Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Bismil Aazmi's Photo'

بسمل اعظمی

1946 | ممبئی, انڈیا

بسمل اعظمی کا تعارف

پیدائش : 01 Jul 1946 | اعظم گڑہ, اتر پردیش

بسمل اعظٰمی 01؍جولائی 1946ء کو اساڑھا اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ 1972ءمیں بی۔ اے۔ اور بی ایڈ کرنے کے بعد ممبئی آئے۔ اور اسی سال انجمن اسلام کرلا میں مدرس کی حیثیت سے بحال ہوئے۔ یہاں آ کر ایم۔ اے کیا۔ ترقی کرکے صدر مدرس ہوئے۔ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے کلاس کا انتظام کرلا اپنے اسکول میں کرایا۔ وہاں سے سبکدوش ہونے کے بعد ایک دوسرا برانچ گوونڈی میں کھولا جو اب تک ان کی زیر سرپرستی قائم ہے۔ ابتداء میں اکمل اعظمی جو ان کے ماموں تھے انہوں نے ان کی شاعری پر اصلاح دی۔ ان دنوں پروفیسر مجاہد حسین صاحب سے اصلاح لیتے ہیں۔ بسمل نے شاعری 1968ء میں شروع کی۔ بسمل صاحب کے کئی شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ان کے ایک شاگرد نے ان پر پی۔ ایچ۔ ڈی مقالہ بھی لکھا ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ بسمل بڑے خوش نصیب ہیں۔

شاعری میں شاعر کی شخصیت کا اثر ہونا لازمی ہے۔ شاعری دل کی آواز ہے اس لئے اس میں شاعر کے احساسات وجذبات کا اثر ہوتا ہے۔ حالی کا عالمانہ اور ناصحانہ انداز، جوش کا شبابی جوش، اور اقبال کی خودی کے پیغام کا اثر ان کی شاعری میں ملتا ہے۔ بسمل صاحب ایک معلم ہیں اس لئے ان کی شاعری میں معلمانہ اور ناصحانہ انداز جابجا نظر آتا ہے ان کی شاعری کے مطالعے کے وقت یہ بات ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ وہ ایک معلم ہیں ان کا سارا وقت علم کے فروغ کے لئے گزرا ہے۔ وہ تقریباً 31 برس تک معلم کے فرائض انجام دیتے رہے آخری برسوں میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک معلم ہی نہیں ایک منظم بھی ہیں۔ چاہے جس کلاس میں شورشرابا ہو رہا ہو صرف ان کے آنے کی خبر دینا ہی کافی ہوتا ہے۔ اچھے خاصے سرکش طالب علم کو بھی انسانوں کی طرح رہنا پڑتا تھا۔ ان کے اوپر طلبہ اور طالبات کے والدین (گارجین) اور غنڈہ صفت لیڈران کا بھی دباؤ آتا تھا۔ مگر انہوں نے کبھی اپنے اصول کی قربانی نہیں دی۔ زبردست قوت استدلال سے سرکش لوگوں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا کرتے تھے۔ ان کی ایک نظم ہے ’’معلم‘‘ یہ پابند نظم بڑی خوبصورت ہے۔ اس میں انہوں نے معلم کی خوبیاں بیان کی ہیں اور دنیا والوں کے سامنے اس اہمیت کو اجاگرکیا ہے۔

اس نظم میں مفکرانہ پہلو ہے۔ اس کو شاعرانہ مصوری کی شاعری کہی جاسکتی ہے۔ یوں بھی آج کل اس طرح کی نظمیں کہنے کا چلن ختم ہوچکا ہے۔ اس لئے اس کی اہمیت بہت زیادہ  ہے اس طرح کی دوسری پابند نظمیں ہیں ماضی اور جنون میں جن کے مطالعے کے بعد یہ بات ثابت ہوجاتی ہے علم سے وجود پانے والا شعور ہمہ گیر اور وسیع ہوتا ہے سلیقہ رکھ رکھاؤ شائستگی کے انداز نمایاں ہوتے ہیں۔ ان کی نظموں کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے ہر موقع کے لئے اپنی شاعرانہ عظمت دکھائی ہے ایسی نظموں میں فکر کی سادگی اور روانی ہے۔ بیان کی صفائی پڑھنے والوں کو اپنے طرف کھینچ لیتی ہے۔

کچھ نظمیں ایسی ہیں جو انہوں نے اسکول میں طلبا کے رخصت ہونے پر لکھی ہیں۔ ’’گلشن اسلام‘‘ اسکول کا ترانہ، خراج عقیدت برائے پرنسپل شوکت سلطان عہد نو کا مجاہد ابو عاصم اعظمی کے نام، یہ ان کی نظمیں جن سے ان کی قادرالکلامی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نظمیں انہوں نے بچوں کے لئے بھی لکھی ہیں مگر ایسی نظمیں علاحدہ شائع کی جاتیں مگر شعری کاوش میں انہیں بھرتی کی نظمیں کہیں جائیں گی۔ تو اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی۔ بسمل صاحب زدگو ہیں اس لئے بچوں کے لئے نظمیں کہہ کر اسے الگ سے شائع کرسکتے ہیں۔ بسمل صاحب شاعری کی تبدیلی سے ناواقف نہیں ہیں۔ لیکن انہیں روایت کا احترام کرنا آتا ہے ان کے اشارے کنائے اور اصطلاحات غیر مانوس نہیں لگتی ہیں وہ جانتے ہیں کہ شاعری میں نئے تجربات نہ ہوں تو وہ بانجھ بن جائے گی جس طرح ندی میں نئے پانی کا آنا بند ہوجائے تو وہ بدبودار نالا بن جاتا ہے۔ ویسے بھی کسی شاعر کی شاعری کا جائزہ لینے کے بعد اسے قدامت پسند، ترقی پسند اور جدت پسند کے دائرے میں رکھ کر ایک فیصلہ دینا مناسب نہیں ہے اس سے شاعر کی شاعری کی اچھائیاں ابھر نہیں سکتی ہیں اور ایسا دور جس میں شاعر عصری تقاضوں کے مطابق شعر کہہ رہا ہو تو پھر بسمل صاحب کیوں اس سے الگ رہ سکتے تھے۔ تقریباً 1970ء کے بعد کے شعرا نے جو شعر کہے ہیں ان میں باقی رہنے کی صلاحیت ہے۔ ان میں زمان و مکان کی حدود اور قیود سے آزاد رہ کر صحت مند اقدار پائی جاتی ہیں جو انسانوں کا ازلی سرمایہ ہے۔ کیونکہ اس سے قبل کے جدیدیوں کے رویّے سے قاری اور شاعر کے بیچ دوری بڑھ گئی تھی۔ اس دور کے اکثر شاعر نے نامانوس اجنبی علائم بے سروپا مضامین مہمل گوئی اور کرخت باتیں کر کے خود کو پڑھنے والے کی نظَروں سے گرا لیا تھا۔

بسملؔ کی شاعری کا رشتہ زمین سے جڑا ہوا ہے۔ یہ دنیا الف لیلوی نہیں ہے۔ سائنسی پانی کے چھڑکاؤ سے پتھر ہوگئی ہے۔ ہر زمانے میں محبت کے نام پر شاعری میں خرافات ہوتے رہے ہیں اور اس کا چرچا اس قدر کیا کہ شاعری کا نام شرمسار رہا۔ بسمل صاحب نے بھی محبت کا ذکر کیا ہے۔ مگر شاعری کی پاکیزگی پر آنچ آنے نہیں دیا۔

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے