Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زاہد ڈار

شمیم حنفی

زاہد ڈار

شمیم حنفی

MORE BYشمیم حنفی

    (کہت کبیر سنو بھئی مادھو)

    ان دنوں شام ڈھلنے سے پہلے ہر روز میں جو راستہ پکڑتا تھا وہ دریا کی طرف جاتا تھا۔ دریا کے کنارے سیتا کنڈ تھا، ایک دھرم شالہ، مندر اور کچھ مٹھ۔ سنا ہے کہ رام چرت مانس میں تلسی داس نے جو رام کیوٹ سمواد نظم کیا ہے اس کا محل وقوع یہی تھا:

    پات بھری سہری سکل ست بارے بارے

    کیوٹ کی جات کچھو بیدنا پڑھایمہوں جو

    گوتم کی دھرنی جیوں ترنی ترے گی موری

    دین بتہین کیسے دوسری گڑھائیہوں جو

    دریا کے دوسرے کنارے پر پانچویں پیرن کی بستی تھی۔ پانچ درویشوں کے مزار سے روشن۔ سیتا کنڈ سے ملحق ٹیلے کے دامن میں کربلا، جہاں دسویں محرم کو تعزیے دفنائے جاتے تھے۔

    لگ بھگ ہر روز ایسا ہوتا کہ شام کواس مندر کی گھنٹیاں خاموش ہونے کے تھوڑی دیر بعد ایک سادھو کبیر داس کے بھجن الاپتا سنائی دیتا تھا ؎ کہت کبیر سنو بھئی سادھو۔ انہیں دنوں، شاید ’سات رنگ‘ میں مادھو سے ملاقات ہوئی تھی۔

    جب بارش برسی لوگ بہت ہی روئے

    ہم مندر میں جاسوئے

    اس سادھو کو دیکھتے ہی مادھو کا خیال آتا۔ انسانی تجربے میں قافیے کبھی کبھار عجب انداز سے مل جاتے ہیں۔ مادھو کے بارے میں کچھ کریدسی ہوئی۔ بارے انتظار حسین کا مضمون ’’پوچھتے ہیں وہ کہ مادھو کون ہے‘‘ نظر سے گزرا مگر مادھو جوں کا توں بھید بنارہا۔ کریدتو باقی رہی لیکن اپنی الجھن کاجواب میں نے اس بات میں ڈھونڈ لیا کہ کبیر کے سادھو کا قافیہ مادھو سے ملتا ہے۔ قربت کے لیے اتنی شناسائی کافی ہے۔ یوں بھی کبیر کے ساتھ اپنا معاملہ عشق کا تھا۔ اس پھیر میں بنارس کے کئی چکر لگائے تھے اور مگہر کی زیارت بھی کر آیا تھا جہاں کبیر کی سمادھی اور مزار ہے۔

    نہ جانے کیسے دل میں یہ بات آئی کہ کبیرداس کا سادھو ہی مادھو تک رسائی اور اس سے جان پہچان کا وسیلہ ہے۔

    اس کے بہت دنوں بعد جب زاہد ڈار سے تعارف ہوا اس وقت تک مادھو کا چولا بدل چکا تھا۔ یا شاید میں جلدی میں غلط کہہ گیا۔ چولا نہیں صرف نام بدلا تھا۔ ’درد کاشہر‘ کی پہلی نظم زاہد ڈار نے اس طرح شروع کی تھی کہ،

    رحم مادر سے نکلنا مرا بے سود ہوا

    آج بھی قید ہوں میں

    یعنی کہ وہی پرانا قصہ، بھانت بھانت کے بندھنوں کا اور نجات کی ایک مستقل تمنا کا۔

    چلتی چاکی دیکھ کے دیا کبیرا روئے

    دوئی پاٹن کے بیچ ما با کی بچا نہ کوئے

    میرا خیال ہے کہ زاہد ڈار کی شاعری میں مرکزی تجربے کی حیثیت بندھنوں کے اسی احساس کو حاصل ہے۔ دور دور تک پھیلا ہوا چھوٹی بڑی قیدوں کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ جہاں کوئی شے، کوئی مظہر، کوئی جذبہ آزاد نہیں ہے۔ اپنی ہستی سے ارض و سماکی کائنات تک جدھر نگاہ جاتی ہے اپنے آپ کو محصور پاتی ہے۔ کبیر کے یہاں اس حصار کاسلسلہ جیتی جاگتی دنیا سے شروع ہوتا ہے اور بھیدوں بھری اس ذات تک جاتا ہے جو دکھائی نہیں دیتی مگر انہیں ہر آن اپنے جبر کا احساس دلاتی ہے۔ دنیا کے بندھن، سماج کے بندھن، عناصر اور انا کے بندھن سے ٹکراتی ہے او رلوٹ جاتی ہے، سوائے روشنی کی اس لہر کے جس کا مخزن پریم کے ڈھائی اکشر ہیں۔ شاید اسی لیے کبیر کی پوری شاعری کا خمیر انکار، احتجاج اورایک ملال آمیز طنز کی پرپیچ باطنی کیفیت سے شرابور ہے۔ ان کی ہر واردات کے ایک سرے پر جسم ہے، دوسرے سرے پر روح۔ مستقل دونوں جکڑے ہوئے ہیں اور دونوں اپنے مقدر پر مشتعل ہیں۔ یہی ایک ایسا تجربہ ہے جو صدیوں کی تہذیبی تاریخ کے سفر میں اپنی مسلسل تکرار کے باوجود اب تک باسی نہیں ہوا۔ سو کبیر بھی کئی جگوں کی دھول میں لپٹنے کے باوجود پرانے نہیں ہوتے۔ ان کے جادو کی آنچ مشرق کے نیم خوابیدہ دشت و دیار سے لے کرمغرب کی نگہہ بیدار تک سبھی محسوس کرتے ہیں۔ ایذراپاونڈ نے کبیر سے رجوع محض فیشن کی خاطر نہیں کیا تھا۔

    زاہد ڈار کے قصے میں کبیر کا یہ تذکرہ دورپاس کی بعض نسبتوں کے علاوہ کچھ اس وجہ سے بھی ہے کہ میں اپنی ایک نفسیاتی مجبوری پر قابو نہیں پاسکا ہوں۔ یہ مجبوری مسلسل ساتھ رہتی ہے۔ مادھو مجھے بار بار یاد آتا ہے، چنانچہ کبیر داس کا سادھو بھی، اور ایسا لگتا ہے کہ زاہد ڈار کے درد کا شہر جس گھڑی آباد ہوا، زاہد ڈار کی کہانی اس سے پہلے کی کئی صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ عنوان چاہے بدلتے جائیں، یہ کہانی بدلنے میں نہیں آتی۔ زاہد ڈار نے توصنعتی کمال اور سائنسی ترقی کے عہد کا ادراک بھی اسی پرانے محاورے کے مطابق کیا ہے۔

    گہرے شہروں میں رہنے سے عظمت کااحساس مٹا

    لمبے حملوں پر جانے کا قدرت سے ٹکرانے کا ارمان مٹا

    (نئے شہر)

    جس دن میرے دیس کی ہلکی تیز ہوائیں

    انسانوں کے خوں سے بھرجائیں گی

    جس دن کھیتوں کی خاموشی

    بوجھل دھات کی آوازوں میں کھوجائے گی

    اس دن سورج بجھ جائے گا

    جیون کی پگڈنڈی اس دن سوجائے گی

    (زوال کا دن)

    آنکھیں کھول نہ اندھا بن

    تن اور من ہے تیرا دھن

    تارے چھوڑ، زمیں کو دیکھ

    اس کے ساتھ بندھے ہیں لیکھ

    محنت کر اور روٹی کھا

    آجا بھائی واپس آ

    *

    لرمنتوف اور دوستوں فسکی بود لیئر اور استاں دال

    ایک سے ایک وبال

    گوتم بدھ اور افلاطون

    محض جنون

    نانک دیو اور بلھے شاہ

    سیدھی راہ

    (واپسی)

    یہ شاعری ہے کہ ساحری۔ زمین سے آسمان تک، موجودات سے مابعد الطبیعیات تک، ہر تجربہ اتنا بے ساختہ، بے ریا اور سادہ کا رہے جیسے زاہد ڈار شعر نہیں کہہ رہا ہے، سانس لے رہا ہے۔ ہر سانس کے ساتھ سُروں کی ایک مالا سی بنتی جاتی ہے۔ اس میں چھپی ہوئی ذہانت نہ تواکتسابی ہے نہ مصنوعی۔ بچہ جیسے چھوٹے سے کھلونے میں دنیا کا تماشہ سمیٹ لیتا ہے اسی طرح زاہد ڈار بھی گہری سے گہری بات بڑے بھولپن کے ساتھ کہتا ہے۔ وہ چوکنا پن، طراری، کاٹ اور پیچ، زبان و بیان کی وہ نفاست اور تراش خراش جو اردو کو فارسی سے ورثے میں ملی تھی، زاہد ڈار کی اس دنیا میں اس کا گزر نہیں۔ تجربے کو سوچنے اور محسوس کرنے میں جو فرق ہے، یعنی کہ وہی کبیر داس والی روش، زاہد ڈار منہ ہی منہ میں کچھ کہتا، سر جھکائے، اسی راہ پر جاتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ اپنی روایت اور زبان کو اندر سے بدلنے کا عمل ہے۔ اور اس عمل میں حواس کی جو مستقل سرگرمی اور تجربے کی جو سچائی نظر آتی ہے وہ اسی لیے ہے کہ زاہد ڈار اپنے تخلیقی عمل میں اوپر سے کوئی کھوٹ شامل نہیں ہونے دیتا۔ ہر تجربے تک رسائی اس کی اپنی مرضی کے مطابق اور مزاج کے موافق ہوتی ہے۔

    زاہد ڈار ہمارے زمانے کے ان مٹھی بھر شاعروں میں سے ہے جو زندگی سے بے خبری کی قیمت پر شاعری اور فن کا سودا نہیں کرتے۔ یوں کہنا چاہیے کہ اس کی شاعری اس کی اپنی زندگی کا مضافاتی علاقہ ہے۔ سرحدیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی، جب جس وقت جی چاہا آن کی آن میں ادھر سے ادھر چلے گئے۔ اس طرح کی منتقلی میں دیر اسے لگتی ہے جو ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے سے پہلے پورے تام جھام اور اہتمام کا عادی ہو، لباس تبدیل کرنا، خوشبوئیں لگانا، آئینے سے ہم کلام ہونا، جسمانی سے زیادہ ذہنی عمل ہے۔ ٹھیک ہے، کہیں جانے کے لیے ساز، سامان اور سواری کی ضرورت پڑتی ہے مگر ایک سفر وہ بھی تو ہوتا ہے جس کی تمام منزلیں بیٹھے بیٹھے سر کرلی جاتی ہیں۔

    تم تو فراق جی بیٹھے بیٹھے دور دور ہو آؤ ہو

    انتظار حسین کو اوبلو موف کے آئینے میں زاہد ڈار کی تصویر دکھائی دی تھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ گنچردف کا یہ ناول پہلی ہی نظر میں مجھے بھی بہت بھایا تھا۔ اس لیے نہیں کہ یہاں اوبلو موف کے بہانے زاہد ڈار سے ملاقات ہوئی تھی، بلکہ اس لیے کہ اوبلو موف اپنی عزلت گزینی، تنہائی اور نکمے پن کے باوجود مجھے بہت بھرا پُرا، بہت مصروف اور باوقار دکھائی دیا۔ دنیا کو جاننے اور سمجھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔ اسے برتنے کے لیے اس تک جانا یا اس کے کاروبار میں ہاتھ ڈالناناگزیر تو نہیں۔ مجھے چاق و چوبند، سرگرم اور باعمل لوگ برے نہیں لگتے۔ ان کی روزمرہ زندگی کا نظم و ضبط مجھے مرعوب کرتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو زندگی کا ایک مختلف طور اپناتے ہیں، جو کاروباری زندگی کے انتشار و ابتری میں بھی اپنے آپ کو بے قابو نہیں ہونے دیتے، جو داخلی سطح پر خود کو مطمئن اور منظم رکھتے ہیں، ان کی مدھم، ملائم ہستی میں مجھے ایک انوکھی کشش کااحساس ہوتا ہے۔ دوکناروں سے لگا ہوا، کناروں میں قید مگر کناروں پر برپا ہاؤ ہو کے طوفان سے بے نیاز، چپ چاپ بہتا ہوا دریا ایک الگ تجربہ ہے۔ وقت میں محصور بھی اور اس کی بندشوں سے باہر بھی۔ اس تجربے کی صورت ارضی ہی نہیں ایک اسرار آمیز روحانی واقعے کی بھی ہوتی ہے۔

    سنا ہے کہ زاہد ڈار بھی بہت مصروف آدمی ہے۔ سو مصروفیتوں کی ایک مصروفیت تو اس کی وہ انتہائی نجی واردات ہے جس نے اسے پڑھنے لکھنے، دکھ سہنے اور سوچتے رہنے کے مستقل کام پر لگا رکھا ہے۔ ’محبت اور مایوسی کی نظمیں‘ زاہد ڈار کے اشعار کی دوسری کتاب ہی نہیں اس کے حواس کی ڈائری بھی ہے۔ اس ڈائری کے صفحوں پر تاریخیں یوں نہیں ہیں کہ ان میں بند تجربہ شخصی ہوتے ہوئے بھی آفاقی اور عصری ہونے کے باوجود لازوال ہے۔ یہ کتاب مجھے کوئی دوبرس پہلے موصول ہوئی تھی۔ جب سے اب تک وقفے وقفے سے کئی بار میں نے یہ کتاب اٹھائی ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ بس ایک نظم یانظم کے چند مصرعے پڑھے اورکتاب پرے کھسکادی۔ وہ کتابیں جو تفریح، تعلیم یا وقت گزاری کا سا دھن نہ ہوں ان کے ساتھ اپنا یہی قصہ چلتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کسی بیرونی غایت یا جبر کے تحت دماغ کو تو راہ پرلگایا جاسکتاہے، مگر حواس اتنی سہولت سے پکڑ میں نہیں آتے۔ محبت اور مایوسی کی ان نظموں کا بھی یہی حال ہے۔ اگر ان کے معانی کی محض دریافت مقصود ہو تو، زاہد ڈار کیا میر و غالب کے کلیات سے بھی نمٹا جاسکتا ہے۔ لیکن اس سے نہ تو شاعری کا تقاضا پورا ہوتا ہے نہ اپنے مطالعے کا مقصد۔ یہاں معاملہ نجی تجربوں اور ایک شخصی واردات کو محسوس کرنے کا ہے۔ یہی احساس بالآخر پڑھنے والے کو ان تجربوں کے اسرار تک لے جاتا ہے۔ زاہد ڈار کی یہ نظمیں پڑھتے وقت مجھے ایسا لگا کہ گویا افسردگی اور ملال کے مختلف موسم ہیں جن سے ہمارے احساسات گزر رہے ہیں۔ یہ سفرکب اچانک ایک نئے ادراک یا جانے پہچانے تجربوں کی ایک نئی بصیرت تک جاپہنچتا ہے، ان نظموں کو پڑھتے وقت اس بات کا خیال بھی نہیں آتا۔ زاہد ڈار اپنے تجربوں کی روداد سناتے سناتے یکایک بیچ سے غائب ہوجاتا ہے۔ ان نظموں میں کسی نہ کسی مقام پر اظہار کی کوئی ایسی تصویر سامنے آجاتی ہے جو رنگوں کی بارش کے بجائے سچائی کی کسی نئی لہر، کسی نو دریافت مفہوم کی ترسیل کرتی ہے۔ اس نقطے پر نظم کے بنیادی محرک کی حیثیت رکھنے والے تجربے کی روح کا سامنا ہوتا ہے اور پڑھنے والا نظم کے شاعر کی طرف سے آنکھیں بند کرکے اب ایک نئے ذہنی مسئلے میں الجھ جاتا ہے۔ صوفی سنت کہانیاں سناتے سناتے کبھی بیچ میں، کبھی آخر میں ایسی کوئی بات کہہ جاتے تھے جو برسوں بلکہ صدیوں کے تجربے کا نچوڑ یا دانش کا جوہر ہوتی تھی۔ تب پتاچلتا تھاکہ کہانی کی حیثیت تو یہاں بس ایک بہانے کی تھی۔

    مجھے زاہد ڈار کے ایک دوست (غالب احمد) کی اس رائے سے جس کا حوالہ یہ نظمیں ہیں اتفاق نہیں کہ زاہد ڈار نے ’’شعوری یا نفسیاتی سطح‘‘ پر وجودیت کی نفی کے ساتھ اپنے شعری وجدان کا سفر شروع کیا تھا۔ وجودیت کے و ہ معنی جو اس رائے سے ظاہر ہوتے ہیں، اس تک پہنچنے میں تو بڑے سے بڑا غالی وجودی بھی ہانپ جائے گا۔ وجودی تجربہ گردوپیش کی زندگی اور دوسرے افراد کے سیاق میں ہی اپنی تشکیل کرتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ زاہد ڈار نے ان نظموں میں جسم کی صداقت پر اصرار کیا ہے مگر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جسم کی صداقت پر اصرار، اس جسم میں چھپی ہوئی روح کے وجود سے انکار کا مترادف نہیں ہے۔ ایسا ہوتا تو پھر بات ہی کیا تھی۔ ہمارے لیے نظمیں لکھنے کے بجائے زاہد ڈار کو اپنی تمام ذہنی اور جذباتی سرگرمیاں محبوب سے وصل کے تقاضے تک سمیٹ لینی چاہیے تھیں۔ ان نظموں کے واسطے سے محبت کرنے والا بھی اور وہ شخص بھی جس سے محبت کی گئی، دونوں اپنے پورے وجود کی خبر دیتے ہیں اور ہمارے لیے یہ گنجایش نہیں چھوڑتے کہ ہم اس غیر منقسم وجود کا تیاپانچہ کرسکیں۔

    اسی لیے تو یہ محبت روایتی عاشق کی افلاطونیت اور کاروباری عشق کی واحد المرکزیت، دونوں سے زیادہ سچی اور جاندار نظر آتی ہے۔ یہ محبت زاہد ڈار کو اندھا نہیں کرتی بلکہ اس کی بصیرت کو روشن کرتی ہے۔ اسے زندگی اور کائنات اور اشیاء اور تجربوں اور مظاہر کو سمجھنے کی ایک نئی راہ دکھاتی ہے۔ ہر سچائی کے نئے معنی سمجھاتی ہے۔ اسے شاید پہلے سے زیادہ دانشمند بناتی ہے۔ ان نظموں میں محبت اور محبت کی بخشی ہوئی اداسی دونوں کا ظہور جاگتے ہوئے کرداروں کی صورت ہوا ہے۔ ان کرداروں کی مدد سے زاہد ڈار کو آگہی کے بہت سے ان دیکھے جزیروں کا سراغ ملا ہے۔ اور وہ بات جو میں نے ابھی ذرا دیر پہلے کہی تھی کہ صوفی سنت سیدھی سادی کہانیوں کے بیچ رواروی میں ایسی گہری باتیں کہہ جاتے تھے گویا کہ انہی کی خاطر کہانی کا سارا جال پھیلایا گیا تھا، زاہد ڈار کی ان نظموں پر بھی ایک حد تک صادق آتی ہے۔ آگہی کے کئی جزیرے ان نظموں کی سطح سے سراٹھاتے ہیں اور ہمیں ٹھہرنے کی دعوت دیتے ہیں۔

    جب میں پہلی بار آسمان سے اترا تو زمین نے میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا

    آخری راستے پر چلتے چلتے مجھے اندھیرے نے گھیرلیا

    وہ میری طرف ایسے دیکھتی ہے جیسے میں کچھ بھی نہیں ہوں

    *

    تم کسی کو سمندر سمجھ کراس میں ڈوب جانا چاہتے تھے

    لہروں نے تمہیں باہر پھینک دیا

    *

    اندھیرے میں میری آنکھوں نے سب کچھ دیکھ لیا

    روشنی میں کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا

    *

    کچھ لوگ زندہ رہتے ہیں

    کچھ لوگ مرتے رہتے ہیں

    جو زندہ رہتے ہیں وہ آخر مرجاتے ہیں

    میں کبھی نہیں مروں گا

    کہ میں زندہ ہی نہیں رہا

    *

    وقت کے سامنے سب بے بس ہیں

    وقت سب سے بے نیاز گزرتا جاتا ہے

    وقت کا نہ کوئی آغاز ہے، نہ انجام

    جو شروع ہوتا ہے وہ ختم بھی ہوتا ہے

    جو پیدا ہوتا ہے وہ مرتا بھی ہے

    *

    میں دنیا کے ہنگاموں سے غافل ہوں

    انسانوں کا شور میری ذات کی سرحدوں پر رک جاتا ہے

    اندر آنا منع ہے

    میرے دل کا دروازہ بند ہے

    *

    میں صدیوں سے اس کا انتظار کر رہا ہوں

    لیکن ایک لمحہ بھی نہیں گزرا

    اس کی غیرموجودگی میں

    میں زندہ نہیں رہا

    *

    پانی کا بہاو تیز ہے

    لیکن پانی سوچ نہیں سکتا

    ہوائیں اندھی ہیں

    سورج بے نیاز ہے

    ہمارا اس کائنات میں کوئی دوست نہیں

    کوئی دشمن نہیں،

    ہمارے سوا

    *

    کسی نے مجھے آواز دی

    میرے اندر بارش ہوتی رہی

    لیکن میں آگ میں جلتا رہا

    *

    جو لوگ ابھی زندہ ہیں ان میں سے اکثر مرچکے ہیں

    جو لوگ مرچکے ہیں ان میں سے کچھ ابھی زندہ ہیں

    یادیں اور موسم

    بار بار واپس آتے ہیں

    *

    میری زندگی ایک طویل دن ہے۔

    دن کے وقت ستارے دکھائی نہیں دیتے

    میرے مقدر میں رات نہیں ہے

    *

    یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ لگ بھگ دوسوصفحوں کی اس کتاب میں ایسے بہت سے جزیرے ہیں۔ ان سب کی سطح کے نیچے وہی منظر ہے جو ان کے اطراف دکھائی دیتا ہے۔ ان سب کا محور ایک ہے اور ان کا بنیادی تجربہ برقی توانائی کی ایک ہی رو سے چمٹا ہوا ہے۔ لگتا ہے کہ زاہد ڈار دور دراز کے سفر سے لوٹا ہے اور اب تنہائی کے دریچے سے آنکھیں لگائے دور پاس کے منظر دیکھ رہا ہے اور اپنے سفر کا حساب کر رہا ہے، مجذوبانہ استغراق کی ایک اتھاہ کیفیت کے ساتھ۔ زاہد ڈار نے شعر نہیں کہے، باتیں کی ہیں۔ کبھی اپنے آپ سے اور کبھی دنیا سے۔ مگر ہم کلامی کے آداب وہی ہیں جو خودکلامی کے ہیں۔ بعض اوقات تو مجھے گمان ہوا کہ یہ پوری کتاب ہی ایک طویل خودکلامی ہے۔

    یوں بھی، زاہد ڈار کو زیادہ بولنے کی عادت نہیں۔ گرہ میں کہنے کی بہت سی باتیں ہوں تو آدمی اسی حال کو پہنچتا ہے۔ میری اس کی ملاقات بس ہوائی ہے۔ سنا ہے کہ ایک بار وہ ویزا پاسپورٹ لیے بغیر لدھیانے تک آیا اور واپس چلا گیا۔ شاعری، زندگی، دوستی، سفر ہو کہ حضر، زاہد ڈار اپنی شرطیں چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتا۔ حد تو یہ ہے کہ دنیا اور کائنات سے تعلق کی بھی اس نے ایک شرط مقرر کرلی ہے۔

    فطرت کے مناظر اور انسانوں کے کارنامے

    سب بیکار ہیں

    دنیا کی ساری کتابوں میں لکھی ہوئی

    تمام باتیں بے معنی ہیں

    دنیا کے تمام گھر خالی ہیں

    سارے شہر ویران ہیں

    نہ میں سوچ سکتا ہوں

    نہ محسوس کرسکتا ہوں

    خواب بھی نہیں دیکھ سکتا

    سورج اور ستارے چمکتے رہیں یا بجھ جائیں

    دریا بہتے رہیں یا رک جائیں

    پہاڑ کھڑے رہیں یا دھواں بن کر اڑجائیں

    جنگل اور باغ لہلہاتے رہیں یا جل کر راکھ ہوجائیں

    میرے لیے سب برابر ہے

    اس اعترافی بیان میں زاہد ڈار کی قائم کردہ شرط بار بار سامنے آتی ہے، ایک متواتر وقفے کی طرح سچی شاعری وہی ہے جہاں وقفہ بھی گویائی پر قادر ہو ورنہ تو سارا کھیل بس لفظوں کا رہ جاتا ہے۔ بہت دن ہوئے زاہد ڈار نے کہا تھا،

    ایسے میں کوئی آئے

    اور مجھ کو یہ بتائے

    میں کون ہوں، کہاں ہوں

    اور کس لیے ہوں باقی

    تاروں کی روشنی میں

    مہمل ہیں ساری باتیں

    سب گیت اور نظمیں

    سب فلسفے، کتابیں

    لفظوں کے سلسلے ہیں

    لفظوں کے سلسلے ہیں

    (اپریل ۱۹۸۶ء)

    مأخذ:

    ہم نفسوں کی بزم میں (Pg. 203)

    • مصنف: شمیم حنفی
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے