Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ضمیر الدین احمد کے افسانے

نیر مسعود

ضمیر الدین احمد کے افسانے

نیر مسعود

MORE BYنیر مسعود

    لڑکپن کے پڑھے ہوئے افسانوں میں کئی ا یسے تھے جن کے پلاٹ یا صرف عنوان آج تک یاد ہیں۔ یہ بھی یاد ہے کہ وہ بہت اچھے افسانے تھے لیکن یہ یاد نہیں کہ ان کے مصنف کون تھے۔ اسی زمانے میں کچھ افسانہ نگار ایسے تھے جن کے نام یاد رہ گئے، یہ بھی یاد رہا کہ وہ اچھے افسانہ نگار تھے لیکن یہ یاد نہیں رہا کہ ان کے افسانے کون سے تھے۔ افسانوں میں ایک ’’بہتاخون، ابلتا خون‘‘ اور ایسے افسانہ نگاروں میں ایک ضمیرالدین احمد تھے۔ یہ دونوں نام اردو افسانے کی تمام کروٹوں کے باوجود ذہن میں محفوظ رہے مگر اس علم کے بغیر کہ ’’بہتاخون، ابلتا خون‘‘ ضمیرالدین احمد کاافسانہ تھا جو ۱۹۵۳ء کے اوائل (فروری، مارچ) میں ’’نقوش‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ اسی رسالے میں اس سے پہلے ضمیر الدین احمد کا ایک افسانہ ’’چاندنی اور اندھیرا‘‘ (ستمبر، اکتوبر ۱۹۵۲ء) شائع ہوچکا تھا اور اس کے بعد ایک اور افسانہ ’’رگِ سنگ‘‘ (جنوری ۱۹۵۴ء) شائع ہوا۔ (۱)

    اشاریہ ’’نقوش‘‘ (محمد طفیل نمبر)

    آدھی بیسویں صدی کے خاتمے پر ابھرنے والا یہ نام برسوں تک افسانے کے پیش منظر سے غائب رہنے کے بعد صدی کی آخری دہائی شروع ہونے سے کچھ پہلے پھر ابھرا۔ ’’تشنہ ٔفریاد‘‘، ’’سوکھے ساون‘‘، ’’پروائی‘‘ پڑھنے والے اشتباہ میں پڑگئے کہ یہ وہی پرانے ضمیر الدین احمد ہیں یا ان کا ہم نام کوئی نیا افسانہ نگار، اور یہ معلوم کرکے حیران ہوئے کہ انہیں پرانے ضمیر الدین احمد نے ایک بار پھر افسانے کے میدان میں قدم رکھا ہے۔ وہ اتنے عرصے تک کہاں غائب تھے اور کیوں؟ کیا وہ افسانہ نگار ی سے تائب ہوگئے تھے؟ حال میں شائع ہونے والے افسانے انہوں نے حال ہی میں لکھے تھے یا کچھ پہلے؟ لیکن ان سارے سوالوں پر خوشی کی وہ کیفیت غالب تھی جو عمدہ تحریر پڑھ کر طاری ہوتی ہے۔ ادبی حلقوں میں ضمیرالدین احمد گفتگو کا موضوع بن گئے لیکن ابھی اس گفتگو میں گرمی نہیں آنے پائی تھی کہ ان کی موت کی خبر آگئی۔

    ضمیر الدین احمد کے افسانوں کا کوئی مجموعہ غالباً ابھی تک شائع نہیں ہوا۔ (۱) اس کمی کی وجہ سے ان کے افسانوں کے تنوع اور مجموعی کیفیت کا اندازہ نہیں ہوپاتا۔ خوش قسمتی سے میرے سامنے ان کے سات افسانے ہیں (۲)

    (۱) آصف فرخی کی اطلاح ے مطابق ضمیر الدین احمد کے افسانوں کا مجموعہ ’’سوکھے ساون‘‘ کے نام سے اشاعت کے لیے قریب قریب تیار ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ان کے افسانوں کے ہندی ترجمے مجموعے کی صورت میں چھپ گئے ہیں۔

    (۲) محمد ایاز صاحب کا ممنون ہوں کہ انہوں نے ان افسانوں کی عکسی نقلیں فراہم کیں۔

    ۱۔ ’’رگِ سنگ‘‘ ۲۔ ’’پہلی موت‘‘ ۳۔ ’’تشنہ فریاد‘‘ ۴۔ ’’سوکھے ساون‘‘ ۵۔ ’’پرائی‘‘ ۶۔ ’’پاتال‘‘ اور ’’رانگ نمبر‘‘ ۔

    ان افسانوں کو یک جا پڑھ کر ضمیرالدین احمد کی افسانوی دنیا، اس دنیا میں رونما ہونے والے واقعات، ان واقعات کی معنویت اور ان سب کے توسط سے ضمیرالدین احمد کے فن پر گفتگو کی جاسکتی ہے۔

    ضمیرالدین اپنے اصل افسانے کو کبھی کبھی معمولی جزئیات میں چھپادیتے ہیں۔ اس طرح ان کا ایک ایک افسانہ کئی کئی افسانوں میں بدل جاتا ہے۔ مثلاً ’’پاتال‘‘ کے دہشت ناک ماحول میں مہر کا حمل ضائع ہوگیا۔ یہاں ضمیر یہ کہتے معلوم ہوتے ہیں کہ فسادات میں ا نسانی جانوں کے اتلاف کا اثر ایک ہونے والی ماں سے ہوتا ہوا اس کے ہونے والے بچے تک یوں پہنچا کہ عدم سے وجود کی طرف آتے آتے بچے نے سمت سفر بدلی اور پھر عدم کو واپس چلا گیا۔ لیکن افسانے کے کچھ جزئیات یہ بھی ہیں :

    ’’مہر۔۔۔ سوچ رہی تھی کہ اب یہ پوچھیں گے کہ تم نے بھی کچھ کھایا یا نہیں۔۔۔ لیکن شوکت چپ رہا اور مہر کو تعجب ہوا۔‘‘

    *

    ’’شوکت نے مہر کو یہ نہیں بتایا کہ کس کا فون تھا۔ بس آکر اس کے پلنگ کے پاس بیٹھ گیا۔ مہر کو ایک بار پھر تعجب ہوا کیوں کہ یہ شوکت کی عادت نہ تھی۔‘‘

    *

    (شوکت نے) بات ادھوری چھوڑدی اور تھوری دیر اور چپ رہنے کے بعد کہا: آنا چاہ رہے تھے تعزیت کے لیے، میں نے مناکردیا۔‘‘

    مہر کو پھر تعجب ہوا۔‘‘

    *

    ’’(مہر) سوچ رہی تھی کہ یہ کہیں گے ۔۔۔ اور پھر تاکید کریں گے ۔۔۔اور پھر یاد دلائیں گے کہ ۔۔۔لیکن شوکت نے کچھ بھی نہیں کہا۔ ایک لفظ، ایک بامعنی یا بے معنی آواز بھی نہیں نکلی اس کے منھ سے اور مہر کے تعجب کی کھٹک اور تیز ہوگئی۔‘‘

    *

    ’’مہر۔۔۔ شوکت کی ابھرتی ڈوبتی آواز سنتی رہی کہ شوکت کس کس ہسپتال اور مردہ خانے گئے اور انہوں نے کتنی لاشیں دیکھیں اور کتنے زخمی، اور دیکھا کہ کئی لاشیں تو ایسی تھیں کہ اپنے بھی انہیں شاید ہی پہچان پائیں۔‘‘

    *

    ’’شوکت ڈریسنگ ایریا میں گیا اور دوگولیاں لیے واپس آیا۔ مہر نے ہاتھ بڑھایا۔ شوکت نے گولیاں اس کی ہتھیلی پر رکھ دیں۔ مہر نے گولیوں پر ایک متجسس سی نظر ڈالی۔ شوکت نے کہا،

    ’’بدل دی ہے (ڈاکٹر) ستارہ نے۔‘‘

    *

    ’’ڈاکٹر آئی۔۔۔ اس نے اچھی طرح سے معائنہ کرنے کے بعد شوکت کو بتایا کہ حمل ضائع ہوچکا ہے۔ سبب معلوم کرنے کے لیے اس نے کئی سوال کیے جن کے شوکت نے بظاہر تسلی بخش جواب دیے، لیکن ڈاکٹر کے چہرے سے یہ معلوم ہوتا کہ وہ پوری طرح سے مطمئن نہیں ہوئی ہے۔‘‘

    *

    (مہر نے کہا)

    ’’میں سمجھتی ہوں، شوکت‘‘، اور خود ہی رونے لگی۔‘‘

    *

    ان جزئیات سے پیدا ہونے والے سوال اس افسانے کے اندر ایک اور افسانے کا سراغ پاتے ہیں۔ شوکت کارویہ بدلا ہوا کیوں تھا؟ دوا کی وہ بدلی ہوئی گولیاں کیا تھیں جو اس نے اپنی حاملہ بیوی کو کھلائیں؟ اس نے مہر سے اسپتالوں، مردہ خانوں، زخمیوں اور لاشوں کی بھیانک تفصیلات بیان کیں۔ کیا وہ جانتا نہیں کہ اس قسم کی تفصیلات کو سن کر عورت کا حمل ساقط ہوسکتا ہے؟ کیا فساد کے یہ قاتل روپ دیکھ کر اس نے خود اپنے بچے کو دنیا میں آنے سے روک دیا؟ اور سب سے اہم سوال: کیا مہر سمجھ گئی تھی کہ بچہ ضائع ہونے کا ذمہ دار شوکت ہے پھر بھی وہ اسے قصوروار نہیں سمجھتی تھی؟ ’’پاتال‘‘ کا اصل افسانہ انہیں سوالوں میں پوشیدہ ہے۔

    افسانے میں افسانہ پوشیدہ کرنے کی ایک اور مثال ’’رانگ نمبر‘‘ ہے۔ اونچے طبقے کی دوعورتوں کی مخصوص سطحی گفتگو سے شروع ہونے والے اس افسانے میں بیانیے کی اوپری سطح پر معمولی سماجی طنز کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ برگیڈیر صاحب کے یہاں دو ڈاکو گھس آئے۔ تجوری کے سارے زیوروں اور نقدی تک پہنچ جانے کے باوجود صرف غیرملکی کرنسی کا ایک حصہ لے گئے۔ بریگیڈیر صاحب پولیس میں رپورٹ بھی نہ کرسکے اس لیے کہ کرنسی غیرقانونی تھی۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ ڈاکوؤں کو خفیہ تجوری کا ٹھکانا کیوں کر معلوم ہوگیا، لیکن ایک اور بات جو اتنی ہی ناقابل فہم تھی، اس کا ذکر انہوں نے نہیں کیا، وہ یہ کہ ایک فوجی افسر کی موجودگی میں جس کے پاس آتشین اسلحہ ہونا یقینی تھا، ڈاکوؤں نے اس کے گھر میں گھس آنے کی ہمت کس بھروسے پر کی؟ تیسری بات یہ کہ اگر وہ واقعی ڈاکو تھے تو سارا زیور اور نقدی کیو ں نہیں لے گئے؟ ان سب سوالوں کا جواب برگیڈیر صاحب کی بیوی کی دی ہوئی یہ اطلاع ہے کہ ان کی بیٹی عارفہ کے مراسم کالج کے کسی لڑکے سے تھے اور اب وہ ایک طرح سے خانہ قید کرلی گئی تھی۔ تجوری کے ٹھکانے اور پستول رکھنے کی جگہ کا علم اسی کے ذریعے ہوسکتا تھا۔ ڈاکوؤں میں سے ایک اس کے ساتھ اوپر دیر تک تنہا رہا اور واپس جاتے ہوئے اپنے ڈاکو ہونے کے ثبوت میں کچھ نقدی لیتا گیا۔ اس کے بعد اور نماز پڑھنے سے پہلے عارفہ نے غسل کرنا واجب سمجھا اور اس کا سبب یہ بتایا کہ وہ ٹینشن میں مبتلا ہوگئی تھی اور رات کو برگیڈیر صاحب کے لیٹ جانے کے بعد اس نے فون پر کسی سے چپکے چپکے باتیں کیں اور ظاہر یہ کیا کہ رانگ نمبر تھا۔ ڈاکوؤں کے جانے کے بعد برگیڈیر صاحب نے اپنے آپ سے پوچھاتھا، ’’تو پھر آئے کیوں تھے؟ کیا انہیں کسی اور چیز کی تلاش تھی؟‘‘ ان سوالوں کا جواب بھی عارفہ ہے۔ برگیڈیر صاحب پولیس میں رپورٹ نہیں کرسکتے تھے کہ ایک شخص ان سب کی موجودگی میں آیا اور ان کی بیٹی کے ساتھ تنہائی میں آدھا گھنٹا گزار کر چلا گیا۔

    جزئیات کے انتخاب و ترتیب سے افسانے کومختلف رخ دینا ضمیرالدین احمد کا خاص ہنر ہے جس میں ان کے شریک کم ہیں۔ یہ ہنر ’’رانگ نمبر‘‘ کے سے ہلکے پھلکے افسانے میں بھی نموجود ہے اور ’’رگِ سنگ‘‘ میں بھی جو ۵۰ء کے آس پاس چلے ہوئے نفسیاتی نما افسانوں کے فیشن کی یادگار ہے۔

    ضمیرالدین کا فن پوری آب و تاب کے ساتھ ان کے تین افسانوں ’’سوکھے ساون‘‘ ’’پروائی‘‘ اور ’’تشنۂ فریاد‘‘ میں سامنے آیا ہے، خصوصاً ’’تشنہ فریاد‘‘ اپنے پیچ و خم اور ڈوبتی ابھرتی کیفیتوں کی وجہ سے اردو کے بہترین افسانوں میں شمار ہونے کے لائق ہے۔ اس افسانے میں ہم ایک بڑے المیے سے دوچار ہوتے ہیں۔ ہمیں اس کا بھی احساس ہوتا ہے کہ کوئی بہت سخت زیادتی ہوئی ہے لیکن اس زیادتی کا کوئی ایسا ذمہ دار جسے وِلن کہا جاسکے نظر نہیں آتا، نہ افسانے کے بنیادی کرداروں میں کوئی ایسا کردار نظر آتا ہے جسے سراسر بے قصور یا مظلوم کہا جاسکے۔ سب سے بدقسمت اور ستم رسیدہ کردار پیشکارن کا ہے۔ مُسِن مردوں کی کم سن بیویاں ہمارے افسانوی ادب میں افراط کے ساتھ دست یاب ہیں اور ان کے ساتھ ہمارے افسانہ نگاروں نے بالعموم وہی رومانی ہم دردی والا رویہ اختیار کیا ہے جو کبھی کے اچھے بھلے افسانوں میں (اور آج بھی برے افسانوں میں) طوائف کے ساتھ نظر آتا ہے۔ پیشکارن کی نقش گری میں ضمیرالدین احمد کا یہ رویہ نہیں ہے، نہ وہ اس لحاظ سے کچھ بہت ستم رسیدہ معلوم ہوتی ہے بلکہ اس نے رسوا ؔسے غزل مانگ کر پہلے سلسلہ جنبانی کی۔ رسوا ؔنے غزل دیتے وقت اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اتنی بات یہاں تک بڑھی کہ وہ رسوا کو اپنے کمرے میں بلا بلا کر دادِ عیش دینے لگی۔ اس صورت میں رسوا اس کے کردار پر اس قسم کی رائے زنی کرنے میں حق بہ جانب تھا،

    ’’معلوم ہوتا ہے جی بھر گیا ہے۔ ایسی عورتوں کا کوئی ٹھیک نہیں۔ کسی اور کو تاک لیا ہوگا۔‘‘

    اور ’’میں کہتا تھا نا کہ ایسی عورتوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ کسی اور کو بھی ہلگا رکھا ہوگا۔‘‘

    لیکن ہوا یہ کہ پیشکارن نے ملاقاتوں کا راز فاش ہونے پر خودکشی کرلی اور یہ تک نہیں بتایا کہ اس کے پاس آنے والا مرد کون تھا۔ اس کے شوہر نے اسے طلاق دے کر گھر سے نکال دینے کی دھمکی دی تھی۔ اس نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ اس طرح رسوا وار اس کے درمیان کی رکاوٹیں دور ہوجائیں گی؟ کیا اسے یقین تھا کہ رسوا اسے مستقل طور پر قبول نہیں کرے گا؟ پھر بھی اس نے رسوا کو اپنی بدنامی میں شریک کرنا گوارا نہیں کیا اور خود ایک مستقل بدنامی کی موت مرگئی۔ رسوائی کے خوف کی فضا میں ایک عورت کے شہوت آمیز عشق کی یہ داستان، جسے لکھنے میں بڑے بڑوں کے ہاتھ سے قلم چھوٹ جائیں، ضمیرالدین احمد نے اس سہولت سے بیان کردی ہے کہ اول سے آخرتک کہیں پر بھی وہ افسانہ بناتے ہوئے نہیں معلوم ہوتے۔

    عرض کیا گیا تھا کہ اس افسانے میں کوئی وِلن نہیں آتا لیکن خودراوی اس کا سب سے ناانصاف کردار ہے۔ وہ خود بھی پیشکارن پر للچایا ہوا تھا لیکن اس کی پذیرائی نہیں ہوئی، پھر بھی اس نے رسوا سے اس کی ملاقاتوں کو جاری رکھا، یہ ملاقاتیں اس کے تعاون کے بغیرممکن نہیں تھیں اور وہ کوئی بھی آسان سا حیلہ کرکے اس سلسلے کو ختم کرواسکتا تھا۔ کیا وہ جان بوجھ کر پیشکارن کو ملوث رکھنا چاہتا تھا؟ صرف اپنی باری آنے کی امید اور انتظار میں؟ جب رسوا نے خیال ظاہر کیا کہ پیشکارن کا اس سے جی بھر گیا ہے تو راوی بتاتا ہے،

    ’’جی بھر گیا، کے ٹکڑے پرمیں نے دل ہی دل میں آمنّا صدّقنا کہا مگر اسے جلدی سے یقین دلایا کہ۔۔۔ میں اپنے جگری دوست کی محبوبہ کے بارے میں ایسی کوئی بات سوچنا بھی گناہ سمجھتا ہوں۔‘‘

    اس کے علاوہ بھی افسانے میں کئی اشارے ایسے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی پیشکارن پر دانت لگائے بیٹھا ہے۔

    ایک لڑکی جس سے راوی کی شادی ہونے کا امکان تھا، وہ بھی رسوا اور پیشکارن کی ملاقات والے مشاعرے میں موجود تھی۔ اس مشاعرے میں صدر کے پاس یوسف صاحب بھی بٹھائے گئے تھے ’’جو نئے نئے کلکٹر ہوکر آئے تے اور جو نہ صرف جوان تھے بلکہ گورے اور بڑے جامہ زیب بھی تھے۔‘‘ راوی بیان کرتا ہے :

    ’’میں ڈاک بنگلے کے پچھواڑے کا ایک چکر لگانے جارہا تھا کہ مہدی وکیل کی منجھلی بیٹی کشور نے، جو اسی دن علی گڑھ سے چھٹیاں گزارنے آئی تھی، مجھے چق کے پیچھے سے آوازدی۔

    ’’ہوگئیں نازل، ‘‘ میں نے تھوڑی سی ہٹی ہوئی چق کے پاس جاکر کہا۔

    اس نے روٹھے بناکہا، ’’میرا ایک کام کردو، میرے اچھے بھیا!‘‘

    ’’بتاؤ‘‘

    ’’زرا یہ پرچہ یوسف صاحب کو دے دو، ‘‘ اور اس نے پرچہ مجھے دے دیا۔

    ’’تم کہاں سے جانتی ہو انہیں؟‘‘

    ’’کہیں سے بھی نہیں!‘‘

    ’’تو پھر یہ نامہ و پیام کیسے؟ دیدوں کا پانی مرگیا ہے یا علی گڑھ کی ہوا لگ گئی ہے؟ کہہ دوں جاکے چچا میاں سے؟‘‘

    اس نے کہا، ’’اب بنو مت زیادہ۔‘‘

    اس کے پاس جو لڑکی کھڑی تھی، وہ ہنسی اور اس نے کہا، ’’قبلہ، پہلے پرچہ تو پڑھ لیجیے۔‘‘

    میں نے پرچہ کھولا۔ لکھا تھا، ’’یوسف صاحب، آپ بھی کچھ سنائیں۔‘‘

    ’’اس پر دستخط کرو!‘‘ میں نے پرچہ ہٹی ہوئی چق اور کشور کی طرف بڑھایا۔

    ’’جاؤ، ہم نہیں بولتے!‘‘

    ’’اچھا منہ نہ پھلاؤ۔ بات دراصل یہ ہے کہ یوسف صاحب شاعری نہیں کرتے۔ نرے آئی سی ایس ہیں۔ پہلے معلوم تو کرلیا ہوتا۔‘‘

    ’’تمہیں کیسے معلوم؟‘‘

    ’’معلوم ہے، تبھی تو کہہ رہا ہوں۔‘‘

    ’’واہ، تھوڑی بہت شاعری بھی کرتے ہیں۔‘‘

    ’’لیکن یوسف صاحب نہیں کرتے۔ ویسے کوئی اور پیغام ہو تو۔۔۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔؟ اس نے پیر پٹخے، ’’ابھی جاکے کہتی ہوں بڑی اماں سے!‘‘

    میں ہنستا ہوا اور پرچے کے ٹکڑے کرتا ہوا ڈاک بنگلے کے پیچھے چلا گیا۔‘‘

    اور ڈاک بنگلے کے پیچھے اسے رسوا اور پیشکارن کوملوانا تھا جن کے تعلقات کی ابتدا اس طرح ہوئی تھی کہ پیشکارن نے رسوا کے کلام کا اشتیاق ظاہر کیا تھا، جس طرح کشور نے یوسف صاحب کے کلام کا اشتیاق ظاہر کیا۔ دونوں معاملوں میں راوی درمیانی آدمی تھا لیکن کشور کے معاملے کو اس نے ہنسی میں اڑادیا۔ یہ عجیب غریب تقابل ہے اور ایسا ہی ایک تقابل اس موقع پر سامنے آتا ہے جب پی سی ایس کے مقابلے میں راوی کی میابی پر گھر میں جشن کا سماں تھا۔ اس دن رسوا بھی آیا اور اسے باہر کی بیٹھک میں بٹھایاگیا۔ راوی بتاتا ہے :

    ’’پھر رسوا کومٹھائی پیش کی گئی اور جب وہ موتی چور کا ایک لڈو اور برفی کی ایک ڈلی کھاچکا تو پہلے کشور، پھر اپیا اور پھر ناہید نے وہیں دالان میں سے اس سے غزل کی فرمائش کی اور اس کے انکار پرتینوں نے، مگر سب سے زیادہ اپیا نے، کورس میں ’’غزل، غزل، غزل‘‘ کا شور مچایا تو اس نے لہک لہک کرایک پھڑکتی ہوئی غزل سنائی۔

    بڑا ہنگامہ رہا۔ بڑا مزہ آیا۔‘‘

    اور اسی مزے دار ہنگامے کی رات تھی جب رسوا سے غزل کی فرمائش کرنے والی پیشکارن نے خودکشی کی۔ رسوا اور یوسف صاحب سے کلام کی فرمائش کرنے والی لڑکیوں اور پیشکارن کے ابتدائی مرحلے میں شاید کوئی فرق نہ تھا۔ فرق ان کے ساتھ راوی اور رسوا کے رویے میں تھا، البتہ ضمیرالدین احمد نے ان متقابل صورتوں پر دولفظی تبصرے کی بدمذاقی کا بھی ارتکاب نہیں کیا ہے بلکہ ان اجزا کو افسانے کے واقعات میں اس طرح پرویا ہے کہ ان کا کسی خاص مقصد کے تحت لایا جانا آسانی سے محسوس بھی نہیں ہوتا۔

    ’’تشنۂ فریاد‘‘ پیش نظرسات افسانوں میں واحد افسانہ ہے جو حاضر راوی کی زبانی بیان ہوا ہے اور راوی اس میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک فرق یہ بھی ہے کہ ان چھ افسانوں میں صرف ایک ایک دن کا قصہ بیان ہوا ہے، ’’تشنہ فریاد‘‘ کئی دن کی کہانی ہے۔ یہ ان افسانوں کے مقابلے میں طویل بھی ہے اور سب سے بہتر بھی، لیکن صرف ایک مثال سے یہ نتیجہ نکالنا شاید مناسب نہ ہوا کہ ضمیرالدین کے قلم کے لیے طویل یا حاضر راوی کے افسانے زیادہ سازگار تھے۔

    اسی طرح صرف سات افسانوں کو سامنے رکھ کراس حقیقت سے بھی کوئی نتیجہ نکالنا مناسب نہ ہوگا کہ ان سات میں سے چار افسانے بنیادی کرداروں کے سونے اور تین ان کے رونے پر ختم ہوتے ہیں۔ ان خاتموں کا گوشوارہ یہ ہے،

    (۱) ’’رانگ نمبر‘‘: برگیڈیر صاحب اور ان کی بیوی سونے کے لیے لیٹ گئے۔

    (۲) ’’سوکھے ساون‘‘: بیوہ عورت کو دیر میں اورمشکل سے نیند آئی۔

    (۳) ’’پرائی‘‘ میاں بھی سونے لیٹ گیا۔

    (۴) ’’تشنۂ فریاد‘‘: پیشکارن کی لاش برآمد ہونے والا دن ختم ہوا اور دس بجے رات کے بعد راوی اوپر اپنے سونے کے کمرہ میں چلا گیا۔

    (۵) ’’رگِ سنگ‘‘: ظہیر نے اختر کے کاندھے پر سر رکھ کر رونا شروع کردیا۔

    (۶) ’’پہلی موت‘‘: لڑکا باپ سے معافی مانگ کر رونے لگا۔

    (۷) ’’پاتال‘‘: روتے ہوئے شوکت کے بالوں پر ہاتھ پھیر کرمہر بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

    *

    اس گفتگو کو ضمیر الدین احمد کے افسانوں کے دروبست اور اس سے پیدا ہونے والی معنویت کے جائزے تک محدود رکھا گیا ہے۔ ان کے اسلوب کے دوسرے عناصر کا جائزہ ایک طویل تر تحریر اور اہل تر لکھنے والے کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن یہاں بھی مجملاً کچھ باتوں کی طرف اشارہ بے محل نہ ہوگا،

    ان افسانوں میں بعض التزام ایسے بھی ہیں جن کا احساس ان چند مستثنیات کے بغیر شاید نہ ہوتا جہاں ان التزاموں کی خلاف ورزی ہوگئی ہے۔ مثلاً ضمیرالدین احمد اپنے کرداروں کے حلیے اور ناک نقشے وغیرہ کی تفصیل نہیں بتاتے، پھر بھی ان کے کرداروں کی ظاہری ہیئت کا واضح نقش قاری کے ذہن میں قائم ہوجاتا ہے۔ پیشکارن کا نقش قائم ہوتے دیکھیے،

    ’’کنڈی کھلنے کی آواز آئی۔ پھر کھڑکی کا ایک پٹ تھورا سا کھلا اور مجھے کانچ کی فیروزآبادی چوڑیوں سے بھری ہوئی ایک کلائی، مہندی سے رچی ہوئی ایک ہتھیلی، ایک کلمے کی انگلی اور ایک انگوٹھا اور اس چٹکی میں ململ کے چنے ہوئے لہریے دوپٹے کا ایک تنا ہوا پلو نظر آیا جس کے پیچھے سے اس کا دایاں گال جھلک رہا تھا۔‘‘

    اس بیان میں پیشکارن کے حسن و شباب اور جسمانی کشش سب کی تصویر کھنچ گئی ہے، اور یہ تصویر جتنی روشن ہے اتنی اسی عورت کی یہ تشریحی تصویر نہیں ہے،

    ’’واہ! کیا چہرہ تھا!

    جھکی ہوئی آنکھوں پر بڑی بڑی پلکوں کا سایہ؛ گالوں کی کھال ایک دم تنی ہوئی؛ نتھنے کہ اب پھڑکے، اب پھڑکے ؛ ہونٹ کہ وہ دیکھو مسکرائے ؛ اور دوپٹے کی سلوٹیں سینے کی سربلندی کے سامنے عاجز۔‘‘

    اس بیان سے پیشکارن کے صرف چہرے اور سینے کی دھندھلی تصویر بنتی ہے جسے ’’واہ! کیا چہرہ تھا!‘‘ کے تاثراتی اظہار نے اور بھی دھندھلا دیا ہے لیکن عموماً ضمیرالدین احمد ا س طرح کرداروں کی حلیہ نگاری نہیں کرتے۔

    *

    واقعات کے بیان کے ساتھ ساتھ افسانہ نگار کے رواں تبصرے کی قبیح رسم پریم چند کے زیراثر قبول ہوئی اور ابوالفضل صدیقی سے مشاق لکھنے والے بھی اس سے دامن نہ بچاسکے۔ انسانی فطرت اور دنیا کے قاعدوں وغیرہ کے حوالے سے کرداروں کے افعال اور کہانی کے واقعات کی توجیہہ اور تاویل کا سارا عمل افسانہ نگار کے ذہن کے اندر ہی اندر ہونا چاہیے، افسانے کے اندر نہیں۔ ضمیرالدین احمد اس رمز سے واقف ہیں کہ اس قسم کی مبصرانہ تول و تاویل افسانہ نگاری نہیں، تجزیہ نگاری ہے اور انہوں نے خود کو اس رسم سے الگ رکھا ہے ان کے سات افسانوں میں صرف ایک چھوٹا سا فقرہ بہت خفیف سی استثنائی حیثیت میں ملتا ہے،

    ’’مگر موت سے نجات کا خیال پھر خیال تھا، گزرگیا۔‘‘

    *

    ضمیرالدین احمد کی سب سے بڑی جیت ان کی زبان ہے جس کی مثال انتظار حسین کے سوا شاید ہی کسی اور کے یہاں ملتی ہو۔ ضمیر نثرکی اپنی قوت سے کام لینا جانتے ہیں اور واقعات اور کرداروں کی مناسبت سے اپنی زبان کے آہنگ کو بڑی چابک دستی کے ساتھ بدلتے ہیں۔ شعری اظہار سے انہوں نے بہت گریز کیا ہے۔ اسی لیے جن گنے چنے فقروں میں وہ شاعرانہ اندازِبیان پر اترآئے ہیں وہ فقرے نہ صرف فوراً محسوس ہوجاتے ہیں بلکہ ان کی نثر کے خاموش تسلسل میں کھٹکنے بھی لگتے ہیں، مثلاً،

    ’’میاں نے اس کے گالوں پر سے اپنی نظریں نوچتے ہوئے پوچھا۔‘‘ (پروائی)

    *

    ’’جب آنگن آسمان سے برستے ہوئے گیلے اور گاڑھے اندھیرے سے اٹ گیا‘‘ (پروائی)

    *

    ’’اسے دھویں کا اژدہا بل کھاتا دکھائی دیا تھا‘‘ (پاتال)

    *

    ’’کھلے آسمان کے ماتھے پر چپکا ہوا داغ دار چاند۔۔۔‘‘ (پاتال)

    *

    ’’وہ ان کے لمبے تڑنگے، چورے چکلے جسم کو گلی کی تنگی کا مذاق اڑاتے دیکھتی رہی۔‘‘ (سوکھے ساون)

    شور سے نہیں۔

    اس نے پہلے ایک پیر آنگن میں رکھا، پھر دوسرا۔‘‘ (سوکھے ساون)

    *

    ’’ایک اور تھپڑ پڑا مگر اس بار اس کا دماغ بھنا یا نہیں اور اسے ایسا محسوس ہوا کہ جو خون اس کے چہرے میں جمع ہوگیا تھا، تیزی سے بدن کے دوسرے حصوں میں واپس جارہا ہے۔‘‘ (پہلی موت)

    *

    ’’وہ پھر برگیڈیر صاحب کے ساتھ بکھرے ہوئے نوٹ چننے اور ان کی گڈیاں بنانے میں جٹ گئیں اور ملازم جو اتنی دیر بیڈروم کے لینڈنگ میں کھلنے والے دروازے کے ایک پٹ کی آڑ میں کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا، بغیر برگیڈیر صاحب اور ان کی بیوی کی مرضی معلوم کیے اندر آکر الٹی پلٹی چیزوں کوٹھیک کرنے لگا اور عارفہ بھی نوٹوں کی وہ گڈیاں جو اس نے بنائی تھیں۔ برگیڈیر صاحب کو دے کر اس کا ہاتھ بٹانے لگی اور جب یہ کام ہوگیا اور سارے نوٹ گنے جاچکے تو ملازم چند سیکنڈ دروازے میں رک کر نیچے چلا گیا اور برگیڈیر صاحب نے اس کرسی میں دھنس کر جو اس نے سیدھی کی تھی، اپنے آپ سے پوچھا، تو پھر یہ آئے کیوں تھے؟‘‘ (رانگ نمبر)

    *

    زبان پر افسانہ نگار کے تسلط کا سب سے بڑا امتحان مکالموں میں ہوتا ہے اور ضمیرالدین کا شمار اردو کے بہترین مکالمہ لکھنے والوں میں کیا جانا چاہیے۔ مکالمہ نویسی میں افسانہ نگار کو اپنے اندر چھپے ہوئے ادیب، گویا خود اپنے آپ کو قتل کرنا ہوتا ہے اور ضمیرالدین احمد اس معاملے میں رحم سے بالکل کام نہیں لیتے۔ ان کے مکالموں سے عموماً اندازہ ہوجاتا ہے کہ کس قسم کا کردار بول رہا ہے اور کس صورتِ حال میں بول رہا ہے، کم از کم یہ احساس تو کبھی نہیں ہوتا کہ اس کردار کی زبان سے یا ان حالات میں یہ مکالمہ ادا نہیں ہوسکتا اور اگر کہیں کہیں ان کے یہاں مکالمہ بولنے والے کے بارے میں اندازہ نہیں ہوپاتا تو مکالمہ بلوانے والے کے بارے میں بھی اندازہ نہیں ہوپاتا۔ یہ مکالمہ نویسی کی معمولی صفت ہے لیکن یہ بھی ہمارے یہاں کم یاب ہے، اور زیادہ افسانوں کے زیادہ مکالمے خود مصنف کے بولے ہوئے بلکہ لکھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔

    اس بے ربط اور بے ضابطہ گفتگو کا ایک مقصد پڑھنے والوں کو اس بات کا احساس دلانا تھا کہ ضمیر الدین احمد ہمارے بہت اچھے افسانہ نگار تھے۔ یہ کام ان کے افسانے خود بھی اور زیادہ اچھی طرح کرسکتے ہیں۔ دوسرا مقصد باضابطہ نقادوں کو اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ وہ فکشن کی تنقید کے اصولوں پر ضمیرالدین احمد کے افسانوں کو پرکھ کر ایک مرحوم مصنف کا ادبی قرض اور اپنا تنقیدی فرض ادا کریں۔

    مأخذ:

    سوغات،بنگلور (Pg. 204)

      • ناشر: محمود ایاز, پاسبان برقی پریس، بنگلور
      • سن اشاعت: 1991

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے