- کتاب فہرست 185969
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1923
طب884 تحریکات291 ناول4417 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1437
- دوہا64
- رزمیہ105
- شرح182
- گیت83
- غزل1117
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1547
- کہہ مکرنی6
- کلیات676
- ماہیہ19
- مجموعہ4879
- مرثیہ376
- مثنوی819
- مسدس57
- نعت538
- نظم1204
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ182
- قوالی19
- قطعہ60
- رباعی290
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
رشید امجد کے افسانے
ایک نسل کا تماشا
مجھے معلوم نہیں کہ میرا اس کہانی سے کیا تعلق ہے اور یہ کہانی کس نے مجھے سنائی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میں اس کہانی کے ایک ایک منظر سے واقف ہوں اور اس لمحے کو بھی دیکھ سکتا ہوں جب ایک روز گزرتے ہوئے بادشاہ کی نظر ایک درویش پر پڑی۔ بادشاہ نے گھوڑے کی لگام
دشت تمنا
خزانے کا خواب متوسط طبقے کے اکثر لوگوں کی طرح اسے بھی وراثت میں ملا تھا، پرانے گھر میں اس کے باپ نے بھی کئی جگہیں لکھ دی تھیں لیکن خزانہ تو نہ ملا گھر کی خستگی میں اضافہ ہو گیا۔ پھر اس نے یہ خواب دیکھنا چھوڑ دیا جو اسے اپنی ماں سے ورثے میں ملا تھا۔
ست رنگے پرندے کے تعاقب میں
ناشتہ کرتے ہوئے اچانک ہی خیال آیا کہ پچھلے ٹیرس پر پڑی چارپائی کو بنوانا چاہیے۔ محلے والے گھر سے اس نئے گھر میں منتقل ہوتے ہوئے اپنا بہت سا پرانا سامان وہیں بانٹ بونٹ آئے تھے۔ بس یہ ایک چارپائی کسی طرح ساتھ آ گئی۔ کچھ عرصہ پچھلے ٹیرس پر دھوپ میں
دل زندہ رہے
بہت دنوں سے یوں لگ رہا ہے جیسے میرے آس پاس سب طوطوں میں تبدیل ہو گئے ہیں، یا یوں ہوا ہے کہ ظاہری ہیئت تو آدمیوں جیسی ہے لیکن باطن طوطے کا ہو گیا ہے۔ ٹی وی، ریڈیو، اخباروں، کتابوں اور رسالوں میں سے ایک ہی آواز ابھرتی ہے۔۔۔ ’’میاں مٹھو‘‘ ایک کورس
جنگل شہر ہوئے
برگد کا وہ پیڑ، جہاں اس سے ملاقات ہوئی تھی، بہت پیچھے رہ گیا ہے اور شناسائی کی لذت صدیوں کی دھول میں اَٹ کر بدمزہ ذائقہ بن گئی ہے، ملاقات کی یاد۔۔۔ بس ایک دھندلی سی یاد ہے۔ جب وہ اسے کریدنے کی کوشش کرتا ہے تو دور کہیں ایک مدھم سی آواز سنائی دیتی ہے
دشت امکاں
خزانے والا خواب برسوں پرانا تھا، ایک صبح ناشتہ کرتے ہوئے ماں نے کہا تھا۔۔۔ ’’مجھے یقین ہے کہ اس گھر میں کہیں خزانہ ہے۔‘‘ ان کی خاموشی پر وہ جھجک سی گئی۔۔۔ ’’رات میں نے پھر وہی خواب دیکھا ہے۔‘‘ اس نے پوچھا۔۔۔ ’’کون سا خواب؟‘‘ ’’وہی خزانے
سناٹا بولتا ہے
ہم سب زمانے کے کاغذ پر دم توڑتے ہوئے وہ حرف ہیں جنہیں بے معنویت کی دیمک چاٹ گئی ہے۔ وہ ان دم توڑتے ہوئے حرفوں میں ایک ایسا کردار ہے جس کا کوئی نام نہیں۔ ایک زمانے میں اس کا ایک نام تھا، لیکن مسلسل بولے جانے کے بعد اب اسے اپنے نام کے حرفوں میں کوئی
بےخوشبو عکس
داستان گو اس کہانی کو یوں سنا تا ہے کہ جب میں شہر میں داخل ہوا تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، ہر طرف ایک شور اور ہنگامہ تھا۔ شہر کے کل مرد، عورتیں، بوڑھے، جوان اور بچے ہاتھوں میں کچھ نہ کچھ پکڑے بجا رہے تھے۔ شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں ایک شیر
ایک کہانی اپنے لیے
زندگی کے طویل خارزار میں وہ مجھے چند لمحوں کے لیے ملتی ہے اور اس کے بعد اداسی کی لمبی شاہراہ ہے جس پر میں اکیلے ہی سفر کرتا ہوں ، یہ چند لمحوں کی ملاقات ہی اس طویل خارزار میں میرا زادِ راہ ہے۔ مجھے لگتا ہے، میری زندگی ایک نہ ختم ہونے والی اداس شام
خواب آئینے
میں، وہ اور دوسرے سب تصویر کی نا تکمیلی کا نوحہ ہیں۔ ایسا نوحہ کہ جس کا نہ کوئی عنوان ہے، نہ موضوع، پہلی سطر سے ماتم شروع ہوتا ہے اور آخری سطر، لیکن آخری سطر تو ابھی لکھی ہی نہیں گئی، اس آخری سطر کو لکھنے کے لیے میں، وہ اور دوسرے سب کبھی دن کے
دل دریا
ایک ٹھاٹھیں مارتا دریا سامنے ہے اور پار کرنے کے لیے کوئی چیز نہیں۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اسے پار کیا ہی نہ جائے اور اسی کنارے چلتے چلے جائیں، شاید کہیں کوئی راستہ مل جائے یا ادھر کا کنارہ کسی دوسرے کنارے سے ہم آہنگ ہو جائے۔ لیکن کب تک؟ کبھی
چلتے رہنا بھی اک موت ہے
جوں ہی رات دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوتی ہے، کارنس پر رکھا مجسمہ آہستہ سے نیچے اترتا ہے اور اس کے سرہانے آ کر کھڑا ہو جاتا ہے، وہ پوچھتا ہے۔۔۔ ’’کون؟‘‘ مجسمہ کہتا ہے۔۔۔ ’’میں ؟‘‘ ’’میں کون؟‘‘ ’’میں ماضی ہوں۔‘‘ وہ سر اٹھا کر اسے دیکھتا ہے۔۔۔
عکسِ بےخیال
پچھلے کئی دنوں سے پرانا گھر میرا پیچھا کر رہا ہے، اس گھر میں میری زندگی کے بہت سے سورج طلوع اور غروب ہوئے۔ میں نے زندگی کے پہلے زینہ پر وہیں قدم رکھا تھا اور جب میں وہاں سے نکلا تو زندگی کے زینے اتر رہا تھا۔ وہاں کی ایک ایک دیوار پر میری خواہشوں اور
خزاں گزیدہ
قیدی کو اس حالت میں لایا گیا کہ گلے میں طوق اور پاﺅں میں زنجیریں، زنجیروں کی چھبن سے پاﺅں جگہ جگہ سے زخمی ہوگئے تھے اور ان سے خون رس رہا تھا۔ طوق کے دباﺅ سے گردن کے گرد سرخ حلقہ بن گیا تھا جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا تھا۔ قیدی طوق کے بوجھ اور پاﺅں کی
دریچے سے دور
کبھی وہ زمانہ تھا کہ کہانی شفیق ماں کی طرح اسے لوریاں دیتی تھی۔ اس وقت وہ ورکشاپ میں کام کرتا تھا۔ دن بھر ہتھوڑوں کی آوازوں میں کرچ کرچ ہو کر جب شام کو گھر لوٹتا تو کہانی دبے پاؤں اس کے پیچھے آتی اور کسی سنسان سڑک پر اس کا ہاتھ تھام کر یوں اس کے ساتھ
تسلسل
رات گئے جب وہ تصویر بغل میں دبائے میرے پاس آیا تو شہر کے بڑے چوک میں جمع لوگ تتر بتر ہو چکے تھے۔ لاش کو سولی سے اتار لیا گیا تھا اور سوگواروں کو لاٹھیاں مار مار کر بھگا دیا گیا تھا۔ میرے دروازہ کھولنے پر اس نے چاروں طرف دیکھا اور تیزی سے اندر آگیا،
join rekhta family!
-
ادب اطفال1923
-