احمد صغیر کے افسانے
میں دامنی نہیں ہوں
شام نے اپنے چہرے پر کالک مل کراپنی سیاہی کو اور زیادہ سیاہ کر لیا، رات دھیرے دھیرے اپنا پاؤں پھیلانے لگی۔ رات جب آتی ہے تو دن بھر کا تھکا ماندا انسان اپنی تکان مٹانے کے لئے اپنے تھکے بدن کو بستر پر پھیلا کر آرام کی نیند سو جاتا ہے مگر شہر کے کچھ علاقے
ہم سفر
شام نے اپنے گیسو پھیلا دئیے تھے۔ سورج آہستہ آہستہ روپوش ہو رہا تھا اور ہر آدمی جلدی جلدی اپنے گھر پہنچنے کے لئے بس اسٹاپ کی طرف بھاگ رہا تھا۔ میں بھی اپنے دفتر سے نکل کر بس اسٹاپ پر آ گیا اور ایک بینچ پر بیٹھ کر بس کا انتظار کرنے لگا۔ مجھے جامعہ نگر
شکستگی
رات آدھی گزر چکی تھی۔ شہر کی رونق میں کمی آگئی تھی۔ گھروں اور سڑکوں کے بلب تھکے تھکے لگ رہے تھے جیسے جلتے جلتے اب اس میں جلنے کی سکت نہیں رہی تھی لیکن شالنی تھکے ہونے کے باوجود بستر پر کروٹیں بدل رہی تھی۔ کئی دنوں سے اس کی آنکھوں سے نیند ہجرت کر
پناہ گاہ
نہ جانے کہاں سے لکھمنیاکی ریگستان کی طرح خشک آنکھوں میں پانیوں کا سیلاب امڈ آیا۔ اس کا دل بھر آیا۔ اس نے اپنی چھ سالہ بیٹی سمتا کو زور سے بھینچ لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ سمتا بھی ماں کو روتا دیکھ کر بلک پڑی۔ بیٹی کو بلکتا دیکھ کر لکھمنیا نے اسے
پیاسی ہے زمیں، پیاسا آسماں
غروب ہوتے ہوئے سورج کی زر نگار شعاعیں جب گاؤں کے خلط ملط مکانوں کی منڈیروں کو چومتے ہوئے مغرب کی سمت جھکنے لگیں اور کچھ ہی لمحوں میں نظروں سے اوجھل ہو گئیں تو خلاف دستور یکایک فضا پر ایک دبیز اداس افسردہ سی کیفیت مسلط ہو گئی۔ اس وقت کا رو مانجھی گاؤں
گھر واپسی
رحمان اور سلمان کی گھر واپسی ہو گئی یعنی مسلمان سے ہندو ہو گئے۔ اب ان کا نام راما نند اور ستیندر رکھا گیا۔ ایک مذہبی تقریب میں اگنی کے سامنے دونوں کو بیٹھا کر اشلوک پڑھائے گئے۔ گنگا جل کا چھڑکاؤ کیا گیا۔ ماتھے پر تلک لگایا گیا اور پرساد کھلائے گئے۔ یہ
لہو رنگ تصویر
اندھیرے کی حکومت بڑھتی جا رہی ہے۔ چراغ ایک ایک کرکے بجھ رہے ہیں۔ میں آئندہ منظر کی دستک سے ڈرتی ہوں۔ پتہ نہیں آنے والا منظر کیسا ہو۔۔۔؟ ملک کے حالات بدلتے جا رہے ہیں۔ شائستہ کی بے چینی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جب وہ گھر سے نکلتی
سمندر جاگ رہا ہے
بھیانک رات۔۔۔! گھٹا ٹوپ اندھیرا اور اندھیرے میں ڈوبا ایک جزیرہ‘ جزیرے کے وسط میں ایک شہر لیس بوس (LES BOSE)، ویران سڑکیں اور خاموشی کا سینہ چیرتی تیز رفتار گاڑیوں کی آوازیں۔ جیسے جیسے رات بھیگتی گئی آوازیں مدھم پڑتی گئیں اور ایک وقت ایسا آیا کہ آوازیں
منڈیر پر بیٹھا پرندہ
آنکھوں میں آسمان! پیروں میں سفر! ہاتھوں میں پتھّر! وہ پرندہ کب کہاں مل جائے جس کی تلاش نے مجھے گلی کوچوں کی خاک چھاننے پر مجبور کر دیا۔ میں کتنے مزے سے اپنے گھر میں سکھ کی سانس لے رہا تھا کہ اچانک میری منڈیر پر وہ ایک پرندہ نظر آ گیا۔ پہلے تو
مسیحائی
دھیرے دھیرے ماریہ نے آنکھیں کھولیں—‘ اس نے نگاہیں اٹھا کر دیکھا — چاروں طرف گہری خاموشی اور بلا کا سناٹا چھا یا ہوا تھا۔ آسمان پر سیاہ بادل مسلط تھے۔ ماریہ نے آس پاس نظریں گھمائیں۔ وہ ایک کیچڑ سے بھرے گندے گڑھے میں پڑی تھی۔ اس کے آس پاس گندے پانی
ڈوبتا ابھرتا ساحل
موسم گرما کی سخت دھوپ میں آگ اگلتے راستوں سے کچھ پرے، سگنی داتون بیچتی رہتی۔ منہ اندھیرے وہ بستر سے اٹھ کر ہتھیلیوں سے آنکھوں کو ملتی گھر سے نکل جاتی۔ وہ چند روپیوں کے لیے سورج میں اپنے جسم و جاں کو جلاتی رہتی اور جب اُسے یقین ہو جاتا کہ اب وہاں کوئی
شدھی کرن
بوڑھے شجر پر صبح کی کرنیں جب پڑتیں، کرشنا چودھری کی آنکھوں میں ایک نئی چمک نمودار ہو جاتی۔ اسکی پلکوں پہ خوشی کے تارے جھلملانے لگتے۔ ایک خواب تھا جو برسوں سے اس کی آنکھیں دیکھتی آ رہی تھیں۔ خواب پہلے پہل دھندلا سا نظر آتا تھا لیکن جیسے جیسے اسکا بیٹا
ہوا شکار
اس لڑکی کو میں نے ایک دن کے لئے خریدا تھا۔ پورے چوبیس گھنٹے کے لئے۔ وہ بےحد حسین تھی ‘اتنی حسین کہ کوئی ایک بار دیکھ لے تو اس کے اندر اسے پانے کی خواہش جاگ اٹھے۔ جب وہ میرے سامنے آئی تو کچھ دیر کے لئے میں حیرت میں پڑ گیا۔ اتنی حسین لڑکی اور اس پیشے میں؟