شاہین کاظمی کے افسانے
پانچواں موسم
بچپن کی ملائمت اور نرمی چہرے پر اگنے والے روئیں نے کم کر دی تھی۔ اس کی جگہ ایک عجیب سی جاذبیت نے لے لی تھی گو میاں جی اسے منع کیا تھا کہ ابھی استرا نہ مارے لیکن اسے چہرے پر اگا ہوا بےترتیب جھاڑ جھنکار اچھا نہیں لگتا تھا اپنے ایک دوست کی مدد سے اس روئیں
برف کی عورت
’’انھیں لگتا ہے ان کے بودے جواز سے ظلم ،ظلم نہیں رہےگا؟‘‘ میرے ذہن میں ایک ہی سوال گردش کر رہا تھاگونگے بہرے درو دیوار کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔۔۔ میں نے اپنے کانپتے وجود کو سنبھال کر اٹھنے کی کوشش کی لیکن چکراکر گر گئی۔ پچھلے دو دن میں اس اندھیرے
قیدی
رات گھاتک ہے اندھیری اور ویران راہوں پر چلتے راہرو اس کے تیروں سے نہیں بچ سکتے لیکن نہیں۔۔۔ سوال اندھیری اور ویران راہوں کا نہیں اِس کے انتخاب کا ہے اب اسے نصیب کہا جائے یا کچھ اور لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے طلسماتی تیر ہر ایک کو کھوج نکالتے ہیں وہ اپنے
میاں جی
بچپن کی ملائمت اور نرمی چہرے پر اگنے والے روئیں نے کم کر دی تھی۔ اس کی جگہ ایک عجیب سی جاذبیت نے لے لی تھی گو میاں جی اسے منع کیا تھا کہ ابھی استرا نہ مارے لیکن اسے چہرے پر اگا ہوا بےترتیب جھاڑ جھنکار اچھا نہیں لگتا تھا اپنے ایک دوست کی مدد سے اس روئیں
تریاق
پربتوں سے رات اتری تو راستوں پر اندھیرا بچھنے لگا خنکی بڑھ رہی تھی وہ قدرے پریشان ہو گیا۔ ’’شاید میں راستہ بھول گیا ہوں، ورنہ ابھی تک تو مجھے وہاں پہنچ جانا چاہئے تھا’’ اس نے بیلوں کو ہشکارا لیکن دن بھر کے ناہموار راستے نے انھیں بھی تھکا دیا تھا، ہشکارنے
ایک بوسے کا گناہ
گھنے پیڑوں کے کھردرے بدن چھیل کر بہتی ہوا پتوں کی سسکاریاں سن کر لمحہ بھر کو ٹھٹکتی غضب ناک ہوتی اور پھر سے اپنی نادیدہ انگلیوں سے پیڑو ں کی بدن نوچنے لگتی۔ بادلوں سے اترتی دھند منظر نگلنے لگی تھی۔ ’’سنومیرا جی چاہا دھند کے حلق میں ہاتھ ڈال سارے منظر
رشتہ
اس قبر جیسی تنگ و تاریک سی جگہ سے جیسے کسی نے اسے اچانک باہر لا پٹخا، عجیب دل دہلا دینے والی آواز تھی جیسے صور اسرافیل پھونکا جا رہا ہو اس کا پورا بدن تشنج کا شکار تھا تیز کٹار کی طرح سینے میں ابھرتی ڈوبتی سانسیں، لگتا تھا جیسے گلے میں کوئی چیز اٹکی
برزخ
اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو جیسے پورا وجود اشکوں میں ڈھل گیا۔ وہ جانتی تھی مرادوں کے چاند گہنانے لگیں تو اندھیرے روح میں بس جاتے ہیں پھیلے ہوئے ہاتھوں پر تواتر سے آنسو گر رہے تھے۔ وہ ارد گرد سے بے نیاز پتھرائی زبان اور خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپتا
بھوک اور خدا
گہرے رنج کی بکل میں سرسراتے وسوسے ڈسنے لگے تھے بقا داؤ پر لگی ہو تو سانسوں میں زہر گھل جاتا ہے اور فیصلہ دشوار تر۔۔۔ ہوا اس کے دل کی طرح بوجھل تھی شام اندھیرا اوڑھے پربتوں سے سرک کر راستوں پر بچھی تو لوگ تھکے تھکے قدموں سے گھروں کو لوٹنے لگے زولو اُن