- کتاب فہرست 188785
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
کارگزاریاں61
ادب اطفال2077
ڈرامہ1029 تعلیم377 مضامين و خاكه1542 قصہ / داستان1745 صحت108 تاریخ3588طنز و مزاح752 صحافت217 زبان و ادب1985 خطوط818
طرز زندگی27 طب1034 تحریکات300 ناول5035 سیاسی372 مذہبیات4931 تحقیق و تنقید7376افسانہ3057 خاکے/ قلمی چہرے294 سماجی مسائل119 تصوف2281نصابی کتاب568 ترجمہ4588خواتین کی تحریریں6354-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی14
- اشاریہ5
- اشعار69
- دیوان1498
- دوہا53
- رزمیہ106
- شرح211
- گیت66
- غزل1333
- ہائیکو12
- حمد54
- مزاحیہ37
- انتخاب1660
- کہہ مکرنی7
- کلیات718
- ماہیہ21
- مجموعہ5366
- مرثیہ401
- مثنوی886
- مسدس62
- نعت603
- نظم1318
- دیگر83
- پہیلی16
- قصیدہ201
- قوالی18
- قطعہ74
- رباعی307
- مخمس16
- ریختی13
- باقیات27
- سلام35
- سہرا10
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ20
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت28
بیگ احساس کے افسانے
دخمہ
سامنے سہرا ب کی نعش تھی اور اس کے پیچھے دو دو پارسی سفید لباس پہنے ہاتھ میں پیوند کا کنارہ پکڑے خاموشی سے چل رہے تھے۔ ان کے پیچھے ہم لوگ تھے۔ ’’دخمہ‘‘ کی گیٹ پر ہم لوگ رک گیے۔ ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ میں نے ماحول کا جائزہ لیا۔ سب کچھ ویسا
رنگ کا سایہ
ہم اسی جگہ جا رہے تھے جہاں سے ہمیں راتوں رات افرا تفری کے عالم میں بھاگنا پڑا تھا۔ امّی کا تو صرف جسم ساتھ آیا تھا روح شاید وہیں بھٹک رہی تھی۔ پھر جسم بھی اس قابل نہیں رہا کہ ان کے وجود کا بار اٹھا سکتا۔ آج اس جسم کو اسی زمین کے سپرد کرنا تھا۔ ویان
چکرویو
دھرت راشٹر نے پوچھا۔ ’’اے سنجے مجھے بتاؤ اتنے سارے لوگ اپنے اپنے ہاتھوں میں ہتھیار اٹھائے اس سرزمین پر کیا کر رہے ہیں؟‘‘ سنجے جواب دیا۔ ’’اے دھرت راشٹر۔ وہ لوگ ایک جاتی کو نشٹ کر دینا چاہتے ہیں۔ انھیں صفحۂ ہستی سے مٹادینا چاہتے ہیں‘‘۔ ’’کیا
اجنبی اجنبی
جہاں زمین سے قریب ہوتا جا رہا تھا۔ اس کے وجود میں اطمینان کی ایک لہر دوڑ گئی۔ بس چند لمحے۔ چند لمحوں بعد اجنبیت کا بوجھ جو پچھلے چاربرسوں سے وہ اپنے کندھوں پراٹھائے پھر رہا ہے، اتار پھینکے گا۔ چار برس پہلے اس نے اپنی شناخت کھودی تھی اورپیسہ ڈھالنے کی
کرفیو
خوفناک عفریت نے پھر زندگی کے بدن میں اپنے ناخن گاڑ دیئے۔ زخموں سے خون ابلنے لگا۔ وہ سب وحشت زدہ جانوروں کی طرح سڑک پر نکل آئے۔ عمارتوں اور انسانوں کے اس جنگل میں غراتی پھرنے والی دیوہیکل جانوروں جیسی بسیں آگ اور پتھراؤ کے خوف سے جیسے غاروں میں جا چھپی
شکستہ پر
دس برس بعد سمیر اور سشما کی ملاقات ہوئی تو دونوں نے شادی کا فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگائی اور ایک روز چپکے سے شادی بھی کر لی۔ ان برسوں میں دور رہ کر دونوں کافی کچھ کھو چکے تھے۔ سشما نے جب اپنی ممی کو شادی کی بات بتائی تو انھوں نے صرف اتنا ہی کہا کہ وہ
خس آتش سوار
سورج نکلنے میں دیر تھی۔ گرودیو نے آنکھیں موندے موندے سوچا وہ سب اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہوں گے۔ دو گھنٹے بعد وہ میڈٹیشن ہال میں جمع ہو جائیں گے۔ آج انھیں لکچر دینا تھا۔ انھیں اس بات کا اچھی طرح احساس تھا کہ ان کے پاس ایسے الفاظ ہیں جو سننے والوں
سانسوں کے درمیان
وہ عجیب سی ذہنی حالت میں جی رہا تھا۔ ایسی حالت جس میں وہ معمول کے مطابق ہر عمل کررہا تھا لیکن وہ عمل اس کی یادداشت کا حصہ نہیں بن رہا تھا۔ خواب خواب کیفیت، جیسے بہت زیادہ نشے میں ہو سب کچھ یاد رہتا ہے لیکن کہیں کہیں درمیانی کڑیاں غائب ہوجاتی ہیں۔
join rekhta family!
-
کارگزاریاں61
ادب اطفال2077
-
