آشفتہ نوائی سے اپنی دنیا کو جگاتا جاتا ہوں
دیوانہ ہوں دیوانوں کو میں ہوش میں لاتا جاتا ہوں
امید کی شمعیں رہ رہ کر میں دل میں جلاتا جاتا ہوں
جب جل چکتی ہیں یہ شمعیں پھر سب کو بجھاتا جاتا ہوں
تم دیکھ رہے ہو میخانے میں جرأت رندانہ میری
میں خود بھی پیتا جاتا ہوں تم کو بھی پلاتا جاتا ہوں
تکمیل محبت کرتا ہوں کچھ گرمی سے کچھ نرمی سے
آہیں بھی بھرتا جاتا ہوں آنسو بھی بہاتا جاتا ہوں
بے کار سہی نالے میرے بے سود سہی آہیں میری
میں ان کی نگاہوں میں لیکن پھر بھی تو سماتا جاتا ہوں
ہاں ساز شکستہ میں میرے نغموں کا تلاطم پنہاں ہے
شوریدہ نوائی سے اپنی محفل پر چھاتا جاتا ہوں
میں سعیٔ مسلسل کر کے بھی منزل سے کوسوں دور رہا
منزل نہ ملی تو کیا ہے مگر اپنے کو پاتا جاتا ہوں
امید وفا کے پیش نظر میں ان کی جفائیں بھول گیا
ہے مستقبل پر آنکھ مری ماضی کو بھلاتا جاتا ہوں
قدرت بھی مہیا کرتی ہے اب میرے لیے عبرت کے سبق
ہر گام پہ ٹھوکر کھاتا ہوں اور ہوش میں آتا جاتا ہوں
نجمیؔ یہ خموشی بھی میری کچھ وجہ سکون دل نہ ہوئی
میں ضبط فغاں سے درد کو اپنے اور بڑھاتا جاتا ہوں
مأخذ:
Joye Kahkashan (Pg. 146)
-
مصنف:
امجد نجمی
-
- اشاعت: 1969
- ناشر: اڑیسہ ساہتیہ اکادمی، بھونیشور
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.