- کتاب فہرست 182593
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1913
طب852 تحریکات287 ناول4235 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1432
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح182
- گیت81
- غزل1025
- ہائیکو12
- حمد37
- مزاحیہ36
- انتخاب1530
- کہہ مکرنی6
- کلیات659
- ماہیہ19
- مجموعہ4753
- مرثیہ371
- مثنوی808
- مسدس54
- نعت520
- نظم1164
- دیگر67
- پہیلی16
- قصیدہ179
- قوالی19
- قطعہ57
- رباعی287
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
ملا رموزی کا تعارف
LCCN :no99036852
ملاّ رموزی گلابی اردو کے موجد کی حیثیت سے ہمارے ادب میں پہچانے جاتے ہیں۔ خود ان کے الفاظ میں گلابی اردو کا مطلب یہ ہے کہ جملے میں الفاظ کی ترتیب کو بدل دیا جائے۔ مثلاً یہ کہ پہلے فعل پھر فاعل اور مفعول۔ اس طرح عربی سے اردو ترجمے کا انداز پیدا ہوجاتا ہے۔ بے شک یہ لطف دیتا ہے لیکن ذرا دیر بعد قاری اکتا جاتا ہے۔
ملا رموزی کا اصل نام صدیق ارشاد تھا۔ بھوپال میں 1896ء میں پیدا ہوئے۔ یہ ان کا آبائی وطن نہیں تھا۔ ان کے والد اور چچا کابل (افغانستان) سے آکر بھوپال میں رہنے لگے۔ دونوں عالم تھے اس لیے اعلیٰ ملازمتوں سے نوازے گئے۔ صدیق ارشاد اردو، فارسی، عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کانپور کے مدرسۂ الٰہیات میں داخل ہوئے۔ اسی زمانے میں مضمون نگاری کا شوق ہوا۔ ان کے مضامین معیاری رسالوں میں شائع ہوئے۔ اب انہوں نے اپنا قلمی نام ملا رموزی رکھ لیا اور دنیائے ادب میں اسی نام سے مشہور ہوئے۔
ملک میں تحریک آزادی نے زور پکڑا تو ملاّ رموزی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ سیاسی مسائل پر اچھی نظر تھی۔ حکومت کے خلاف مزاحیہ انداز میں مضامین لکھنے لگے جنہیں پسند کیا گیا۔ کئی رسالوں نے انہیں مدیر بنانے پر فخر کیا۔ اس کے بعد وحیدیہ ٹیکنیکل اسکول میں مدرس ہوگئے۔ 1952ء میں وفات پائی۔
ملاّ رموزی نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر و مقرر بھی تھے۔ انتظامی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، علم و ادب کے فروغ کے لئے انہوں نے کئی انجمنیں قائم کیں لیکن ان کی اصل شہرت گلابی اردو پر ہے جس کے وہ خود ہی موجد ہیں۔ ان کی یہ نرالے رنگ کی کتاب ’’گلابی اردو‘‘ کے نام سے 1921ء میں شائع ہوئی۔ اسے قبول عام نصیب ہوا لیکن وہ جانتے تھے کہ یہ قبول عام دیرپا نہیں وقتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے سیاست کو اپنا مستقل موضوع قرار دیا اور سادہ و سلیس زبان اختیار کی۔ طنزومزاح سے طبیعت کو فطری مناسبت تھی۔ اس لیے سادگی میں بھی ظرافت کا ہلکا ہلکا رنگ برقرار رہا اسے پسند کیا گیا۔
خود تحریر فرماتے ہیں کہ میرے مضامین کی کوئی اہمیت ہے تو صرف اس لیے کہ ’’میں حقیقت کا دامن نہیں چھوڑتا‘‘ حکومت کے مظالم ، سماجی ناانصافی اور معاشرتی معائب انہیں مجبور کرتے ہیں کہ جو کچھ لکھیں ظرافت کی آڑ میں لکھیں۔ نتیجہ یہ کہ دلچسپی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔مأخذ : تاریخ ادب اردواتھارٹی کنٹرول :لائبریری آف کانگریس کنٹرول نمبر : no99036852
join rekhta family!
-
ادب اطفال1913
-