Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تعفن

MORE BYاحمد صغیر

    غروب ہوتے ہوئے سورج کی زرنگار شعاعیں جب گاؤں کے خلط ملط مکانوں کی منڈیروں کو چومتے ہوئے مغرب کی سمت جھکنے لگیں اور کچھ ہی لمحوں میں نظروں سے اوجھل ہو گئیں تو خلاف دستور یکایک فضا پر ایک دبیز اداس افسردہ سی کیفیت مسلط ہو گئی۔ اس وقت کا رو مانجھی گاؤں کی اکلوتی چائے کی دکان سے اٹھا اور گھر کی طرف آہستہ آہستہ قدم بڑھانے لگا۔ پیپل کے بوڑھے موٹے لمبے لمبے ریشوں والے پیڑ سے لا تعداد چڑیوں کی چہچہاہٹ سناٹے کو مزید بھیانک کر دیا تھا۔ کارو مانجھی چلتے چلتے سوچ رہا تھا۔۔۔ ’’آج فضا میں اتنی اداسی کیوں ہے اس سے پہلے تو اتنی اداسی نہیں دیکھی‘‘

    شام کی سرمئی دھندلکے میں کارومانجھی اپنے گھر کے بند دروازے کو کھولا۔ گھر میں قدم رکھنے سے پہلے پلٹ کر باہر کی طرف دیکھا۔ باہر اسی طرح اداسی پھیلی تھی۔ وہاں کوئی موجود نہ تھا۔ پھر ہولے سے دروازہ بند کیا اور صحن میں آ گیا۔ جیب سے ماچس نکال کر جلائی اور لالٹین کو روشن کر دیا۔ لالٹین کی مدھم روشنی صحن میں اس طرح پھیل گئی جیسی بھوکے آدمی کے پیٹ میں روٹی کے چند نوالے چلے گئے ہوں۔ کارو مانجھی نے لالٹین کے لو ذرا دھیمی کر کے صحن میں ٹانگ دیا اور خود ہی بدبدایا۔۔۔

    ’’تیس روپئے لیٹر کراسن تیل بلیک میں خرید نا پڑ رہا ہے۔ دو دن میں ایک لیٹر تیل ختم ہو جاتا ہے۔ غریب آدمی کی زندگی کی طرح اسکے گھر میں بھی اندھکار ہی اندھکار گھستا جا رہا ہے۔ سولہ روپئے کیلو سبزی۔ چاول اور گیہوں کا دام بھی آسمان چھو رہا ہے۔ کس کس چیز کے لئے لڑائی لڑی جائے۔ ہر قدم پر ایک لڑائی۔ خاموش رہو تو کیڑے مکوڑے کی طرح مر جاؤ۔‘‘

    کارو مانجھی نے چٹائی بچھائی۔ مٹکے سے ایک لوٹا پانی نکالا۔ کڑھائی سے تھوڑی سبزی اور دو تین روٹیاں ایک پلیٹ میں نکال کر کھانے کے لئے بیٹھ گیا۔ وہ دن بھر میں ایک ہی بار کھانا بناتا تھا اگر دو پہر میں بنا لیا تو وہی رات میں بھی کھا لیا اور اگر رات میں پکایا تو دوپہر میں کھا لیا۔ گھر میں تھا ہی کون۔ تن تنہا کارو مانجھی۔ پتنی تھی جو دوسال قبل ایک موذی مرض میں گرفتار ہوئی اور بالآ خر موت کے منہ میں چلی گئی۔ کارو مانجھی کے پاس اتنا روپیہ نہیں تھا کہ بہتر ڈھنگ سے اس کا علاج کرا پاتا سرکاری اسپتال سے جو دوائیاں مفت میں ملتیں اُسی پر اکتفا کرنا پڑا لیکن وہ دوائیں اس کی پتنی بدھنی کے لئے نا کافی تھیں۔ کارو مانجھی کی جب شادی ہوئی تھی دوسرے سال ہی بدھنی نے ایک مریل سے بچہ کو جنم دیا تھا۔ جو ایک ہفتہ کے بعد ہی مر گیا۔ دو سال کے بعد ایک بچی کو پیدا کیا جو ایک سال کے اندر ہی مر گئی۔ پھر اسکی کوکھ نے کسی گربھ کو سویکار نہ کیا۔

    کارو مانجھی اور بدھنی محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتے رہے لیکن ایک دن کھیت مالک نے اسکی پندرہ دن کی مزدوری دینے سے انکار کر دیا تھا۔ تب کارو مانجھی کو بہت غصہ آیا تھا اور اس نے مالک کو ایک زور دار طمانچہ یوں رسید کیا تھا کہ پاس کھڑے لوگوں کے ہاتھ آپ ہی آپ گالوں کو سہلانے لگے تھے۔ لوگ دنگ رہ گئے تھے کہ یہ کیا ہو گیا لوگ انجام سے باخبر تھے اور وہی ہوا۔ اسے پولس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ لیکن پارٹی والوں نے دوڑ دھوپ کر کے اسے چھڑا لیا تھا۔ اس دن سے وہ پارٹی کا وفا دار ممبر بن گیا تھا۔

    جاڑے کی سرد رات۔ رات ہوتے ہی سردی بڑھنے لگی تھی۔ کارو مانجھی ابھی بستر پر دراز ہی ہوا تھا کہ اس نے دروازے پر دستک سنی۔ وہ چونک پڑا۔ اتنی رات گئے کون ہو سکتا ہے۔ اس نے کہا۔۔۔ 150 ’’کون ہے؟‘‘

    ’’میں ہوں ساتھی۔۔۔‘‘ کوئی نسوانی آواز کا رو مانجھی کی سماعت سے ٹکرائی۔ وہ بجلی کی تیزی سے اُٹھا اور ایک جھٹکے سے دروازہ کھول دیا۔ سامنے کا مریڈ V کھڑی تھی۔ وہ فوجی لباس میں تھی۔ ہاتھ میں بندوق۔ کمر میں گولی کی پٹی اور کندھے پر ایک تھیلہ۔ وہ بغیر کچھ کہے اندر آ گئی۔ کارو مانجھی نے جلدی سے دروازہ بند کر دیا۔۔۔

    ’’کامریڈ آپ اس وقت۔ کہاں سے آ رہی ہیں۔۔۔؟‘‘ کارو مانجھی کو توقع نہ تھی کہ کامریڈ V اس کے گھر بھی آ سکتی ہے۔ اس نے اسے ایک دو بار پارٹی کی میٹنگ میں دیکھا تھا۔ ایک بار وہ گاؤں میں بھی آئی تھی لیکن اسکے گھر پہلی بار آئی تھی۔

    ’’ساتھی کچھ کھانے کے لئے ہے تو دے دیجئے نہیں تو ایک لوٹا پانی ہی پلا دیجئے۔۔۔‘‘ کامریڈ V نے گھر کا معائنہ کیا۔

    ’’کامریڈ دو پہر کا کھانا ہے میں نے کچھ دیر قبل ہی کھایا ہے۔ چار پانچ روٹیاں اور سبزی بچی ہے۔ اگر آپ کہیں تو لائیں۔‘‘

    ’’بےجھجھک لائیے۔ کرانتی کی اس لڑائی میں جو کھانے کو مل جائے غنیمت ہے۔‘‘

    کارو مانجھی المونیم کے ایک پلیٹ میں سبزی اور روٹی پروس کر لے آیا۔ ایک لوٹا پانی بھی لا کر رکھ دیا۔ وہ کھانے میں مشغول ہو گئی۔ کارو مانجھی چٹائی پر بیٹھ گیا۔

    ’’ساتھی آپ کھاٹ پر بیٹھئے نیچے کیوں بیٹھ گئے۔‘‘

    ’’نہیں کامریڈ میں یہاں ٹھیک ہوں۔ آپ کھانا کھائیے۔‘‘

    ’’یہ ٹھیک نہیں غلط ہے۔ میں بھی چٹائی پر ہی بیٹھ جاتی ہوں۔۔۔‘‘ کامریڈ V کھاٹ سے اٹھ کر چٹائی پر بیٹھ گئی اور کھانا کھانے لگی۔

    کھانے سے فارغ ہو کر جب کامریڈ V ہاتھ دھوکر پھر سے چٹائی پر آ کر بیٹھ گئی تو کارو مانجھی نے پلیٹ اور لوٹا کو سمیٹتے ہوئے کہا۔۔۔

    ’’کامریڈ آپ تھوڑی دیر آرام کر لیں۔ میں جاگتا ہوں۔‘‘

    ’’نہیں ساتھی مجھے یہاں بس چار گھنٹے رکنا ہے۔۔۔‘‘ اس نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

    ’’ایساکیسے ہو سکتا ہے کامریڈ آپ جاگتی رہیں اور میں سو جاؤں۔ میں بھی آپ کے ساتھ جاگتا رہوں گا۔‘‘

    کچھ دیر خاموشی پھیلی رہی کارو مانجھی کا مریڈ V کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اسے اسکا وہ بھاشن یاد آ گیا جو اس نے پارٹی کی ایک میٹنگ میں دی تھی۔۔۔

    ’’ساتھیو! آپ کو پتہ ہے ہمیں کرانتی کے ذریعہ مچی تباہی کے لئے قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے اور یہ الزام لگانے والے کون ہیں۔ برژوا ورگ کے لوگ۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جب وہ کسی پر ظلم کرتے ہیں تو ان کا انصاف کہاں چلا جاتا ہے۔ آج جب مزدور، کسان اور غریب اس برژوا ورگ کے خلاف کرانتی کی مشعل روشن کر رہا ہے تو یہ آتنک ہو گیا۔ ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ شوسکوں کو کچلے بغیر کوئی کرانتی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ جب ہم مزدوروں اور محنت کش کسانوں نے کرانتی کا جھنڈا اٹھا لیا ہے تو اس بات کا پختہ ارادہ کرنا ہوگا کہ شوسکوں کے پرتی رودھ کو کچل دینا ہمارا کرتبیہ بن گیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سماج وادی کرانتی کا برژوا ورگ کے ذریعہ پرتی رودھ پورے ملک میں ہو رہا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ اس کرانتی کے بڑھنے کے ساتھ پر تی رودھ بھی بڑھتا جائےگا۔ سروہارا اس پرتی رودھ کو کچل دےگا۔ پرتی رودھ کاری برژوا ورگ کے خلاف اس سنگھرش کے دوران ہمارے کرانتی کاری ساتھیوں کے حوصلے اور بھی بلند ہوں گے اور ہم محنت کشوں، مزدوروں اور کسانوں کی سرکار بنانے کی دشا میں آگے بڑھیں گے۔‘‘

    دن چڑھے جب کارو مانجھی کی آنکھ کھلی تو وہ بےحد تھکن محسوس کر رہا تھا۔ اس کی آنکھیں جل رہی تھیں اورپاؤں یوں محسوس ہو رہے تھے گویا من من بھر کے ہو گئے ہیں۔ وہ جیسے تیسے منہ ہاتھ دھو کر چائے خانہ میں آ گیا۔ پاؤں سمیٹ کر ایک ٹوٹی ہوئی بینچ کے ایک کنارے پر بیٹھتے ہوئے ایک پیالی چائے کی فرمائش کر دی۔ وہاں گاؤں کے کئی لوگ اور بھی چائے پینے میں مصروف تھے۔ بنسی ماسٹر کا بیٹا راکیش نے اپنی موٹر سائیکل چائے خانہ کے باہر اسٹینڈ کی اور دندناتا ہوا اندر آ گیا۔ اس نے اپنے دوست موہن کو وہاں بیٹھا دیکھ کر ہی بائیک روکی تھی۔۔۔

    ’’کیا بات ہے راکیش بہت گھبرائے ہوئے ہو۔۔۔‘‘ موہن نے چائے کا گلاس اٹھاتے ہوئے پوچھا جو اسکی طرف ہی بڑھ رہا تھا۔ راکیش اسکے سامنے والی بینچ پر بیٹھ گیا۔‘‘

    ’’تم کو پتہ ہے۔ رات شہر میں کیا ہوا؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ میں تو ادھر کئی دنوں سے شہر گیا بھی نہیں ہوں۔۔۔‘‘ اس نے راکیش کے لئے بھی ایک چائے کا آرڈر دے دیا۔

    ’’کل رات نکسلیوں نے شہر پر ہلا بول دیا۔ وہ جیل توڑ کر اپنے کئی ساتھیو کو چھڑا کر لے گئے۔‘‘

    کارو مانجھی کے ساتھ ساتھ وہاں بیٹھے تمام لوگوں نے تجسس بھری نگاہوں سے راکیش کو دیکھا۔

    ’’بھئی یہ تو انرتھ ہو گیا۔ ہم کو لگتا ہے کل کو ودھان سبھا پر بھی نکسلی قبضہ کر لیں گے۔۔۔‘‘ بنواری چاچا نے تشویش ظاہر کی۔

    ’’اب تو کچھ بھی ہو سکتا ہے چاچا۔ نکسلیوں کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔۔۔‘‘ راکیش نے بھی چنتا جتائی۔

    ’’لیکن سرکار ان پر لگام کیوں نہیں کستی۔ پنجاب اور کشمیر سے آتنک واد جب ختم ہو سکتا ہے تو بہار سے کیوں نہیں۔۔۔‘‘ موتی لال بھی بولنے سے نہیں چکے۔

    ’’یہاں بہت مشکل ہے چاچا۔ کیوں کہ دن میں کھیت مزدوری کرنے والا رات میں فوجی لباس پہن کر نکسلی بن جاتا ہے۔ پولس اسکی پہچان کیسے کرےگی۔ معاف کیجئےگا‘‘ ممکن ہے یہاں پر جتنے لوگ بیٹھے ہیں ان میں سے ہی کوئی نکسلی ہو ہم، آپ۔۔۔ یہ۔۔۔ وہ۔۔۔ آپ ہی بتائیے کیا اس کی کوئی پہچان ہے۔۔۔‘‘ موہن نے سب کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا۔

    ’’یہ بات تو ٹھیک ہے پھر بھی سرکار کو کوئی نہ کوئی اچت قدم اٹھانا چاہئے۔۔۔‘‘ راکیش بنواری چاچا کی طرف دیکھ کر بولا۔

    ’’دیکھئے اب سرکار کون سا قدم اٹھاتی ہے۔ بنواری چاچا بولے۔

    ’’اب اس راجیہ کا بھگوان ہی مالک ہے۔۔۔‘‘ موتی لال اٹھتے ہوئے بولا۔ اس کے ساتھ کارو مانجھی بھی کھڑا ہو گیا۔ راکیش مزید جانکاری گاؤں والوں کو دیتا رہا۔

    چائے خانہ سے نکل کر کارو مانجھی گھر کی طرف بڑھا تو اسکے ذہن میں شہر کا وہ واقعہ نقش ہو گیا تھا۔ وہ اپنے تصور میں پورا واقعہ لمحہ لمحہ بن رہا تھا۔

    وقت بوند بوند کر گزرتا ہے۔ آفتاب کہیں ڈوب گیا ہے۔ دھندلکا پھیل رہا ہے۔ آس پاس کی چیزیں رفتہ رفتہ آنکھوں سے اوجھل ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ کارو مانجھی کا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس کا ذہن بار بار کامریڈ V کی طرف چلا جاتا ہے۔ آج ایسی عورتیں کتنی ہیں جو کرانتی کی مشعل لے کر آگے آگے چلیں۔ کسی مہم کی کمانڈنگ کریں اور غریبوں، کسانوں کے حق کے لئے لڑیں‘‘ 150150 پارٹی کے تئیں اس کا حوصلہ اور بلند ہو گیا۔

    ابھی سورج نمودار بھی نہیں ہوا تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ کارو مانجھی اٹھا اور دروازہ کھول دیا۔ سامنے پولس کھڑی تھی۔ کارو مانجھی کو دیکھتے ہی پولس نے بندوق تان دی اور دوسرے پولس والوں نے لپک کر اسے اپنی گرفت میں لے لیا اور ہتھکڑی پہنا دی۔

    ’’بھئی مجھے گرفتار کیوں کر رہے ہو۔ میرا قصور کیا ہے‘‘

    ’’تھانے چل سالے سب پتہ چل جائےگا۔‘‘ انسپکٹر نے چلا کر کہا۔

    گاؤں والے حیران تھے کہ کارو مانجھی کو پولس کیوں لے گئی، لیکن گاؤں میں موجود پارٹی کے ممبروں نے کارو مانجھی کی گرفتاری کی خبر پارٹی کے عہدیداروں تک پہنچا دی تھی۔

    تھانے لا کر پولس نے کارو مانجھی کو بےتحاشہ مارنا شروع کیا۔

    ’’بتا شہر میں جو نکسلی حملہ ہوا تھا اس میں کون کون لوگ تھے اسکو کمان کون کر رہا تھا‘‘

    لیکن کارو مانجھی کو خود پتہ نہ تھا کہ شہر پر جو حملہ ہوا تھا اس میں کون کون لوگ تھے۔ وہ بار بار انکار کر تا رہا اور پولس پیٹتی رہی۔

    جب پولس مارکر تھک گئی تو انسپکٹر نے کہا۔۔۔

    ’’کل اسے عدالت میں حاضر کرو اور جیل بھیج دو۔‘‘

    کارو مانجھی درد کی ٹیس کے باوجود مسکرا یا اور بولا۔۔۔

    ’’کون سا جیل انسپکٹر، پھر کوئی جیل بریک آپریشن ہوگا اور مجھ جیسے بے قصور رہا کر ا لئے جائیں گے تو آپ کیا کیجئےگا۔‘‘

    انسپکٹر نے غصے میں بڑھ کر اسے ایک لات ماری اور باہر نکل گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے