- کتاب فہرست 188778
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
کارگزاریاں59
ادب اطفال2075
ڈرامہ1029 تعلیم377 مضامين و خاكه1534 قصہ / داستان1741 صحت108 تاریخ3583طنز و مزاح750 صحافت217 زبان و ادب1981 خطوط817
طرز زندگی26 طب1033 تحریکات300 ناول5031 سیاسی372 مذہبیات4908 تحقیق و تنقید7360افسانہ3057 خاکے/ قلمی چہرے294 سماجی مسائل118 تصوف2281نصابی کتاب568 ترجمہ4585خواتین کی تحریریں6355-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی14
- اشاریہ5
- اشعار69
- دیوان1498
- دوہا53
- رزمیہ106
- شرح211
- گیت66
- غزل1331
- ہائیکو12
- حمد54
- مزاحیہ37
- انتخاب1660
- کہہ مکرنی7
- کلیات717
- ماہیہ21
- مجموعہ5358
- مرثیہ400
- مثنوی886
- مسدس62
- نعت602
- نظم1318
- دیگر82
- پہیلی16
- قصیدہ201
- قوالی18
- قطعہ74
- رباعی307
- مخمس16
- ریختی13
- باقیات27
- سلام35
- سہرا10
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ20
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت28
محمد الدین فوقؔ کا تعارف
منشی محمد الدین فوقؔ کشمیری الاصل تھے۔ فروری 1877 میں پیدا ہوئے۔ 1896 میں مڈل کا امتحان دینے کے بعد جو اس وقت یونیورسٹی کا امتحان تھا، سیالکوٹ میں جاکر پٹوار کا کام سیکھنا شروع کردیا۔ پھر چند دن جموں میں رہ کر پیسہ اخبار کے دفتر میں ملازمت اختیار کر لی 1901 میں اپنا اخبار ’’پنجۂ فولاد‘‘ جاری کیا جو 1906 میں بند ہوگیا۔ اس کے بعد ماہنامہ کشمیری میگزین جاری کیا جو 1913 میں ہفتہ وار اختار کشمیری ب گیا اور 1934 تک کشمیر اور اہل کشمیر کی خدمت کرتا رہا۔ اس کے ساتھ ہی 1914 میں رسالہ طریقت جاری کیا جو چار سال تک جاری رہا۔ 1918 میں رسالۂ نظام جاری کیا مگر وہ جلد بند ہوگیا۔
منشی محمد الدین فوقؔ بہ یک وقت شاعر بھی تھے اور ادیب بھی۔ مورخ بھی تھے اور صحافی بھی۔ ان چاروں خصوصیتوں میں انہوں نے نام پیدا کیا ہے کہ چھوٹی بڑی تصانیف کی تعداد سو کے قریب ہے۔ کشمیر کا یہ سب سے بڑا شاعر اور مورخ 14 ستمبر 1945 کو ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے رخصت ہوگیا
فوقؔ صاحب نے ایک ثقہ انسان کی طرح زندگی بسر کی۔ ساری عمر اخبار نویسی کی یا تاریخ پر بیش بہا کتابیں لکھیں۔ ایک مورخ میں جس قسم کی متانت ہونی چاہئے، وہ آپ میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ لیکن متین اور سنجیدہ ہونے کے باوجود جب کبھی بے تکلف دوستوں کی صحبت میں کھلتے تو اس وقت آپ کی شگفتہ مزاجی اور بزلہ سنجی دیکھنے کے قابل ہوتی تھی۔ اخبار نویس کی حیثیت سے بھی آپ کو قارئین کی دلبستگی کا خیال رکھا پڑتا تھا۔ چنانچہ شروع شروع میں لطائف و ظرائف کے نام سے آپ کو قارئین کی دلبستگی کا خیال رکھنا پڑتا تھا۔ چنانچہ شروع شروع میں لطائف و ظرائف کے نام سے آپ کے اخبار میں ایک مستقل کالم ہوتا تھا جس پر آپ کا یہ شعر درج ہوا کرتا تھا
رونی صورت ہوکوئی لاکھ ہنسا دیں آپ کو
دل پھڑک جائے لطیفہ وہ سنا دیں اس کو
آپ کی تالیفات میں دو کتابیں ’’ڈاکٹروں اور مریضوں کے لطیفے‘‘ اور ’’استادوں شاگردوں کے لطیفے‘‘ بھی اس بات کی گواہ ہیں کہ لطیفہ گوئی میں آپ کو کمال حاصل تھا۔موضوعات
join rekhta family!
-
کارگزاریاں59
ادب اطفال2075
-
