- کتاب فہرست 183345
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1920
طب864 تحریکات290 ناول4256 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1430
- دوہا64
- رزمیہ98
- شرح182
- گیت81
- غزل1062
- ہائیکو12
- حمد42
- مزاحیہ36
- انتخاب1536
- کہہ مکرنی6
- کلیات666
- ماہیہ19
- مجموعہ4804
- مرثیہ374
- مثنوی811
- مسدس56
- نعت528
- نظم1177
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ178
- قوالی19
- قطعہ60
- رباعی290
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
محمد حامد سراج کے افسانے
ڈرائنگ روم اک گزرگاہ ہے
ایک روزشام ڈھلے میں ایک میڈیکل سٹور سے دوائی لے رہا تھا کہ موبائل پر Miss Call نے متوجہ کیا۔ نمبر دیکھا تو اجنبی تھا۔ رانگ نمبر معمول ہوں تو توجہ دینا عبث ٹھہرتا ہے۔ وقت کے ضیاع کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ پانچ منٹ بعد اُسی نمبر سے دوبارہ Miss Call آئی۔
گلوبل ولیج
خبر آئی۔۔۔ ساری بستی کی بینائی جاتی رہی۔ اک کہرام مچ گیا۔ سب ایک دوسرے کو ٹٹولتے، چیختے، دیواروں سے سرپھوڑتے اور پوچھتے تھے یہ کیا ہو گیا ہے۔۔۔؟ رات میں ہم سوئے تو اچھے بھلے تھے۔ صبح دم آنکھ کھلی تو ہر گھر میں دبا دبا شور تھا اور پھر پوری بستی
پچھلا دروازہ
السّلام علیکم۔۔۔! یا اہل القبور۔ وہ جب قبرستان کی چاردیواری میں داخل ہوا تو السلام علیکم۔۔۔ یا اہل القبور کہنے پراسے جواب میں سلامتی کی دعا ملی تو زمین نے اس کے پاؤں پکڑ لیے۔ وہ سوچنے لگا مٹی کی ان ڈھیریوں میں سے وہ کون سی ڈھیری ہے۔۔۔؟ جہاں سے اس
میکینک کہاں گیا
دل پر لگنے والی چوٹ گہری تھی، من میں اترنے والا گھاؤ شدید تھا۔ اس کی آنکھیں جھکی تھیں۔ پاؤں کے انگوٹھے سے وہ زمین کرید رہا تھا۔ آنکھیں اٹھانا اس تربیت کے خلاف تھا جو اس کی طبیعت اور مزاج کا بچپن سے حصہ تھی۔ وہ آنکھیں اٹھاکر باپ کے سامنے گستاخی کا مرتکب
کتنے مہر دین
یہ کہانی پہاڑی رستوں کی طرح کئی موڑ لےگی۔ اس کہانی کا ٹریک اور منظر آپ کا جانا پہچانا اور مانوس ہے۔ یہ کہانی اپنی مٹی سے پھوٹی ہے اور ایسی زہرناک کہانیاں پھوٹتی رہتی ہیں۔ سفر کے دوران گردوپیش پر نظر رکھیےگا، منظر بدلنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ ابھی پہاڑی
نقش گر
ماسکو کی TRETYAKOV گیلری میں گھومتے ہوئے وہ ایک پینٹنگ کے سامنے رک گیا۔ TERRACE ON THE SEA SHORE 1828. طویل برآمدے کے ستون کے ساتھ ایستادہ لڑکے کے سر پر سرخ ٹوپی تھی۔ لڑکے کے سامنے ایک معصوم بچہ دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ برآمدے کی چھت پر بیلیں
ہونٹ کنارے
بہت پرانی بات ہے۔ اب تواس کے سر کے بال مکمل سفید ہو چکے ہیں۔ جب وہ گاؤں سے شہر تعلیم حاصل کرنے آیا تھا تو اس کے بال گھنگریالے اور کالے سیاہ تھے۔ وہ اپنی اکلوتی محبت کی یاد بھی ٹرنک میں ساتھ رکھ کے لے آیا تھا۔ مقابلے کے امتحان کے بہت بعد کی بات ہے۔
بوسیدہ آدمی کی محبت
وہ اتنی آہستگی اور خاموشی سے کمرے میں داخل ہوا کہ مجھے خبر ہی نہ ہوئی۔ میں ٹالسٹائی کے ناول ’’آننا کا رینینا‘‘ میں کھویا ہوا تھا۔ کئی برس قبل کے روسی معاشرے میں اپنے آپ کو سانس لیتا محسوس کر رہا تھا۔ تمباکو کی ناگوار بو میرے نتھنوں میں گھس کر میری سانسوں
مسافر تو گیا
کوئی ہے۔۔۔؟ آواز تودو۔ بھائی عبدالحمید۔ اے بھائی عبدالحمید۔۔۔ میرے بھائی۔ دروازے کا پٹ کھلا رہنے دو۔ میرا بھائی آ رہا ہے، دیکھو سامنے شیشم تلے وہ بیٹھا وضوکر رہا ہے۔ میں کہتا نہ تھا میرا ماں جایا ضرور آئےگا۔ حکیم جی، سردی شدید ہے، دروازہ
کلوننگ کی پیداوار
اس کے گھر میں آٹا ختم ہو گیا تھا۔ ماں کے کہنے پر وہ دس روپے کا ایک کلو آٹا خرید لایا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ مہینے کا منیاری کی دکان سے ادھار سودا سلف لانا گھر کے معمولات میں شامل تھا۔ کبھی کبھار اس کے باپ کی دکاندار سے چخ چخ ہو جاتی تو
گاؤں کا غیرضروری آدمی
زمین پر سورج کتنے قرنوں سے طلوع اور غروب کے عمل سے گزر رہا ہے۔ یہ اندازہ تخمینہ لگنا ممکن ہی نہیں ہے۔ سب اپنے اپنے محور میں گھوم رہے ہیں۔ چاند، ستارے، سورج، زمین، انسان، چرند پرند اور دکھ سکھ۔۔۔ سب گھوم رہے ہیں۔ اپنے اپنے حصے کی عمریں پوری کر رہے
زمین زاد
سائنس دان انسان کو مریخ پر اتارنے کا حتمی فیصلہ کر چکے تھے۔ کانفرنس میں پورے کرۂ ارض کے سائنس دانوں اور مذہبی سکالرز کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ کانفرنس کئی ماہ سے جاری تھی اور سائنس دانوں نے ہی حتمی فیصلہ کرنا تھا۔ ترقی یافتہ ممالک نے پہلی با ر
ایک اور داؤ
الف انار۔۔۔ ب بکری۔۔ پ پنکھا۔ طالب علم قاعدے پر جھکے جھوم جھوم کر اپنا سبق دہرا رہے تھے۔ آدھی چھٹی ہوئی تو مٹھو سکول میں موجود تالاب پر بیٹھااپنی تختی پوچ رہا تھا۔ گاچی لگا کر اس نے تختی کلاس روم کی دیوار کے ساتھ دھوپ میں کھڑی کر دی اور خود پیٹو گرم
چوب دار
جنبش مکن۔۔۔ ہوشیار باش۔۔۔ نگاہ روبرو۔۔۔! شہنشاہ معظم تشریف لاتے ہیں۔۔۔! اس نے چاروں اور دیکھا۔ خالی محل بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ دور تلک غلام گردشوں میں بھی کوئی متنفس نہیں تھا۔ جب کوئی بھی نہیں ہے تو یہ پکار کیسی ہے۔۔۔؟ کون ہے جس کی آمد کی اطلاع
ڈنگ
بشارت احمد نے بستی خانقاہ سراجیہ کے ایک کھوکھے سے درجن بھرمالٹے خرید کیے۔ مالٹے نارنجی رنگ کے تھے۔ اس نے مونگ پھلی اورچلغوزے خریدنے کا بھی سوچا تھا۔ سیب اور کیلے خریدنے کا بھی اس نے ارادہ کیا تھا۔ لیکن جیسے ہی اس کی نظرمالٹوں پر پڑی اسے اپنی گم شدہ اجڑی
ہے کوئی
کشادہ بازار کے پہلو میں اونگھتی تنگ گلی میں پندرہ بیس دکانیں سانس لے رہی تھیں۔ دکانوں میں مال زیادہ اور گاہک کم تھے۔ بازار سے اس گلی میں داخل ہوتے ہی اچانک ایسے محسوس ہونے لگتا ہے جیسے انسان کسی اور دنیا میں آ نکلا ہے۔ یہ گلی اپنے وجود کے اعتبار سے ایک
اجتماعی مات
اجتماعی ماتاس نے اوور کوٹ پہن رکھا تھا۔ اگر میری یادداشت کی چولیں ڈھیلی نہیں پڑیں تو اوور کوٹ کا رنگ سبز تھا۔ یہ عرض کرتا چلوں کہ اس اوورکوٹ کا سلسلہ کہیں بھی غلام عباس کے مشہور افسانے ’’اوورکوٹ‘‘ سے نہیں جڑتا۔ دیکھنا یہ ہے سبز اوور کوٹ پہنے وہ جا کہاں
رومنی
ٹرک چلا تو اس پر سامان اور مجھ پر یادیں لدی تھیں۔ میری کل متاع ایک بوسہ تھا۔ چلتے ہوئے رومنی کی آنکھوں میں سوال ہی سوال تھے۔ کہیں یہ بوسہ گم نہ کر بیٹھنا۔ اسے سنبھال کر رکھنا۔ میں اس بوسے کے سوا تمہیں اور دے ہی کیا سکی ہوں۔ مجھے ڈر ہے زندگی میں تم پر
گرمی بہت ہے
کمرے کا درجہ حرارت معتدل تھا۔ جانے اسے کیوں گرمی کا احساس ہوا اور اس نے اٹھ کر ایئرکنڈیشنر آن کر دیا۔ بستر پر واپس ٹیک لگا کر اس نے اخبار کی خبر کا بقیہ ٹکڑا اور جس نمبر کے تحت وہ ٹکرا کہیں درمیان والے صفحات میں اشتہاروں کے جنگل میں گم تھا۔۔۔ تلاش
اوریگان
مدقوق چہرہ لیے علی احمد میرے سامنے بیٹھا ہولے ہولے کھانس رہا تھا۔ اس کی کہنیاں میز پر ٹکی تھیں۔ چہرہ بنجر ہاتھوں میں دھرا تھا اور ہڈیوں کے پیالے میں دو خشک آنکھیں رکھی تھیں۔ اس کے ہونٹوں پر پپڑیوں کی شکل میں چھوٹی چھوٹی قبریں اگ آئی تھیں۔ ان میں اس کا
ایک سو اکیاون
کمرے کے شمال مغربی کونے میں اس کے ابو کا پلنگ بچھا تھا۔ سرہانے کی سمت دیوار پر تیل کا نشان تھا۔ اب وقت کی دھول سے اس کا رنگ مٹیالہ ہو چلا تھا۔ اس کے ابو اخبار اور رسائل کے مطالعے کے دوران اپنے سرخ کڑھائی والے عربی رومال کا سینو بناکر سر کے نیچے رکھ لیتے
ریشم کے ریشے
پرانی بس کا ہینڈل پکڑ کر میں اس میں سوار ہوا۔ مجھے معلوم تھا وہ تیس کلو میٹر کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں طے کرے گی لیکن اور کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ کندیاں سے میانوالی تک کڑاک خیل ٹرانسپورٹ کی اجارہ داری تھی۔ بس کندیاں موڑ پندرہ منٹ قیام کرتی اور ہاکر اتر کر
نماز قصر
ڈھولک کی تھاپ پر لڑکیاں رخصتی کا گیت گا رہی تھیں۔۔۔! کِناں جمیاں تے کناں لے جانڑیاں (کس گھر جنم لیا اور کون ہمیشہ کے لیے لے جائےگا) میں لڑکیوں کے جھرمٹ میں گیت کے بول سن کر ایک لمحے کو اداس ہوئی اور کسی بہانے کمرے سے نکل کر باہر صحن میں آ گئی۔
join rekhta family!
-
ادب اطفال1920
-