- کتاب فہرست 185989
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1981
طرز زندگی22 طب923 تحریکات299 ناول4795 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی13
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1460
- دوہا48
- رزمیہ108
- شرح200
- گیت60
- غزل1185
- ہائیکو12
- حمد46
- مزاحیہ36
- انتخاب1597
- کہہ مکرنی6
- کلیات691
- ماہیہ19
- مجموعہ5045
- مرثیہ384
- مثنوی838
- مسدس58
- نعت561
- نظم1246
- دیگر76
- پہیلی16
- قصیدہ189
- قوالی18
- قطعہ63
- رباعی296
- مخمس17
- ریختی13
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت26
خورشید حیات کے افسانے
آدم خور
کہانی تو ہم سب کے اندر سمندر کی لہروں کی طرح ابھرتی ڈوبتی رہتی ہے۔ سمندر میں میں ہوں/مجھ میں سمندر/بارش کی بوندیں سمندر میں/اور سمندر بارش کی بوندوں میں/مجھے قریب سے دیکھو/پہچانو/ابھرتی ڈوبتی لہریں تم سے کیا کہہ رہی ہیں؟ آدمی، سانپ سے بھی زہریلا
پہاڑ، ندی، عورت
سامنے والی برتھ پر بیٹھی وہ، اپنی انگلیوں میں پھنسے برش سے، کینوس پر اتر آئے الگ الگ رنگوں میں بہت پیچھے کی طرف چھوٹتی ہوئی زندگی کے ان گلیاروں کو ڈھونڈ رہی تھی جہاں اٹکن چٹکن دہی چٹاکن کا کھیل تو تھا مگر لکیریں نہیں تھیں۔ بےچینی کے عالم میں اس نے HA-1
پانچ انگلیاں
میری بیٹیاں بغل میں لیٹی ہیں، خوبصورت سی، پیاری پیاری۔ نرم ہتھیلیاں، چھوٹی بڑی انگلیاں۔ بیٹیاں گھروں میں چڑیوں کی طرح چہکتی ہیں۔ ان کی دلکش آوازیں گاؤں میں ندیوں کی طرح بہتی ہیں۔ انھیں دیکھ کر دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ رحمن ان ہاتھوں کوڈاکٹر کے ہاتھ
تتلی سہیلی حویلی
روح کی انگنائی میں/حنائی رنگ ساعتوں میں/نرم انگلیوں کے پوروں پر/پھول– خوشبو منظر لکھ/ پھر سے اڑ گئی تتلی۔ پہلی بار جب اس نے اسے دیکھا تھا تو ایک خواب نے پرندوں کی طرح اپنے پر پھیلائے تھے۔ اسے محسوس ہوا کہ اب وہ زندگی کی راہ کے آخری چھْور تک صرف اسی کا
آنگن میرے گھر کا
نام تو اس کا جمیلہ تھا مگر محلّے کی ساری عورتیں اسے پیار سے جمالو پکارا کرتی تھیں۔ وہ آج بہت تھکی تھکی سی تھی، دفتر سے آتے ہی اس نے اپنی بھیگی بھیگی سی تھکن کو باہر الگنی پر ٹانگ دیا اور ریشمی بستر کو چھوڑ، فرش پر پسر گئی۔ گھر میں پھیلے سناٹا نے جب اسے
خبر ہونے تک
میں نے جب کبھی حقیقت کا سامنا کرنا چاہا ہے تو خود کو اپاہج محسوس کیا ہے۔ انسان، کتنا بے بس ہے، وقت کے ہاتھوں کا کھلونا، اس پر یہ تیور کہ میں انقلاب لا سکتا ہوں۔ زندگی تیز رفتار سے چلتی رہتی ہے اور انسان خواب اور حقیقت کے دو راہے سے گذرتا رہتا ہے۔ کبھی
چھالیا
۔۔۔۔ خورشید حیات ۔۔۔۔ زمین سے لے کر آسمانوں تک کے دھواں دھواں منظر کو دیکھ جب وہ مضطرب ہو جاتی اور رات ایک انجانے خوف سے سہمے ہوئے گزر جاتی۔ تب ہوتا یہ تھا کہ اس کی بوجھل آنکھوں میں صبح کی سپیدی اتر آتی تھی اور شام اْداس اداس سی سیاہ رنگت لئے رات
join rekhta family!
-
ادب اطفال1981
-