Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو شعریات کی اصطلاحیں: معنی آفرینی، نازک خیالی، خیال بندی

نیر مسعود

اردو شعریات کی اصطلاحیں: معنی آفرینی، نازک خیالی، خیال بندی

نیر مسعود

MORE BYنیر مسعود

    پروفیسر آل احمد سرور صاحب کی فرمائش پر میں نے ایک مضمون میں اردو شعریات کی بارہ اصطلاحوں سے بحث کی تھی۔ مضمون مکمل کرنے کے بعد احساس ہوا کہ اس میں معنی آفرینی، نازک خیالی اور خیال بندی کی وضاحت اطمینان بخش نہیں ہے۔ اس لیے میں نے مضمون(۱) سے ان اصطلاحوں کی بحث کو خارج کردیا۔ ارادہ تھاکہ ان پر ازسرنو غور کرکے ان کے درمیان واضح خطِ فاصل کھینچنے کی کوشش کروں گا۔ لیکن کئی برس کی وقتاً فوقتاً کوششوں کے باوجود اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ ناچار اس بحث کو اسی پہلی شکل میں پیش کر رہا ہوں۔ مقصد یہ ہے کہ دوسرے اصحاب بھی ان اصطلاحوں پر غور اور اظہارِ خیال کریں۔ ممکن ہے اس طرح ہماری شعریاتی تنقید کا ایک مشکل موضوع آسان ہوجائے۔

    (نیرمسعود)

    (۱) ’’اردو شعریات کی چند اصطلاحیں‘‘ (مشمولہ ’’اردو شعریات‘‘ مرتبہ پروفیسر آل احمد سرور۔ ناشر اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی، سری نگر ۱۹۸۷ء)

    *

    اردو شعریات کی ان تینوں اصطلاحوں کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں، اس لیے ان کا ذکر ساتھ ساتھ کیا جارہا ہے۔

    معنی آفرینی، معنی آفرینی کی اصطلاح خود اپنا مفہوم بتارہی ہے۔ یعنی معنی پیدا کرنا۔ بہ الفاظِ دیگر کسی حقیقت کا ایسا مفہوم ظاہر کرنا جو اصلاً اس میں موجود نہ ہو، مثلاً

    مگر دیوانہ تھا گل بھی کسو کا کہ پیراہن میں سوجاگہہ رفوتھا (میر)

    معنی آفرینی ہماری کلاسیکی شاعری کی بنیاد میں شامل ہے اور ہمارے بیشتر شعری مسلمات معنی آفرینی ہی کی دین ہیں۔ بلبل کا پھول کے آس پاس چہچہانا یہ معنی پیدا کرتا ہے کہ بلبل عاشق ہے، پھول محبوب اور بلبل کا چہچہانا، اپنے محبوب کو خطاب کرکے نغماتِ عشق سنانا ہے۔ شمع کی لو کے گرد پتنگوں کا طواف اس لیے ہے کہ وہ شمع کے عاشق ہیں۔ اور محبوب پر جان نثار کردینا ان کے عشق کی معراج ہے۔

    ایک مستقل فنی اظہار کے طور پر معنی آفرینی کوان ہند فارسی شاعروں نے فروغ دیا جنہیں فارسی شاعری کی سبک ہندی کا نمائندہ کہا جاتا ہے۔ سبکِ ہندی ہی کے زیر اثر معنی آفرینی کو اردو شاعری میں بھی بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ مثلاً

    تنہا نہیں ماتم میں ترے شام سیہ پوش

    رہتا ہے سدا چاک گریبانِ سو بھی

    (سودا)

    ہو گئے دفن ہزاروں ہی گل اندام اس میں

    اس لیے خاک سے ہوتے ہیں گلستاں پیدا

    (ناسخ)

    صحرا کو بھی نہ پایا بغض و حسد سے خالی

    کیا کیا جلا ہے ساکھو پھولا جو ڈھاک بن میں

    (آتش)

    آتش مزا جیوں کا نتیجہ ہے مفلسی

    خالی رہے ہے پنجہ ہمیشہ چنار کا

    (رحیم بخش طرب)

    چشم و گوشِ یار سے دنیا میں تا دعویٰ نہ ہو

    نرگس و گل کو خدا نے کورد کر پیدا کیا

    (امانت)

    پھرتا ہے سیل حوادث سے کوئی مردوں کا منھ

    شیر سیدھا تیرتا ہے وقتِ رفتن آب میں

    (ذوق)

    مرقدِ عاشق سے کوسوں تک جو اگتی ہے حنا

    کس قدر یارب ہلاکِ حسرت پابوس تھا

    (غالب)

    تھا بسکہ روزِ قتل شہہ آسماں جناب

    نکلا تھا خوں ملے ہوئے چہرے پہ آفتاب

    (انیس)

    پشے سے سیکھے شیوۂ مردانگی کوئی

    جب قصدِخوں کرے ہے تو پہلے پکاردے

    (ذوق؟)

    ان شعروں میں معنی آفرینی کا صاف مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ معنی آفرینی کی سب سے زیادہ نمود صنعت حسنِ تعلیل میں ہوتی ہے۔ کسی کے ماتم میں شام سیہ پوش اور صبح گریباں چاک ہے۔ مٹی سے پھول اس لیے اگتے ہیں کہ زمین میں ہزاروں گل اندام دفن ہیں۔ ساکھو کے جنگل میں آگ اس لیے لگتی ہے کہ وہ ڈھاک کو پھولا ہوا دیکھ کر حسد کرتا ہے، چنار کا سرخ ہوجانا اس کی آتش مزاجی کے سبب ہے اور اسی آتش مزاجی کے نتیجہ میں چنار مفلس رہتا ہے (اس میں پھول پھل نہیں آتے) نرگس کو بصارت اور گلاب کو سماعت سے اس لیے محروم رکھا گیا ہے کہ وہ محبوب کی آنکھ اور کان سے برابری کا دعویٰ نہ کرنے لگیں، شیر اپنی بہادری کی وجہ سے ایک سیدھ میں پیرتا ہے اور تھپیڑوں سے گھبراکر منھ نہیں پھیرتا۔ یہ سب عام باتوں میں خاص معنی پیدا کرنے کی مثالیں ہیں اور یہی معنی آفرینی ہے۔ ان سب مثالوں میں ہم نے دیکھا کہ شاعر عام حقیقتوں کی انوکھی توجیہیں کرتا اور ان سے حسبِ منشا نتیجے نکالتا ہے۔

    یہ مثالیہ شعر بے امتیازی کے ساتھ منتخب کیے گئے ہیں، چنانچہ ان میں کچھ شعر اچھے ہیں، کچھ معمولی، جس کا بہت کچھ انحصار شعری اظہار کی نوعیت کے علاوہ ان معانی پر بھی ہے جو شاعروں نے ان شعروں میں پیدا کیے ہیں۔ ذوق کے پہلے شعر میں معنی آفرینی معمولی نوعیت کی ہے۔ طربؔ کے یہاں معنی آفرینی میں نسبتہً زیادہ باریکی سے کام لیا گیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ باریکی قائم کے اس شعر میں ہے۔

    کس کی نگاہ کرم تھی گلشن پرائے نسیم

    شبنم سے برگ گل لبِ جوش تھا

    اور اس سے بھی زیادہ غالب کے اس شعر میں،

    یاں فلاخن بازکس کا نالہ بے باک ہے

    جادہ تا کہسار ہوئے چینی افلاک ہے

    اس منزل پر پہنچ کر معنی آفرینی کی سرحد نازک خیالی سے مل جاتی ہے۔

    نازک خیالی، نازک خیالی دراصل شعر کی کوئی علیحدہ صفت نہیں ہے او رنہ فی نفسہٖ اچھی یا بری چیز ہے۔ اسے شعر کی مختلف صنعتوں کا ایک درجہ کہا جاسکتا ہے۔ مبانو، حسنِ تعلیل، تمثیل، علامت، استعارہ، تشبیہ وغیرہ ایک درجے پر پہنچ کر نازک خیالی کی مثال بن جاتے ہیں۔ یہاں یہ عرض کردینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تشبیہ، جو نازک خیالی کا ایک عمدہ میدان ہے معنی آفرینی کا میدان نہیں ہے۔ اس لیے کہ تشبیہ میں مشتبہ بہ اپنے حقیقی مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں اور ان میں کوئی نئے معنی پیدا نہیں کیے جاتے۔ لیکن مشتبہ بہ کی تلاش اور وجہ شبہ میں ہمارے شاعروں نے خوب خوب نازک خیالیاں صرف کی ہیں۔ میرانیسؔ امام حسینؓ کی آنکھوں کی تعریف ایک ا ستعارہ نما تشبیہ کے ذریعہ اس طرح کرتے ہیں۔

    پتلی کا رعب سب پہ عیاں ہے خدائی میں

    بیٹھا ہے شیر پنجوں کو ٹیکے ترائی میں

    شاعر نے امامؓ کی آنکھ کی نہیں بلکہ آنکھ کی پتلی کا ذکر کیا ہے اور اس کی مشابہت بھی شیر کی آنکھ یا پتلی سے نہیں بلکہ ترائی میں بیٹھے ہوئے مجسم شیر سے بتائی ہے، وجہ شبہ امام حسینؓ کا پرسکون دبدبہ اور تھما ہوا جوشِ شجاعت ہے۔ یہاں نازک خیالی تشبیہ کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔ غالب کے یہاں تشبیہ، استعارے اور تمثیل میں نازک خیالی تشبیہ کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔ غالب کے یہاں تشبیہ، استعارے اور تمثیل میں نازک خیالی کے نمونے دیکھیے،

    حاصلِ الفت نہ دیکھا جز شکستِ آرزو

    دل بہ دل پیوستہ گویا اک لبِ افسوس تھا

    نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا

    حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا

    شوق اُس دشت میں دوڑا ے ہے مجھ کو کہ جہاں

    جادہ غیرازنگہ دیدۂ تصویر نہیں

    جز زخم تیغ ناز نہیں دل میں آرزو

    جیبِ خیال بھی ترے ہاتھوں سے چاک ہے

    شکوۂ یاراں غبارِ دل میں پنہاں کردیا

    غالب ایسے گنج کو شایاں یہی ویرانہ تھا

    مبالغے میں بھی نازک خیالی کی مثالیں بہت ملتی ہیں۔ میرانیس کی یہ بیت مشہور ہے،

    گر چشم سے نکل کر ٹھہر جائے راہ میں

    پڑجائیں لاکھ آبلے پائے نگاہ میں

    عرض کیا گیا تھا کہ نازک خیالی فی نفسہ اچھی یا بری چیز نہیں ہے۔ مندرجۂ ذیل شعر بری شاعری کی مثال میں پیش کیے جاتے ہیں، لیکن نازک خیالی سے خالی نہیں ہیں۔

    خمیدہ ضعف سے ایسا میں درد مند ہوا

    کہ سایہ پاؤں کا سر سے مرے بلند ہوا

    (خواجہ وزیر)

    غم سے ہوئے ہیں بال ہمارے سفید سحؔر

    سر میں پھپھوندی لگ گئی آنکھوں کی سیل سے

    (امداد علی سحر)

    تھوکتا خون ہوں تو بوے حنا آتی ہے

    جس پہ مہندی تری پستی تھی وہی سِل ہے مجھے

    نازک خیالی کے سلسلہ میں محمد حسین آزاد لکھتے ہیں،

    ’’تشبیہیں اور استعارے اگر پاس پاس کے ہوں اور آنکھوں کے سامنے ہوں تو کلام میں نہایت لطافت و نزاکت پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن جب دور جاپڑیں اور بہت باریک ہوجائیں تو دقت ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ہمارے نازک خیال کسی بادشاہ کے اقبال اور عقل کے لیے اس قدر تعریف پر قناعت نہیں کرتے کہ وہ اقبال میں سکندر یونانی اور عقل میں ارسطوے ثانی ہے، بلکہ بجائے اس کے کہتے ہیں کہ اگراس کا ہمارے عقل اوجِ اقبال سے سایہ ڈالے تو ہر شحص کشورِ دانش و دولت کا سکندر اور ارسطو ہوجائے، بلکہ اگر اس کے سینے میں دلائلِ عقلی کا دریا جوش مارے تو طبقۂ یونان کو غرق کردے۔ اول تو ہُما کی یہ صفت خودایک بے بنیاد فرض ہے، اس پراقبال کا ایک فلک الافلاک تیارکرنا دیکھیے۔ وہاں ان کے فرضی ہمُا کا جانا دیکھیے، پھر زمین پر اس خیالی آسمان کے نیچے ایک تدبیر کا یونان بسانا دیکھیے، پھر اس فرضی ہمُا کی برکت کا اس قدر عام کرنا د یکھیے جس سے دنیا کے جاہل اس خیالی یونان میں جاکر ارسطو ہوجائیں۔‘‘

    نجم الغنی نے ’’بحر الفصاحت‘‘ میں نازک خیالی پر یوں بحث کی ہے،

    ’’شعراء نے مستعمل استعاروں سے بچنے کے لیے نئے استعارے اور استعارے دراستعارے نکالے ہیں اور اسے ایک ایجادِ جدید تصور کرکے نازک خیالی نام رکھا ہے۔ اس سے کلاموں میں ایک خیالی نزاکت اور تازگی و لطافت تو ہوجاتی ہے لیکن کلام پُر اثر نہیں ہوتا جو (شاعر) قدماء کی تقلید سے صفائی اور سادگی کی لکیر پر فقیر ہیں اور اخلاق کو ناپسند کرتے ہیں وہ ادائے مطلب اور طرزِ کلام میں صفائی پیدا کرنے کی کوشش رکھتے ہیں جس سے سننے والے کے دل پر اثر ہوتا ہے۔‘‘ آزاد بھی نازک خیالی کی مثال دینے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس طرح کے مضامین۔

    ’’اگرچہ ہمارے معمولی خیالات ہوں مگر غیرقوم بلکہ ہمارے بھی عام لوگ اس سے بے خبر ہیں، اس لیے بے سمجھائیں نہ سمجھیں گے۔ اور جب بات کو زبان سے کہہ کر سمجھانے کی نوبت آئی تو لطفِ زبان کجا، اور یہ نہیں تو تاثیر کجا۔‘‘

    ان بیانوں سے نازک خیالی کے متعلق یہ نتیجے اخذ کیے جاسکتے ہیں،

    (۱) بات کو گھماپھراکر کہنا نازک خیالی ہے۔

    (۲) نازک خیالی کا لازمی نتیجہ اشکال ہے، اس لیے

    (۳) نازک خیالی اثر سے خالی ہوتی ہے۔

    اشکال اور بے اثری بڑی حدتک موضوعی چیزیں ہیں۔ تاہم یہ فرض کیا جاسکتا ہے کہ اشکال کا لازمہ بے اثری ہے؟ لیکن جو شعر اوپر ہم نے درج کیے ہیں ان میں میرانیس کی بیت (’’پتلی کا رعب۔۔۔‘‘) اور غالب کے پہلے شعر (’’حاصلِ الفت نہ دیکھا۔۔۔‘‘) کو اثر سے خالی ماننا مشکل ہے۔ خواجہ وزیر اور سحر کے شعر خواہ اثر سے خالی ہوں لیکن ان میں اشکال او رپیچیدگی نہیں ہے۔ خصوصاً خواجہ وزیر کے شعر (’’خمیدہ ضعف سے۔۔۔‘‘) میں۔

    جو چیز ان شعروں میں مشترک ہے وہ یہ ہے کہ ان میں کسی حقیقت کو جس واسطے سے بیان کیا گیا ہے اس کا اس حقیقت سے تعلق بہت خفیف اور بعید، بہ الفاظِ دیگر نازک ہے، شعر میں نازک خیالی کا دارومدار تعلق کی اسی نزاکت پر ہے۔ اور یہ تعلق جب نامحسوس کی حد کو پہنچنے لگے تو نازک خیالیِ کی سرحد خیال بندی سے مل جاتی ہے۔

    خیال بندی، معنی آفرینی اور نازک خیالی کی طرح خیال بندی کی بھی جامع و مانع تعریف ہماری شعریات میں شاید موجود نہیں ہے اور ان تینوں اصطلاحوں میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً آزاد، ناسخ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں،

    ’’فارسی میں بھی جلال امیر، قاسم مشہدی، بیدؔل اور ناصر علی وغیرہ استاد ہوگزرے ہیں، جنہوں نے اپنے نازک خیالوں کی بدولت خیال بند اور معنی یاب لقب حاصل کیا ہے۔‘‘

    یہاں نازک خیالی، خیال بندی اور معنی آفرینی کو تقریباً ایک قرار دیا گیا ہے، لیکن نازک خیالی کی تنقیص میں آزاد کا جو بیان اس سے پہلے دیا گیا اس کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے خیال بندی کی ایک عمدہ تعریف کردی ہے۔ لکھتے ہیں،

    ’’ان خیالی رنگینیوں اور فرضی لطافتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو باتیں بدیہی ہیں اور محسوسات بھی عیاں ہیں، ہماری تشبیہوں اور استعاروں کے پیچ درپیچ خیالوں میں آکر وہ بھی عالم تصور میں جاپڑتی ہیں۔‘‘

    مولوی عبدالرحمٰن نے ’’مرآۃ الشعرا‘‘ میں خیال بندی کی وضاحت اس طرح کی ہے،

    ’’کبھی خیال عالم حقیقت کی سَیر سے سیر ہوکر ذہن کی موجودہ صورتوں میں اپنی طرف سے نئی ترکیب و ترتیب شروع کردیتا ہے، کسی کا سر لیتا ہے اور کسی کا پاؤں اور ایک نئی مخلوق بناکر کھڑی کردیتا ہے اور ایسی ایسی صورتیں سامنے لاتا ہے جو نہ آنکھوں نے دیکھی ہوں نہ کانوں نے سنی۔ اسی طلسم کاری کو دیکھ کر شعر تخیئلی کہلاتا ہے اور یہی وہ شاعری ہے جسے خیال بندانہ اور تخیلانہ کہتے ہیں۔‘‘

    حقیقت کا بالواسطہ اظہار شاعری کاخاص وصف ہے اور ہم دیکھ چکے ہیں کہ جس واسطے کی مدد سے حقیقت کو ظاہر کیا جاتا ہے اگر مبینہ حقیقت سے اس کا تعلق بہت نازک ہو تو شعر میں نازک خیالی کا وصف پیدا ہوجاتا ہے، اگر اس واسطے ہی کو شعر کے اصل موضوع کی طرح برتا جائے اور متعلقہ بنیادی حقیقت کی حیثیت ضمنی یا صفر رہ جائے تو شعرخیال بندی کے ذیل میں آجائے گا۔ وضاحت کے لیے چند شعروں پر غور کیا جائے،

    چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے سرمہ تو کہوے کہ دود شعلۂ آواز ہے (غالب)

    شعر کی بنیاد اس بات پر ہے کہ حسینوں کی آنکھیں بولتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ آنکھوں کا بولنا حقیقت نہیں محض ہمارا ایک خیال ہے۔ پہلے مصرع میں اس خیال کو ایک حقیقت کے طور پر بیان کردیا گیا۔ دوسرے مصرع میں آواز کو شعلہ قرار دیا گیا۔ شعلے کے ساتھ دھویں کا بھی خیال آتا ہے۔ آنکھوں کی آواز کے شعلے کے ساتھ سرمے کا وہی ربط ہے جو عام شعلے کے ساتھ دھویں کا ہوتا ہے۔ دھویں سے شعلہ چھپ جاتا ہے اور دکھائی نہیں دیتا۔ سرمہ کھانے سے آواز بیٹھ جاتی ہے اور سنائی نہیں دیتی۔ سرمہ چشم خوباں کے شعلۂ آواز کادھواں ہے۔ یعنی اگر چشم خوباں کی نواپردازی ہم کو سنائی نہیں دیتی تو اس کا سبب یہ ہے کہ چشم خوباں سرمہ آلود ہے اور سرمے نے اس کی آواز دبادی ہے۔ یہ انتہائی درجے کی معنی آفرینی اور نازک خیالی تو ہے ہی لیکن شعر کا سارا زور اس خیال کے تلازموں پر ہے کہ حسینوں کی آنکھ بولتی ہے چنانچہ سرمہ، آواز، شعلہ، دوداس شعر میں اصل موضوع کی طرح ہوتے جارہے ہیں۔ درحالے کے شعر کا اصل موضوع (آنکھ کا نواپرداز ہونا) بھی خیالی ہے۔ اس طرح یہ شعر خیال بندی کی عمدہ مثال ہوگیا۔ اس خیال بندی کو اپنے شعری ذوق کے تحت اچھا یا برا کہا جاسکتا ہے لیکن نثری استدلال کی روشنی میں اسے پرکھنا شاعری کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ مثلاً اسی شعر کو نثری استدلال کی روشنی میں دیکھیے تو نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ اگر خوبان سرمہ لگانا چھوڑدیں تو ان کی آنکھوں کی آواز واقعی سنائی دینے لگے۔

    اس شعر کے باطن میں ایک بدیہی اور مسلمہ حقیقت کام کر رہی ہے وہ یہ کہ انسان کی آنکھیں قوتِ ناطقہ سے محروم ہونے کے باوجود جذبات اور تاثرات کا اظہار اس طرح کردیتی ہیں جس طرح آواز اور الفاظ کرتے ہیں۔ لیکن شاعر نے اس حقیقت کا راست اظہار نہیں کیا اس طرح اس شعر پر آزاد کا یہ قول صادق آجاتا ہے کہ خیال بندی کے نتیجے میں ’’جوباتیں بدیہی ہیں وہ بھی عالم تصور میں جاپڑتی ہیں۔‘‘

    اسی غزل کا ایک اور مطلع ہے،

    پیکرِ عشاق سازِ طالع نا ساز ہے

    نالہ گویا گردشِ سیارہ کی آواز ہے

    شعر کی بنیاد اس بات پر ہے کہ عاشقوں کا مقدر برا ہوتا ہے۔ یہ حقیقت اس خیال میں بدلی کہ عاشقوں کا ستارہ گردش میں رہتا ہے اور اس خیال کی بنیاد پر پورا شعر قائم کیا گیا ہے۔ قسمت کا ناسازگار ستارہ عشاق کے وجود پر متصرف ہے۔ عشاق نالہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ وہ آواز ہے جو کسی چیز کے بہت تیزی کے ساتھ گھومنے سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ چیز عشاق کی قسمت کا ستارہ ہے جو پوری رفتار سے گردش میں ہے۔ یہاں بھی شعر کے باطن میں (شعریات کی حد تک سہی) ایک مسلمہ حقیقت کارفرما ہے کہ عاشقوں کی قسمت خراب ہوتی ہے لیکن شعر کی تعمیر اس حقیقت کے اس خیالی روپ پر ہوتی ہے کہ عاشقوں کا ستارہ گردش میں رہتا ہے۔

    غالب ہی کا ایک اور شعر ہے،

    خیالِ سادگی ہائے تصور نقشِ حیرت ہے

    پر عنقا پہ رنگِ رفتہ سے کھینچی ہیں تصویریں

    موضوع وہ نادر کیفیت ہے جب تصور میں کچھ نہیں ہوتا اور ذہن ایک سادہ ورق کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ بلکہ خود ذہن کا وجود غیرمحسوس ہوجاتا ہے۔ عالم حیرت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ نہ کوئی جذبہ باقی رہتا ہے، نہ ردعمل، نہ تاثر، نہ خیال، اس لیے حیرت کی تصویر (نقش حیرت) میں کچھ نہیں بنایا جاسکتا۔ شاعر تصور میں کچھ نہ ہونے کا تصور کرتا ہے تو اس کے سامنے حیرت کی تصویر آتی ہے جس میں کچھ نہیں ہے۔ اس کیفیت میں اس کا خیال پر عنقا پر اس رنگ سے جو نہیں ہے (’’رنگِ رفتہ‘‘) تصویریں بنا رہا ہے۔ یعنی جس چیز پر تصویریں بنائی جارہی ہیں وہ بھی معدوم ہے، (پرعنقا) جس چیز سے بنائی جارہی ہیں وہ بھی معدوم ہے (رنگ رفتہ) اور جس چیز کی تصویریں بنائی جارہی ہیں وہ بھی کچھ نہیں ہے (سادگی ہائے تصور) اگر خیال بندی کی تنقیص مقصود ہو تو اس شعر سے بہتر الفاظ نہیں ملیں گے، اگر خیال بندی کی توضیح کرنا ہو تو بھی، اور اگر خیال بندی کا نمونہ مطلوب ہو تو بھی اس سے مناسب تر شعر نہیں ملے گا۔

    خیال بندی شعر کا مشکل ترین اور پیچیدہ ترین عمل ہے۔ تذکروں میں کئی اردو شاعروں کو خیال بند کہا گیا ہے لیکن ان کا نمونۂ کلام اس کی تائید نہیں کرتا یا بہت کم زور تائید کرتا ہے۔ درحقیقت خیال بند شاعر اردو میں غالب سے بڑا کوئی نہیں گزرا ہے۔ غالب کے یہاں خیال بندی کی پیچیدہ سے پیچیدہ مثالیں تو ملتی ہیں لیکن سہلِ ممتنع میں خیال بندی کی مثال بھی غالب ہی کے یہاں ملتی ہے۔ مندرجۂ ذیل شعر سادگی کے ساتھ خیال بندی کا نمونہ ہے۔ اتفاق سے اس میں بھی مندرجۂ بالا شعر کی طرح خیال کا لفظ موجود ہے اور اس شعر کی طرح اس شعر کا موضوع بھی خیال بندی ہی قرار پاتا ہے،

    مستانہ طے کروں ہوں رہِ وادیٔ خیال

    تابازگشت سے نہ رہے مدعا مجھے

    مأخذ:

    سوغات،بنگلور (Pg. 322)

      • ناشر: محمود ایاز, پاسبان برقی پریس، بنگلور
      • سن اشاعت: 1991

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے