- کتاب فہرست 187039
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
کارگزاریاں28
ادب اطفال2028
طرز زندگی22 طب1000 تحریکات298 ناول4899 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی14
- اشاریہ5
- اشعار68
- دیوان1480
- دوہا51
- رزمیہ106
- شرح204
- گیت62
- غزل1243
- ہائیکو12
- حمد50
- مزاحیہ37
- انتخاب1613
- کہہ مکرنی7
- کلیات698
- ماہیہ19
- مجموعہ5143
- مرثیہ392
- مثنوی860
- مسدس58
- نعت582
- نظم1281
- دیگر77
- پہیلی16
- قصیدہ191
- قوالی18
- قطعہ69
- رباعی301
- مخمس16
- ریختی13
- باقیات27
- سلام35
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ20
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت27
صادقہ نواب سحر کے افسانے
ٹوٹی شاخ کا پتہ
کار تیزی سے بورگھاٹ کی پہاڑیوں سے گزرتی جا رہی تھی۔ رئیسہ کار کی پچھلی سیٹ پر لیٹی ہچکولے کھا رہی تھی۔ اس کی آنکھیں کسی اندرونی درد کا اظہار کر رہی تھیں۔ آگے ڈرائیور کی سیٹ پر شہزاد بیٹھا تھا۔ ’’شیزو!‘‘ اس نے بےاختیار آواز دی، ’’اور کتنا راستہ باقی
وہیل چیئر پر بیٹھا شخص
ایئر پورٹ کی شاندار اور مشہور ڈیوٹی فری دوکانوں میں نیلے یونیفارم میں کام کرنے والی لڑکیاں خریداری میں مسافروں کی مدد کر رہی تھیں۔ ٹرمینل ون کی انڈیگو اے ئر لائنس کا ابھی اعلان نہیں ہوا تھا۔ صائمہ دوکان سے باہر نکل کرذرا سستانے کو اور وقت گزانے کو قطار
شیشے کا دروازہ
’’اسٹیشن روڈ کی گلی میں ایک ورائٹی اسٹور میں ایک لڑکی کے لیے جاب ہے۔‘‘، میری سہیلی شبانہ نے مجھے بتایا،’’ وہاں لڑکیاں بھی کام کرتی ہیں۔‘‘ جا کر دیکھا۔ یہ ایک بیس فٹ چوڑی اور سترہ فٹ لمبی دوکان تھی۔ دائیں طرف دوکان کی مالکن کا انگریزی کے ’ایل‘ کی
بے نام سی خلش
’’ہیلو مس چودھری!‘‘ ممبئی جیسے اجنبی شہر میں ریلوے اسٹیشن پر ایک خوب رُو نوجوان کو اپنے کو وش کرتے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔ بہت دیر سے وہ روبی کے انتظار میں پلیٹ فارم کی ایک خالی بینچ پر بیٹھ کر پریشان نگاہوں سے ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ ’’فرمائیے
اکنامکس
دو دنوں کے بخار نے اسے نڈھال کر دیا تھا۔ تیسرے دن بھی وہ گھر سے باہر نہیں نکلا لیکن شام کے وقت اس کے جی میں جانے کیا سمائی کہ بازار سے مٹھائی خرید لی اور اپنے خیرخواہوں سے ملنے چلا گیا۔ دراصل عمارت کے اس منزلے پر شہلا کا گھر سب سے آخری تھا۔اختر ان کے
دیوار گیر پینٹنگ
صدف نے اپنی ماں کے گھر کے اس ایک چھوٹے سے کمرے کو اپنا آشیانہ مستقل طور پر بنا رکھا تھا، وہ تھی اور اس کی تنہائی ، جس میں مخل ہونے کی کسی کو اجازت نہ تھی۔ بس آوارہ سوچیں ہی چپکے سے چلی آتیں اور ہولے ہولے باتیں کرتی ہوئی اس کے دل و دماغ پر چھا جاتیں اور
ٹمٹماتے ہوئے دیے
یہ علاقہ شہر کی ہلچل سے کچھ دور واقع تھا۔ اس ڈیمڈ یونیورسِٹی میں کئی فیکلٹیز تھیں۔ کینٹین ایک طرف تھا، دوسری طرف ہاسٹل کی دو منزلہ عمارتیں۔ چاروں طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔اسی کے بیچ کچی پگڈنڈیاں تھیں جو سبھی عمارتوں کو آپس میں جوڑتی تھیں۔ پگڈنڈیوں کی
پہاڑوں کے بادل
ڈاکٹر راحین اپنی ڈسپنسری کا پرانا اسٹاک دیکھ رہی تھیں۔ وہ کچھ مہینوں بعد ایکسپائر ہونے والی دوائیاں نکال کر الگ کر رہی تھیں۔ ان کے ڈسپنسری کے اوقات صبح نو سے بارہ اور شام چھ سے آٹھ تھے۔ اس وقت دوپہر کے بارہ بجے تھے۔ شاید آج کا آخری مریض جا چکا تھایا
پیج ندی کا مچھیرا
دھوپ چڑھے پیج ندی کے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دھوپ سے گہرائے گہرے سانولے رنگ کے مرد بارود کو آگ دکھا کر ندی میں پھینک رہے تھے۔ پھٹ پھٹ کی آوازیں آس پاس کے گاوؤں میں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ جمعرات کا دن تھا۔ مہادو آج ذرا دیر سے ندی پر پہنچا تھا۔ وہ
راکھ سے بنی انگلیاں
بنگلور سے ممبئی آنے کے بعد مجھے ذہنی سکون نہیں ملا۔ وجہ یہ تھی کہ میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ کسی اچھے علاقے میں اچھا کرایہ ادا کرکے رہنے کا اہل نہیں تھا۔ ممبئی میں مکان کا ملنا بھی کچھ آسان نہیں ہوتا۔ بہت کوششوں کے بعدجس بلڈنگ میں مجھے جگہ ملی
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here
-
کارگزاریاں28
ادب اطفال2028
-