- کتاب فہرست 187940
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
کارگزاریاں54
ادب اطفال2067
ڈرامہ1025 تعلیم376 مضامين و خاكه1511 قصہ / داستان1707 صحت106 تاریخ3553طنز و مزاح747 صحافت215 زبان و ادب1967 خطوط811
طرز زندگی24 طب1031 تحریکات300 ناول5017 سیاسی370 مذہبیات4854 تحقیق و تنقید7302افسانہ3046 خاکے/ قلمی چہرے292 سماجی مسائل118 تصوف2271نصابی کتاب567 ترجمہ4555خواتین کی تحریریں6351-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی14
- اشاریہ5
- اشعار69
- دیوان1489
- دوہا53
- رزمیہ106
- شرح209
- گیت63
- غزل1319
- ہائیکو12
- حمد53
- مزاحیہ37
- انتخاب1652
- کہہ مکرنی7
- کلیات712
- ماہیہ20
- مجموعہ5305
- مرثیہ400
- مثنوی881
- مسدس60
- نعت598
- نظم1308
- دیگر78
- پہیلی16
- قصیدہ199
- قوالی18
- قطعہ71
- رباعی306
- مخمس16
- ریختی13
- باقیات27
- سلام35
- سہرا10
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ20
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت28
محمد جاوید انور کے افسانے
نارسائی
میرے بھاری جوتے خزاں گزیدہ سوکھے پتوں کی احتجاجی آوازوں سے بےنیاز، انہیں روندتے چلے جا رہے تھے۔ میری کیفیت سے بےپروا زوال پذیر سورج نارنجی افق میں غروب سے قبل کی آخری رنگ ریزی میں مگن تھا۔ میں زرد پڑتی گھاس کے بیچ لیٹی گرد پوش پگڈنڈی پر خود کو
دروازہ
"کہہ دینا میں نے لکھنا چھوڑ دیا ہے۔" اس کے لہجے میں مایوسی، تلخی اور احتجاج سب ملے ہوئے تھے۔ آج جب وہ پاؤں گھسیٹتا، سر جھکائے، ملگجے لباس اور بڑھی ہوئی ڈاڑھی کے ساتھ سڑک کی طرف کا جالی دار دروازہ آہستگی سے کھول کر اپنے پسندیدہ کونے تک پہنچا
سرکتے راستے
جب وہ چلتی تو ریت بھرا رستہ اس کے پاؤں کے نیچے سے سرکتا۔ متحرک راستے پر اسے آگے بڑھنے میں سخت دشواری پیش آتی۔ ریت اس کے پاؤں جکڑتی اور رائیگاں مشقت کا درد اس کی پنڈلیوں سے ہوتا ہوا سر تک پہنچتا۔ اس کا گورا، گداز جسم اپنے اندر سڑتے بستے، بے توقیر
آخری گجرا
اور پھر ہماری شادی ہو گئی۔ رضیہ میرے خوابوں کی شہزادی تھی۔ میں کیا اور میرے خواب کیا۔ لیکن خواب تو سبھی کے ہوتے ہیں اور خوابوں کی شہزادیاں بھی۔ میرے پاس تھا کیا اسے دینے کو؟ پھر بھی وہ خوش تھی کہ جو کچھ چھوڑ کر آ رہی تھی وہ بھی کسی کو
دشت وحشت
وہ مجھے سرحد تک جانے والی ٹرین کی منتظر ریلوے کے مخصوص بنچ پر بیٹھی ملی۔ بڑے اسٹیشن پر بہت رونق تھی۔ ہفتے میں دوبار سرحد تک، جانے والی گاڑی نے علی الصبح نکلنا تھا۔ برادر ملک کے ساتھ مسافروں کی آمد و رفت کا بس ایک ہی رستہ کھلا تھا اور یہ ریل گاڑی
غرض
مجھے اس سے غرض نہیں کہ تمہارا اور کس سے کیا تعلق ہے۔ میں صرف اس سے غرض رکھتا ہوں اور اسی میں خوش ہوں کہ تم مجھ سے متعلق ہو۔ فرخ کی آواز میں تیقن نے فریدہ کی روح تک کو نہال کردیا۔ اسے فرخ کی حسین، بھوری آنکھوں میں دنیا بھر کا خلوص ٹھاٹھیں مارتا
بھٹی
محمد علی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی مدد سے چھیداں کی بھٹی کی دہکتی آگ میں دھکیلا تو چنگاریوں کی شوخ قطار چڑ چڑ کر کے بھٹی کے دہانے سے نکل بھاگی۔ بھٹی نے ایندھن کا استقبال کر کے بھڑکتے شعلوں کو تیز تر کرتے ہوئے گاڑھے کثیف
برگد
وہ تین دیہات کے عین وسط میں زمانوں سے چھایا ایک انتہائی شاندار گھنا گھنیرا، چھتنار برگد تھا۔اس کی موٹی، لمبی اور مضبوط شاخوں نے چاروں طرف ایسا دبیز، نرم اور خواب آور سایہ پھیلا دیا تھا کہ دن کو سورج کی قوی ترین کرن بھی اسے چیر کر زمین نہیں چھوپاتی
نیرنگی
شگفتہ نے اپنی پتلی سی چوٹی مکمل کر کے آخری گرہ لگائی، اسے پیچھے پھینکا اور حسب عادت سر کو جھٹکا۔ گاؤں کی تنگ گلی میں کھلتے لکڑی کے خستہ دروازے کو اپنے پیچھے آہستگی سے بند کر کے وہ باہر نکل آئی۔ گلی کے درمیان بہتی نالی کے سیاہ کیچڑ کی سڑاند اسے
مہربانی
لکڑی کی چوکی پر کھڑا اجوحیران تھا کہ نذیر نائی آج کچھا اتار کر اس کی حجامت کیوں بنائےگا۔ صبح ہی سے حویلی میں رونق معمول سے کچھ زیادہ تھی۔ برادری والے صاف کپڑے پہن کر سروں پر رنگ برنگے صافے باندھے اکٹھے ہو رہے تھے۔ اجو نے سوچا کہ آج پھر بیل گاڑیوں
کشتی
’’پھر میں نے اسے کہا کہ زیور اتار کر رکھ لو‘‘۔ ’’وہ کیوں؟ کیا کوئی کشتی ہونے جا رہی تھی؟‘‘۔ ہم تینوں حمید کے ساتھ جڑے بیٹھے تھے۔ آٹھویں کے سالانہ امتحانات سر پر تھے لیکن پھر بھی حمید کو شادی کے لئے چھٹیاں مل ہی گئیں۔ لیکن ملیں صرف چار اوروہ
زندگی اے زندگی
اس نے مجھے گھما کر رکھ دیا۔ " اب تمہاری سمجھ میں آگا ہو گا کہ مں ساری زندگی کوئی بھی تعلق، میرا مطلب ہے کہ رومانوی تعلق کون نہیں نبھا سکا۔" اس نے اپنی طرف سے قصہ ختم کا۔ ہم یہ دھواں دھار گفتگو پچھلے تند گھنٹے سے کر رہے تھے۔ اس کا خال تھا
اجلے پاؤں، میلے پاؤں
وہ میری قطار سے اگلی قطار میں میرے سامنے سے دائیں والی کرسی پر دونوں پاؤں اپنی رانوں تک سکیڑ کر سیٹ پر رکھے بیٹھی تھی۔ آلتی پالتی مارے نہیں بلکہ اپنی منحنی، نازک ٹانگیں دوہری کئے۔ اس کے لاغرسفید پاؤں مجھے بہت خوب صورت اور سبک لگ رہے تھے۔ ایک
مہابندر
مسئلہ یہ درپیش تھا کہ شہنشاہ معظم شیر بہادر کے حکم سے تادیبی تعزیر کے نفاذ پر اب بندروں کا لائحۂ عمل کیا ہو۔ انتظامی حکم کی توجیہات میں بندروں کو شریر، گستاخ اور شرپسند ہونے کا الزام دیا گیا تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر بندروں کے جانور ہونے پر بھی شکوک و
شیر
گیلے بھاری آسمان تلے دسمبر کے آخری دنوں کا کہر جھونپڑی کو مکمل گھیرے تھا۔ برفیلی سیلن جھونپڑی کے اندر رستی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ یاسیت میں غرق بستی کے بیکار کتے ساری رات بھونکنے کے بعد فطری کسلمندی کے سبب چپ سادھ چکے تھے۔ گو ان کے کورس بند ہو چکے
عجیب لڑکی
’’نہیں بھائی۔ میں نہیں مانتی۔ میں افسانہ لکھ رہی ہوں یا الجبرے کا سوال حل کر رہی ہوں جو آپ مجھے فارمولے پر فارمولا سکھانے سمجھانے پر تلے ہیں۔ شروع کی لائن پٹاخہ ہونی چاہیے، پھر زینہ زینہ کہانی آگے بڑھے، کردار محدود ہوں، جزئیات پر زیادہ ارتکاز
فیک
میں جان گیا تھا کہ صبا اسماعیل ایک فیک آئی ڈی ہے لیکن میں اسے ان فرینڈ تک کرنے کو تیار نہیں تھا چہ جائیکہ بلاک کرتا۔ کچھ نشے اپنا جواز بھی ساتھ ہی لاتے ہیں اور ہوتے ہوتے جواز کے مرہون منت ہی نہیں رہتے۔ صبا کی فرینڈز ریکوئیسٹ آنے پر میں نے کئی مشترک
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here
-
کارگزاریاں54
ادب اطفال2067
-
