Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سردار شفیق کا تعارف

سردار شفیق
شہرہنروراں مئو کی سرزمین اردو زبان و ادب کے لیے بڑی زرخیز ہے۔ عرصہ دراز سے اس سر زمین کے بے شمار چراغوں نے اپنی روشنی سے اس ادب کو اپنی جلا بخشی ہے۔ انہیں چراغوں میں مئو کی پیشانی پر ایک دمکتا ہوا تارہ سردار شفیقؔ 24/مارچ 1949 کو نمودار ہوا۔ ان کا شمار عالمی شہرت یافتہ شاعر اور ترقی پسند شاعر فضا ابن فیضیؔ کے تلامذہ خاص میں ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں انہوں نے اہم مقام حاصل کیا ہے ۔ غزلوں اور نظموں کے علاوہ ترانے ،سہرے اور منظوم شخصیت نامے تخلیق فرماۓ ہیں ۔ تعلیمی اسناد کے مطابق 24 مارچ1949 کو مئو کے معزز گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ان کا خاندان عہد فرنگ میں سرداری کے منصب پر فائز تھا ۔ سردار شفیق نے مختلف شعری انجمنوں کی سرپرستی اور صدارت فرمائ ۔ انھوں نے شاگردوں کی قابل ذکر تعداد چھوڑی ہے۔ 
سردارشفیق کافی سادہ، مخلص، ملنسار طبیعت کے مالک تھے۔ شاگردں کے ساتھ ان کا مشفقانہ رویہ رہا، اشعار کی اصلاح بھی بڑے مخصوص انداز میں کرتے اور ساتھ میں شاگرد کی حوصلہ افزائی بھی کرتے۔ ان کا روز کو معمول تھا کہ عصر کی نماز کے بعد محلہ ملک ٹولہ میں محمد مرتضیٰ دانشؔ جن کا شمار بھی سردار شفیقؔ کے تلامذہ میں ہوتا ہے اور ان کی نظر میں سردار شفیق کی بڑی محبت اور عقیدت تھی، ان کے کرانہ کی دکان پر حاضری دیتے اور شام مغرب کی نماز تک اپنے شاگردوں کے ہمراہ وہاں پر بیٹھتے تھے۔ محمد مرتضی دانشؔ کے گھر جو مئو کے ادبی حلقہ میں دانشکدہ کے نام سے مشہور تھا وہاں پر ماہوار طرحی و غیر طرحی نشست کا انعقاد کیا جاتا جس کی صدارت سردار شفیق ہی کیا کرتے تھے۔ 
  سردارشفیق صنف غزل کے تہذیبی مزاج سے اچھی طرح آشنا ہیں۔ غزل ان کے تجربے کا اظہار اور دل کی واردات کی ترجمان ہے۔ ان کی غزل کا خمیر یادوں کے جلے ہوئے بسیرے سے اٹھا ہے۔ اس میں وقت کی شعلگی، واقعات کی کرب ناکی، انفرادی اور اجتماعی آپ بیتی کی دل گرفتہ کیفیت کے ساتھ سماجی بدنظمی کا عکس و آئینہ موجود ہے۔ انھوں نے اپنے فکری آہنگ سے ایسی شعری کیفیت پیدا کی ہے جس میں شاعر کو کسک محسوس ہوتا ہے۔ ان کے کلام میں لب و لہجے کی انفرادیت کے ساتھ ساتھ اس میں جمالیاتی حسن کا عنصر بھی موجود ہے۔ 
سردار شفیق کے کے تین انتخاب کلام منظر عام پر آ چکے ہیں ان میں سب سے پہلا ان کا انتخاب کلام "تازہ ہوا" ہے جو 1993 عیسوی میں فخرا لدین علی احمد میموریل کمیٹی، حکومت اترپردیش کے تعاون سے منظر عام پر آئی۔ دوسرا مجموعہ "غبار صدا" کے نام سے 2011 میں شائع ہوا۔ تیسرا انتخاب کلام "حرف حرف آئینہ" ہے۔ یہ منظومات کا مجموعہ ہے۔ 
30/ نومبر 2009 کو انھوں نے عالم فانی سے دارالبقا کی طرف رخت سفر باندھا۔

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے