- کتاب فہرست 185733
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال2008
طرز زندگی22 طب928 تحریکات297 ناول4849 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی13
- اشاریہ5
- اشعار68
- دیوان1464
- دوہا50
- رزمیہ106
- شرح201
- گیت62
- غزل1187
- ہائیکو12
- حمد46
- مزاحیہ36
- انتخاب1601
- کہہ مکرنی6
- کلیات691
- ماہیہ19
- مجموعہ5052
- مرثیہ384
- مثنوی845
- مسدس58
- نعت566
- نظم1251
- دیگر76
- پہیلی16
- قصیدہ189
- قوالی17
- قطعہ65
- رباعی300
- مخمس16
- ریختی13
- باقیات27
- سلام34
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ20
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت26
مظہر الحق علوی کے ذریعے کیے گئے تراجم
چور
میر ے کوں اپنی ماں کے ساتھ رہنا بوت اچھا لگتا ہے۔ مجھے ایسی، ارے یہ کس نے دروازہ کھولا۔ اوماں رے! باپا (ابا) کسی آدمی کے ساتھ گھر میں آئے۔ میرے کوں تو ایسا ڈر لگا کہ میں بابا بابا کرتا ہوا رسوئی گھر میں گھس گیا۔ وہ آدمی میرے کوں ہی مارنے آیاتھا۔
نہ حد میں، نہ حد کے باہر
’’آنے والا ہے!‘‘ سب بے تحاشہ ہنس رہے تھے۔ ہنستے ہنستے بہت سی باتیں ہورہی تھیں۔ کئی برسوں سے ہنستے ہنستے کئی باتیں ہوتی آئی تھیں۔ یونہی ہنستے ہنستے گھر میں گیتی آئی، سمیتی آئی، نیتی آئی، اور آخر میں سونیتی بھی آگئی۔ قہقہے، دبی دبی خوشگوار ہنسی
جنگلا
چاروں طرف پھیلے ہوئے لمبے سایوں والے جٹادھاری برگد اور ہرے بھرے نظرآنے کی کوشش میں خشک بنے ہوئے جنگل کے بیچ بسا ایک گاؤں تھا۔ ایک محلہ جس میں دھول ہی دھول ہی دھول تھی، مگر اس کے باوجود ھول کچھ زیادہ اڑتی نہ تھی، سوائے ان دنوں کے کہ جب بوڑھی عورتیں
جگرلخت لخت
رات کو دوبجے میں نے گھر میں قدم رکھا۔ گھر میں اندھیرا تھا۔ باہر کی روشنی کے ریزے میری آنکھوں میں تھے جو گھر کے اندھیرے میں چبھنے لگے۔ گھر کے ایک کونے میں رکھی ہوئی لالٹین کی بتی کو میں نے اکسایا۔ اس کے ٹوٹے ہوئے شیشے میں سے ہوا اندر داخل ہوئی تو شعلہ
نیلی کا بھوت
گھور، اندھیری کالی رات نے اپنی اجارہ داری چاروں طرف پھیلا دی تھی لیکن ایک کمرے میں اور دیے کی روشنی میں بیٹھے ہوئے ان تین دوستوں کو کچھ خیال ہی نہ رہا تھا اور شاید اس کی پرواہ بھی نہ تھی۔ وہ تینوں اپنی باتوں میں ایسے مصروف تھے کہ اگر یہ کالی بھیانک رات
چتا
انگاروں پر راکھ جم گئی ہے۔ راکھ کی اوپری تہہ سرد پڑجائے، ایسی قاتل سردی سے آدھی رات ٹھٹھر گئی ہے۔ گھٹنوں میں سردیے جیون بیٹھا ہوا ہے۔ جچیبھڑی (ایک پرندہ) کی آواز سے کھیت کا مغربی کنارہ گونج اٹھا۔ جیون نے خالی خالی نظروں سے اس طرف، مغرب کی طرف دیکھا
ہوا کی ماری کوئل
پچھلے سال رواپٹیل کو بونے کے لیے اچھے اور کافی بیج نہ ملے تھے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی چار بیگھے زمین میں گنے کے دو ددو جوڑوں والی قلمیں لگادی تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پاتال پھوڑ گہرے کنویں میں چلتے ہوئے رہٹ کی تکونی مشک سے پانی کھینچ کھینچ کر ’’ناڈاں‘‘(۱)
آوازیں اور اجالے
چپل میں پیر ڈالتے ہوئے آخرکار اس نے طے کر لیا۔ وہ باہر آ گیا۔ کمرے کے دروازے سے نکلتے وقت اسے احساس ہوا کہ آج کچھ ہوگا لیکن کچھ ہوا نہیں۔ کھلے ہوئے کواڑ کھلے ہی رہے۔ اس نے زینے پر پہنچ کر پیچھے دیکھا، منہ بنایا اور پھر زینہ اتر گیا۔ پھاٹک پر پہنچ
سرل اور شمپا
سرل اور شمپا میں محبت تھی اور دونوں تقریباً ہر روز شام کے وقت باغ میں بیٹھا کرتے۔ سنیچر اور اتوار کا پورا دن ساتھ گزارتے اور باتیں کرتے تھکتے نہ تھے۔ ایک دن شام کو سرل اور شمپا باغ میں بیٹھے پیار سے باتیں کررہے تھے اور شمپا نے سرل سے کہاتھا کہ قیامت
دوسری شادی
سمجھانے اور تسلی دینے کی صلاحیت انسان میں محدود ہوتی ہے۔ اس کا احساس اسے آج پہلی دفعہ نہ ہوا تھا۔ لیکن کتنے واقعات کسی عزیز کی موت سے بھی زیادہ غمناک ہوتے ہیں، اس کا تجربہ اسے آج پہلی دفعہ ہوا تھا۔ بستر میں وہ مسلسل کروٹیں بدلتار ہا لیکن کسی طور پر
join rekhta family!
-
ادب اطفال2008
-