رحمان مذنب کے افسانے
پرانا شہر
پرانے شہر کی فصیلیں منہدم ہو چکی ہیں۔ شہر ضرور سلامت ہے۔ اس طرح نور محلہ اور نور مسجد بقید حیات ہیں۔ انہیں لوگ جانتے ہیں۔ بیگم نور حیات کو بھول گئے ہیں۔ اس کی توقبر کا نشان بھی نہیں رہا۔ اسی نے یہ محلہ بسایا اور چھوٹی سی عبادت گاہ بھی بنا دی جس کی مرمت
افلاس کی آغوش
ایک ہی رات میں تین قتل!شہر میں سنسنی پھیل گئی۔ ایک آدمی خبر پڑھتے پڑھتے غش کھاگیا۔ کوٹھیاں، کوٹھی خانے، کھڑکیاں، بالکنیاں، بام ودر ایک ساتھ بولنے لگے۔ مفت خورے اخبار خرید کر پڑھنے والوں پر ٹوٹ پڑے اور گھر گھر اخبار لے گئے۔ کچھ پلٹ کر نہ آئے اور کچھ پلٹ
اودھم پور کی رانی
اگر ڈیرہ دارنی اور ٹکیائی کے درمیان میں کوئی چیز ہوسکتی تھی تو وہ سلطانہ تھی، جس نے ہوشیار پور میں پورا ہوش سنبھالا۔ وہیں پلی، بڑھی، جوان ہوئی۔ اس کی آواز اور بدن کے ساز دونوں میں سات سُر لگ گئے، پھر بھی وہ بے سری رہی۔ ٹھمریوں کے نگر میں رہتے ہوئے بھی
خوشبودار عورتیں
شوہر کی وفات کے بعد وہ سمٹ سکڑ کر رہ گئی۔ وہ لچی لفنگی تو نہیں تھی، اس میں آوارا پن کی عادت بھی نہیں تھی لیکن شوہر سے بڑی بہاریں تھیں۔ سلامتی کے ساتھ ساتھ آزادی کا تصور قائم تھا۔ سر پر ہر دم ایسی چھاؤں رہتی جس میں فرحت اور مسرت، تسکین اور تفریح کا
جلتی بستی
ریل کا سفر قیامت سے کسی طرح کم نہ تھا۔ تمام رات دل دھک دھک کرتا رہا اور کان لوگوں کی آوازوں سے گونجتے رہے۔ ایسا محسوس ہو تا تھا کہ بلوائی تڑا تڑا گولیاں چلا رہے ہیں، جو گاڑی کا سینہ چیر کر سیدھی میرے کانوں میں لگتی تھیں۔ مجھ میں روح تو نام کو نہ رہی
پھرکی
نل تلے بیٹھ کر پھرکی نے پوری ٹونٹی کھولی اور گرد کے ساتھ بدن کی تھکن بھی دھونے لگی۔ منھ اندھیرے اٹھی تھی تو بدن میں تھکن رینگ رہی تھی۔ پورے محلے میں اسے مائی مالاں ہی کا گھر ملا تھا، تھکن دور کرنے کے لئے۔ غسل خانے میں آنے سے پہلے اس نے مائی مالاں کا