شاہد جمیل احمد کے افسانے
اسطوخودوس
چلو تہذیب چلو، ہری اپ، جلدی سے سامان باندھو۔ ہمارے تبادلے کے احکامات آچکے ہیں۔ ہمارے سے مراد میرے ٹرانسفر آرڈر آئے ہیں۔ چاکری تو دراصل میں ہی کرتا ہوں، تم تو حکم چلانے کے لیے بنی ہو۔ پھر مصیبت! میں تو تنگ آ گئی ہوں گول گلوب گُھوم گھوم کے۔ مسئلہ یہ
نہ وہ سورج نکلتا ہے
زمین کی تقسیم کا اعلان کیا ہوا کہ لوگوں کے ضمیر اور دل ہی تبدیل ہوگئے۔ صدیوں سے قائم باہم انسانی رشتے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے سالہا سال اکٹھے رہنے والوں کے بیچ کوئی جذباتی رشتہ سرے سے موجود ہی نہ تھا۔ آناً فاناً ان کی سوچوں
ایک رات کی خاطر
میرے کندھوں سے کب اترے گا صابی تو بولتا کیوں نہیں؟ تجھے پتہ ہے اب میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔ میرے قویٰ جواب دے گئے ہیں۔ تجھے لاد کر دو قدم چلتا ہوں تو میری سانس پھول جاتی ہے۔ مجھے ناف پڑ جاتی ہے ناف ٹھیک ہوتی ہے توچک پڑ جاتی ہے اے زلیخا کے معبود تجھے مجھ
ہمزاد
ٹھک، ٹھک، ٹھک! کون ہے بھئی؟ میں ہوں! میں کون؟میں اِبنِ فلاں! ابنِ فلاں کون؟ ابنِ فلااں! ابنِ فلاں کون؟ حد ہو گئی بھئی! یہ کنڈیالے چوہے جیسے بالوں والا بابا میری جان کو آ گیا ہے۔ یہ حیات کا منکر نکیر ممات سے پہلے ہی پوچھ کر رہےگا کہ آخر میں کون ہوں۔
معدوم
ایک پورے چاند کی رات جب سارا گاؤں سویا ہوا تھا، ہر جانب ہوکا عالم طاری تھا مگر ایک پل کو بھی اس کی آنکھ نہ لگی تھی۔ شب کی خاموشی میں بھینسوں کی جگالی اور پھنکار کی آوازیں اس کی سماعت کے ذریعے اس کے دماغ کے ڈھول کی جھلی پر اس طرح برس رہی تھی گویا جنگل