ہوش جونپوری کے اشعار
خدا بدل نہ سکا آدمی کو آج بھی ہوشؔ
اور اب تک آدمی نے سیکڑوں خدا بدلے
دیوار ان کے گھر کی مری دھوپ لے گئی
یہ بات بھولنے میں زمانہ لگا مجھے
ٹوٹ کر روح میں شیشوں کی طرح چبھتے ہیں
پھر بھی ہر آدمی خوابوں کا تمنائی ہے
ڈوبنے والے کو ساحل سے صدائیں مت دو
وہ تو ڈوبے گا مگر ڈوبنا مشکل ہوگا
ذکر اسلاف سے بہتر ہے کہ خاموش رہیں
کل نئی نسل میں ہم لوگ بھی بوڑھے ہوں گے
کیا ستم کرتے ہیں مٹی کے کھلونے والے
رام کو رکھے ہوئے بیٹھے ہیں راون کے قریب
مٹی میں کتنے پھول پڑے سوکھتے رہے
رنگین پتھروں سے بہلتا رہا ہوں میں
بچے کھلی فضا میں کہاں تک نکل گئے
ہم لوگ اب بھی قید اسی بام و در میں ہیں
آدمی پہلے بھی ننگا تھا مگر جسم تلک
آج تو روح کو بھی ہم نے برہنہ پایا
جو سائے بچھاتے ہیں پھل پھول لٹاتے ہیں
اب ایسے درختوں کو انسان کہا جائے
میرے ہی پاؤں مرے سب سے بڑے دشمن ہیں
جب بھی اٹھتے ہیں اسی در کی طرف جاتے ہیں
جو حادثہ کہ میرے لیے دردناک تھا
وہ دوسروں سے سن کے فسانہ لگا مجھے
ساغر نہیں کہ جھوم کے اٹھے اٹھا لیا
یہ زندگی کا بوجھ ہے مل کر اٹھائیے
کھو گئی جا کے نظر یوں رخ روشن کے قریب
جیسے کھو جاتی ہے بیوہ کوئی دلہن کے قریب
جانے کس کس کا گلا کٹتا پس پردۂ عشق
کھل گئے میری شہادت میں ستم گر کتنے
گر بھی جاتی نہیں کم بخت کہ فرصت ہو جائے
کوندتی رہتی ہے بجلی مرے خرمن کے قریب
آنے والے دور میں جو پائے گا پیغمبری
میرا چہرہ میرا دل میری زباں لے جائے گا