شوق اثر رامپوری کے اشعار
ابھی فرق ہے آدمی آدمی میں
ابھی دور ہے آدمی آدمی سے
ماتم مرگ تمنا نہ سمجھ اے ناداں
زندگی بول رہی ہے مرے افسانے میں
وہ غم ہو یا الم ہو درد ہو یا عالم وحشت
اسے اپنا سمجھ اے زندگی جو تیرے کام آئے
شگفتہ پھول جو دیکھے تو شوقؔ یاد آیا
دیئے تھے داغ بھی گلشن نے بے شمار مجھے
بتا نصیب نشیمن میں کیا دعا مانگوں
جو آسماں کی طرف روشنی نظر آئے
آج تک دیر و حرم میں تیغ ہی چلتی رہی
لاکھ ہم رندوں نے چاہا شیشہ و ساغر چلیں
مرے خیال کی وسعت میں ہیں ہزار چمن
کہاں کہاں سے نکالے گی یہ بہار مجھے