- کتاب فہرست 181552
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1653
طب565 تحریکات257 ناول3437 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی9
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1334
- دوہا61
- رزمیہ92
- شرح150
- گیت87
- غزل750
- ہائیکو11
- حمد32
- مزاحیہ38
- انتخاب1387
- کہہ مکرنی7
- کلیات635
- ماہیہ16
- مجموعہ4006
- مرثیہ332
- مثنوی680
- مسدس44
- نعت425
- نظم1017
- دیگر46
- پہیلی14
- قصیدہ143
- قوالی9
- قطعہ51
- رباعی257
- مخمس18
- ریختی17
- باقیات27
- سلام28
- سہرا8
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی20
- ترجمہ80
- واسوخت24
فوزیہ قریشی کے افسانے
امتل
تالیوں کی گونج نے سمینار کے اختتام کا اعلان کیا تو وہ اپنا بیگ اٹھا کر سست روی سے قدم بڑھاتی ہوئی ھال کے خارجی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ وہ دروازے سے چند قدم دوری پر تھی کہ کسی نے اسے پیچھے سے پکارا۔ وہ ٹھٹھک کر رکی اور مُڑ کر دیکھا تو پروفیسر فصیح چوہدری
میرے خیالوں کی ہم سفر
آج بھی جب وہ یاد آتی ہے تونجانے کیوں؟ میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ دل کے موسم پر ویرانی کی بدلی سی چھا جاتی ہے۔ مجھے تو اس سے کبھی محبت تھی ہی نہیں۔۔۔ پھر ایسا کیا ہوا؟ کب، کیوں اور کیسے ہو گیا؟ یہی بات میرے لئے حیران کن تھی۔ وہ جب مجھ سے پوچھتی، علی!!
دوسرا مرد
‘‘جب مرد کسی سے محبت کرتا ہے تو کیا سچ مچ واقعی اسی سے محبت کرتا ہے، کیا پھر اس سے شادی بھی کر لیتا ہے؟’‘ ’’وہ مجھ سے آج رو رو کر پوچھ رہی تھی۔ ساون کی کالی گھور گھٹاوں کی طرح اس کی آنکھوں میں آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اس کی خوبصورت چمکدار
محبت جاوداں میری
محبت کرنے والوں کی شخصیت میں تضاد ہوتا ہے۔ اس کی شخصیت میں بھی تضاد تھا۔ گہرا تضاد۔ یوں تو محبت کی کوئی عمر نہیں ہوتی، نہ تو کوئی مذہب اس کے آڑے آتا ہے اور نہ ہی کوئی سرحد۔ لیکن زمانے کے لئے میں اب اس عمر کو پہنچ چکی تھی کہ مجھے محبت کا نہ حق تھا اور
تہذیب کی برزخ
‘’ارے۔۔۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے؟۔ جب دیکھو اور جسے دیکھو بس نصیحت پہ نصیحیت کرنے پر تلا ہے۔۔۔ سب کا بس مجھ ہی پر کیوں چلتا ہے؟’’ جینا، ان وقت ناوقت ملی نصیحتوں کی بھرمار سے بری طرح اکتا چکی تھی۔ امی، دادی اماں اور ابا جان۔۔۔ ارے سب کے سب۔۔۔
گہرے گھاؤ
نومبر کی وہ وحشت نا ک شام اس کے لاشعور میں کائی کی طرح جم چکی تھی۔ اسے اپنے ہاتھ لال اور ہرے رنگ کا ایک شاہکار دکھائی دیتے تھے۔ جیسے کسی آرٹسٹ نے اپنے دل کے رنگین زخم کینوس پر اتار دیئے ھوں۔ جب وہ کھرچ کھرچ کر تھک جاتی تو وارڈ میں موجود سب کرم فرماؤں
سوا نیزے پہ ٹھہرا سورج
نجانے کتنے برسوں سے آگ برسا رہا تھا۔ لو کے تھپیڑے اور چلچلاتی گرم دوپہروں نے ہر سانس لینے والے حشرات کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ ایک پراسرار سی خاموشی اطراف میں چھائی ہوئی تھی۔ پہاڑ جیسے اونچے، لمبے، گرم اورخشک دن کاٹے نہ کٹتے تھے۔ چاروں طرف ہو کا عالم
حسن نظر
’’ارے رکو، سنو تو کائنات۔۔۔ کائنات‘‘ میری آواز آس پاس کے شور میں کہیں دب کر رہ گئی اور وہ اس کا ہاتھ تھامے بس میں سوار ہو گئی۔ ’’وہ کون تھا اور اس کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں کیوں تھا؟ کون ہو سکتا ہے؟ جس کے ہونے کا احساس اتنا قوی ہے کہ اسے کچھ سنائی
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
GET YOUR PASS
-
ادب اطفال1653
-