بہار پر شاعری
بہاریوں توایک موسم ہے جواپنی خوشگوارفضا اورخوبصورتی کی بنا پرسب کیلئے پسندیدہ ہوتا ہے لیکن شاعری میں بہار محبوب کے حسن کا استعارہ بھی ہے اورزندگی میں میسرآسانی والی خوشی کی علامت بھی ۔ کلاسیکی شاعری کےعاشق پریہ موسم ایک دوسرے ہی اندازمیں وارد ہوتا ہے کہ خزاں کے بعد بہار بھی آکرگزرجاتی ہے لیکن اس کے ہجرکی میعاد پوری نہیں ہوتی ۔ احتجاجی اورانقلابی شاعری میں بہارکی استعاراتی نوعیت ایک اور رخ اختیارکر لیتی ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب ان تمام جہتوں کو محیط ہے۔
میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا
-
موضوعات : خواباور 1 مزید
مری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کا الم نہیں
جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ خزاں بہار سے کم نہیں
-
موضوعات : خزاںاور 2 مزید
بہاروں کی نظر میں پھول اور کانٹے برابر ہیں
محبت کیا کریں گے دوست دشمن دیکھنے والے
میری آنکھوں میں ہیں آنسو تیرے دامن میں بہار
گل بنا سکتا ہے تو شبنم بنا سکتا ہوں میں
-
موضوع : آنسو
افسردگی بھی حسن ہے تابندگی بھی حسن
ہم کو خزاں نے تم کو سنوارا بہار نے
-
موضوعات : حسناور 1 مزید
یہ سوچتے ہی رہے اور بہار ختم ہوئی
کہاں چمن میں نشیمن بنے کہاں نہ بنے
i kept contemplating, spring came and went away
where in the garden should I make my nest today
مجھ کو احساس رنگ و بو نہ ہوا
یوں بھی اکثر بہار آئی ہے
تیرے قربان قمرؔ منہ سر گلزار نہ کھول
صدقے اس چاند سی صورت پہ نہ ہو جائے بہار
-
موضوعات : حسناور 2 مزید
شاخوں سے برگ گل نہیں جھڑتے ہیں باغ میں
زیور اتر رہا ہے عروس بہار کا
مری بہار میں عالم خزاں کا رہتا ہے
ہوا جو وصل تو کھٹکا رہا جدائی کا
عجب بہار دکھائی لہو کے چھینٹوں نے
خزاں کا رنگ بھی رنگ بہار جیسا تھا
گلوں کا دور ہے بلبل مزے بہار میں لوٹ
خزاں مچائے گی آتے ہی اس دیار میں لوٹ
جو تھی بہار تو گاتے رہے بہار کا راگ
خزاں جو آئی تو ہم ہو گئے خزاں کی طرف
گئی بہار مگر اپنی بے خودی ہے وہی
سمجھ رہا ہوں کہ اب تک بہار باقی ہے
-
موضوع : بے خودی
میں اس گلشن کا بلبل ہوں بہار آنے نہیں پاتی
کہ صیاد آن کر میرا گلستاں مول لیتے ہیں
اس کو خزاں کے آنے کا کیا رنج کیا قلق
روتے کٹا ہو جس کو زمانہ بہار کا
آمد آمد ہے خزاں کی جانے والی ہے بہار
روتے ہیں گل زار کے در باغباں کھولے ہوئے
بہار آتے ہی ٹکرانے لگے کیوں ساغر و مینا
بتا اے پیر مے خانہ یہ مے خانوں پہ کیا گزری
کیا خبر مجھ کو خزاں کیا چیز ہے کیسی بہار
آنکھیں کھولیں آ کے میں نے خانۂ صیاد میں
ادھر بھی خاک اڑی ہے ادھر بھی خاک اڑی
جہاں جہاں سے بہاروں کے کارواں نکلے
آئیں گے وقت خزاں چھوڑ دے آئی ہے بہار
لے لے صیاد قسم رکھ دے گلستاں سر پر
خزاں رخصت ہوئی پھر آمد فصل بہاری ہے
گریباں خود بخود ہونے لگا ہے دھجیاں میرا
شگفتہ باغ سخن ہے ہمیں سے اے صابرؔ
جہاں میں مثل نسیم بہار ہم بھی ہیں
بہار چاک گریباں میں ٹھہر جاتی ہے
جنوں کی موج کوئی آستیں میں ہوتی ہے