Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زبان کے ساتھ کبیر کا جادوئی برتاؤ

گوپی چند نارنگ

زبان کے ساتھ کبیر کا جادوئی برتاؤ

گوپی چند نارنگ

MORE BYگوپی چند نارنگ

    کبیر کا درجہ سنت کویوں میں بہت اونچا ہے۔ ان کی پیدائش سمت 1455 وکرمی (1398ء) کی بتائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ پوری پندرہویں صدی اور کچھ بعد تک زندہ رہے۔ وہ کاشی میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے کی پوربی یعنی اودھی اور بھوجپوری کا قدیمی روپ جیسا اس وقت کاشی اور اس کے نواح میں بولا جاتا ہوگا، وہی کبیر کے بچپن کی زبان رہا ہوگا۔ لیکن چونکہ وہ زندگی بھر جوگیوں، سادھوؤں، سدھوں اور فقیروں کے ساتھ جگہ جگہ گھومتے رہے، اس زمانے کی عوامی زبان بھی ان کی زبان پر چڑھ گئی ہوگی۔ ان کی شاعری، شاعری کے لیے تھی ہی نہیں، بلکہ عام لوگوں تک اپنا روحانی پیغام پہنچانے کا وسیلہ تھی۔

    چنانچہ اس زمانے میں جو بولی یا بھاشا عام طور پر بولی اور سمجھی جاتی ہوگی، کبیر نے کاشی کی بولی کے علاوہ اس کا اثر بھی قبول کیا ہوگا۔ اسی لیے کبیر کی بھاشا ملی جلی بھاشا ہے۔ اس میں پوربی کا پٹ تو ہے ہی، کھڑی کا انداز بھی ہے، جس نے ان کی شاعری کی قبولیت میں خاص کردار ادا کیا اور ہوتے ہوتے کبیر کے بول ملک کے طول وعرض میں ہر دل کی دھڑکن بن گئے۔

    کھڑی بولی کی پرانی مستند تاریخ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کھڑی کے قدیم نمونے نایاب ہیں۔ کھڑی کی جو بھی قدیمی تاریخ قائم کی جاتی ہے، وہ زیادہ تر بالواسطہ اور قیاسی ہے جبکہ کھڑی کے مقابلے میں برج، اودھی یا راجستھانی کی قدیم تاریخ دستاویزی طور پر آسانی سے مرتب کی جا سکتی ہے۔ امیر خسرو کا زمانہ (1253-1325) کبیر سے لگ بھگ ایک ڈیڑھ صدی پہلے کا ہے۔ کھڑی کے نقاش اول امیر خسرو ہیں۔ وہ ریختہ اور ہندوی کے پہلے شاعر مانے جاتے ہیں۔ امیر خسرو کے ہندوی کلام کی بنیاد کھڑی پر ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ کلام انہوں نے تفریحاً کہا یا دوستوں کے تفنن طبع کے لیے کہا، اصل شاعر تو وہ فارسی کے تھے اور ان کی عظمت کی بنیاد ان کی فارسی شاعری ہے، جبکہ کبیر کی عظمت کی بنیاد ان کی یہی ملی جلی نوزائیدہ زبان کی شاعری ہے۔

    وہ بولی جس کو دوسروں نے تفریحاً منہ لگایا یا جس سے عارضی طور پر کام لیا، یا جو اس وقت ان گڑھ، ناپخت اور خام حالت میں تھی، یا گیلی مٹی کی طرح تھی، کبیر نے اس ملی جلی، ان گڑھ، گری پڑی، ناپخت زبان سے وسیع پیمانے پر کا م لیا، حتیٰ کہ یہ ان کی شاعری کی عظمت کی بنیاد بن گئی۔ یہ معلوم ہے کہ کبیر کی شاعری کا تانا بانا اسی ناپخت، معمولی اور خام زبان سے بنا گیا ہے۔

    کبیر اور اس عہد کے دوسرے بڑے شاعروں میں ایک فرق اور بھی ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو اس زمانے کے صوفیا اور مشائخ میں علمی روایت نہایت وقیع تھی اور صوفیا میں جتنے بھی شعرا ہوئے، ان میں اکثر فارسی کی کلاسیکی شعریات سے کماحقہٗ واقف تھے اور اس کے امین تھے۔ یہی کیفیت ہندی کے بڑے شاعروں کی ہے جو سب کے سب کبیر کے بعد آئے، نیز ان میں سے کسی کی زبان کھڑی بولی نہیں ہے، مثلاً سور داس (1478-1580) اور رس کھان (1540-1610) برج کے شاعر تھے، ملک محمد جائسی (1477-1542) اور تلسی داس (1532-1623) اودھی کے شاعر تھے اور یہ بولیاں سنسکرت میں رچی بسی تھیں جبکہ کھڑی ابھی بن رہی تھی۔ ان ودوان اور عالم شعرا کے مقابلے میں سنت کوی زیادہ تر اَن پڑھ تھے۔

    کبیر نے نہ خود کو کبھی شاعر سمجھا نہ کبھی شاعری کا دعویٰ کیا۔ ان کی شاعری ان کے اندر کی آگ تھی۔ ذات پات کی تفریق، برہمنیت کی اجارہ داری یا فرقہ واریت کے خلاف ایک نعرۂ جنگ۔ چنانچہ سنسکرت کی کلاسیکی شعریات سے اس کے کسی بڑے رشتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ اگر کوئی رشتہ ہو سکتا تھا تو وہ انحراف اور بغاوت کا تھا جس نے کلاسکیت کے Status Quo کے ہر آثار کو ٹھکرا دیا تھا، لسانی آثار کو بھی اور شعری آثار کو بھی۔ کیونکہ پہلے کی شعریات کو ماننا زبان کو ماننا تھا اور زبان کو ماننا اس نظام کو ماننا تھا جس کے جبر کے خلاف یہ شاعری ایک نعرۂ جنگ تھی۔

    خیال رہے کہ پندرہویں صدی کے صوفیا اور سنت کو یوں میں سوائے کبیر کے کسی دوسرے نے اس ان گڑھ اور ناپخت زبان کو اس وسیع پیمانے پر نہیں برتا جس وسیع پیمانے پر کبیر نے اسے برتا اور نتیجتاً اسے قبول عام پر فائز کرکے اسے سب کی زبان بنا دیا۔ چنانچہ اگر یہ کہا جائے کہ کبیر کے شعری سفر کے دوران رفتہ رفتہ ایک نئی شعری زبان وجود میں آ گئی اور نیا شعری محاورہ اور روز مرہ بنتا چلا گیا، نیز کلاسیکی شعریات سے ہٹ کر ایک الگ عوامی شعریات کی بنیاد بھی پڑ گئی، تو غلط نہ ہوگا۔

    سردست ہمارا مسئلہ اس نکتے پر غور کرنا ہے کہ کبیر کے زمانے میں ’’ہندی‘‘ یا ’’اردو‘‘ یا ’’ہندوستانی‘‘ نام کی زبانیں تو نہیں تھیں، فقط بولیاں تھیں، یا یہی کچی پکی، ناپخت، ان گڑھ کھڑی بولی جو اپنی ابتدائی حالت میں تھی۔ لیوائی سٹراس نے ایک جگہ لکھا ہے کہ زبان کیسی بھی ابتدائی حالت میں کیوں نہ ہو، بنیادی جذبات کو ادا کرنے کے لیے مکمل ہوتی ہے۔ سو تو ٹھیک ہے، کبیر کی بھاشا میں دھرتی کا جو نمک اور جڑوں کی جو طاقت ہے، وہ تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن حیرت ہوتی ہے ایسے سیکڑوں ہزاروں مصرعوں اور بندشوں پر جو نہایت پختہ ہیں اور جن میں اقوال کا ایجاز اور کہاوت کی طاقت ہے۔

    اگر اس وقت کی ’’ان گڑھ‘‘ زبان میں یہ سب کچھ تھا جسے کبیر نے برتا تو پھر وہ زبان ان گڑھ کیونکر تھی؟ یا اگر واقعی اس وقت کی زبان اتنی ہی ترقی یافتہ تھی تو پھر کبیر کے علاوہ دوسروں کے یہاں اس کی یہ شان کیوں نظر نہیں آتی۔ ایک دو صدی آگے پیچھے تک اگر کبیر ہی اکیلا ایسا شاعر ہے جس کے یہاں معمولی زبان اپنے اس غیرمعمولی پن کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے تو پھر اس کا Credit کسی اور چیز کو نہیں بلکہ کبیر اور فقط کبیر کے اختراعی ذہن اور اس کی تخلیقیت کو دینا پڑےگا۔

    کہاوتیں ہوں، اقوال یا امثال، دراصل زبان کے Fossils ہیں یا زبان کی Archcology ہیں، جن کے گرد زبان کے معیار یا عوامی دانش کی تہیں تاریخی طور چڑھتی رہتی ہیں۔ یہ زبان کا Core یا بنیادی حصہ ہیں جو کثرت استعمال سے وجود میں آتا ہے۔ کبیر کی زبان نوزائیدہ تھی، یعنی اس کی تاریخ تھی ہی نہیں، لیکن تعجب ہے کہ یہی عنصر یعنی قول اور کہاوت کی طاقت رکھنے والا عنصر جو اصولاً قدیمی عنصر ہونا چاہیے، کبیر کے یہاں خاصا نمایاں ہے۔ حیرت ہے کہ ایک ناپخت، ان گڑھ، نوزائیدہ زبان میں اس درجہ امثالی اور کہاوتی کیفیت کس طرح سے پیدا ہو گئی کہ زبان چلتا ہوا جادو بن گئی۔ اس مسئلہ پر کبیر کے ماہرین نے ضرور غور کیا ہوگا، لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس کا کوئی آسان جواب ممکن نہیں ہے۔ ذرا ان دوہوں کو دیکھیے (متن ’’کبیر وچناولی‘‘ پنڈت ایودھیا سنگھ اپادھیائے ہری اودھ کی معتبر کتاب، مطبوعہ ناگری پرچارنی سبھا، کاشی، سمت 2003 سے لیا گیا ہے۔)

    جاکو راکھے سائیاں مار سکے نہ کوئے

    بال نہ بانکا کر سکے جو جگ بیری ہوئے

    لوٹ سکے تو لوٹ لے ستّ نام کی لوٹ

    پا چھے پھر پچھتائیں گے پر ان جا نہہ جب چھوٹ

    یہ تو گھر ہے پریم کا خالہ کا گھر نانہہ

    سیس اتارے بھوئیں دھرے تب پیٹھے گھر مانہہ

    جب میں تھا تب گورو نہیں اب گورو ہیں ہم نانہہ

    پریم گلی ات سانکری تا میں دو نہ سمانہیہ

    جن ڈھونڈھا تن پائیا گہرے پانی پیٹھ

    میں بپرا ڈوبن ڈرا رہا کنارے بیٹھ

    ستّ نام کڑوا لگے میٹھا لاگے دام

    دبدھا میں دو دگئے مایا ملی نہ رام

    رات گنوائی سوئی کے دوس گنوایا کھائے

    ہیرا جنم امول تھا کوڑی بدلے جائے

    آچھے دن پاچھے گئے گورو سے کیا نہ ہیت

    اب پچھتاوا کیا کرے چڑیاں چگ گئیں کھیت

    کالہہ کرے سو آج کر آج کرے سو اب

    پل میں پر لے ہوئے گی بہر کرے گا کب

    کبیر کے یہ دوہے زبان زد خاص و عام ہیں۔ یہ ہمارے اجتماعی حافظے کاحصہ ہیں اور عوامی لاشعور میں اس قدر رچے بسے ہوئے ہیں کہ ہم سرسری ان سے گزر جاتے ہیں اور بالعموم غور ہی نہیں کرتے کہ کس طرح ہماری زبان کی صدیوں کا سنگیت کبیر کی زبان کی تہوں میں سمویا ہوا ہے۔ سو سوالوں کا سوال یہی ہے کہ پندرہویں صدی میں جب زبان ان گڑھ اور ناپخت تھی، اس میں امثال کی چستی اور کہاوت کی طاقت کہاں سے پیدا ہو گئی؟ امثالی انداز بیان زبان کے صدیوں کے چلن کی پختگی کا مظہر ہوتا ہے اور کہاوتیں صدیوں کے انسانی تجربے کا نچوڑ ہوتی ہیں اور زبان کے متمول اور ترقی یافتہ ہونے کی نشانی ہیں۔ لیکن ایک نوزائیدہ، ان گڑھ، ناپخت زبان میں ان کا ظہور اور وسیع پیمانے پر استعمال کس طرح سمجھا جا سکتا ہے۔

    یہ صحیح ہے کہ شاعری اندر کی آگ ہے لیکن اس آگ کو سماج یا قاری کے دل میں و ہکانے کے لیے واحد حربہ تو زبان ہی ہے اور اگر زبان ہی ان گڑھ اور ناپخت ہو تو شاعری جادو کیسے بن سکتی ہے۔ مگر یہ بھی صحیح ہے کہ یہی معمولی زبان کبیر کے یہاں غیرمعمولی بن جاتی ہے اور شاعری معنی کا چراغاں کرتی ہے۔ ایک امکان یہ ہے کہ یہ امثال اور کہاوتیں بولیوں میں پہلے سے موجود تھیں، کبیر نے اپنی شاعری میں ان سے کام لیا، یا اس کے برعکس کبیر کی تخلیقی آگ ایسی تھی کہ اس نے معمولی شبدوں میں روح پھونک دی یا کبیر کی تخلیقی تپش نے لفظوں کو پگھلا دیا اور ان میں ایسی تاثیر اور درد مندی بھردی کہ عوامی مقبولیت اور استعمال عام کے باعث صدیوں کے چلن میں زبانوں پر چڑھ کر ان مصرعوں اور اظہاریوں کا درجہ اقوال اور ضرب الامثال کا ہو گیا۔

    اوپر مثالوں میں پہلے دوہے میں مصرعے پیوست ہیں۔ پہلے مصرعے میں بیان ہے ؍جاکو راکھے سائیاں مارسکے نہ کوئے ؍۔ دوسرے حصے میں ثبوت یامزید وضاحت کہ؍بال نہ بانکا کر سکے جو جگ بیری ہوئے ؍۔ پورا دوہا بطور قول؍ کہاوت استعمال ہوتا ہے۔ بال بیکا (یا بانکا) نہ ہونا عام محاورہ بھی ہے جو زبان میں راسخ ہو چکا ہے۔ دوسرے دوہے کا دوسرا مصرع؍ پا چھے پھر پچھتائیں گے پر ان جا نہہ جب چھوٹ؍ بھی بطور ضرب المثل رائج ہے۔ کہاوت کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ انسانی تجربے اور دانش کا پارہ ہوتی ہے اور اپنے اصل متن سے الگ ہوکر بھی ان گنت تناظر میں برتی جا سکتی ہے اور ہر موقع پر تناظر کے اعتبار سے اس میں معنی کی نئی شان پیدا ہوتی ہے۔ گویا یہ ایسی گولی ہے جس کا بارود ختم نہیں ہوتا۔

    تیسرے دوہے کے دوسرے حصے ؍سیس اتارے بھوئیں دھرے تب پیٹھے گھر مانہہ؍ میں زبردست تمثال ہے۔ لیکن پہلے مصرع؍ یہ تو گھر ہے پریم کا خالہ کا گھر نانہہ؍ سے سوال اٹھتا ہے کہ ؍خالہ؍ تو فارسی کا لفظ ہے یعنی ماں کی بہن، لیکن نہ تو قدیم فارسی میں؍ خانۂ خالہ؍ کوئی محاورہ تھا نہ قدیم ہندی بولیوں میں ایسا ہو سکتا ہے، اس لیے کہ لفظ ؍خالہ؍ ہندی الاصل ہے ہی نہیں۔ لفظ؍ خالہ؍ مسلمانوں کے آنے کے بعد ہی ہندی بولیوں میں رائج ہوا ہوگا۔ لیکن ؍خالہ؍ سے؍ خالہ کا گھر؍ (عیش وآرام کی جگہ کے معنی میں ) کب بنایا کب رائج ہوا؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

    محاوروں؍ کہاوتوں کی اصل تاریخ دھندلکے میں ہوتی ہے، (فارسی کے بڑے لغت Steingass میں ’’خانۂ خالہ‘‘ کا ذکر نہیں ہے، Platts اس کو ہندی ترکیب بتاتا ہے۔) ظاہر ہے کہ کبیر نے ان معمولی اظہار یوں کو کچھ اس خوبی سے برتا اور زبان میں ایسا پرویا کہ انہیں ہمیشہ کے لیے قائم کر دیا اور نہ صرف قائم کر دیا بلکہ بطور محاورہ Imprint کر دیا۔ زبان بنتی تو چلن سے ہے، لیکن بڑا شاعر ایسے پیرایے وضع کرتا ہے جو چلن پاکر زبان کا زیور بن جاتے ہیں۔ غالب کو بھی بارہا اس مرحلہ سے گزرنا پڑا، ورنہ کیوں کہتے کہ ’’آبگینہ تندیٔ صہبا سے پگھلا جائے ہے۔‘‘ کبیر کے یہاں معمولی شبدوں کے پگھلنے اور غیرمعمولی اظہار بننے کا یہ عمل خاصا نمایاں ہے۔ ایسی کوئی نہ کوئی نشانی ہر جگہ نظر آ جاتی ہے، خاص طور پر اوپر کی مثالوں میں ذیل کے ٹکڑے توجہ طلب ہیں،

    پریم گلی ات سانکری تامیں دونہ سمانہیہ

    جن ڈھونڈھا تن پائیا

    دُبدھا دُوو گئے مایا ملی نہ رام

    ہیرا جنم امول تھا کوڑی بدلے جائے

    اب پچھتاوا کیا کرے چڑیاں چگ گئیں کھیت

    کالہہ کرے سو آج کر آج کرے سو اب

    یہ اور ان جیسے سیکڑوں اقوال کا درجہ اب ضرب الامثال کا ہے جو بےساختہ زبان پر آ جاتے ہیں اور Quote کیے جاتے ہیں۔ یہ زبان کے بے ساختہ اظہار کا حصہ ہیں۔ صرف اتنا نہیں بعض دوہے تو پورے کے پورے اجتماعی حافظے میں رچ بس گئے ہیں اور زبان کے خون میں شامل ہیں، جیسے،

    جیوں تل مانہیں تیل ہے جیوں چقمق میں آگ

    تیرا سائیں تجھ میں جاگ سگے تو جاگ

    ہم گھر جارا آپنا لیا مرا ڑا ہاتھ

    اب گھر جاروں تاس کا جو چلے ہمارے ساتھ

    کانکر پھاتر جوڑ کے مسجد دیئی بنائے

    چڑھ ملا بانگ دے کی بہرا ہوئی خدائے

    چلتی چکی دیکھ کے دیا کبیرا روئے

    دوے پٹ بھیتر آئے کے ثابت گیا نہ کوئے

    دُکھ میں سمرن سب کریں سُکھ میں کرے نہ کوئے

    جو سُکھ میں سمرن کرے تو دکھ کا ہے کو ہوئے

    کبیر کے یہاں قول بانی یا کہاوت سازی کی یہ کیفیت خاصی عام ہے۔ لگتا ہے کہ کبیر کے تخلیقی ذہن کو قول سازی یا کہاوت وضعی سے خاص مناسبت تھی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کبیر چونکہ پیشہ ور شاعر نہیں تھے، شاعری کی زبان یا اس کی ساخت کے تئیں ان کا جو بھی رویہ رہا ہوگا وہ شعوری سے زیادہ لاشعوری ہوگا۔ کبیر سامنے کے لفظوں کو لڑی میں پروتے ہیں اور ایسی بظاہر سادہ لیکن گہری، شعری منطق سے کام لیتے ہیں کہ ’’کر جائے کام اپنا لیکن نظر نہ آئے‘‘ کے مصداق کبیر کی بات سیدھی دل میں اتر جاتی ہے۔ کبیر کی دیہاتی منطق میں کوئی اینچ پینچ نہیں، یہ چونکہ صدیوں کی دانش میں رچی بسی ہے، زبانوں پر چڑھ جاتی ہے اور جو چیز زبانوں پر چڑھ جاتی ہو اس میں ضرب المثل کی کیفیت پیدا ہو جانا قرین قیاس ہے۔ کچھ اور مثالیں دیکھیے،

    ماٹی کہے کمہار سے تو کا روندھے موئے

    اک دن ایسا ہوئےگا میں روندھوں گی توئے

    درلبھ مانس جنم ہے دیہہ نہ بارم بار

    تر وور جیوں پتا جھرے بہر نہ لاگے ڈار

    چلتی چکی دیکھ کے دیا کبیرا روئے

    دوے پٹ بھیتر آئے کے ثابت گیا نہ کوئے

    پات جھرنتا یوں کہے سن تروور بن رائے

    اب کے بچھڑے ناملیں دور پریں گے جائے

    ساتھی ہمرے چل گئے ہم بھی چالن ہار

    کاگد میں باقی رہے تاتے لاگی بار

    کبرا آپ ٹھگائیے اور نہ ٹھگیے کوئے

    آپ ٹھگا سکھ ہوت ہے اور ٹھگا دکھ ہوئے

    ہبتھی چڑھیے گیان کی سہج دلیچا ڈار

    سوان (کتا) روپ سنسار ہے بھوسن دے جھک مار

    باجن دیہو جنتری کل ککہی مت چھیڑ

    تجھے پرائی کیا پڑی اپنی آپ نبیڑ

    جیسا ان جل کھائیے تیسا ہی من ہوئے

    جیسا پانی پیجئے تیسی بانی ہوئے

    مانگن مرن سمان ہے مت کوئی مانگو بھیک

    مانگن تیں مرنا بھلا یہ ست گورو کی سیکھ

    پڑھ پڑھ کے پتھر بھئے لکھ لکھ بھئے جو اینٹ

    کبرا انتر پریم کی لاگی نہ چھینٹ

    کرتا تھا تو کیوں رہا اب کاہے پچھتائے

    بووے پیڑ ببول کا آم کہاں سے کھائے

    پوتھی پڑھ پڑھ جگ موا پنڈت ہوا نہ کوئے

    ایکے اچھر پریم کا پڑھے سو پنڈت ہوئے

    بڑا ہوا تو کیا ہوا جیسے پیڑ کھجور

    پنچھی کو چھایا نہیں پھل لاگے ات دور

    مورکھ کو سمجھاوتے گیان گانٹھ کو جائے

    کوئلہ ہوئے نہ اوجرو سومن صابن کھائے

    روکھا سوکھا کھائے کے ٹھنڈا پانی پیو

    دیکھ پرائی چوپڑی مت للچاوے جیو

    ان اشعار میں بہت سے ٹکڑے ایسے ہیں جو عام بول چال کا حصہ بن گئے ہیں اور صدیوں سے نہ صرف بطور اقوال Quote ہوتے ہیں بلکہ اظہار کی قوت بڑھانے کے لیے خود بخود زبان پر آ جاتے ہیں اور ان سے نکتہ آفرینی کا حق ادا ہو جاتا ہے۔ مثلاً،

    ماٹی کہے کمہار سے تو کا روندھے موئے

    تر وور جیوں پتا جھرے بہر نہ لاگے ڈار

    دوے پٹ بھیتر آئے کے ثابت گیا نہ کوئے

    اب کے بچھڑے نا ملیں دور پریں گے جائے

    سوان روپ سنسار ہے بھوسن وے جھک مار

    تجھے پرائی کیا پڑی اپنی آپ نبیڑ

    مانگن مرن سمان ہے؍ یا؍ مانگن تیں مرنا بھلا

    پڑھ پڑھ کے پتھر ہونا

    بووے پیڑ ببول کا آم کہاں سے کھائے

    ایکے اچھر پریم کا پڑھے سو پنڈت ہوئے

    بڑا ہوا تو کیا ہوا

    کوئلہ ہوئے نہ اوجرو سومن صابن کھائے

    دیکھ پرائی چوپڑی مت للچاوے جیو

    صاف ظاہر ہے کہ ان سب اظہار یوں میں یا تو تمام و کمال ضرب الامثال کی شان ہے، یا ایسی نکتہ آفرینی ہے جو زبان میں کثرت استعمال سے کہاوت، قول یا محاورہ بن جاتی ہے۔ ایسی مالیں کبیر کے کلام میں ان گنت ہیں اور پری شاعری میں دور دور تک بکھری ہوئی ہیں۔

    کبیر کے کلام کی اس خوبی کے بارے میں حیران کن سوال یہی ہے کہ کیا ایسے اجزا کو کبیر نے اپنے زمانے کی رائج بولیوں یا زبان سے لیا اور اپنی شاعری کی جادوئی تاثیر سے انہیں رائج کر دیا، یا یہ کہ کبیر سے پہلے تو زبان ان گڑھ اور خام تھی، یہ کبیر کی تخلیقیت کا اعجاز ہے کہ کبیر کے سوز دروں سے تپ کر خام زبان کندن بن گئی اور اس کا معمولی پن غیر معمولی پن میں یا اس کی سادگی پر کاری میں بدل گئی اور وہی ان گڑ ھ اور خام زبان محاورے اور روز مرہ میں رواں ہوکر ضرب الامثال کی طرح دمکنے لگی۔

    دیکھا جائے تو کبیر کی شاعری اس مفروضے کو توڑتی ہے کہ شاعری زبان سے ہے، زبان شاعری سے نہیں۔ کبیر سے پہلے یہ ان گڑھ ملو اں زبان یا کھڑی بولی شاعری کی زبان کہاں تھی؟ کبیر نے اسے اپنی مسیحا نفسی سے شعری درجے پر فائز کر دیا۔ کیا یہ حیران کن Paradox نہیں کہ’’کچی‘‘ زبان میں ’’پکا‘‘ یا بڑا شاعر پیدا ہو سکتا ہے؟ کیا زبان شاعری کو خلق کرتی ہے یا شاعری زبان کو خلق کرتی ہے؟ یعنی زبان مقدم ہے یا شاعری؟ یا یہ کہ زبان ہی تو شاعری ہے، زبان نہیں تو شاعری نہیں؟ کبیر کی شاعری کا بڑا کمال یہی ہے کہ وہ شعری زبان کے ان پہلے سے چلے آ رہے تمام مفروضوں کو القط کرتی ہے اور نہ صرف نئی امثالی اظہارات کو وضع کرتی ہے بلکہ انہیں کھڑی بولی کی Archeology کا ہمیشہ رہنے والا، جیتا جاگتا حصہ بھی بنا دیتی ہے۔

    یہ کبیر کے تخلیقی ذہن کا کرشمہ نہیں تو کیا ہے کہ اس نے اظہار کے ان گنت پیرایوں کو زبان میں نقش کر دیا اور ایک خام اور ناپخت زبان کو اپنی دل سوزی اور جادو بیانی سے لاکھوں کروڑوں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بنا کے عوامی چلن کی ایسی زبان بنا دیا جو صدیوں سے زندہ ہے اور آج ہندوستان تو کیا پورے برصغیر کی عوامی زندگی کا کوئی تصور اس زبان کے بغیر مکمل نہیں۔

    ایک آخری بات اور کبیر کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ اپنا سارا مسالا روز مرہ کی زندگی سے لیتے ہیں، یعنی کمہار، دھوبی، بنکر، لوہار وغیرہ پیشوں یا سامنے کی دیہاتی زندگی سے، جس سے ان کا واسطہ پڑتا تھا۔ ان کی تمثالیں، تشبیہیں، استعارے، امیجری سب کی سب گاؤں، دیہات، قصبات کی روز مرہ زندگی سے ہیں۔ ان کی شعری منطق کے سگنیفائر بھی انہیں سرچشموں اور جڑوں سے آتے ہیں۔ لیکن پدوں اور ساکھیوں میں جہاں ان کی زبان قدرے مختلف ہے، انہوں نے ویدوں اور اپنشدوں سے چلی آ رہی قدیمی انکاری جدلیات کو بھی برتا ہے۔

    سالک یا صوفی کا سب سے بڑا مسئلہ اس شعور کلی یا حقیقت مطلق کا شعور قائم کرنا یا اسے لفظوں میں بیان کرنا ہے جو صفات و تعینات سے ماورا ہے۔ حقیقت مطلق یا نراکار کی تعریف کرنا گویا اس کی وحدت کو دوئی میں بدلنا ہے جو اس کی شان کے منافی ہے۔ زبان میں دوئی لازم ہے کیونکہ زبان موضوع اور معروض کی تابع ہے اور حقیقت مطلق جو زبان سے وراءالورا ہے، زبان میں بیان نہیں ہو سکتی۔ اپنشدوں نے اس کے لیے انکار در انکار کی راہ اپنائی ہے جسے بعد میں بودھی مفکر ناگار جن نے شونیتا کے ذریعے مزید استحکام بخشا۔ روحانی تجربے کو بیان کرنے یا ذات مطلق کو توصیف کرنے کے لیے جوگیوں، سنتوں اور فقیروں نے اکثر Language of Unsaying کا سہارا لیا ہے۔ جسے Apophasis بھی کہا جاتا ہے۔

    کبیر اپنے پدوں میں اکثر اس Language of Unsaying کا سہارا لیتے ہیں۔ ایسے ٹکڑے شعری طور پر نہایت کیف آور اور پرتاثیر ہیں۔ ان میں زبان کی حدود اور جکڑ بندی کو ٹھکراتے ہوئے ایسی وحدت مطلق پر اصرار ہے جو زبان وبیان سے واراءلورا ہے اور جس کے حضور زبان بے بس محض ہے۔ میں صرف دو مثالیں پیش کرتا ہوں،

    سکھیاں واگھر سب سے نیارا جنہ پورن پُرکھ ہمارا

    جنہہ نہہ سکھ دُکھ سانچ جھوٹھ نہ پاپ نہ پُن پسارا

    نہہ دن رین چند نہہ سورج بنا جوت اجیارا

    نہہ تنہہ گیان دھیان نہہ جب تپ بید کتیب نہ بانی

    کرنی دھرنی رہنی سہنی یہ سب وہاں ہرانی

    گھر نہہ اگھر نہ باہر بھیتر پنڈ برہمنڈ کچھو ناہیں

    پانچ تتوگن تین نہیں تنہہ ساکھی سبد نہ تاہیں

    مول نہ پھول بیل نہیہ بیجا بنا برچھ پھل سوہے

    اوہم سوہم اردھ اردنہہ سواسا لیکھن کو ہے

    نہہ نرگن نہہ سرگن بھائی نہہ سوچھم استھول

    نہہ اچھر نہہ اوگت بھائی یہ سب جگ کے بھول

    جہاں پُرکھ تنہواں کچھ تاہیں کہہ کبیر ہم جانا

    ہمری سین لکھے جو کوئی پاوے پد نروانا

    (اے سہیلی وہ گھر سب سے نیارا ہے جہاں ہمارا پورن پُرکھ ہے

    وہاں سکھ دُکھ پاپ پُن سچ جھوٹ وغیرہ کچھ نہیں ہے

    نہ وہاں دن ہے نہ رات نہ چاند ہے نہ سورج، بغیر جوت اُجالا ہو رہا ہے

    وہاں گیان دھیان جب تپ، وید، قرآن یا کوئی بانی نہیں ہے

    وہاں کرنی دھرنی، رہنی سہنی سبھی گم ہو جاتی ہیں

    وہاں نہ مکان ہے نہ لامکانیت نہ وہاں اندر باہر، جسم جہاں وغیرہ کچھ نہیں

    وہاں پانچ عناصر نہیں ہیں نہ تین اوصاف، نہ وہاں دوہے ہیں نہ شبد

    وہاں جڑ نہیں ہے نہ پھول نہ بیل نہ بیج، وہاں بغیر پیڑ کے پھل ہیں

    نہ وہاں اوم ہے نہ سوہم، اونچا نیچا کچھ نہیں، بس سانس ہی ہے

    نہ وہ باوصف خدا ہے نہ بے وصف نہ وہ لطیف ہے نہ کثیف

    نہ وہ لافانی ہے نہ نافہمیدہ، یہ سب باتیں تو دنیا کے بھر م ہیں

    جہاں پُرکھ ہے وہاں کچھ نہیں ہے، کبیر کہتے ہیں کہ یہ ہم نے جانا ہے

    ہمارا اشارہ اگر کوئی سمجھے تو اسے نروان یعنی دنیا سے نجات مل جائے)

    نامیں دھرمی نانہہ ادھرمی نا میں جتی نہ کامی ہو

    نامیں کہتا نا میں سنتا نامیں سیوک سوامی ہو

    نا میں بندھا نامیں مکتا نا نربندھ سربنگی ہو

    ناکا ہوسے نیارا ہو نا کاہو کا سنگی ہو

    ناہم نرک لوک کو جاتے ناہم سرگ سدھار ے ہو

    سب ہی کرم ہمارا کیا ہم کرمن تے نیارے ہو

    یہ مت کوئی برلا بوجھے جو ست گورو ہو بیٹھے ہو

    مت کبیر کا ہوکو تھاپے مت کا ہوکو میٹے ہو

    (نہ میں دھرم والا ہوں نہ ادھرمی نہ پرہیزگار ہوں نہ شہوت زدہ

    نہ میں کہتا ہوں نہ سنتا ہوں نہ مالک ہوں نہ خدمت گار

    نہ میں بندھا ہوں نہ آزاد ہوں نہ مکمل رہائی یافتہ

    میں نہ کسی سے علاحدہ ہوں نہ کسی کے ساتھ ہوں

    نہ ہم نرک جاتے ہیں نہ سورگ کو جاتے ہیں

    سب کرم ہمارے کیے ہوئے ہیں پھر بھی ہم ان سے علاحدہ ہیں یعنی ان کے پھل سے بے نیاز ہیں

    یہ بات کوئی خاص آدمی ہی سمجھ سکتا ہے جو سچا مرشد ہو

    اے کبیر! نہ کسی اصول کو قائم کر اور نہ ہی کسی کی تردید کر)

    آحر میں اس بے مثل پد کا ذکر بھی ضروری ہے جس میں ذات مطلق کا نہیں بلکہ ذات انسانی (ذات انفرادی) یا خودی کا ذکر ہے جو اول و آخر فنا و بےثبات ہے۔ یہ گویا سکہ کا دوسرا رخ ہے۔ اس میں جو درد مندی، دل سوزی، محویت، گداز اور ترفع ہے وہ پڑھنے اور محسوس کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ عالمی ادب میں بھی اس موضوع پر اس طرح کا بے پناہ اظہار کم ہوگا۔ یہاں کبیر نے بالکل ایک اچھوتا پیرایہ اختیار کیا ہے۔ ’’نکاریت‘‘ کو یہاں ہاتھ میں نہیں لگایا۔ کاتنے اور بننے کی اصطلاحیں تو کبیر کے یہاں جہاں تہاں ہیں، لیکن اس پد میں تمام وکمال انہیں کو برتا ہے اور بنکروں کے تانے بانے، کپڑے اور کرگھے کی تمثالوں ہی کے ذریعے استعاراتی طور پر ساری بات کچھ اس طرح کہی ہے کہ چند مصرعوں کا یہ متن تحیّر کا طلسم کدہ بن گیا ہے،

    جھینی جھینی بینی چدریا

    کاہے کے تانا کاہے کے بھرنی کون تار سے بینی چدریا

    انگلا پنگلا تانا بھرنی سکھمن تار سے بینی چدریا

    آٹھ کنول دل چرخہ ڈولے پانچ تتّ گن تینی چدریا

    سائیں کو سیت ماس دس لاگے ٹھوک ٹھوک کے بینی چدریا

    سو چادر سرنرمُنی اوڑھے اوڑھ کے میلی کینی چدریا

    داس کبیر جتن سے اوڑھی جیں کی تیوں دھر دینی چدریا

    (بہت نازک چادر بنی گئی ہے

    اس چادر میں تانا بانا کیا ہے اور کس تار سے یہ بُنی گئی ہے

    اڑا اور پنگلا ناڑیوں کا تانا بانا ہے اور سوشومنا ناڑی کے تار سے بنی گئی ہے

    آٹھ پنکھڑیوں کے کمل کا چرخا گھومتا ہے، اس چادر میں پانچ عنصر اور تین گن ہیں

    سائیں کو اسے تیار کرنے میں دس مہینے لگے، خوب ٹھونک ٹھاک کر چادر بُنی ہے

    اس چادر کو دیوتاؤں، منیوں اور انسانوں نے پہنا اور پہن کر گندا کر دیا

    داس کبیر نے اسے سنبھال کے اوڑھا اور پھر بعد میں جیوں کا تیوں واپس دھر دیا)

    کبیر کی شاعری میں جو قوت شفا ہے اس سے شاید ہی کسی کو انکار ہو۔ کبیر نے معاشرے کی مسیحائی کی لیکن مسیحائی کا یہ عمل دوہرا ہے۔ یعنی بالواسطہ طور پر ہی سہی کبیر نے ’’ہندوستانی‘‘ زبان کی بھی مسیحائی کی اور اسے ہمیشہ کے لیے قائم کر دیا۔

    مأخذ:

    جدیدیت کے بعد (Pg. 213)

    • مصنف: گوپی چند نارنگ
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے