- کتاب فہرست 183431
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1772
طرززندگی15 طب579 تحریکات257 ناول3498 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی12
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1339
- دوہا61
- رزمیہ94
- شرح149
- گیت88
- غزل762
- ہائیکو11
- حمد34
- مزاحیہ38
- انتخاب1395
- کہہ مکرنی7
- کلیات637
- ماہیہ16
- مجموعہ4021
- مرثیہ336
- مثنوی704
- مسدس46
- نعت443
- نظم1041
- دیگر49
- پہیلی17
- قصیدہ150
- قوالی9
- قطعہ53
- رباعی259
- مخمس18
- ریختی16
- باقیات27
- سلام29
- سہرا8
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی21
- ترجمہ78
- واسوخت24
ملا رموزی کا تعارف
LCCN :no99036852
ملاّ رموزی گلابی اردو کے موجد کی حیثیت سے ہمارے ادب میں پہچانے جاتے ہیں۔ خود ان کے الفاظ میں گلابی اردو کا مطلب یہ ہے کہ جملے میں الفاظ کی ترتیب کو بدل دیا جائے۔ مثلاً یہ کہ پہلے فعل پھر فاعل اور مفعول۔ اس طرح عربی سے اردو ترجمے کا انداز پیدا ہوجاتا ہے۔ بے شک یہ لطف دیتا ہے لیکن ذرا دیر بعد قاری اکتا جاتا ہے۔
ملا رموزی کا اصل نام صدیق ارشاد تھا۔ بھوپال میں 1896ء میں پیدا ہوئے۔ یہ ان کا آبائی وطن نہیں تھا۔ ان کے والد اور چچا کابل (افغانستان) سے آکر بھوپال میں رہنے لگے۔ دونوں عالم تھے اس لیے اعلیٰ ملازمتوں سے نوازے گئے۔ صدیق ارشاد اردو، فارسی، عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کانپور کے مدرسۂ الٰہیات میں داخل ہوئے۔ اسی زمانے میں مضمون نگاری کا شوق ہوا۔ ان کے مضامین معیاری رسالوں میں شائع ہوئے۔ اب انہوں نے اپنا قلمی نام ملا رموزی رکھ لیا اور دنیائے ادب میں اسی نام سے مشہور ہوئے۔
ملک میں تحریک آزادی نے زور پکڑا تو ملاّ رموزی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ سیاسی مسائل پر اچھی نظر تھی۔ حکومت کے خلاف مزاحیہ انداز میں مضامین لکھنے لگے جنہیں پسند کیا گیا۔ کئی رسالوں نے انہیں مدیر بنانے پر فخر کیا۔ اس کے بعد وحیدیہ ٹیکنیکل اسکول میں مدرس ہوگئے۔ 1952ء میں وفات پائی۔
ملاّ رموزی نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر و مقرر بھی تھے۔ انتظامی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، علم و ادب کے فروغ کے لئے انہوں نے کئی انجمنیں قائم کیں لیکن ان کی اصل شہرت گلابی اردو پر ہے جس کے وہ خود ہی موجد ہیں۔ ان کی یہ نرالے رنگ کی کتاب ’’گلابی اردو‘‘ کے نام سے 1921ء میں شائع ہوئی۔ اسے قبول عام نصیب ہوا لیکن وہ جانتے تھے کہ یہ قبول عام دیرپا نہیں وقتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے سیاست کو اپنا مستقل موضوع قرار دیا اور سادہ و سلیس زبان اختیار کی۔ طنزومزاح سے طبیعت کو فطری مناسبت تھی۔ اس لیے سادگی میں بھی ظرافت کا ہلکا ہلکا رنگ برقرار رہا اسے پسند کیا گیا۔
خود تحریر فرماتے ہیں کہ میرے مضامین کی کوئی اہمیت ہے تو صرف اس لیے کہ ’’میں حقیقت کا دامن نہیں چھوڑتا‘‘ حکومت کے مظالم ، سماجی ناانصافی اور معاشرتی معائب انہیں مجبور کرتے ہیں کہ جو کچھ لکھیں ظرافت کی آڑ میں لکھیں۔ نتیجہ یہ کہ دلچسپی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔مأخذ : تاریخ ادب اردواتھارٹی کنٹرول :لائبریری آف کانگریس کنٹرول نمبر : no99036852
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
GET YOUR PASS
-
ادب اطفال1772
-