- کتاب فہرست 188058
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1964
طب913 تحریکات298 ناول4618 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی13
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1448
- دوہا65
- رزمیہ111
- شرح198
- گیت83
- غزل1165
- ہائیکو12
- حمد45
- مزاحیہ36
- انتخاب1580
- کہہ مکرنی6
- کلیات688
- ماہیہ19
- مجموعہ5035
- مرثیہ379
- مثنوی829
- مسدس58
- نعت550
- نظم1247
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ189
- قوالی19
- قطعہ62
- رباعی296
- مخمس17
- ریختی13
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی29
- ترجمہ73
- واسوخت26
سید سبط حسن کے مضامین
فورٹ ولیم کالج
فورٹ ولیم کالج سرزمین پاک و ہند میں مغربی طرز کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جو لارڈ ویلزلی گورنرجنرل (۱۷۹۸۔ ۱۸۰۵ء) کے حکم سے ۱۸۰۰ء میں کلکتہ میں قائم ہوا۔ کالج قائم کرنے کا فیصلہ گورنرجنرل با اجلاس نے ۱۰ جولائی ۱۸۰۰/۱۷ صفر ۱۲۱۵ھ کو کیا تھا مگر اس شرط کے
ایک عورت، ہزار افسانے
کسی پرانی قوم کے عقائد و افکار کا جائزہ لیتے وقت اس کے سماجی اور معاشرتی حالات کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ ان عقائد و افکار کے اصل محرکات ہماری سمجھ میں نہیں آسکتے۔ مگر انسان کا معاشرہ کوئی جامد اور ساکن شے نہیں ہے بلکہ اس میں وقتاً فوقتا
زندگی کی نقش گری
وقت گزرتا رہا۔ سندھ، دجلہ اور نیل کی وادیوں میں تہذیبیں ابھرتی اور مٹتی رہیں۔ ایران، چین اور یونان میں علم و دانش کے چراغ جلتے اور بجھتے رہے، رومۃ الکبریٰ کا غلغلہ بلند ہوا اور فضا میں گم ہو گیا۔ عباسیوں اور مغلوں کے پرچم بڑے جاہ و جلال سے لہرائے اور
لوح و قلم کا معجزہ
اگر تم میری ہدایتوں پرعمل کروگے توصاحب ہنرمحرر بن جاؤگے۔ وہ اہل قلم جو دیوتاؤں کے بعد پیدا ہوئے آئندہ کی باتیں بتا دیتے تھے۔ گو وہ اب موجود نہیں ہیں لیکن ان کے نام آج بھی زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انہوں نے اپنے لئے اہرام نہیں بنائے اور نہ اس
پیارے انشا جی
ابن انشا کے انتقال پر سبط حسن صاحب نے یہ مضمون لکھنا شروع کیا تھا مگر افسوس وہ اس کو مکمل نہیں کر سکے۔ یہاں یہی نامکمل مضمون پیش کیا جا رہا ہے۔ (مرتب) لندن سے واپسی کے بعد کئی بار ارادہ کیا کہ تمہیں خط لکھوں لیکن کاہلی، کچھ گرد و پیش سے بیزاری اور
تہذیب سے تمدن تک
تب انو نے پاکیزہ مقامات پر پانچ شہر بسائے اور ان کو نام دیے اور وہاں عبادت کے مرکز قائم کئے۔ ان میں پہلا شہر اریدو تھا۔ اسے پانی کے دیوتا اِن کی کے حوالے کیا گیا۔ لوح نیفر، سیلاب عظیم ہر تہذیب اپنے تمدن کی پیش رو ہوتی ہے۔ تہذیب کے لئے شہر،
انسان جو خدا بن گئے
قصص الانبیاء کا مصنف نمرود کی خدائی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ نمرود کنعان بن آدم بن سام بن نوحؑ کا بیٹا تھا اورزبان اس کی عربی تھی۔ اس نے اپنے لشکر کی مدد سے ملک شام اور ترکستان کو فتح کیا۔ بعدہ ہندوستان اور روم کو بھی قبضہ میں لایا اور مشرق
مسئلہ زبان اور قومی تقاضے
زیر نظرمضمون روزنامہ امروز کی یکم اور ۲ اکتوبر ۱۹۵۵کی اشاعتوں میں قسط وار شائع ہوا۔ (مرتب) پروفیسر میکس مولر نے ۱۸۸۹ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے دانشوروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ’’کتنے شرم کی بات ہے کہ ہمارے تعلیم کے نظام میں ابتدائی تعلیم
ماضی کے مزار
اس زمین میں ماضی کے نہ جانے کتنے مزار پوشیدہ ہیں۔ قومیں جن کا ایک فرد بھی اب صفحہ ہستی پر موجود نہیں ہے۔ زبانیں جن کا کوئی بولنے والا اب زندہ نہیں ہے۔ عقائد جن کا ایک پیرو بھی اب کہیں نظر نہیں آتا۔ پررونق شہر، عظیم معابد اور عالیشان محل جن کے نشان بھی
تہذیب کی تعریف
ہر قوم کی ایک تہذیبی شخصیت ہوتی ہے۔ اس شخصیت کے بعض پہلو دوسری تہذیبوں سے ملتے جلتے ہیں، لیکن بعض ایسی انفرادی خصوصیتیں ہوتی ہے جو ایک قوم کی تہذیب کو دوسری تہذیبوں سے الگ اور ممتاز کرتی ہیں۔ ہر قومی تہذیب اپنی انہیں انفرادی خصوصیتوں سے پہچانی جاتی
سجاد ظہیر
1973ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے روح رواں سید سجاد ظہیر کے انتقال پر سبط حسن صاحب نے زیر نظر دو مضامین سپرد قلم کئے۔ پہلا مضمون انگریزی روزنامہ ڈان کراچی میں شائع ہوا جبکہ دوسرا مضمون انہوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین، ادارہ یادگار غالب اور ینگ
join rekhta family!
-
ادب اطفال1964
-