aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زبان اور رسم خط

سیداحتشام حسین

زبان اور رسم خط

سیداحتشام حسین

MORE BYسیداحتشام حسین

    زبان کی قومی، بین الاقوامی اور تہذیبی اہمیت علمی حیثیت سے مسلم ہے۔ دیکھا جاتا ہے کہ دنیا کی چھوٹی سی چھوٹی اور غیر متمدن قوم کے پاس بھی زبان موجود ہے۔ زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جنہیں یہ مسئلہ پریشان نہیں کرتا کہ انسان قوت گویائی سے کس طرح کام لیتا ہے۔ تمدنی زندگی کی کس منزل پر زبان وجود میں آئی، اس کا ارتقا کس طرح ہوا، انسان اور زبان کا کیا تعلق ہے، زبان اور قوم میں کیا رشتہ ہے۔ زبان کے تغیر میں کون سے عناصر کام کرتے ہیں، مادری زبان سے کیا مراد ہے اور زبان کس طرح زندہ رہتی ہے؟

    یہ سوالات پیچیدہ ہیں اور عام ذہن تو کیا، علماء کے لئے بھی مشکلیں پیدا کرتے ہیں، تاہم مختلف علوم کی مدد سے انسانوں نے ان سوالات پر برابر غور کیا ہے اور آج کل جب انسانی حقوق پر علمی حیثیت سے نگاہ ڈالی جا رہی ہے، قوم اور زبان کے تعلق کا مسئلہ بھی آ گیا ہے۔ ہندوستان میں زبان کا مسئلہ علمی اور عقلی حیثیت سے طے نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس لئے بہت سے لوگوں کے جذبات بر انگیختہ ہیں اور گتھیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ زبان سے متعلق کوئی مسئلہ چھیڑتے ہوئے فوراً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اس سے جذبات اور نیتیں وابستہ کر کے اس بحث کو علمی راستہ سے ضرور ہٹا دیں گے لیکن میں یہ چند سطریں اس امید میں لکھ رہا ہوں کہ ان پر سائنسی علوم کی روشنی میں بحث کی جائےگی۔

    زبان ہی طرح رسم خط کا مسئلہ بھی علمی اور غیر جذباتی غوروفکر کا مستحق ہے۔ کیا کسی زبان اور اس کے رسم خط میں کوئی باطنی تعلق ہے؟ کیا جس زبان کے لیے جو رسم خط استعمال کیا جا رہا ہے، وہی اس کے لئے مناسب ترین ہے اور کیا ایک زبان کو دوسرے رسمِ خط میں نہیں لکھا جا سکتا؟ اور اگر لکھا جائے تو کیا یہ کوئی غیرفطری کوشش ہوگی؟ کیا اس سے زبان کی اصلیت اور حقیقت بدل جائےگی۔ اس وقت اس مسئلہ کو کسی خاص زبان یا رسم خط کی روشنی میں دیکھنا مقصود نہیں ہے بلکہ کسی زبان اور اس کے رسمِ خط کے تعلق کو دیکھنا ہے۔

    اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ زبان پہلے وجود میں آئی، اس کی ابتداءً جو شکل بھی رہی ہو، وہ اظہار خیال اور اظہار جذبات کا ایک ذریعہ تھی، اس کا مقصد اظہاروابلاغ تھا، اس سے وہ سماجی ضرورت پوری ہوتی تھی جس سے سب کے ذہن میں کسی حد تک یکسانیت اور وحدت پیدا ہوتی ہے۔ اسی سلسلہ میں یہ بحث بھی اٹھتی ہے کہ سب سے پہلی زبان کہاں اور کن لوگوں میں پیدا ہوئی تھی، کیا ایک ہی زبان پیدا ہوئی یا کئی زبانیں؟ لیکن یہاں اس بحث میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہے، ۔ ہمیں تسلیم کر لینا چاہئے کہ انسانی زندگی کی ابتدا میں زبان وجود میں آئی اور اگر یہ انسان کئی خِطّوں میں رہتے تھے تو ان کی سماجی ضروریات کے تحت مختلف مقامات پر مختلف زبانیں وجود میں آئیں، اس سے نفسِ خیال پر کوئی اثر نہیں پڑتا، یعنی زبان انسانوں میں پیدا ہوئی اور ایک زبردست اجتماعی اساس کی حیثیت سے ابتدائی تمدن کو منضبط کرنے میں معین ہوئی۔

    یہ بات نا قابل انکار ہے کہ زبان اجتماعی زندگی کی تشکیل اور تعمیر میں اتنی اہم ثابت ہوئی، جب اس نے ارتقا میں مدد دی تو اسے خود بھی ترقی ہوئی اور انسانی ذہن نے اس عجیب وغریب ایجاد کو دوام بخشنے کے لئے رسمِ خط ایجاد کرنے کی کوشش کی۔ بہرحال یہ بات طے شدہ ہے کہ زبان پہلے پیدا ہوئی اور رسمِ خط بعد میں۔ میں اس سے یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ زبان اور رسمِ خط میں کوئی باطنی تعلق نہیں ہے بلکہ رسمی ہے اور اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو زبان اور رسمِ خط کے متعلق جو بحث جاری ہے وہ محدود ہو سکتی ہے۔

    یہاں ذرا دیر کے لئے ٹھہر کر اگر رسمِ خط کی ابتدا پر غور کر لیا جائے تو زبان اور رسمِ خط کے تعلق کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ زبان ہی کی طرح رسمِ خط کی ابتدا بھی دھندلکے میں ہے لیکن جہاں تک اس سلسلہ میں تحقیقات ہوئی ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ابتداء تصویری حروف کی مختلف شکلوں سے ہوئی۔ مصری، بابلی چینی اور ہندوستانی فن تحریر کو دیوتاؤں سے منسوب کرتے تھے اور یہودی حضرت موسیٰ سے۔ اس میں شک نہیں کہ تحریر کی ایجاد بھی تسخیر فطرت کا ایک ذریعہ تھی اور اپنی قوتِ یادداشت کو اور قوی تر بنانے کے لئے انسان نے اپنے خیالات کو جانی بوجھی تصویروں میں منتقل کر لیا، تاکہ تلازمۂ ذہنی کی مدد سے وہ اپنے خیالات اور تجربات کی باز آفرینی پر قادر ہو سکے۔ یہ اہم سماجی کارنامہ سحر اور ٹوٹکے کے تصور پر بھی مبنی کہا جا سکتا ہے۔

    اب اس پر غور کیا جائےگا تو معلوم ہوگا کہ سحر کی مدد سے بھی فطرت کو شکست دینے یا اس پر قابو پانے ہی کی کوشش کی جاتی تھی کیونکہ انسان اپنی ابتدائی زندگی ہی سے فطرت کے خلاف جدوجہد کرنے لگا تھا اور اپنے محدود مادی و سائل سے کام لے کر آگے بڑھ رہا تھا۔ تحریر آگے بڑھنے کا ایک ذریعہ تھی۔ یہ ظاہر ہے کہ یادداشت میں سب سے زیادہ مدد قریب ترین مماثلت سے ملتی ہے، اس لیے چیزوں کی تصویریں سب سے زیادہ فطری تحریر کہی جا سکتی ہے۔ درخت کی تصویر دیکھ کر درخت کی یاد ضرور آئےگی، اور اس زندگی کے ابتدائی تجربوں کا جو تعلق درخت سے ہوگا، تسلسل خیال انھیں بھی سامنے لا کھڑا کرےگا لیکن زبان محض اشیا کے ناموں کا مجموعہ تو نہیں۔

    متحرک زندگی میں بنی بنائی چیزیں کم ہیں۔ خیالات کی رفتار عمل کی مختلف صورتوں اور حالتوں میں ربط پیدا کر لیتی ہے اس لئے تصویری تحریر کے علاوہ تصوری تحریر بھی پیدا ہوئی جس میں خیالات اور تصورات کی علامتیں بنائی جاتی تھیں یعنی الفاظ خیالوں کی ملفوظی یا صوتی علامت کہے جا سکتے ہیں، اور ان کی تصویریں تحریری علامات۔ اس تحریری علامت کا مقصد کسی آواز یا آوازوں کے مجموعے یا خیال کی طرف ذہن کو منتقل کر دینے کے سوا اور کچھ نہیں۔

    تصویری تحریر خیالات کی علامت مقرر کرنے کی ابتدائی اور بھدی کوشش تھی لیکن جب انسانی ذہن اور استوار ہوا اور اس کی تحریری طاقت بڑھی تو آوازوں کی علامتیں مقرر کرنے کی کوشش کی کیونکہ تصویری رسمِ خط میں جتنے الفاظ ہوتے تھے، اتنی ہی علامتوں کی ضرورت پڑتی تھی، پھر مصوّری پر قدرت نہ ہونے کی وجہ سے بعض تصویریں ایک دوسرے سے مل جاتی تھیں اور التباس پیدا کرتی تھیں۔ اس لیے زیادہ سائنٹفک طریقہ کی جستجو ضروری تھی۔ جلد لکھنے کی کوشش میں تصویریں محض علامت بن کر رہ جاتی تھیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ حروفِ تہجی انھیں تصویری یا تصوری تحریروں کی ارتقائی شکل ہیں۔ ابتدائی عبرانی یا یونانی حروف تہجی کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر حرف کوئی معنی رکھتا ہے اور ان کی ابتدائی شکل اس مفہوم یا معنی سے صوری مماثلت رکھتی ہے۔

    اس وقت علمی حلقوں میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ قدیم ترین رسمِ خط کے نمونے (جو تصویری یا ہیر دغلیفی نہیں ہیں) شمالی سامی قوموں میں ملتے ہیں، انھیں کی مختلف شاخیں اور شکلیں کنعانی (یعنی ابتدائی عبرانی اور فنیقی) ارامی، جنوبی سامی اور یونانی کے روپ میں بڑھیں اور پھیلیں۔ یہ ارامی رسم خط تھا جس سے کئی رسمِ خط نکلے یا کم سے کم اس سے خیال اور اثر لے کر دوسرے رسم خط بنائے گئے، چنانچہ قدیم پہلوی تو ارامی رسم خط سے نکلا ہی ہے، برہمی رسم خط بھی اسی کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے، لیکن یہ بات بہت بحث طلب ہے کیونکہ ابتدا میں کبھی یہ داہنی طرف سے لکھا گیا اور کبھی بائیں طرف سے۔ یہاں نفس بحث سے اس کا گہرا تعلق بھی نہیں ہے، صرف یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ہر زبان اپنے ساتھ رسمِ خط لے کر پیدانہیں ہوئی بلکہ تہذیبی ترقی اور تجارتی تعلقات اور سماجی اثرات کے تحت ایک ہی رسم خط اور حروف کئی زبانوں کے لئے استعمال ہونے لگے اور آہستہ آہستہ امتداد زمانہ سے ان میں تغیرات ہوئے۔

    زبانوں میں بھی اختلاط ہوتے رہے لیکن پھر بھی کثرت استعمال اور قومی خصوصیات وغیرہ کی وجہ سے زبانوں نے اپنی آزاد حیثیت کچھ نہ کچھ برقرار رکھی لیکن فنِ تحریر جو ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کر کے پہونچا، تو ایک ضروری سماجی ایجاد ہونے کی وجہ سے لوگوں نے اسے اپنا لیا اور اپنے الفاظ کو بھی صوتی تحریری لباس عطا کر دیا۔ مدت گزر جانے کے بعد معمولی تغیرات کر کے ہر ملک میں اسے قومی رسمِ خط یا مخصوص زبانوں سے وابستہ رسمِ خط سمجھ لیا گیا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح زبانوں میں تبدیلی ہوتی رہی ہے، اس طرح رسمِ خط میں نہیں ہوتی ہے۔ معمولی صوتی تغیرات کے لئے معمولی تبدیلیاں کر لی گئیں۔

    ڈیوڈؔ ڈرِنگر، جس نے حروف تہجی پر بڑی عالمانہ کتاب لکھی ہے، تحریر کے انقلابی فن کو شمالی مغربی سامیوں سے منسوب کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ وہیں سے یہ حروف یونانیوں میں پہونچے اور یونانیوں نے ان میں اضافے کئے۔ انھیں جڑوں سے برابر شاخیں نکلتی رہیں اور ملکوں ملکوں میں پھیلتی رہیں۔ کسی رسم خط کو مکمل طور پر تمام حروف صحیحہ اور تمام حروف علت کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ابھی چند سال پہلے تک روسؔ کی بعض زبانوں کے پاس رسم خط نہیں تھے، علمائے لسان نے ان زبانوں کو ترقی دینے کے لئے ان کے رسم خط ایجاد کئے۔

    ساری دنیا کے انسانوں کو ایک کرنے کی کوششیں ہمیشہ سے ہوتی رہی ہیں۔ کبھی مذہب نے یہ فرض انجام دینے کی کوشش کی ہے، کبھی سیاسی فلسفہ نے، کبھی سب کے لئے ایک زبان ایجاد کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور کبھی ایک رسم خط۔ ان کے پیچھے حکمرانی اور اقتدار کے جو جذبات کارفرما ہیں وہ اتنے نمایاں ہیں کہ ان پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ آج بھی ایک قوم یا خطہ کی زبان دوسرے خطوں پر لادنے میں یہی جذبہ کام کرتا ہے۔ گو اسے مختلف قسم کی توجیہوں سے فلسفیانہ اور عالمانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن چونکہ اس میں جبر کے پہلو شامل ہوتے ہیں، اس لئے کبھی کامیابی نہیں ہوتی۔ تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر کسی طرز پر زبان اور رسم خط میں یکسانیت پیدا ہو جائے تو کچھ صدیاں گزر جانے کے بعد اس سے فوائد ضرور مترتب ہوں گے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ جس طرح زبان قوم کی تشکیل وتعمیر میں معاون ثابت ہوتی ہے کیا اسی طرح رسم خط بھی کسی زبان سے وابستہ ہوتا ہے؟

    تقریباً تمام ماہرین لسانیات اس خیال سے متفق ہیں کہ زبان اور رسم خط میں کوئی خاص تعلق نہیں۔ آواز اور اس کی ظاہری تحریری علامت میں کوئی لازمی ربط نہیں ہے۔ پھر جو یہ خیال بار بار دہرایا جاتا ہے کہ اگر کسی زبان کا رسم خط بدلا گیا تو وہ زبان بھی ختم ہو جائےگی، اس کا کیا مطلب ہے؟

    جب تک تحریر کا فن ایجاد نہیں ہوا تھا، زبان کا استعمال محض صوتی حیثیت رکھتا تھا، اس وقت زبان کسی رسم خط سے وابستہ نہ تھی، لفظوں کی آواز کو محض سا معہ گرفتار کرتا تھا اور بولنے والے کی آواز جو تاثر یا ردعمل سننے والے میں پیدا کرتی تھی، وہ کچھ دنوں میں اس کے پہچاننے کا عادی بن جاتا تھا، یہاں تک کہ مخصوص الفاظ مخصوص تاثر پیدا کرنے لگتے تھے اور الفاظ کے معنی متعین ہو جاتے تھے۔ الفاظ کی سما جی حیثیت معنی کو بھی سماجی اہمیت بخشتی تھی۔ زبان کا جو مقصد تھا وہ اس طرح پورا ہو رہا تھا۔ جب لکھنے کا فن ایجاد ہوا تو تاثر اور رد عمل کو دوام بخشنے کے لئے صوتی تصویروں کو جو سامعہ کی مدد سے ذہن میں بنتی تھیں، تحریری علامتوں میں منتقل کر دیا گیا اور وہ تاثر باصرہ کی مدد سے ذہن پر منعکس ہونے لگا۔

    سیکھنے اور دیکھنے کے بعد مختلف علامات کی آوازیں اسی طرح ذہن میں بننے اور تاثر پیدا کرنے لگتی ہیں جس طرح سننے اور سیکھنے کے بعد۔ اگر کسی شخص کو کوئی زبان نہ معلوم ہو تو اس کے الفاظ (یعنی آوازوں کے مجموعے) سننے کے بعد بھی وہ انہیں سمجھ نہ سکےگا۔ اسی طرح انھیں کسی معلوم یا نامعلوم رسم خط میں لکھا ہوا دیکھنے کے بعد بھی کچھ نہ سمجھا جا سکےگا۔ تاثر یا ردعمل کی وہ منزل جو مفہوم تک ذہن کو پہونچا دے، ہمارے علم پر منحصر ہے اور اس کا تعلق عادت سے ہے۔ جس جس رسم خط کو ہم جانتے ہیں اسی حد تک ہم اسے دیکھ کر جلد یا بدیر تاثر حاصل کریں گے۔

    دوسرے لفظوں میں اس کا مقصد یہ ہے کہ مخصوص تحریری علامتوں کو دیکھ کر مخصوص آوازوں کی طرف ذہن کا منتقل ہونا محض ہماری عادت پر منحصر ہے اور یہ عادت اکتسابی ہوتی ہے۔ ایک مخصوص علامت کا تعلق ایک مخصوص آواز کے ساتھ ہمارا مقرر کیا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر کسی آواز کو لیجئے۔ جؔ، یہ آواز تقریباً دنیا کی ہر زبان میں موجود ہے۔ کچھ لوگ اسے یا کسی شکل میں پہچانتے ہیں، کچھ کی شکل میں، کچھ لوگ جؔ کی شکل میں۔ سیکڑوں رسم خط ہیں جن میں یہی آواز کسی نہ کسی شکل میں ملتی ہے۔ اگر کوئی شخص تمام رسم خطوں کو جانتا ہوگا تو وہ ہر جگہ اس آواز کی تحریری صورت یا علامت کو پہچان لےگا اور چند کو جانتا ہوگا تو محض انھیں میں پہچانےگا اور اگر صرف ایک کو جانتا ہوگا تو صرف اسی ایک میں پہچانےگا۔ اگر کسی قسم کے رسم خط سے واقف نہ ہوگا تو وہ یہ آواز جاننے کے بعد بھی اس کی صوری یا تحریری شکل سے بالکل ناواقف ہوگا۔

    جو شخص کوئی رسم خط نہیں جانتا، اسے آوازوں کے پہچاننے کے لئے کوئی رسم خط سکھایا جا سکتا ہے اور تھوڑے ہی دنوں کی مشق کے بعد ان آوازوں کو جنھیں وہ بولنے میں استعمال کرتا ہے، اس رسم خط میں پہچاننے کا عادی ہو جائےگا، چاہے وہ رسم خط کوئی ہو اور زبان کوئی۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا دنیا کا کوئی رسم خط مکمل نہیں ہے لیکن جو رسم خط جتنا اچھا ہوگا اسی قدر وہ آوازوں کی اچھی علامتیں یعنی آوازوں سے زیادہ سے زیادہ مماثلت رکھنے والی علامتیں پیش کر سکےگا اور اسی قدر سائنٹفک کہا جائےگا، لیکن جو نگاہیں جس رسم خط کی عادی ہو جاتی ہیں وہی ان کے لئے آسان معلوم ہوتا ہے۔

    چینی اور جاپانی رسم خط بہت مشکل ہیں۔ لوگ صرف انہیں علامتوں میں آوازوں کے پہچاننے کے عادی ہو چکے ہیں۔ وہ آسان سے آسان رسمِ خط کو بھی ابتداء میں ان کے مقابلہ میں مشکل سمجھیں گے۔ ایک شخص کئی رسم خط اور کئی زبانیں جانتا ہو تو اس کی عادت ہر زبان کو اس کے مروجہ رسمِ خط میں پڑھنے کی ہو جاتی ہے لیکن اگر ایک زبان دوسرے رسمِ خط میں لکھ دی جائے تو زبان جاننے کی وجہ سے وہ رسم خط کی دشواریوں کو عبور کر سکےگا اور جس قدر مشق بڑھاتا جائےگا، اسی قدر یہ دشواری ختم ہوتی جائےگی۔ یہاں تک کہ وہ کسی زبان کو کسی رسم خط میں پڑھنے لگےگا۔

    اسے ایک طرح اور دیکھنا چاہئے۔ اگر زبان اور رسم خط میں کوئی ایسا تعلق ہوتا کہ زبان کے الفاظ اسی کے مروجہ رسمِ خط میں کوئی رد عمل یا تاثر پیدا کر سکتے تو البتہ یہ دشواری پیدا کرتا لیکن ایسا نہیں ہے۔ اصل ردعمل مفہوم کی واقفیت سے پیدا ہوتا ہے، علامت سے نہیں۔ مثلاً ہم بہت سے انگریزی الفاظ اردو میں استعمال کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر انہیں اردو رسم خط میں لکھ بھی دیتے ہیں جیسے پبلک، پوئٹری، پولیٹکل، جج وغیرہ۔ اور ہر وہ شخص جو ان الفاظ اور ان کے معنی سے واقف ہے بغیر کسی دقت کے انہیں پڑھ لیتا ہے۔ اگر یہ الفاظ انگریزی رسم خط میں لکھے جاتے تو اس رسم خط سے ناواقف ان الفاظ کے معنی جاننے کے بعد بھی انہیں پڑھ نہ سکتے۔

    ان تمام باتوں سے یہ واضح نتیجہ نکلتا ہے کہ زبان اور رسم خط میں کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ہماری روایت اور عادت ہے جو تعلق پید اکرتی ہے، جس طرح کی عادت ڈالی جائے، پڑ جائےگی یعنی اگر انگریزی زبان کو فارسی رسم خط میں، اردو زبان کو لاطینی یا انگریزی رسم خط میں لکھنے لگیں تو یہ کوئی غیرفطری، ناممکن العمل یا علمی حیثیت سے غلط فعل نہ ہوگا۔ دونوں رسم خط ایسے ہیں جن میں بعض اوقات بولنے اور لکھنے میں فرق ہوتا ہے۔ اُردو کا ’’بالکل‘‘ انگریزی یا لاطینی رسم خط میں اپنا ’’الف‘‘ کھودےگا اور انگریزی گا ’’HIGH‘‘ اردو میں لکھا جائےگا تو دو حروف G اور H غائب ہو جائیں گے اور اردو میں یہ لفظ تلفظ کے مطابق ہائیؔ رہےگا۔

    ہر زبان میں رسم خط کا مقصد ایک ہی ہے۔ آوازوں کی علامتیں معین کرکے انھیں استقلال بخشنا، کہیں بھی یہ علامتیں معنی کے متعین کرنے میں مدد نہیں دیتیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر بغیر لکھے ہوئے لفظ کے معنی کا تعین ہی نہ ہو سکتا، لیکن ہم جانتے ہیں کہ تقریر کرتے وقت ہم لفظ کے معنی محض اس کی صوتی حیثیت کو سامنے رکھ کر سمجھ لیتے ہیں۔ اب اگر یہ بات طے ہو جائے کہ زبان اور رسم خط دو الگ الگ چیزیں ہیں اور کوئی زبان کسی رسم خط میں لکھی جا سکتی ہے تو پھر اردو کے لئے دیوناگری، لاطینی اور فارسی رسم خط میں سے کسی ایک کے منتخب کرنے میں سوال دوسری نوعیت اختیار کر لےگا۔ فطرت، مزاج اور نفسیات کے نام پر بہت سے علمی مغالطے تیار کئے گئے ہیں۔ انھیں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر رسم خط بدل دیا جائے تو زبان بدل جائےگی یا خراب ہو جائےگی۔ اگر اس بحث سے معقول نتائج برآمد ہوئے تو پھر یہ بحث شروع کی جا سکتی ہے کہ کسی رسم خط کے اختیار کرنے میں کن باتوں کا لحاظ رکھنا ہے اور آج اس مسئلہ کی نوعیت کیا ہے۔

    مأخذ:

    ذوق ادب اور شعور (Pg. 159)

    • مصنف: سیداحتشام حسین
      • ناشر: ادارہ فروغ اردو، لکھنؤ
      • سن اشاعت: 1963

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے