join rekhta family!
غزل 53
نظم 89
اشعار 84
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
قطعہ 4
لطیفے 3
گیت 49
کتاب 48
تصویری شاعری 32
میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی تیرے خوابوں میں کہیں میرا گزر ہے کہ نہیں پوچھ کر اپنی نگاہوں سے بتا دے مجھ کو میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں چار دن کی یہ رفاقت جو رفاقت بھی نہیں عمر بھر کے لیے آزار ہوئی جاتی ہے زندگی یوں تو ہمیشہ سے پریشان سی تھی اب تو ہر سانس گراں_بار ہوئی جاتی ہے میری اجڑی ہوئی نیندوں کے شبستانوں میں تو کسی خواب کے پیکر کی طرح آئی ہے کبھی اپنی سی کبھی غیر نظر آئی ہے کبھی اخلاص کی مورت کبھی ہرجائی ہے پیار پر بس تو نہیں ہے مرا لیکن پھر بھی تو بتا دے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں تو نے خود اپنے تبسم سے جگایا ہے جنہیں ان تمناؤں کا اظہار کروں یا نہ کروں تو کسی اور کے دامن کی کلی ہے لیکن میری راتیں تری خوشبو سے بسی رہتی ہیں تو کہیں بھی ہو ترے پھول سے عارض کی قسم تیری پلکیں مری آنکھوں پہ جھکی رہتی ہیں تیرے ہاتھوں کی حرارت ترے سانسوں کی مہک تیرتی رہتی ہے احساس کی پہنائی میں ڈھونڈتی رہتی ہیں تخئیل کی بانہیں تجھ کو سرد راتوں کی سلگتی ہوئی تنہائی میں تیرا الطاف و کرم ایک حقیقت ہے مگر یہ حقیقت بھی حقیقت میں فسانہ ہی نہ ہو تیری مانوس نگاہوں کا یہ محتاط پیام دل کے خوں کرنے کا ایک اور بہانہ ہی نہ ہو کون جانے مرے امروز کا فردا کیا ہے قربتیں بڑھ کے پشیمان بھی ہو جاتی ہیں دل کے دامن سے لپٹتی ہوئی رنگیں نظریں دیکھتے دیکھتے انجان بھی ہو جاتی ہیں میری درماندہ جوانی کی تمناؤں کے مضمحل خواب کی تعبیر بتا دے مجھ کو میرا حاصل میری تقدیر بتا دے مجھ کو
نہ منہ چھپا کے جئے ہم نہ سر جھکا کے جئے ستم_گروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے اب ایک رات اگر کم جئے تو کم ہی سہی یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جئے
جہاں جہاں تری نظروں کی اوس ٹپکی ہے وہاں وہاں سے ابھی تک غبار اٹھتا ہے جہاں جہاں ترے جلووں کے پھول بکھرے تھے وہاں وہاں دل_وحشی پکار اٹھتا ہے
ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی ہوتی ہے دلبروں کی عنایت کبھی کبھی شرما کے منہ نہ پھیر نظر کے سوال پر لاتی ہے ایسے موڑ پہ قسمت کبھی کبھی کھلتے نہیں ہیں روز دریچے بہار کے آتی ہے جان_من یہ قیامت کبھی کبھی تنہا نہ کٹ سکیں_گے جوانی کے راستے پیش آئے_گی کسی کی ضرورت کبھی کبھی پھر کھو نہ جائیں ہم کہیں دنیا کی بھیڑ میں ملتی ہے پاس آنے کی مہلت کبھی کبھی
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ہر اک جسم گھائل ہر اک روح پیاسی نگاہوں میں الجھن دلوں میں اداسی یہ دنیا ہے یا عالم_بد_حواسی یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے یہاں اک کھلونا ہے انساں کی ہستی یہ بستی ہے مردہ_پرستوں کی بستی یہاں پر تو جیون سے ہے موت سستی یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے جوانی بھٹکتی ہے بد_کار بن کر جواں جسم سجتے ہیں بازار بن کر یہاں پیار ہوتا ہے بیوپار بن کر یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے یہ دنیا جہاں آدمی کچھ نہیں ہے وفا کچھ نہیں دوستی کچھ نہیں ہے جہاں پیار کی قدر ہی کچھ نہیں ہے یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے جلا دو اسے پھونک ڈالو یہ دنیا مرے سامنے سے ہٹا لو یہ دنیا تمہاری ہے تم ہی سنبھالو یہ دنیا یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
مرے جہاں میں سمن_زار ڈھونڈنے والے یہاں بہار نہیں آتشیں بگولے ہیں دھنک کے رنگ نہیں سرمئی فضاؤں میں افق سے تا_بہ_افق پھانسیوں کے جھولے ہیں پھر ایک منزل_خونبار کی طرف ہیں رواں وہ رہنما جو کئی بار راہ بھولے ہیں بلند دعویٔ_جمہوریت کے پردے میں فروغ_مجلس_و_زنداں ہیں تازیانے ہیں بنام_امن ہیں جنگ_و_جدل کے منصوبے بہ_شور_عدل تفاوت کے کارخانے ہیں دلوں پہ خوف کے پہرے لبوں پہ قفل سکوت سروں پہ گرم سلاخوں کے شامیانے ہیں مگر ہٹے ہیں کہیں جبر اور تشدد مٹے وہ فلسفے کہ جلا دے گئے دماغوں کو کوئی سپاہ_ستم پیشہ چور کر نہ سکی بشر کی جاگی ہوئی روح کے ایاغوں کو قدم قدم پہ لہو نظر دے رہی ہے حیات سپاہیوں سے الجھتے ہوئے چراغوں کو رواں ہے قافلۂ_ارتقائے_انسانی نظام_آتش_و_آہن کا دل ہلائے ہوئے بغاوتوں کے دہل بج رہے ہیں چار طرف نکل رہے ہیں جواں مشعلیں جلائے ہوئے تمام ارض_جہاں کھولتا سمندر ہے تمام کوہ_و_بیاباں ہیں تلملائے ہوئے مری صدا کو دبانا تو خیر ممکن ہے مگر حیات کی للکار کون روکے_گا فصیل_آتش_و_آہن بہت بلند سہی بدلتے وقت کی رفتار کون روکے_گا نئے خیال کی پرواز روکنے والو نئے عوام کی تلوار کون روکے_گا پناہ لیتا ہے جن مجلسوں میں تیرہ نظام وہیں سے صبح کے لشکر نکلنے والے ہیں ابھر رہے ہیں فضاؤں میں احمریں پرچم کنارے مشرق_و_مغرب کے ملنے والے ہیں ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں وہ پھول کھل کے رہیں_گے جو کھلنے والے ہیں