- کتاب فہرست 181733
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1653
طب565 تحریکات257 ناول3437 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی9
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1333
- دوہا61
- رزمیہ92
- شرح150
- گیت87
- غزل750
- ہائیکو11
- حمد32
- مزاحیہ38
- انتخاب1387
- کہہ مکرنی7
- کلیات635
- ماہیہ16
- مجموعہ4003
- مرثیہ332
- مثنوی680
- مسدس44
- نعت425
- نظم1014
- دیگر46
- پہیلی14
- قصیدہ143
- قوالی9
- قطعہ51
- رباعی257
- مخمس18
- ریختی17
- باقیات27
- سلام28
- سہرا8
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی20
- ترجمہ80
- واسوخت24
شہناز پروین کے افسانے
روشنی چاہیے، زندگی کے لیے
وہ خواب تھا یا گمان تھا یا دونوں کے درمیان کوئی ساعت مگر اندھیرا تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا، خاص کر اس مقام پر جہاں روشنی کی ننھی سی کرن پھوٹنے کا ذرا سا بھی گمان ہوتا اندھیرا وہاں سب سے پہلے پہنچتا اور امید کی کرن کو نکل کر پھیلنے سے پہلے نگل لیتا،
ایلس ونڈرلینڈ میں
ہسپتال آنا جانا میرا معمول بن گیا تھا، میں ہر روز اپنی بیٹی عینی کی واپسی سے پہلے استقبالیہ کے سامنے انتظار گاہ میں اس کی راہ دیکھتی رہتی، اس روز ایک بہت خوب صورت کم عمر سی لڑکی میرے قریب آکر بیٹھ گئی۔ اپنی طرف متوجہ دیکھ کر اس نے بڑی دل آویز مسکراہٹ
کھلا پنجرہ
بہت دنوں کے بعد ذرا فرصت ملی تو خیال آیا بکھری ہوئی یادوں کوسمیٹ کر ایک البم کی صورت دے ڈالوں۔ بےشمار تصویریں تھیں جو الگ الگ لفافوں میں ڈال رکھی تھیں، ہر تصویر کے ساتھ یاد کا ایک لمحہ بندھا تھا، گھنٹوں گزر گئے۔ تصویروں سے کردار نکل کر سامنے آتے، کبھی
ہم دونوں تنہا
میں جہاں بھی جاتی یا کوئی ملنے والا آتا ہمیشہ اسی بات پر آکر تان ٹوٹتی،’’ اتنے بڑے گھر میں تم دونوں تنہا رہتے ہو؟‘‘میں بار بار وضاحت کرتی، ’’اس گھر میں جب ہم دونوں ہیں تو تنہا کیسے ہوئے؟ رہا تنہائی کا سوال تو بعض اوقات انسان مجمعے میں بھی تنہا رہ
پسپائی
ایک عرصے کے بعددل میں پھر ایک ہوک سی اٹھی اور وطن کی مٹی کی خوشبو نے سارے وجود کو لپیٹ میں لے لیا۔ ’’اتنے دنوں کے بعد جاکر کیا کروگی؟ اب تو وہاں کوئی بھی نہیں ہے تمھارا۔‘‘ میری دوستوں نے کہا تو میں رو پڑی۔ ’’سب کچھ تو ہے میرا وہاں، میرا شہر، اسکول،
خوشبو کی تلاش میں
وہ چپکے چپکے سب سے نظریں بچا کر ادھر ادھر دیکھتی تھی مبادا کوئی اسے دیکھ نہ لے،خاموشی سے کبھی رات کے اندھیروں میں کبھی دن کے اجالوں میں زمین کھود کر مٹی کریدتی اور اسے سونگھتی، کبھی آنکھوں کے دیے جل اٹھتے کبھی ان میں مایوسی کا درد لہریں لیتا، کبھی نا
کمبخت ظالم عورت
آج برسوں بعد ایک ٹیلیفون کال نے مجھے پھر بےقرار کر دیا تھا، صبح ہی صبح میرے چھوٹے بیٹے نے فون اٹھایا اور بےاختیار مجھ سے لپٹ کر رونے لگا، ’’امی بھیا بہت رو رہا تھا، ابو اچانک فوت ہو گئے۔۔۔‘‘ اس کی آواز رندھ گئی۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ
جستجو کیا ہے۔۔۔
وہ مجھ سے اکثر ایک عجیب سا سوال کر بیٹھتیں۔’’تم دونوں ایک ہی کمرے میں ایک ہی بستر پر سوتے ہو نا؟‘‘ ان کے بار بار کے اس بھونڈے سوال سے میں گھبرا جاتی، مجھے کبھی غصہ اور خوف آتا اور کبھی وسوسہ اور گھبراہٹ، لیکن ان کے لہجے میں اتنی اپنائیت ہوتی کہ شدید
پھر ہوا یہ۔۔۔
پھر ہوا یہ کہ اس نگری کے بہت سے باشندے ایک ایک کرکے غائب ہونے لگے، پہلے پہلے یہ ایک سانحہ سا محسوس ہوا، پھر حادثہ، پھر واقعہ اور پھر معمول، ہر روز جیسے کوئی جادو کی چھڑی گھماتا اور شہر کے بہت سے لوگ اچانک غائب ہو جاتے۔ حق نواز کے ذہن میں بچپن کی ایک
چپ کہانی
بعض ساعتیں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں، پل بھر میں بےجان چیزوں کو جاندار اور جاندار کو بےجان بنادیتی ہیں۔ دین محمد میرے پاس سے گیا تھا تو کیسا زندہ آدمی تھا اور واپس آیا تو زندہ لاش بن چکا تھا۔ ساتھ کام کرنے والے دونوں لڑکے اس کے پاس افسردہ بیٹھے تھے۔ دین
صحرا گزیدہ
لمحوں کو اپنی گرفت میں لے کر ناقابلِ فراموش بنادینا اُس کامحبوب مشغلہ تھا۔ اُسے اچھی طرح معلوم تھا کون سی تصویریں مرکزِ نگاہ بن جاتی ہیں۔ فطرت کے دلفریب مناظر، ہرے بھرے کھیت، خوش رنگ پھول، آزاد پرندوں اور ہنستے کھیلتے تندرست بچوں کی تصویروں کے خریدار
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
GET YOUR PASS
-
ادب اطفال1653
-