- کتاب فہرست 181733
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1653
طب565 تحریکات257 ناول3434 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی9
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1333
- دوہا61
- رزمیہ92
- شرح149
- گیت86
- غزل750
- ہائیکو11
- حمد32
- مزاحیہ38
- انتخاب1387
- کہہ مکرنی7
- کلیات635
- ماہیہ16
- مجموعہ4001
- مرثیہ332
- مثنوی680
- مسدس44
- نعت425
- نظم1009
- دیگر46
- پہیلی14
- قصیدہ143
- قوالی9
- قطعہ51
- رباعی256
- مخمس18
- ریختی17
- باقیات27
- سلام28
- سہرا8
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی19
- ترجمہ80
- واسوخت24
ذاکر فیضی کے افسانے
ٹی۔ او۔ ڈی
وہ اسٹوری ٹیلر کے نام سے اس قدر مشہور ہو چکی تھی کہ لوگ اس کا اصل نام تک نہیں جانتے تھے۔ کبھی کبھی اس کے فن اور شخصیت پر کوئی مضمون شائع ہوتا تو اس کا اصل نام سامنے آجاتا تھا ورنہ وہ زمانے کے لئے اسٹوری ٹیلر ہی تھی۔ دنیا کے بہت سے ملکوں کے بڑے بڑے شہروں
وائرس
معصوم نے قاتل کی جانب موبائل بڑھاتے ہوئے کہا۔ ”بھیّا۔۔۔ م۔۔۔ می۔۔۔ میری۔۔۔ ماں سے کہنا۔۔۔ میں مرگیا۔“ یہ الفاظ اداکرتے ہوئے اس نے اپنے جسم کی تمام طاقت کو موبائل پکڑے ایک ہاتھ اور دونوں آنکھوں میں سمیٹ لیاتھا۔ مگر یہ جملہ پورا ہوتے ہوتے اس کی ساری طاقت
نیا حمام
تین سال کی اندھی، گونگی اور بہری بچّی کو کیسے مارا جاناہے۔ اس کا فیصلہ آج کی آخری میٹنگ میں ہونا تھا، جس کے لیے میٹنگ ہال میں موجود تمام لوگ نیوز چینل کے مالک وا یڈیٹر کے منتظر تھے۔ ایک ہفتہ قبل چینل کے ایڈیٹر کاپی۔ آر۔ او (پبلک رلیشن آفیسر) ایک
ٹوٹے گملے کا پودا
حنانے غسل خانے میں پانی سے بھری بالٹی رکھی۔ دروازہ بندکیا۔ نہانے سے پہلے حسب عادت پیرسے چپل نکاکرچند لمحے نل کو گھورا اوردوتین چپل نل پر جڑدیے۔ وہ زنگ زدہ نل جو برسوں سے بندتھا، خاموشی سے پٹتارہا۔ گذشتہ پندرہ سال سے ایسے ہی پِٹ رہاتھا۔ پندرہ سال قبل
دھورا نروان
پروفیسر صاحب پچپن سال کی عمر میں بھی بہت اسمارٹ اور خوب صورت لگ رہے تھے۔ اُن کے شاگردوں کا کہنا تھا کہ وہ بالوں کو رنگنے کے بعد چالیس سے زیادہ کے نہیں لگتے۔ انھوں نے سفید شرٹ پر لال ٹائی باندھی ہوئی تھی اور کوٹ نیلے رنگ کا تھا۔ وہ لمبے سے آئینے کے سامنے
ہریا کی حیرانیاں
مداری سڑک کے کنارے مناسب مقام دیکھ کر تماشے کی تیّاری کر رہا تھا۔ جمورا اس کی مدد میں لگا تھا۔ مداری نے ایک پوٹلی کھولی، اس میں سے کالی چادر نکال کرزمین پر بچھا دی۔ پھر وہ پوٹلی سے دوسرا سامان نکال کر جمورے کو دینے لگا۔ جمورا استاد کے بتائے مقام پر اس
میرا کمرہ
یونیورسٹی ہوسٹل کے میرے اس کمرے میں اکثر محفلیں جمتی تھیں۔ میرے چند دوست میرے کمرے میں آ جاتے تھے اور ارادی یا غیر ارادی طور پر کسی بھی موضوع پر بحث و مباحثہ کا آغاز ہو جاتا تھا۔ یونیورسٹی اپنے ڈبیٹ کلچر کے لئے مشہور تھی۔ یہاں کا ہر ایک طالب علم اپنے
فنکار
”سوریہ باراینڈریسٹورنٹ“ میں وہ تینوں ایک گول میز کے ارد گرد بیٹھے تھے۔ چوتھی کرسی خالی تھی۔ کہانی کارنے پہلوبدلا۔۔۔ ”ابھی تک نہیں آیا۔ بہت وقت لگادیا۔“ ”ہاں یار، یہ وقت کی قدرنہیں کرتا۔“ آرٹسٹ نے ایش ٹرے میں سگریٹ مسلی۔ ”یہ عام لوگ بہت سُست ہوتے
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
GET YOUR PASS
-
ادب اطفال1653
-