- کتاب فہرست 187236
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1948
طب894 تحریکات294 ناول4557 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی12
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1444
- دوہا64
- رزمیہ110
- شرح193
- گیت83
- غزل1140
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1560
- کہہ مکرنی6
- کلیات685
- ماہیہ19
- مجموعہ4957
- مرثیہ377
- مثنوی824
- مسدس58
- نعت542
- نظم1221
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ186
- قوالی19
- قطعہ61
- رباعی294
- مخمس17
- ریختی13
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی29
- ترجمہ73
- واسوخت26
محمد جمیل اختر کے افسانے
ٹوٹی ہوئی سڑک
وہ ایک چھوٹے سے گاؤں کی ایک چھوٹی سی سڑک تھی، جس کے ارد گرد درخت ہی درخت تھے درختو ں کے پیچھے سکول کی عمارت تھی، اس سڑک پر آپ اگر چلتے جائیں تو آگے ہسپتال آ جائےگا جہاں ایک ڈاکٹر صاحب بیٹھتے تھے، جو سب کو ایک ہی طرح کی کڑوی ادویات دیتے تھے ان کے پاس
ایک الجھی ہوئی کہانی
’’لو آج میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں یہ کہانی سو سال پرانی ہے ‘‘ ’’سو سال؟‘‘ ’’ہاں تقریبا سوسال‘‘ ’’نہیں بھئی ہم نہیں سنتے اتنی پرانی کہانی، دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے اور تم ہمیں سو سال پرانی کہانیاں سنا رہے ہو‘‘ ’’کچھ کہانیا ں کبھی پرانی
ریلوے اسٹیشن
’’جناب یہ ریل گاڑی یہاں کیوں رکی ہے؟‘‘ جب پانچ منٹ انتظار کے بعد گاڑی نہ چلی تو میں نے ریلوے اسٹیشن پہ اترتے ہی ایک ٹکٹ چیکر سے یہ سوال کیا تھا۔ ’’او جناب پیچھے ایک جگہ مال گاڑی کا انجن خراب ہو گیا ہے اب اس گاڑی کا انجن اسے لے کے اس اسٹیشن پہ آئےگا۔‘‘ ’’کیا
یادداشت کی تلاش میں
خط کے لفافے پر ٹکٹ لگاتے لگاتے اس کی یادداشت ختم ہو گئی اور اسے سب کچھ بھول گیا حتٰی کہ یہ بھی کہ لفافے پر لگائے ان دو ٹکٹوں کا کیا مطلب ہے۔ جیسے بلب جل رہا ہو، روشنی ہواور یکایک اندھیرا چھا جائے۔ اس نے لفافے کودیکھاپھر اپنے ہاتھوں کواسے سمجھ نہ آئی
مسکراتے شہر کا آخری اداس آدمی
اس شہر میں ہروقت ہنستے رہنے کا قانون اب مکمل طور پر نافذ ہوچکاتھاسو اب وہاں کسی کو بھی رونے یا اداس رہنے کی اجازت نہیں تھی ۔ پولیس کے جوان گلی گلی گھومتے اوراگر انہیں کوئی بغیر مسکراہٹ کے ملتا تو اسے فوراًگرفتار کرلیتے ۔ رفتہ رفتہ ملک میں اداس لوگ ختم
جِیرے کالے کا دکھ
یوں تو وہ اچھا تھا لیکن اس کے چہرے پہ دائیں جانب ایک سیاہ داغ تھا بالکل سیاہ جیسے کسی نے کالے پینٹ سے ایک دائرہ بنا دیا ہو۔ بچپن میں وہ اس داغ پر ہاتھ رکھ کر بات کرتا تھا تاکہ کسی کو اس کا داغ نہ دکھائی دے لیکن معلوم نہیں کیسے لوگوں کو وہ داغ دکھائی
join rekhta family!
-
ادب اطفال1948
-