کیفی اعظمی
غزل 21
نظم 43
اشعار 22
جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
انساں کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں
دو گز زمیں بھی چاہیئے دو گز کفن کے بعد
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کتاب 36
تصویری شاعری 16
روح بے_چین ہے اک دل کی اذیت کیا ہے دل ہی شعلہ ہے تو یہ سوز_محبت کیا ہے وہ مجھے بھول گئی اس کی شکایت کیا ہے رنج تو یہ ہے کہ رو رو کے بھلایا ہوگا وہ کہاں اور کہاں کاہش_غم، سوزش_جاں اس کی رنگین نظر اور نقوش_حرماں اس کا احساس_لطیف اور شکست_ارماں طعنہ_زن ایک زمانہ نظر آیا ہوگا جھک گئی ہوگی جواں_سال امنگوں کی جبیں مٹ گئی ہوگی للک، ڈوب گیا ہوگا یقیں چھا گیا ہوگا دھواں، گھوم گئی ہوگی زمیں اپنے پہلے ہی گھروندے کو جو ڈھایا ہوگا دل نے ایسے بھی کچھ افسانے سنائے ہوں_گے اشک آنکھوں نے پئے اور نہ بہائے ہوں_گے بند کمرے میں جو خط میرے جلائے ہوں_گے ایک اک حرف جبیں پر ابھر آیا ہوگا اس نے گھبرا کے نظر لاکھ بچائی ہوگی مٹ کے اک نقش نے سو شکل دکھائی ہوگی میز سے جب مری تصویر ہٹائی ہوگی ہر طرف مجھ کو تڑپتا ہوا پایا ہوگا بے_محل چھیڑ پہ جذبات ابل آئے ہوں_گے غم پشیمان_تبسم میں ڈھل آئے ہوں_گے نام پر میرے جب آنسو نکل آئے ہوں_گے سر نہ کاندھے سے سہیلی کے اٹھایا ہوگا زلف ضد کر کے کسی نے جو ہٹائی ہوگی روٹھے جلووں پہ خزاں اور بھی چھائی ہوگی برق عشووں نے کئی دن نہ گرائی ہوگی رنگ چہرے پہ کئی روز نہ آیا ہوگا
روز بڑھتا ہوں جہاں سے آگے پھر وہیں لوٹ کے آ جاتا ہوں بارہا توڑ چکا ہوں جن کو انہیں دیواروں سے ٹکراتا ہوں روز بستے ہیں کئی شہر نئے روز دھرتی میں سما جاتے ہیں زلزلوں میں تھی ذرا سی گرمی وہ بھی اب روز ہی آ جاتے ہیں جسم سے روح تلک ریت ہی ریت نہ کہیں دھوپ نہ سایہ نہ سراب کتنے ارمان ہیں کس صحرا میں کون رکھتا ہے مزاروں کا حساب نبض بجھتی بھی بھڑکتی بھی ہے دل کا معمول ہے گھبرانا بھی رات اندھیرے نے اندھیرے سے کہا ایک عادت ہے جئے جانا بھی قوس اک رنگ کی ہوتی ہے طلوع ایک ہی چال بھی پیمانے کی گوشے گوشے میں کھڑی ہے مسجد شکل کیا ہو گئی مے_خانے کی کوئی کہتا تھا سمندر ہوں میں اور مری جیب میں قطرہ بھی نہیں خیریت اپنی لکھا کرتا ہوں اب تو تقدیر میں خطرہ بھی نہیں اپنے ہاتھوں کو پڑھا کرتا ہوں کبھی قرآں کبھی گیتا کی طرح چند ریکھاؤں میں سیماؤں میں زندگی قید ہے سیتا کی طرح رام کب لوٹیں_گے معلوم نہیں کاش راون ہی کوئی آ جاتا
اپنی نظر میں بھی تو وہ اپنا نہیں رہا چہرے پہ آدمی کے ہے چہرہ چڑھا ہوا منظر تھا آنکھ بھی تھی تمنائے_دید بھی لیکن کسی نے دید پہ پہرہ بٹھا دیا ایسا کریں کہ سارا سمندر اچھل پڑے کب تک یوں سطح_آب پہ دیکھیں_گے بلبلہ برسوں سے اک مکان میں رہتے ہیں ساتھ ساتھ لیکن ہمارے بیچ زمانوں کا فاصلہ مجمع تھا ڈگڈگی تھی مداری بھی تھا مگر حیرت ہے پھر بھی کوئی تماشا نہیں ہوا آنکھیں بجھی بجھی سی ہیں بازو تھکے تھکے ایسے میں کوئی تیر چلانے کا فائدہ وہ بے_کسی کہ آنکھ کھلی تھی مری مگر ذوق_نظر پہ جبر نے پہرہ بٹھا دیا