- کتاب فہرست 187330
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1954
طب902 تحریکات295 ناول4577 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی12
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1445
- دوہا64
- رزمیہ111
- شرح195
- گیت83
- غزل1148
- ہائیکو12
- حمد45
- مزاحیہ36
- انتخاب1569
- کہہ مکرنی6
- کلیات686
- ماہیہ19
- مجموعہ4983
- مرثیہ379
- مثنوی825
- مسدس58
- نعت545
- نظم1231
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ186
- قوالی19
- قطعہ61
- رباعی295
- مخمس17
- ریختی13
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی29
- ترجمہ73
- واسوخت26
فوزیہ قریشی کے افسانے
امتل
تالیوں کی گونج نے سمینار کے اختتام کا اعلان کیا تو وہ اپنا بیگ اٹھا کر سست روی سے قدم بڑھاتی ہوئی ھال کے خارجی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ وہ دروازے سے چند قدم دوری پر تھی کہ کسی نے اسے پیچھے سے پکارا۔ وہ ٹھٹھک کر رکی اور مُڑ کر دیکھا تو پروفیسر فصیح چوہدری
دوسرا مرد
‘‘جب مرد کسی سے محبت کرتا ہے تو کیا سچ مچ واقعی اسی سے محبت کرتا ہے، کیا پھر اس سے شادی بھی کر لیتا ہے؟’‘ ’’وہ مجھ سے آج رو رو کر پوچھ رہی تھی۔ ساون کی کالی گھور گھٹاوں کی طرح اس کی آنکھوں میں آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اس کی خوبصورت چمکدار
میرے خیالوں کی ہم سفر
آج بھی جب وہ یاد آتی ہے تونجانے کیوں؟ میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ دل کے موسم پر ویرانی کی بدلی سی چھا جاتی ہے۔ مجھے تو اس سے کبھی محبت تھی ہی نہیں۔۔۔ پھر ایسا کیا ہوا؟ کب، کیوں اور کیسے ہو گیا؟ یہی بات میرے لئے حیران کن تھی۔ وہ جب مجھ سے پوچھتی، علی!!
محبت جاوداں میری
محبت کرنے والوں کی شخصیت میں تضاد ہوتا ہے۔ اس کی شخصیت میں بھی تضاد تھا۔ گہرا تضاد۔ یوں تو محبت کی کوئی عمر نہیں ہوتی، نہ تو کوئی مذہب اس کے آڑے آتا ہے اور نہ ہی کوئی سرحد۔ لیکن زمانے کے لئے میں اب اس عمر کو پہنچ چکی تھی کہ مجھے محبت کا نہ حق تھا اور
تہذیب کی برزخ
‘’ارے۔۔۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے؟۔ جب دیکھو اور جسے دیکھو بس نصیحت پہ نصیحیت کرنے پر تلا ہے۔۔۔ سب کا بس مجھ ہی پر کیوں چلتا ہے؟’’ جینا، ان وقت ناوقت ملی نصیحتوں کی بھرمار سے بری طرح اکتا چکی تھی۔ امی، دادی اماں اور ابا جان۔۔۔ ارے سب کے سب۔۔۔
گہرے گھاؤ
نومبر کی وہ وحشت نا ک شام اس کے لاشعور میں کائی کی طرح جم چکی تھی۔ اسے اپنے ہاتھ لال اور ہرے رنگ کا ایک شاہکار دکھائی دیتے تھے۔ جیسے کسی آرٹسٹ نے اپنے دل کے رنگین زخم کینوس پر اتار دیئے ھوں۔ جب وہ کھرچ کھرچ کر تھک جاتی تو وارڈ میں موجود سب کرم فرماؤں
حسن نظر
’’ارے رکو، سنو تو کائنات۔۔۔ کائنات‘‘ میری آواز آس پاس کے شور میں کہیں دب کر رہ گئی اور وہ اس کا ہاتھ تھامے بس میں سوار ہو گئی۔ ’’وہ کون تھا اور اس کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں کیوں تھا؟ کون ہو سکتا ہے؟ جس کے ہونے کا احساس اتنا قوی ہے کہ اسے کچھ سنائی
وجود سے وجود تک
’’اللہ نے اسے پانچ برس بعد اس خوشخبری سے نوازہ تھا۔ جس کے لیے وہ پل پل ترسی تھی۔ اب اس کے بھی اولاد کی مہک آئےگی، اس کا سونا پن بھی اب دور ہو جائےگا۔’’ ‘’وہ عاشر کو اپنی رپورٹ دکھاتے ہوئے بولی،۔ تم اب خوش ہو نا، اب تو تم دوسری شادی نہیں کروگے بولو’’ وہ
join rekhta family!
-
ادب اطفال1954
-