- کتاب فہرست 187939
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
کارگزاریاں53
ادب اطفال2065
ڈرامہ1024 تعلیم376 مضامين و خاكه1503 قصہ / داستان1701 صحت106 تاریخ3549طنز و مزاح746 صحافت215 زبان و ادب1965 خطوط810
طرز زندگی24 طب1029 تحریکات300 ناول5017 سیاسی370 مذہبیات4844 تحقیق و تنقید7293افسانہ3046 خاکے/ قلمی چہرے292 سماجی مسائل118 تصوف2269نصابی کتاب566 ترجمہ4548خواتین کی تحریریں6350-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی14
- اشاریہ5
- اشعار69
- دیوان1488
- دوہا53
- رزمیہ106
- شرح208
- گیت63
- غزل1320
- ہائیکو12
- حمد53
- مزاحیہ37
- انتخاب1651
- کہہ مکرنی7
- کلیات712
- ماہیہ20
- مجموعہ5298
- مرثیہ400
- مثنوی880
- مسدس60
- نعت596
- نظم1306
- دیگر78
- پہیلی16
- قصیدہ199
- قوالی18
- قطعہ71
- رباعی306
- مخمس16
- ریختی13
- باقیات27
- سلام35
- سہرا10
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ20
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت28
محمد کیف فرشوری کا تعارف
ڈاکٹر محمد کیف فرشوری ایک نو جوان مصنف اور قلم کار ہیں۔ ان کا تعلق صوبۂ اتر پردیس کے مردم خیز خطے بدایوں کے ایک علمی خانوادے ’’فرشوری خاندان‘‘ سے ہے۔ سر سید تحریک اور سر سید کے مشن کو فروغ دینے اور اس کو تقویت پہنچانے میں یہ خانوادہ پیش پیش رہا ہے۔ مولوی ابوالحسن صدیقی، ایم۔ اے۔ او۔ کالج کے پہلے ہندوستانی پرنسپل اور سر سید کے سکریٹری، اسی خانوادے کے پروردہ تھے۔ حافظ مولوی محمد فضلِ اکرم فرشوری نے مسلم یونیورسٹی تحریک کے وفد کا بدایوں میں نہ صرف استقبال کیا، بلکہ عوام و خواص سے اور خود اپنی جانب سے بھی چندے کی معقول رقم فراہم کی، آپ کے چھوٹے بھائی مولوی حضور الحسنین نے ۱۸۹۹ء میں ایم۔ او۔ کالج سے بی۔ اے۔ کیا۔ اردو کے ممتاز محقق پروفیسر آلِ احمد سرور اسی خانوادے کے چشم و چراغ تھے۔
ڈاکٹر کیف کے والد رفعت العین محمد جلیل فرشوری، دانش گاہِ علی گڑھ کے فرخندہ و سرخرو طالبِ علم رہے ہیں۔ آپ اے۔ ایم۔ یو۔ اسٹوڈنٹس یونین سے بھی وابستہ رہے۔ ڈاکٹر کیف نے ابتدائی تعلیم بدایوں میں ہی حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا اور یہاں سے ایم۔ اے۔، ایم۔فل۔ اور پی ایچ۔ ڈی۔ کی اسناد حاصل کیں۔ ایم۔ فل۔ اور پی ایچ۔ ڈی۔ کے مقالوں کے ارقام میں پروفیسر سید محمد امین نے ان کی سرپرستی و راہ نمائی کی۔ ڈاکٹر کیف دسمبر ۲۰۱۱ء کے یو۔جی۔سی۔ نیٹ اینڈ جے آر ایف (UGC NET & JRF) امتحان میں بھی کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر کیف فی الحال شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور درس و تدریس میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اب تک ان کی تین کتابیں ’’شکیل بدایونی: شخصیت اور ادبی خدمات‘‘ (مصنف)، تذکرہ ’’بہارِ بوستانِ شعرا‘‘ (مرتب و مدون) اور ’’کنز التاریخ‘‘ (مرتب و مدون) منظرِ عام پر آ چکی ہیں، جن کی ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی ہے اور ان کی تحقیقی کاوشوں کو سراہا گیا ہے۔ یہ تینوں کتابیں ’’قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی‘‘ کی اسکیم ’’مالی تعاون برائے اشاعتِ مسودات‘‘ کے تحت شائع ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر کیف کی دو اور کتابیں ’’مغنی تبسم‘‘ اور ’’آثارِ بدایوں‘‘، تصنیف و ترتیب کے مرحلے میں ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے درجن بھر سے زائد مضامین و مقالات ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ انھوںنے متعدد قومی و بین الاقوامی سمیناروں، ویبی ناروں اور کانفرنسوں میں بھی شرکت کر تحقیقی مقالے پیش کیے ہیں۔ ابھی حال ہی میں اتر پردیش اردو اکادمی نے اُنھیں ’’کنزالتاریخ‘‘ (۲۰۱۹ئ) کے لیے ایوارڈ سے نوازا ہے۔ ادارہ ان کے نیک اور روشن مستقبل کی دعا کرتا ہے۔
موضوعات
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here
-
کارگزاریاں53
ادب اطفال2065
-
