Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shaukat Pardesi's Photo'

شوکت پردیسی

1924 - 1995 | جون پور, انڈیا

شاعر،ادیب ،صحافی،نغمہ نگار، غلام بیگم بادشاہ اور جھانسی کی رانی جیسی فلموں کے مکالمہ نگار

شاعر،ادیب ،صحافی،نغمہ نگار، غلام بیگم بادشاہ اور جھانسی کی رانی جیسی فلموں کے مکالمہ نگار

شوکت پردیسی کے اشعار

2.3K
Favorite

باعتبار

ادھورا ہو کے ہوں کتنا مکمل

بہ مشکل زندگی بکھرا ہوا ہوں

اے انقلاب نو تری رفتار دیکھ کر

خود ہم بھی سوچتے ہیں کہ اب تک کہاں رہے

خود وہ کرتے ہیں جسے عہد وفا سے تعبیر

سچ تو یہ ہے کہ وہ دھوکا بھی مجھے یاد نہیں

نگاہ کو بھی میسر ہے دل کی گہرائی

یہ ترجمان محبت ہے بے زباں نہ کہو

اس کی ہنسی تم کیا سمجھو

وہ جو پہروں رویا ہے

شریک درد نہیں جب کوئی تو اے شوکتؔ

خود اپنی ذات کی بے چارگی غنیمت ہے

نا شناسان محبت کا گلہ کیا کہ یہاں

اجنبی وہ ہیں کہ تھی جن سے شناسائی بھی

ہوائیں روک نہ پائیں بھنور ڈبو نہ سکے

وہ ایک ناؤ جو عزم سفر کے بعد چلی

اگر تم مل بھی جاتے تو نہ ہوتا ختم افسانہ

پھر اس کے بعد دل میں کیا خبر کیا آرزو ہوتی

قریب سے اسے دیکھو تو وہ بھی تنہا ہے

جو دور سے نظر آتا ہے انجمن یارو

کیا بڑھے گا وہ تصور کی حدوں سے آگے

صبح کو دیکھ کے یاد آئے جسے شام کی بات

ہنستے ہنستے بہے ہیں آنسو بھی

روتے روتے ہنستی بھی آئی ہمیں

موج طوفاں سے نکل کر بھی سلامت نہ رہے

نذر ساحل ہوئے دریا کے شناور کتنے

دیتا رہا فریب مسلسل کوئی مگر

امکان التفات سے ہم کھیلتے رہے

شوکتؔ وہ آج آپ کو پہچان تو گئے

اپنی نگاہ میں جو کبھی آسماں رہے

حسن اخلاص ہی نہیں ورنہ

آدمی آدمی تو آج بھی ہے

اس فیصلے پہ لٹ گئی دنیائے اعتبار

ثابت ہوا گناہ گنہ گار کے بغیر

تم ہی اب وہ نہیں رہے ورنہ

وہی عالم وہی خدائی ہے

ان کی نگاہ ناز کی گردش کے ساتھ ساتھ

محسوس یہ ہوا کہ زمانہ بدل گیا

ہوش والے تو الجھتے ہی رہے

راستے طے ہوئے دیوانوں سے

کسی کی بازی کیسی گھات

وقت کا پانسہ وقت کی بات

پھونک کر سارا چمن جب وہ شریک غم ہوئے

ان کو اس عالم میں بھی غم آشنا کہنا پڑا

زندگی سے کوئی مانوس تو ہو لے پہلے

زندگی خود ہی سکھا دے گی اسے کام کی بات

برق کی شعلہ مزاجی ہے مسلم لیکن

میں نے دیکھا مرے سائے سے یہ کتراتی ہے

حدود جسم سے آگے بڑھے تو یہ دیکھا

کہ تشنگی تھی برہنہ تری اداؤں تک

وہ آنکھیں جو اب اجنبی ہو گئی ہیں

بہت دور تک ان میں پایا گیا ہوں

رات اک نادار کا گھر جل گیا تھا اور بس

لوگ تو بے وجہ سناٹے سے گھبرانے لگے

اپنے پرائے تھک گئے کہہ کر ہر کوشش بیکار رہی

وقت کی بات سمجھ میں آئی وقت ہی کے سمجھانے سے

کچھ تو فطرت سے ملی دانائی

کچھ میسر ہوئی نادانوں سے

عہد آغاز تمنا بھی مجھے یاد نہیں

محو حیرت ہوں کہ اتنا بھی مجھے یاد نہیں

جی میں آتا ہے کہ شوکتؔ کسی چنگاری کو

کر دوں پھر شعلہ بداماں کہ کوئی بات چلے

جب مصلحت وقت سے گردن کو جھکا کر

وہ بات کرے ہے تو کوئی تیر لگے ہے

یہ کیسی بے قراری سننے والوں کے دلوں میں ہے

ورق دہرا رہا ہے کیا کوئی میری کہانی کا

ہائے اس منت کش وہم و گماں کی جستجو

زندگی جس کو نہ پاے جو نہ پاے زندگی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے