Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Krishna Kumar Toor's Photo'

کرشن کمار طورؔ

1933 | دھرم شالہ, انڈیا

ممتاز جدید شاعر۔ ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

ممتاز جدید شاعر۔ ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

کرشن کمار طورؔ کے اشعار

1.3K
Favorite

باعتبار

میں جب پیڑ سے گر کے زمیں کی خاک ہوا

تب اک عالم موہوم سمجھ میں آیا

اس کو کھونا اصل میں اس کو پانا ہے

حاصل کا ہی پرتو ہے لا حاصل میں

سب کا دامن موتیوں سے بھرنے والے

میری آنکھ میں بھی اک آنسو رکھنا تھا

دونوں بہر شعلۂ ذات دونوں اسیر انا

دریا کے لب پر پانی دشت کے لب پر پیاس

خود ہی چراغ اب اپنی لو سے نالاں ہے

نقش یہ کیا ابھرا یہ کیسا زوال ہوا

میں وہم ہوں کہ حقیقت یہ حال دیکھنے کو

گرفت ہوتا ہوں اپنا وصال دیکھنے کو

سفر نہ ہو تو یہ لطف سفر ہے بے معنی

بدن نہ ہو تو بھلا کیا قبا میں رکھا ہے

ساری عمر کسی کی خاطر سولی پہ لٹکا رہا

شاید طورؔ میرے اندر اک شخص تھا زندہ بہت

وہ بھی مجھ کو بھلا کے بہت خوش بیٹھا ہے

میں بھی اس کو چھوڑ کے طورؔ نہال ہوا

اک آگ سی اب لگی ہوئی ہے

پانی میں اثر کہاں سے آیا

ان سے کیا رشتہ تھا وہ کیا میرے لگتے تھے

گرنے لگے جب پیڑ سے پتے تو میں رویا بہت

ایک دیا دہلیز پہ رکھا بھول گیا

گھر کو لوٹ کے آنے والا بھول گیا

میں تو تھا موجود کتاب کے لفظوں میں

وہ ہی شاید مجھ کو پڑھنا بھول گیا

کب تک تو آسماں میں چھپ کے بیٹھے گا

مانگ رہا ہوں میں کب سے دعا باہر آ

بہت کہا تھا کہ تم اکیلے نہ رہ سکو گے

بہت کہا تھا کہ ہم کو یوں در بدر نہ کرنا

کیوں مجھے محسوس یہ ہوتا ہے اکثر رات بھر

سینۂ شب پر چمکتا ہے سمندر رات بھر

یہ اسرار ہے ظاہر اس کے ہونے کا

منظر ہو یا پس منظر گہرا پانی

میں کس سے کرتا یہاں گفتگو کوئی بھی نہ تھا

نہیں تھا میرے مقابل جو تو کوئی بھی نہ تھا

بند پڑے ہیں شہر کے سارے دروازے

یہ کیسا آسیب اب گھر گھر لگتا ہے

یہاں کسی کو کسی کی خبر نہیں درکار

عجب طرح کا یہ سارا جہان ہو گیا ہے

Recitation

بولیے