، اگر مشاعرے میں انھیں غزل سنانا ہے تو، سوال یہ نہیں ہوتا کہ وہاں اپنی شاعری کا بلند ترین نمونہ پیش کریں۔ ان کے سامنے سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر انھیں مجمع کی پسند یدگی حاصل کرنا ہے تو اس خاص موقعے کے لیے کتنا پست، کتنا سطحی کلام پیش کریں۔ یہاں شعر کی بلندی نہیں اس کی پستی مقبولیت کا معیار ہے۔

    لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ مشاعروں میں جو چیزیں پڑھی جاتی ہیں، ان کے معیار سے اردو شاعری کو نہ جانچنا چاہیے۔ تو آیئے اس شاعری کے معیار سے اردو شاعری کو جانچیں جو اردو کے سب سے مستند اور ذمےدار ادارے انجمن ترقی اردو (ہند) نے شائع کی ہے۔ اس وقت میرے سامنے انجمن کی طرف سے شائع کیے گئے جدید اردو شاعری کا ایک سٹ ہے۔ ان میں حسب ذیل شعرا کا انتخاب کلام ہے،

    اختر انصاری، عرش، حبیب احمد صدیقی، سکندر علی وجد، شاد عارفی، جگن ناتھ آزاد، جاں نثار اختر، مجروح سلطان پوری اور تاباں۔ حبیب احمد صدیقی صاحب کے علاوہ ان تمام شعرا نے جدید اردو میں اپنا مقام پیدا کیا ہے لیکن اردو شاعری میں ایک خاص طرح کی غزل کی روایت اتنی مضبوط اور مستحکم ہو گئی ہے کہ ہمارے اچھے سے اچھے شاعر اپنا دامن پوچ گوئی سے بچا نہیں سکتے اور ان کے کلام کا کا فی بڑا حصہ اسی پر مشتمل ہے۔ اسی قسم کے چند شعر سینے،

    عشق بتاں کالے کے سہارا کبھی کبھی

    اپنے خدا کو ہم نے پکارا کبھی کبھی

    عرش صاحب کو اپنی غزل کے اس مطلع پر مشاعرے میں ضرور داد ملتی۔ عشق بتاں کے ساتھ خدا کو پکار نا خوب رعایت ہے لیکن اس شعر میں آخر ہے کیا؟ اختر انصاری، جن کا شما ر نئی شاعری کے استادوں میں کیا جا سکتا ہے، غزل کے ایسے شعر بھی کہہ سکتے ہیں،

    صاف ظاہر ہے نگاہوں سے کہ ہم مرتے ہیں

    منھ سے کہتے ہوئے یہ بات مگر ڈرتے ہیں

    سکندر علی وجد، جنھوں نے اجنتا جیسی لا جواب نظم کہی ہے، یہ بھی کہہ سکتے ہیں،

    ابھی آیا ہے ہوش اے یاد جاناں

    نہ تڑپا، بار بار آئے نہ آئے

    چراغ زندگی لودے رہا ہے

    وہ جان انتظار آئے نہ آئے

    جاں نثار اختر جیسے کہن مشق، پختہ کلام، ترقی پسند شاعر جب غزل کہتے ہیں تو اس سطح تک اتر آتے ہیں،

    کچھ بھید کھلے مری نظر سے

    کچھ راز تری ہنسی سے جھلکے

    موتی تو نہ بن سکیں گے آنسو

    دامن پہ ترے اگر نہ ڈھلکے

    جگن ناتھ آزاد انھیں مضامین کو، جو سو ہزار بار کہے جا چکے ہیں اور جن میں نہ کوئی جذبہ ہے اور نہ خلوص، نظم کرتے ہیں،

    یہاں اکثر خموشی راز پنہاں کھول دیتی ہے

    حضور دوست طول داستاں سے کچھ نہیں ہوتا

    سخن کے باغ کی تو خون دل سے آب یار ی کر

    جو یہ کر لے تو پھر خزاں سے کچھ نہیں ہوتا

    شاد عارفی صاحب اردو کے جدت طراز شاعروں میں سے ہیں۔ لیکن غزل کہتے وقت ان کا عالم یہ ہے،

    اے تو کہ شرارت سے نہیں پانوں زمیں پر

    تھوڑی سی عنایت بھی کسی خاک نشیں پر

    ہاں، ہم نے ہی کھائے ہیں دل زار پہ چرکے

    ہم قتل بھی ہو جائیں تو الزام ہمیں پر

    مجروح سلطان پوری کی شاعری، اردو غزل میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ انھوں نے یقینی غزل کے پرانے اور حسین آبگینوں میں نئی شراب بھری۔ اپنے عہد کے انقلابی تصورات کو احساس کی شدت اور خلوص کے ساتھ اس طرح لا جواب اشعار میں پیش کیا،

    کبھی نظر بھی اٹھائی نہ سوئے بادہ ناب

    کبھی چڑھا گئے پگھلا کے آبگینوں کو

    ہوئے ہیں قافلے عظمت کی وادیوں میں رواں

    چراغ راہ کیے خوں چکاں حسینوں کو

    اسی کے ساتھ یہ بھی ہے کہ مجروح نے جابہ جا اپنی غزلوں میں ایسے الفاظ اور ایسی تلمیحات استعمال کی ہیں جن کو روایتی ڈگر پر چلنے والے شاید برداشت بھی نہ کریں لیکن یہ شاذونادر ہے اور اردو کے و قیانوسی نقادوں نے مجروح کے ان اشعار کو، جن میں اس جرات اور ندرت سے کام لیا گیا ہے، ان کے ’’کم زور‘‘ اشعار کہا ہے، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مضامین کی جدت، ترقی پسند نظریے اور خلوص کے باوجود ان کی غزلوں کا سازوسامان، الفاظ، تلمیحات، استعارے، کنایے روایتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاہ جہاں آباد کے شاہی قلعے کے دیوان خاص کو سرخ پر چموں سے سجا دیا گیا ہے۔ یہ بھی ترقی ہے لیکن ایک حد تک ہے۔

    تاباں کا پہلا مجموعہ کلام بیش تر نظموں پر مشتمل تھا۔ ان میں موضوعات کی جدت اور وسعت تھی۔ ان کی چند آزاد نظموں میں نیا آہنگ تھا، لیکن اب وہ صرف غزل لکھ رہے ہیں۔ ان میں کلام کی پختگی اور سلاست ہے اور ایسے عمدہ مضامین بھی ہیں،

    زندگی ذوق نمو، ذوق سفر، ذوق طلب

    انجمن ساز بھی، سرگرم تگ وتاز بھی ہے

    لیکن وہ ایسے اشعار بھی لکھ کر مشاعروں میں دادو تحسین حاصل کرتے ہیں،

    ہم بھی مسجد کے ارادے سے چلے تھے لیکن

    مے کدے راہ میں حائل تھے جدھر سے گذرے

    فیض شاید اس وقت کے محبوب ترین اور مقبول ترین شاعر ہیں لیکن غزل کہتے وقت سستے پن اور جذبات کی سطحیت اور روایتی چٹکلے بازی سے وہ بھی بچ نہیں سکتے۔ ان کا ایک شعر، جو زبان زد خاص و عام ہے، یہ ہے،

    دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے

    وہ جارہا ہے کوئی شب غم گزار کے

    ان کی صفائی میں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایسے اشعار ان کے یہاں کم ہیں۔ ان کے نسبتاً مختصر مجموعۂ کلام میں مشکل سے ڈھونڈھے ملتے ہیں۔

    فراق کا درجہ شاعری میں بہت بلند ہے اور اب ان کا شمار اردو کے چند سب سے بڑے شاعروں میں کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے ہماری شاعری کو لازوال شعر دیے ہیں۔ ان کے بلند مرتبہ اشعار کا آفاقی درد، ان کی وہ گہری اداسیاں، جن سے تزکیۂ نفس ہوتا ہے، جسمانی حسن اور شہوانی کیفیات کو روحانی بلندیاں بخشنے کا ان کا مخصوص انداز، ان کے لہجے کی مترنم نرمیاں اردو شاعری کو بہت آگے لے گئی ہیں۔ انھوں نے ہماری انسانیت کو گہرا کیا ہے، اسے سوز و ساز سے بھرا ہے لیکن میر اور سودا کی طرح ان کے مجموعۂ کلام میں جواہر پاروں کے ساتھ ساتھ روایتی غزل کے ٹھیکروں سے صفحوں کے صفحے بھرے پڑے ہیں۔ وزن، بحر قافیے، ردیف اور قدیم اور فرسودہ استعاروں، تلمیحوں اور تشبیہوں کی بےپناہ مشین سے کھٹا کھٹ شعر ڈھلتے چلے گئے ہیں۔

    کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم بہ حیثیت ایک صنف سخن کے غزل کی مخالفت کر رہے ہیں یا چند شاعروں کے چند کمزور اشعار لے کر ان کی شاعرانہ حیثیت کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ غزل یا کسی بھی صنف سخن یا شعر کے کسی بھی فارم کو برا کہنے یا اس کے رد کرنے کا سوال اٹھانا ہماری رائے میں غلط ہے۔ ایک اچھا اور حساس فنکار جب کسی شاعرانہ پیکر کی تخلیق کرتا ہے تو اس کے لیے مناسب اور موزوں فارم کو چن لیتا ہے۔ یہ فارم غزل کا ہو سکتا ہے، مسدس، قطعے یار باعی کایا پھر آزاد معریٰ نظم کا اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ان تمام مروجہ فارموں سے الگ، بالکل ہی کوئی نیا فارم ضرورت شعری کو مد نظر رکھ کر اختراع کرے۔

    اگر تخلیق کام یاب اور اچھی ہے تو پھر اس تخلیق کی جو بھی شکل ہے، وہ بھی کامیاب اور اچھی کہی جا سکتی ہے۔ اگر فنکار کو کامیابی نہیں ہوئی ہے تو پھر اس کی پوری تخلیق، جس میں معنی اور صورت دونوں شامل ہیں، بہ حیثیت ایک وحدت کے ناکامیاب ہے۔ اس لیے غزل پر بہ حیثیت ایک صنف سخن کے ہمارا اعتراض نہیں ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس صنف میں زمانہ ماضی اور حال دونوں میں ہماری شاعری کے کامیاب ترین نمونے موجود ہیں۔

    غور کے قابل اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ متشا عروں یا گھٹیا شاعروں کے بہت بڑے گروہ کو اگر ہم نظر انداز بھی کر دیں (جو بدقسمتی سے ہم نہیں کر سکتے ہیں، اس لیے کہ ذوق سخن کی تربیت پر وہ مسلسل اثر انداز ہو کر شعر کو پستی کی طرف گھسیٹتے ہی رہتے ہیں ) تو ان اچھے شاعروں کے کلام میں، جن میں سے چند کا ہم نے اوپر نام لیا ہے، یہ گھٹیاپن کیوں بار بار نمودار ہوتا ہے اور اس کا مظاہرہ بیشتر اسی وقت کیوں ہوتا ہے جب یہ لوگ غزل لکھتے ہیں؟

    شاعری کے جس مرض کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں، وہ پر انا مرض ہے۔ پرانے استادوں کے دیوان بڑی سستی، گھٹیا شاعری سے بھرے پڑے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ مرض کیسے اور کیوں پیدا ہوا اور میر اور سودا، مصحفی اور انشا، آتش اور مومن جیسے سچے فنکاروں کو بھی یہ روگ کیوں لگا، اور آج بھی یہ بیماری کیوں اتنی بری طرح سے پھیلی ہوئی ہے؟

    ہمارا خیال ہے کہ اس کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب یہ ہے کہ شاعری کو ایک رسم اور ایک رواج بنا دیا گیا ہے۔ وہ صحیفے جن کو الہامی یا آسمانی کہا جاتا ہے، وہ عظیم اخلاقی تحریکیں جن کو مذہب یا دھرم کا نام دیا جا تا ہے، وہ فلسفے اور نظریات جو دل و دماغ میں انقلاب برپا کر دیتے ہیں، اس وقت اپنی طاقت اور اپنا اثر کھو دیتے ہیں جب ان کو ماننے والے ان کی اصلی روح اور مقصد سے غافل ہو کر، کٹرپن کے ساتھ محض ان کے اوپر ی خول یا ظاہری روپ کو سینے سے لگا لیتے ہیں۔ لفظوں کو متبرک سمجھ کر منتروں کی طرح انھیں جپتے ہیں اور معنی اور مطالب، مقصد اور ماہیت سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ اسی طرح شاعری بھی اسی وقت مردہ اور بےجان ہوجاتی ہے جب انسانی زندگی کی اصلی، تازہ بہ تازہ اور نوبہ نو حقیقتوں، احساسات اور جذبات کی سچائی اور فرض، بھلائی، محبت اور حسن کی لگن اور جستجو سے اس کا ناتا ٹوٹ جاتا ہے۔

    فن میں قاعدے اور قانون، اسلوب اور طرز اس کی معنوی خوبیوں کو بڑھانے، اسے زیادہ پر تاثیر بنانے کے لیے ایجاد ہوئے لیکن فن کے انحطاط کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ جب یہی قاعدے اور اسلوب اصل فن قرار پانے لگیں اور معنوی خوبیاں یعنی احساس کی نزاکت اور سچائی رفتہ رفتہ ضمنی چیزیں قرار پائیں، آرائش اور زینت کو سب کچھ سمجھا جائے۔

    زبان کی سلاست، بندش کی چستی، قافیے اور ردیف کی برجستگی سب اچھی چیزیں ہیں، جن سے کلام کے اثر میں اضافہ ہوتا ہے لیکن جب کوئی انھیں پر سردھنے، جب زبان کا چٹخارہ اور جملے بازی احساس کی لذت کی جگہ لے لیں، جب روح کے سب سے پوشیدہ اور سب سے لطیف نغموں کو چھیڑ نے کے بہ جائے وقتی مزاح اور تفریح کو شاعری کا مقصد بنا لیا جائے، جب انسان اور اس کی قسمت موضوع سخن نہ ہو، بلکہ ان کی طرف سے پیٹھ موڑکر مصنوعی ہیجان اور مبتذل حظ کو فن کا منتہا سمجھا جائے، تب یہ ضروری ہے کہ سچے اور ایمان دار فن کار اس تمام ملمع سازی، اس درد غ اور تصنع کے بازار کے خلاف بغاوت کریں اور ان جھوٹے خداؤں کے بتوں کو توڑ دیں۔

    شاعری کا دامن اتنا ہی وسیع ہے جتنا کہ زندگی کا دامن۔ فنکار اس کی رنگارنگی، بو قلمونی، اس کے مدارج، اس کی اندرونی اور بیرونی کیفیتوں، اس کے مختلف تعلقات اور رشتوں، ان کے تصادم، تناؤ اور تبدیلیوں، زوال اور ارتقا کی نہ صرف ترجمانی کرتا ہے بلکہ ان کے وسیلے سے نئے حسن، نئے توازن اور نئے پیکر کی تشکیل کرتا ہے۔ اسی طرح جیسے بیج، مٹی، ہوا، پانی اور دھوپ سے زندگی اور نمو حاصل کر کے درخت بنتا ہے اور اس میں پتیاں اور پھول نکلتے ہیں۔ فن زندگی کا پھول ہے۔ ان تمام عناصر سے الگ، ایک منفرد اور آزاد ہستی، جن سے مل کر اور جن اندامی تبدیلیوں کے بعدوہ وجود میں آیا ہے، لیکن ان سے منسلک زندگی کے بیج نے اسے پیدا کیا اور وجود میں آنے کے بعد نہ صرف زندگی کو رنگ و نکہت، لطافت اور حسن و دیعت کرتا ہے بلکہ اس کی تہوں میں نئی زندگی کا دوسرا بیج بھی چھپا ہوتا ہے جو وہ بہت سے اضافوں کے بعد زندگی کو واپس لوٹا دیتا ہے۔

    اوپر ہم نے جب بری اور گھٹیا شاعری کی مذمت کی تو اس سے مطلب یہ نہ نکالنا چاہیے کہ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ جب تک شاعری حد درجہ سنجیدہ، فلسفیانہ، گہری اور تہہ دار نہ ہو اور جب تک اس میں زندگی کے اہم ترین مسئلوں اور سماج کی پیچیدہ اور سنگین حقیقتوں کا اظہار نہ ہو، اچھی شاعری نہیں کہی جا سکتی یا یہ کہ شعر کا تفریحی پہلو اسے چھچھلا اور پست بنا دیتا ہے۔

    موسیقی کی طرح شاعری بھی فن کی ایک ایسی صنف ہے جس میں معنی اور ماہیت نیز شکل اور صورت، دونوں کے لحاظ سے مراتب، درجے، تنوع اور گونا گونی ضروری اور لازمی ہے۔ زندگی اور اس زندگی کے تجربے ہزارہا چھوٹے بڑے، اہم اور نسبتاً کم اہم انسانی تعلقات، رشتوں اور واقعات پر مشتمل ہیں۔ مثلاً موجودہ عہد میں نوع انسانی کی بقا کا سوال جو امن اور جنگ کے مسئلے سے وابستہ ہے۔ غالباً موضوع کے لحاظ سے اس زیادہ اہم موضوع اور کوئی دوسرا نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر تھر مونیو کلیائی جنگ نہ ہوئی اور مکمل ترک اسلحہ تحریک کامیاب ہو گئی، تب تو انسانی تہذیب کی ترقی کے لیے محدود اور حیرت انگیز امکانات پیدا ہو جائیں گے اور جنگ کی صورت میں جو وحشت ناک تباہی ہوگی اور آناً فاناً میں انسان کی موجودہ تمدنی زندگی کو جو شدید صدمہ پہنچے گا، اس کا تصور کرنا بھی دشوار ہے۔

    اس مسئلہ کی عظیم اہمیت کے پیش نظر تمام دنیا کے فنکار، شاعر، ادیب، سائنس داں اور دوسرے دانش ور مسلسل اس کے متعلق لکھ رہے ہیں۔ غالباً موجودہ زمانے میں عالمی ادب میں چند بہترین تخلیقات اسی موضوع سے متعلق ہیں۔ اردو میں اختر الایمان (جنگ) فیض (ایرانی طلبہ کے نام) ندیم قاسمی (آخری فیصلہ) ساحر لدھیانوی (پرچھائیاں) سردار جعفری (یلغار) وامق (زمین) مخدوم محی الدین (احساس کی رات) نے ا س موضوع کے مختلف پہلوؤں کو لے کر مؤثر تخلیقات کی ہیں۔

    یہاں پر غالباً یہ کہنا ضروری ہے کہ موضوع کی عظمت یا اہمیت، شعر کو عظیم یا اچھا بنانے کے لیے کافی نہیں ہے۔ امن عالم، حب و طن، اشترا کی انقلاب، ایشیا اور افریقہ کی بیداری اور دنیا کی محکوم قوموں کا جہاد آزادی، ظلم و استحصال کے خلاف انصاف کے نظام اور انسانی وقار کو قائم کرنے کی جدوجہد، ترقی پسندوں نے ان تمام موضوعات پر لکھا ہے۔ لیکن اس کا کیا سبب ہے کہ ان کی تخلیقات میں سے کم ہی ہیں جو اچھی یا قابل اعتنا ہیں؟ جس طرح ثواب حاصل کرنے کے لیے ارادے کی نیکی ناکافی ہے، اس کے لیے نیک عمل بھی ضروری ہے (انگریزی کی ایک مثل ہے کہ جہنم کی طرف جانے والی راہ نیک ارادوں سے پٹی پڑی ہے۔)

    اسی طرح سے موضوع کی خوبی کے باوجود اگر شاعر خود اپنے احساس کی شدت اور فنکارانہ ندرت، اپنے دل کے گداز اور اپنی نظر کی گہرائی اور اپنے شعور کی تیزی کو کام میں نہیں لاتا، یا اپنی کم علمی اور فنی نالائقی کے سبب سے ان صلاحتیوں کو بہ روےکار لانے کا اہل ہی نہیں ہے، تو پھر اس کی نظم اسی قدربے اثر، پوچ اور رسمی ہوگی جیسی وہ غزلیں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا۔ لچر گوئی کو صرف غزل گویوں کے ساتھ منسوب کرنا ان کے ساتھ بڑی نا انصافی ہوگی۔ نظم گو شاعر، جن میں ترقی پسند شاعر بھی شامل ہیں، اس میدان میں بلاشبہ غزل گویوں کے شانہ بہ شانہ و دوڑر ہے ہیں۔

    لیکن منفی اور مصنوعی رجحانات کی فراوانی اور بےپناہ کثرت کے باوجود جدید اردو شاعری میں ایسی تخلیقات بھی جاری ہیں جن میں شاعری کی اصل روح ہے۔ جو مثبت ہیں اور جن کا وجود یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارے اچھے اور حساس شاعر اپنی عظیم ذمے داریوں سے بے خبر نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر ہم چند نظموں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ فیض کی نظم ’’ملاقات‘‘ کو لیجیے۔ پہلے اس کی علامتوں کی ندرت اور ان کے مجموعی حسن کو دیکھیے اور اس کی معنوی گہرائیوں کو نظر انداز کر دیجیے۔ یہاں پر ہم خود کو ایک عجیب و غریب اور انوکھے اور حیران کن حسن سے دوچار پاتے ہیں۔ دھیمے اور الم ناک سروں سے بھرا ہوا، نورانی دھند لکوں سے معمور ایک طلسماتی عالم ہے، جہاں شاعر نے ہمیں پہنچا دیا ہے۔

    اس عالم میں ’’دردکے شجر‘‘ ہیں۔ یہاں ’’لاکھ مشعل بہ کف ستاروں کے کارواں‘‘ گھر کے کھو گئے ہیں۔ یہاں ہزار مہتاب اپنا سب نور رو گئے ہیں۔ یہاں ’’لمحوں کے زرد پتے‘‘ محبوب کے گیسوؤں میں گھرے ہیں اور ان سے الجھ کے ’’گل نار ہو گئے ہیں۔‘‘ یہاں خاموشی کے چند قطرے محبوب کی جبیں پر برس کے ہیرے پرو گئے ہیں۔ یہاں کی صدائیں ’’نہرخوں نظر موج زر‘‘ ہے۔ اردو شاعری میں ایسی لطیف، مسحور اور مبہوت کر لینے والی حسن کاری کی مثال ہمیں مشکل سے ملتی ہے۔ لیکن جب ہم اس نظم کی معنوی خوبیوں پر نظر ڈالتے ہیں تب ہم محسوس کرتے ہیں کہ اس کے علائم کی ندرت اور دل فریبی، اس کے الفاظ اور جملوں کا ترنم اور آہنگ اس کے مفہوم کے ساتھ اتنی فن کا راز موزونیت کے ساتھ مد غم ہو گیا ہے کہ ایک دوسرے سے جدا اور علاحدہ کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔

    دو چاہنے والوں کی ایک اندھیری رات میں ایک درخت کے نیچے ملاقات ہے۔ دونوں نے اپنی محبت کے سلسلے میں بہت سے غم سہے ہیں اور اب بھی رنج و محن سے دوچار ہیں لیکن شاعر محبت کے اسی غم کو اور اس کی راہ میں حائل مشکلات کو پوری نوع انسانی کا دکھ اور درد بنا دیتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ محبت کی راہ میں اٹھائے گئے یہی دکھ اور درد دراصل انسان کو انسان بناتے ہیں۔ وہ ان لوگوں سے کہتا ہے کہ جو درد کے شجر کے نیچے غموں کی سیاہ راتوں میں محبت اور رفاقت کے جذبے سے بھرے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھ کو پکڑے ہوئے آگے بڑھتے ہیں، وہ یہ محسوس کریں کہ ان کی نجات کی روشن صبح، کسی دوسری جگہ سے نہیں، بلکہ اسی غموں کی اندھیری رات سے اور خودان کی اپنی جرات مندانہ سعی اور کاوش کے نتیجے کے طور پر بر آمد ہوگی۔

    اس طرح فیض کی اس نظم میں نغمہ سنج استعاروں اور رنگین علائم کی جدت طرازی کو بلند ترین اور شریف ترین انسانی جذبات اور تصورات اور شاعرانہ تخئیل کے ساتھ بڑے حسن اور نزاکت سے مدغم کرکے نظم کا ایک مکمل پیکر تیار کیا گیا ہے، جس میں ایک طرح کی عمارتی وحدت ہے۔

    اردو کی نئی اور کامیاب شاعری کی ایک دوسری مثال ہم کو اختر الایمان کی نظم ’’ایک لڑکا‘‘ میں ملتی ہے۔ اخترالایمان کی اس نظم میں جیسا کہ ان کی بیش ترکامیاب نظموں میں ہم کو بالکل ایک نیا آہنگ اور نئی فضا ملتی ہے، جس میں روایتی اور رسمی لری کل (LYYICAL) انداز یا جسے رنگ تغزل یا غنائیت کہا جاتا ہے، بالکل مفقود ہے۔ رومانیت یا جذبات کی دنیا میں شمع کی طرح پگھل جانے والی کیفیت ہمیں یہاں بالکل نہیں ملتی۔ اخترالایمان کے شعری انداز کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ انھوں نے فارسی اور اردو شاعری کی اس تقریباً آٹھ سو سال پرانی رومانی دنیا کی چہار دیواری کو توڑ کر (جس نے ہمیں ایک اعلا ترین اور اسفل ترین دونوں طرح کی شاعری دی تھی) اپنے شعر کے لیے ایک نئی دنیا بنائی ہے، جس میں جذبات کی گہرائی اور صداقت کا حیرت انگیز، غیرمرصع سادگی کے ساتھ اظہار کیا جاتا ہے۔

    ایک خوبصورت عورت زرتار لباس، دل کش زیور، غازے اور لالی سے اپنے حسن کو دوبالا تو کر لیتی ہے لیکن ہم سوچتے رہ جاتے ہیں کہ اس کا اپنا حسن کس قدر ہے اور اس کے سنگار کا کس قدر۔ حسین تشبیہوں اور استعاروں سے بھری رومانی شاعری کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے لیکن ایک دوسری طرح کی حسن کاری بھی ہوتی ہے جو مہین، خنک، سوتی ململ کے لباس سے پیدا کی جاتی ہے۔ اس کی بے تو جہی سے ڈھلکے آنچل کی لکیریں، گرمیوں کی چاندنی راتوں میں بیلے چمیلی کے مسکین پھولوں کی طرح فضا میں تحلیل ہو جاتی ہیں اور ساری روح کو گردیدہ کر لیتی ہیں۔ یہ دوسرا حسن سہل معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل پہلے والے سے بہت زیادہ مشکل ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے قدرت کی حسن کاری، اگر غور سے دیکھیے تو، انسان کی حسن کاری سے زیادہ سادہ ہوتے ہوئے بھی دراصل زیادہ پیچیدہ، زیادہ گہری اور زیادہ مشکل ہوتی ہے۔ کسی انسان نے ابھی تک ایک تاروں بھری رات کا جادو مکمل طور سے اپنی تصویر میں گرفتار کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔

    اختر الایمان کا ’’ایک لڑکا‘‘ انسان کی آزادی خواہ روح کی علامت ہے جو تتلیوں، ننھی چڑیوں کا معصومیت کے ساتھ باغوں اور کھیتوں میں پیچھا کرتی ہے۔ جو گاؤں کے تالاب، تند چشموں کے ارد گرد اور جلتی ریت پر پرندوں کی طرح اڑتی پھرتی ہے لیکن جس کی معصوم خوشیوں کو اس دنیا کے غیر منصفانہ اور ظالمانہ نظام کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ جس میں بے ایمانوں اور احمقوں کو سرفرازی اور سچے محبت کرنے والے ایمان وار لوگوں کو مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور زندہ رہنے کے لیے نیکیوں اور اچھائیوں تک کو گروی رکھنا پڑتا ہے۔

    کبھی کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ظلم اور بےانصافی کی چکی کے دو پاٹوں میں انسان کی آزاد روح مردہ ہو جائےگی لیکن اختر الایمان نے اپنی نظم کے آخر میں بڑی خوبصورتی سے دکھایا ہے کہ انسان کی آزادی خواہ روح امر ہے۔ وہ دبائی جا سکتی ہے، مقید کی جا سکتی ہے لیکن اسے مارا نہیں جا سکتا۔ مضطرب اور پریشان انسان جب یہ سمجھتا ہے کہ اس نے خود اپنے ہاتھوں سے فریبوں کا کفن دے کر اپنی تمام آرزوؤں کو لحد میں پھینک دیا ہے اور وہ شعلہ مردہ ہو گیا ہے جس نے اسے دنیا کے پر فریب نظام سے لڑنے کی طاقت دی تھی تب، یہ لڑکا مسکراتا ہے، یہ آہستہ سے کہتا ہے، یہ کذب و افترا ہے جھوٹ ہے، دیکھو میں زندہ ہوں!

    آخر میں ہم مخدوم محی الدین کی ایک تازہ اور مختصر نظم ’’سناٹا‘‘ کی مثال پیش کر نا چاہتے ہیں۔ چونکہ یہ نظم بہت مختصر ہے اس لیے یہ پوری نظم سینے،

    کوئی دھڑکن

    نہ کوئی چاپ

    نہ سنچل

    نہ کوئی موج

    نہ ہل چل

    نہ کسی سانس کی گرمی

    نہ بدن

    ایسے سناٹے میں ایک آدھ تو پتا کھڑ کے

    کوئی پگھلا ہوا موتی

    کوئی آنسو

    کوئی دل

    کچھ بھی نہیں

    کتنی سنسان ہے یہ راہ گزر

    کوئی رخسار تو چمکے کوئی بجلی تو گرے

    اس دنیا میں انسان پر کبھی ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے جب وہ اپنے کو بالکل تنہا محسوس کرتا ہے۔ مخدوم نے تنہا ئی کے اس الم ناک اور جاں گسل احساس کو، جس میں انسان کی روح کا شدید کرب اور اضطراب چھپا ہوا ہے، غیرمعمولی طور پر سادہ لیکن پر اثر طریقے سے ایک خاص موقع اور وقت پر فضا میں پھیلے ہوئے سناٹے سے وابستہ کر دیا ہے۔ نظم کے شروع کی سات لکیریں اور ان کے یہ الفاظ دھڑکن، چاپ، سنچل، موج، ہل چل، سانس کی گرمی، بدن سب زندگی کی نشانیاں ہیں۔ یکے بعد دیگرے ان سب کی تکرار اور پھر ان میں سے ہر ایک کی غیر موجودگی۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی سناٹا ہو سکتا ہے؟

    اور اگر آپ ان سطروں کو آہستہ آہستہ سرگوشی کے انداز میں پڑھیے، ان کی آوازوں سے جو مجموعی سنگیت پیدا ہوتا ہے، اسے اپنے اوپر طاری ہونے دیجیے، تب دراصل آپ شیلے کے اس قول کے قائل ہو جائیں گے کہ سب سے میٹھا سنگیت وہی ہوتا ہے جس میں غم انگیزی ہوتی ہے۔ لیکن ’’تنہائی‘‘ میں غم و اندوہ کے اس طوفان میں بھی زندگی انسان سے اپنا مطالبہ کرتی ہے۔ وہ آنسوؤں کے پگھلے موتی سے رہ گزار حیات کو روشن کرنا چاہتی ہے۔ وہ پیار کے چمکتے رخساروں سے اور محبت کی بجلی سے اس تنہائی اور سناٹے کو ختم کر دینے کی تمنار کھتی ہے۔

    مخدوم کی یہ نظم ایک مکمل نظم ہے جس میں الفاظ نگینے کی طرح جڑے ہیں اور جس کی موسیقی معنی کے ساتھ مل کر دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے۔ اگر بہترین المیہ شاعری سے سرور اور حظ کے ساتھ تزکیۂ نفس بھی ہوتا ہے تو مخدوم کی اس چھوٹی سی حسین نظم نے اس مقصد کو پوری طرح حاصل کر لیا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اردو شاعری کے یہ رجحانات جن کی ہم نے اوپر چند مثالیں دی ہیں، ہماری شاعری پر غالب آ جائیں گے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اردو ادب کے تمام اہل ذوق صحیح اور اچھا شعور پیدا کرنے کیے لیے جدوجہد کریں۔

    مأخذ:

    مضامین سجاد ظہیر (Pg. 8)

    • مصنف: سجاد ظہیر
      • ناشر: غلام حسین زیدی
      • سن اشاعت: 1979

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے