- کتاب فہرست 185546
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1922
طب883 تحریکات291 ناول4404 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1435
- دوہا64
- رزمیہ105
- شرح182
- گیت83
- غزل1118
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1547
- کہہ مکرنی6
- کلیات675
- ماہیہ19
- مجموعہ4872
- مرثیہ376
- مثنوی817
- مسدس57
- نعت537
- نظم1204
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ180
- قوالی19
- قطعہ60
- رباعی290
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
خاقان ساجد کے افسانے
صحبت بہ اہل دل
میں بہت رنجیدہ تھا۔ باس سے دفتری معاملہ پر معمولی سی تکرار ہوئی تھی جس کی پاداش میں اس نے میرا تبادلہ مری سے ملتان کر دیا تھا۔ میری کیفیت اس شخص کی سی تھی جسے جنت سے دیس نکالا دے کر جہنم میں جھونکا جا رہا ہو۔ میں گذشتہ پانچ سال سے مری میں تعینات
شیدو
وہ کہنے لگا: ’’بھیرہ انکلیو تو ایک پرچھائیں ہے اس سندر شہر کی۔ رہی روپاتو اس حقیقت کے باوجود کہ وہ شادی سے پہلے ’’مس کلکتہ‘‘ کا ٹائٹل جیت چکی تھی، میرے خیالوں کے ایرینا میں منعقد ہونے والے ہر مقابلۂ حسن میں وہ ہمیشہ رنر اپ ہی رہی۔ ملکۂ حسن کا تاج شیدو
بھوبل
رات بوڑھی ہو چکی تھی۔ میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ درخت جھاڑیاں مکان سیاہ عفریوں کی طرح پیچھے کو بھاگ رہے تھے۔ اندھیرا جیسے اونگھ رہا تھا۔ مجھے تھکن سی محسوس ہونے لگی۔ گاڑی اسی بے ڈھنگی رفتار سے پٹڑیاں بدل رہی تھی۔ میں نے ثریا کی طرف دیکھا وہ بے سُدھ
سوزدروں
اسے توقع تو تھی مگریقین سے کچھ کہنا مشکل تھا۔ کمپی ٹیشن ہی بہت تھا۔آخری وقت تک امیدوبیم کی سولی پر لٹکا رہا۔ دفترسے اس نے دو روز کی رخصت لے لی تھی۔ اچھی یا بری خبر وہ اپنے گھر پر ہی سننا چاہتا تھا۔ دوپہر دو بجے کے قریب ایک سینیئر نے فون پر خوش
مس چودھری
میں اس قدر ذہنی تناؤ کا شکار تھی کہ لگتا تھا میرا برین ہیمبرج ہو جائےگا۔ رو رو کر دعائیں مانگتی کہ میرا تبادلہ کہیں اور ہو جائے۔ یا کوئی ایسا بندہ قصبے میں وارد ہو جو بدمعاش مچھل کو نکیل ڈال سکے۔ اس نے ہمارا جینا حرام کر رکھا تھا۔ میں، مس نائلہ
زرخرید
سیانوں نے سچ کہا ہے: ’’بڈھے کی مرے نہ جو رو بالے کی مرے نہ ماں۔‘‘ دونوں کے لئے زندگی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بالک سے زیادہ بالی کو ماں کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر بوڑھے کے لئے بیوی کی جدائی سہنا دشوار ہوتا ہے تو جوان مرد کے
ڈالی
نیا سال بھی دبے پاؤں گزرتا جا رہا تھا مگر سردار کی یورپ یاترا سے واپسی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ اس کی عدیم الفرصتی کے سبب قبیلے کی بیسیوں کنواریاں، بیاہ کے انتظار میں بابل کی دہلیز پر بیٹھی ‘ لو کی ماری امبیوں کی طرح پیلی پڑ رہی تھیں۔ سبھی چپکے چپکے
تہ سنگ
اسکول یونیفارم میں ملبوس مغموم اور اداس پپو خاصی دیر سے سیڑھیوں والے پل پر کھڑا تھا۔ اس کی آنکھیں رو رو کر سوج گئی تھیں اور ناک سے پانی بہہ رہا تھا ۔بائیں رخسار پر تھپڑ کا نشان تھا جسے وہ بار بار سہلاتا۔ گاہے دائیں ہاتھ کی پشت سے اپنی ناک رگڑتا اور
join rekhta family!
-
ادب اطفال1922
-