Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ظفر اقبال کی ’’لا تنقید‘‘ عملی تنقید

اقتدار جاوید

ظفر اقبال کی ’’لا تنقید‘‘ عملی تنقید

اقتدار جاوید

MORE BYاقتدار جاوید

    ’’لا تنقید‘‘ تنقید کے اختتام، نظریے کے انہدام اور مرگ تاریخ کے مقابلے میں ایک الگ اسلوب کی تنقید کی ابتداء، نظریئے کے احیاء اور تاریخ کی حیاتِ نو کی بات کرتی ہے۔ ’’لا تنقید‘‘ اردو تنقید، نظم، نثری نظم، افسانہ، ناول اور منجملہ ان اصناف ادب کے اسلوب، تکنیک، ہیت، شعریات اور روایت کا محاکمہ کرتی ہے۔ ’’لا تنقید‘‘ اردو ادب کے متحرک، ہمہ دم متغیر، منظر نامے کو ایک لمحے میں گرفت لیتی ہے اور اس پر اپنی دیانت کی مہر ثبت کرتی ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ منظر نامہ پچھلی نصف صدی پر مشتمل ہے۔ ’’لا تنقید‘‘ کا خالق اسے خلق کرکے اس سے الگ نہیں ہوگیا کہ یہ اس کے نظریے کی موت ہے۔ وہ اپنے ایک ایک حرف کا محافظ، ایک ایک سطر کا پابند اور ایک ایک استدلال کا جواب دہ ہے۔ یہ نظری تنقید بھی ہے اور اطلاق کی ایک مثال بھی۔ اردو تنقید بالعموم مغربی مصنفین نے Projects کی تفہیم، تشریح اور ترجمے تک محدود ہے اور مرحومین ادباء کے کام کی ساختیاتی انداز میں توضیحات پر مشتمل ہے۔ ’’لا تنقید‘‘ اس کے برعکس اس رواں عہد نامے سے مکالمہ کرتی ہے ہماری تنقید ییروئ مغربی کی ہی مثال ہے (اگرچہ یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں) سو ہمارا ناقد اپنے فہم، توفیق اور استطاعت تک ہی اس کی تفہیم کرتا اور کرواتا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے (دریدا 151 وفات 2004ء) کے کل Projects کی تعداد تینتالیس ہے ان میں سے صرف تین کی تفہیم اور توضیح کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے کل مطالعہ کے لئے ابھی کئی عشرے درکار ہیں اور وہ اہلِ علم جو اس کارِ خاص کے لیے قدرت کی طرف سے منتخب کر لئے گئے ہیں اردو ادب ان کا احسان مند ہے کہ مغرب کا مطالعہ ان کے ذریعے آسان ہوگیا ہے اگرچہ یہ سلسلہ مقدار اور معیار ہر دو لحاظ سے انتہائی کم ہے۔

    ثانیاً ’’لا تنقید‘‘ کا گھیرا بڑا ہے اور اس کو ایک نشست میں سمیٹنا ممکن بھی نہیں ہے۔ زیادہ مناسب ہے کہ میں اسے اپنی پہلی محبت نظم کے حوالے سے دیکھوں کہ پہلی نظر میں ہی یہ دیکھنا اچھا لگتا ہے کہ ایک غزل گو نظم کے اسلوب، بنت، ہیت، اس کے امکانات اور اس کے ماضی، حال اور مستقبل اور اس کے امکانات کس طرح دیکھتا ہے۔ دوئم ’’لا تنقید‘‘ کا نظم کے بارے میں خزانہ ان ناقدین کے کام سے زیادہ ہے جن کا سروکار اوّل و آخر نظم ہے۔ نظم آزاد اور بالخصوص جب جدید نظم کی بات کی جاتی ہے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس نظم سے روایت پسندی کو زیادہ رغبت نہیں اور جدید اردو نظم بھی بذاتِ خود ذرا فاصلے پر ہی رہنے کی سعی کرتی ہے۔ وہ ایسے کہ میرا جیؔ کے ساتھ فیض کا ذکر ذرا کم جچتا ہے۔ البتہ علی سردار جعفریؔ، جوشؔ، جالبؔ اور مجروح سلطان پوریؔ کے ساتھ زیادہ اچھا لگتا ہے کہ جدید اردو نظم مذکورہ بالا نظم نگاروں سے الگ رہنا چاہتی ہے۔ میرا جیؔ، راشدؔ، مجید امجدؔ نظم کے ایک نئے سکول کے بانی مبانی ہیں اور وہ نظم نگار جواب جدید نظم لکھنے کے داعی ہیں اوّل الذّکر گروہ سے دو گز کی دوری میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں اور جب جدید نظم کی بات ہوتی ہے تو موخر الذّکر گروہ کا ہی ذکر مقصود ہوتا ہے۔ ’’لا تنقید’‘ اس تقسیم کو روا نہیں رکھتی البتہ پہلے کووہ پاپولر شاعری اور پاپولر شاعر کے زمرے میں رکھتی ہے۔ ورنہ جب نظم کی بات ہوتی ہے تو ’’لا تنقید‘‘ ان سب کوایک گروپ میں رکھتی ہے جو قطعاً درست نہیں۔ یہ دو متوازی دھارے ہیں اور الگ الگ ہیں۔ اول الذّکر گروہ کے لیے نظم نگار اور موخّر الذکر کے لیے جدید نظم نگار کہنا زیادہ مناسب ہے۔ ان سب کو اکٹھا دیکھنا قرین انصاف نہیں البتہ نظم میں لسانی تشکیلات کے مویدین جدید اردو نظم ہی سے متعلق ہیں اور جدیدیت سے منسلک نظم نگار بھی مقدّم الذکر گروہ ہی سے وابستہ ہیں۔ (شمس الرحمن فاروقی وغیرہ)

    تخلیق اور تخلیق کار کا تخلیقی عمل تنقید اور تنقید نگار کے کام سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ تنقید تخلیق کے عقب میں ساری صورت حال دیکھنے کی متمنّی ہے اور کئی اختراعات بروئے کار لا کر اپنا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ ساختیات اور ساخت شکنی تک آتے آتے تخلیق کو سمجھنے کے لئے کئی تھیوریز نے اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے کام کیا۔ تخلیق کار کا کام وہبی اور ناقد کا اکتسابی ہے۔ یہ دو الگ مدار ہیں۔ تخلیق اچانک چشمہ ابلنے کا نام ہے اور تنقید اس کے پیچھے زمین کی تہوں کی لرزش، زمین کی خاصیت، موسم اور کئی دوسری توجیہات / محرکات کا جائزہ لیتی ہے۔ سوانحی تاریخی تنقید، روسی ہیت پسندی، نئی تنقید، ساختیاتی اور ساخت شکنی وہ زاویہ ہائے نگاہ یا سکول آف تھاٹ ہیں جن کی اختراعات سے تخلیق / نظم کو سمجھنے کے سعی کی جاتی ہے۔ ’’لا تنقید‘‘ کا مصنّف بیسویں صدی کی تنقید پر گہری نظر کا دعویٰ نہ بھی کرے تب بھی یہ احساس جابجا ملتا ہے کہ مصنّف مغربی مصنّفین کو زیادہ نہیں تو کم از کم معروف تنقید نگاروں سے زیادہ جانتا ہے۔ وہ ایک پڑھا لکھا آدمی ہے اور اس کا مغرب کی شاعری کا مطالعہ بھی کچھ کم نہیں ہے مگر وہاں زاویہ ہائے نگاہ کو مسترد نہ کرتے ہوئے بھی اپنے نقطہ نظر سے جدید اردو نظم کو دیکھتا، سمجھتا، پڑھتا اور اس پر رائے زن ہوتا ہے۔ ویسے مابعد جدیدیت کسی عملی، تنقید کی مکلف بھی نہیں کہ یہ ادبی تھیوری کسی بڑے شکار کی متمنی ہے اور طاقت کی زبان میں بات کرتی ہے اور کسی ضابطے یا اخلاقی قدر کی پابند نہیں۔ مابعد جدیدیت نہ کسی نظریے کی پابند ہے اور نہ اخلاقی حد یا قدر کی۔ مگر وہ اسے ’’سچ کا سفر‘‘ اور ’’سچ کی تلاش‘‘ کا نام دیتے ہیں مگر خود کسی سچائی کے قائل نہیں۔ ’’لا تنقید‘‘ اس کے مقابلے سچ کا سفر مشرقی شعریات کی مدد سے طے کرتی ہے۔ مغرب اورمشرق دونوں سچ کے ہی متلاشی ہیں۔

    یہ جو ہم کبھی کبھی سوچتے ہیں رات کو

    رات کیا سمجھ سکے ان معاملات کو

    ’’لا تنقید‘‘ اپنے نام کے برعکس باقاعدہ ایک ضابطے کی پابند ہے۔ مابعد جدیدیت کے مقابلے میں یہ تاریخ کا احترام کرتی ہے۔ ویسے جو اُس دیار میں نت نئی تھیوریاں جنم لے رہی ہیں ان سب کے پیچھے ’’اصل‘‘ تک رسائی ہی مدعّا ہے جس کے پیچھے مغرب کی بے چین روح بھاگ رہی ہے اور جب وہ نظریئے کے انہدام یا تاریخ کا موت کا اعلان کرتے ہیں تو لامحالہ اس کا مقصد ان کا اتنے نظریۂ لا نظریہ اور اپنی تاریخ کی برتری ہے۔ ’’لا تنقید‘‘ کا مصنف پچھلے ساٹھ سال سے اردو ادب کی تحریکات، رجحانات اور اسلوبیات کا نہ صرف عینی شاہد ہے بلکہ وہ خود ان میں ایک فعال کردار ہے۔ اور اسے یہ حو صلہ بھی ہے کہ وہ مغرب کی تنقید اور تنقیدی نظریات کا مقابلے میں کہہ سکے۔

    ’’کسی تحریر سے مصنف کو منہا کرنے والی بات کو میں تسلیم نہیں کرتا۔ بے شک قاری بھی اپنی اہمیت رکھتا ہے بلکہ دونوں مل کر ہی ایک ادب پارے کے گواہ بنتے ہیں لیکن ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایک وقت مصنّف تو موجود ہو لیکن قاری ناموجود ہواور قاری جب دستیاب ہو تو تخلیق پارے کے معنی ہی یکسر تبدیل ہوچکے ہوں کہ اس کی گنجائش تخلیق کار نے پہلے رکھی ہوتی ہے کہ فن پارے کے معانی ایک جگہ پر ٹھہرنے والے ہوتے ہی نہیں حتیٰ کہ یہ مصنف کے طے کردہ معانی سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔‘‘

    (مضمون ’’شاعری کے شمار و قطار‘‘)

    یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہمارے یہاں کچھ احباب اور ادیب مغربی تنقید جدید کے قائل نہیں اور اسے بنظر استہزأ دیکھتے ہیں تو اس پر جزبُز ہونے کی بھی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ Milan Kunderay Froncis Ponge, George Herrert اور Milosz Czeslaw جیسے نابغے بھی اسے چنداں اہمیت نہیں دیتے۔

    ’’لا تنقید‘‘ کسی صنف کی مخالف نہیں اس ضمن میں پھیلایا تاثر قطعی نادرست ہے نہ وہ غزل کی بے جا طرفدار ہے اور نہ ہی نظم کی اللہ واسطے کی دشمن۔ جہاں کہیں سے اسے حسن نظرآتا ہے اس کی تعریف و توصیف کا پورا حق ادا کیا جاتا ہے۔ البتہ نظم کا ’’بے تاثیری کا شکار ہونا‘‘ یا ’’یرقان آثار صنف سخن‘‘ اور ’’آج جو نظم لکھی جا رہی ہے وہ کم و بیش روایتی ہی زبان میں ہے اور اگر یہ نظم نئی بھی محسوس ہوتی ہے تو زبان کے حوالے سے نہیں بلکہ اپنے موضوعات اور شاعر کی انفرادیت کی وجہ سے‘‘ ورنہ اس کا کنٹینٹ اور اسلوب میرا جی دور سے آگے نہیں بڑھا، اتنا غلط بھی نہیں ہے۔ غزل کو دیکھیں تو اس کے اسلوب میں ایک واضح فرق ہے بلکہ ’’لا تنقید‘‘ کے الفاظ میں غزل اپنے آپ کودس سال بعد اپ ڈیٹ کرتی رہتی ہے اور جو غزل، میرا جیؔ کے زمانے میں غزل گو کہہ رہے تھے، اس میں بنیادی اور جوہری تبدیلی واقع ہوچکی ہے اور یہ لفظیات اور اسلوب دونوں سطحوں پر ہوا ہے مگر سچی بات ہے نظم وہی ہے جو میرا جیؔ کے زمانے سے کہی جا رہی ہے یا لکھی جا رہی ہے۔ لاشعر (ویسے لاتنقید اسی اصطلاح) سے ماخوذ لگتی ہے۔ افتخارؔ جالب نے نظم کی ساخت ظاہر سے تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی اور ایک کھیپ ان کے ساتھ چلی بھی مگر وہ زبان کے ظاہر کی توڑ پھوڑ کرسکے نظم کو تبدیل نہ کرسکے لہٰذا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ نیا لفظ نظم کو تبدیل کرسکتا ہے۔ کہ لفظ کبھی کلیشے نہیں بنتا ترکیب بنتی ہے۔ لفظ نہیں، اس کا استعمال اور اسلوب زبان تبدیل کرتی ہے جس کی عمدہ مثال اقبال ہے۔

    اسی لفظ کے ذریعے الفاظ کی نئی تشکیل کے بغیر151 لہٰذا لفظ کی بجائے اسلوب کی تشکیل سازی زیادہ موثر قوت ہے۔ اردو ادب کی بانگ درا، شب رفتہ، آب رواں، لا236 انسان، جیسی کتب نے اردو ادب کوایک نئی زبان دی ہے جو ہر ایک دوسری زبان سے مختلف ہے اور میرا جیؔ کے بعد نظم کی قلب ماہیت کے لیے ایک پورے اقبال کی ضرورت ہے کیونکہ دوسرے صنف کے نظم نگار اور موجودہ عہد کے کسی نظم نگارکو یہ توفیق ارزانی نہیں کہ وہ زبان تبدیل کرنے پر قادر ہوسکے۔

    مجموعی طور پر ’’لا تنقید‘‘ نے اردو تنقیدکو ایک نئی جہت دی ہے جس کی زبان رواں دواں اور زندہ ہے، جس کا اسلوب مستعار نہیں خالص اپنا ہے۔ یہ ایک ادبی دستاویز ہے اس سے آپ اختلاف تو کرسکتے ہیں اس کی ادبی دیانت کو نہیں جھٹلا سکتے کہ اس کا مصنف اس مقام تک کسی ادبی دھڑے بازی کے بغیر پہنچا ہے اور وہ اپنے موقف کا آدمی ہے۔ ’’فیض کی ٹھس شاعری‘‘ کو نقاد بھی آفتاب احمد خاں کی شکل میں ٹھس ہی ملا ہے، شوکت الفاظ کی مایوس کن مثال جوشؔ ہے، مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ۔ مجرا شاعری، منیر نیازیؔ کی نظم بکتی ہے مگر غزل کے ساتھ، فیض بہت بڑا آڑھتی ہے، جیسے تخلیقی جملے ’’لا تنقید‘‘ ہی میں ملتے ہیں کہ ظفر اقبال کا کہنا ہے۔

    ’’ساری اردو دنیا بھی میرے مخالف ہو جائے جس بات کو میں صحیح سمجھتا ہوں ضرور لکھوں گا۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے