- کتاب فہرست 187939
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
کارگزاریاں53
ادب اطفال2065
ڈرامہ1024 تعلیم376 مضامين و خاكه1506 قصہ / داستان1701 صحت106 تاریخ3549طنز و مزاح746 صحافت215 زبان و ادب1965 خطوط811
طرز زندگی24 طب1029 تحریکات300 ناول5017 سیاسی370 مذہبیات4848 تحقیق و تنقید7293افسانہ3046 خاکے/ قلمی چہرے292 سماجی مسائل118 تصوف2270نصابی کتاب566 ترجمہ4549خواتین کی تحریریں6350-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی14
- اشاریہ5
- اشعار69
- دیوان1489
- دوہا53
- رزمیہ106
- شرح209
- گیت63
- غزل1320
- ہائیکو12
- حمد53
- مزاحیہ37
- انتخاب1651
- کہہ مکرنی7
- کلیات712
- ماہیہ20
- مجموعہ5301
- مرثیہ400
- مثنوی880
- مسدس60
- نعت597
- نظم1306
- دیگر78
- پہیلی16
- قصیدہ199
- قوالی18
- قطعہ71
- رباعی306
- مخمس16
- ریختی13
- باقیات27
- سلام35
- سہرا10
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ20
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت28
سر سید احمد خاں کا تعارف
ہندوستان میں جس شخص نے تعلیم کو نئی شکل اور اردو نثر کو نئی صورت عطا کی اس کا نام سر سید احمد خاں ہے۔ جدید تعلیم کے محرک اور جدید اردو نثر کے بانی سر سید احمد خاں نے صرف طرز تحریر ہی نہیں بلکہ ہندوستانیوں کے طرز احساس کو بھی بدلا۔ انہوں نے سائنسی، معروضی اور منطقی طرز فکر کو فروغ دیا، عقلیت کی بنیادیں مضبوط کیں۔ ان کی تحریک نے شاعروں اور نثر نگاروں کی ایک بڑی تعداد کو متأثر کیا۔ سرسید کا شمار ہندوستان کے عظیم ریفارمرس میں ہوتا ہے۔
سید احمد کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 میں دلی کے سید گھرانے میں ہوئی۔ ان کے والد سید متقی محمد شہنشاہ اکبر ثانی کے مشیر تھے۔ دادا سید ہادی عالمگیر شاہی دربار میں اونچے منصب پر فائز تھے اور نانا جان خواجہ فریدالدین شہنشاہ اکبرثانی کے دربار میں وزیر تھے۔ پورا خانوادہ مغلیہ دربار سے وابستہ تھا۔ ان کی والدہ عزیزالنساء نہایت مہذب خاتون تھیں۔ سر سید کی ابتدائی زندگی پر ان کی تربیت کا بہت گہرا اثر ہے۔ اپنے نانا خواجہ فرید الدین سے انہوں نے تعلیم حاصل کی اور پھر اپنے خالو مولوی خلیل اللہ کی صحبت میں عدالتی کام کاج سیکھا۔
سرسید کو پہلی ملازمت آگرہ کی عدالت میں بطور نائب منشی ملی اور پھر اپنی محنت سے ترقی پاتے رہے۔ مین پوری اور فتح پور سیکری میں بھی خدمات انجام دیں۔ دلی میں صدر امین ہوئے۔ اس کے بعد بجنور میں اسی عہدے پر فائز رہے۔ مراد آباد میں صدر الصدور کی حیثیت سے تعیناتی ہوئی۔ یہاں سے غازی پور اور پھر بنارس میں مامور رہے۔ ان علاقوں میں حسن خدمات کی وجہ سے بہت مقبول رہے۔ جس کا اعتراف کرتے ہوئے برطانوی حکومت نے 1888 میں ’ سر‘ کا خطاب عطا کیا۔
ان علاقوں میں قیام اور قوم کی مجموعی صورت حال نے سرسید کو بے چین کر دیا۔ بغاوت اور شورش نے بھی ان کے ذہن کو بہت متاثر کیا۔ قوم کی فلاح کے لیے وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوئے۔ اس اندھیرے میں انہیں نئی تعلیم کی روشنی ہی واحد سہارا نظر آئی جس کے ذریعہ وہ پوری قوم کو جمود سے نکال سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے یہ تہیہ کیا کہ اس قوم کے ذہن سے انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کو ختم کرنا ہوگا۔ تبھی ان پر بند کئے گئے سارے دروازے کھل سکتے ہیں ورنہ یہ پوری قوم خانساماں اور خدمت گار بن کر ہی رہ جائے گی۔ اسی جذبے اور مقصد کے تحت انہوں نے 1864 میں غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔ 1870 میں’ تہذیب الاخلاق‘ جاری کیا۔ سائنٹفک سوسائٹی کا مقصد مغربی زبانوں میں لکھی گئی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنا تھا اور’ تہذیب الاخلاق‘ کی اشاعت کامقصد عام مسلمانوں کی ذہن سازی تھا۔ 1875 میں علی گڑھ میں مدرسة العلوم پھر محمڈن اورینٹل کالج کے قیام کے پیچھے بھی یہی جذبہ اور مقصد کارفرما تھا۔ سرسید کو اپنے اس مقصد میں کامیابی ملی اور آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں سرسید کے خوابوں کا پرچم پوری دنیا میں لہرا رہا ہے۔
سرسید نے علی گڑھ تحریک کو جو شکل عطا کی تھی اس نے ہندوستانی قوم اور معاشرہ کو بہت سی سطحوں پر متاثر کیا ہے۔ اس تحریک نے اردو زبان و ادب کو نہ صرف نئی وسعتوں سے ہمکنار کیا بلکہ اسالیب بیان اور موضوعات کو تبدیل کرنے میں بھی اس کا اہم کردار رہا ہے۔ اردو نثر کو سادگی، سلاست سے آشنا کیا، ادب کو مقصدی حیثیت عطا کی، ادب کو زندگی اور اس کے مسائل سے جوڑا۔ ارودو نظم میں فطرت نگاری کو رایج کیا۔
سرسید نے اپنی نثرمیں سادگی اور معروضیت کو قائم کیا اور سرسید کے رفقا نے بھی اس طرز کو اختیار کیا۔ خواجہ الطاف حسین حالی ، علامہ شبلی، مولوی نذیر احمد، مولوی ذکاءاللہ سبھی نے تحریک علی گڑھ سے روشنی حاصل کی اور اردو زبان و ادب کو فکر و نظر کے نئے زاویے دیے۔سرسید نے بھی اپنی تصانیف میں اس کا التزام رکھا ان کی تصانیف میں آثار الصنادید، اسباب بغاوت ہند، خطبات احمدیہ، تفسیرالقرآن، تاریخ سرکشی بجنور بہت اہم ہیں۔ ’آثار الصنادید ‘دلی کی قدیم تاریخی عمارتوں کے حوالے سے ایک قیمتی دستاویز ہے تو ’اسباب بغاوت ہند‘ میں غدر کے احوال درج ہیں۔ اس کتاب کے ذریعہ انہوں نے انگریزوں کی بدگمانی دور کرنے کی کوشش کی ہے۔’خطبات احمدیہ‘ میں اس عیسائی مصنف کا جواب ہے جس نے اسلام کی شبیہ مسخ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ’ تفسیر القرآن‘ سرسید کی متنازعہ کتاب ہے جس میں انہوں نے قرآن کی عقلی تفسیر کی اور معجزات سے انکار کیا۔ سرسید کے سفرنامے اور مقالات بھی کتابی شکل میں منظر عام پر آ چکے ہیں۔
ایک عظیم تعلیمی تحریک کے بانی سرسید احمد خان کا انتقال 27 مارچ 1898 میں ہوا۔ وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی جامع مسجد کے احاطے میں مدفون ہیں۔
موضوعات
اتھارٹی کنٹرول :لائبریری آف کانگریس کنٹرول نمبر : n83184778
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here
-
کارگزاریاں53
ادب اطفال2065
-
